سوشل میڈیا کی نگرانی
ترقی یافتہ ممالک میں اس وقت سوشل میڈیا کی درجن بھر سے زائد ایپس استعمال ہو رہی ہیں۔
جدید دور میں مختلف تبدیلیوں کے ساتھ ذرایع ابلاغ بھی تبدیلیوں کا سفر طے کرتے ہوئے سوشل میڈیا اور ڈجیٹل میڈیا تک پہنچ گیا ہے ۔ انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا بھرکے اخبارات تک رسائی میں اتنی آسانیاں پیدا ہوئی ہیں کہ گھر بیٹھے چندگھنٹوں کے دوران آپ پوری دنیا کی بدلتی ہوئی سیاسی و سماجی صورت حال سے واقفیت حاصل کرسکتے ہیں۔
پچھلے چند برسوں کے دوران ہمارے ملک میں سوشل میڈیا تک رسائی حاصل کرنے والے نوجوانوں میں جس سرعت کے ساتھ اضافہ ہوا ہے، اس کا موازنہ ہم کسی بھی دوسرے ملک سے کرسکتے ہیں لیکن اس سے پیدا ہونے والے خدشات کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت نے اس کی نگرانی کا فیصلہ کیا ہے۔
اعدادوشمار جمع کرنے والے مختلف ادارے دنیا کے مختلف ممالک میں سوشل میڈیا تک رسائی حاصل کرنے والوں کی تعداد اپنے اپنے اندازے سے بتاتے ہیں، لیکن ایک عالمی ادارے کی اعدادوشمار کے مطابق اس سال کے ساتویں مہینے تک ہمارے ملک میں گوگل کے ذریعے اپنے آپ کو مختلف دلچسپیوں میں مصروف رکھنے والوں کی تعداد 0.12% انسٹا گرام سے تعلق رکھنے والوں کی 0.38%ٹویٹر استعمال کرنے والوں کی 2.67% یو ٹیوب دیکھنے والوں کی 5.02%اور فیس بک استعمال کرنے والوں کی تعداد ناقابل یقین حد تک سب سے زیادہ یعنی 90.05%تھی ۔
ترقی یافتہ ممالک میں اس وقت سوشل میڈیا کی درجن بھر سے زائد ایپس استعمال ہو رہی ہیں لیکن ترقی پذیر ممالک کے افراد جن میں ہم بھی شامل ہیں زیادہ تر یہی تین چار ایپس استعمال کر رہے ہیں جن کے اعداد و شمار اوپر درج کیے گئے ہیں۔
بیان کی گئی ایپس کے علاوہ دوسری ایپس اس لیے بھی زیادہ استعمال نہیں ہوتیں کہ وہ یو ٹیوب،گوگل یا فیس بک کی طرح اتنی سادہ نہیں کہ کم پڑھے لکھے نوجوان انھیں استعمال کرسکیں یا ان میں دلچسپی لے سکیں لیکن اس آسانی کا ایک خطرناک نتیجہ بھی نکلا ہے کہ ہر دوسرے نوجوان نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی شد بد نہ ہونے کے باوجود یو ٹیوب اور فیس بک پر اپنا اکائونٹ کھول رکھا ہے اور وہ جب چاہے ہر اس شخص کی پگڑی اچھال سکتا ہے جس سے اس کے ذاتی ، سیاسی ، سماجی یا مذہبی اختلافات ہوں ۔ فیس بک کے بہت سارے اکائونٹ ہولڈر تو ایک سے زائد اور جعلی اکائونٹس بنا کر مختلف افراد اور نجی اداروں کو پریشان کرنے، جعلی مصنوعات بیچنے، بغیر تصدیق کیے سنسنی خیز خبروں اور قابل اعتراض تصاویرکو شیئر کرنے ، خواتین کو بلیک میل کرنے، قابل احترام مذہبی رہنمائوں کی توہین پر مبنی مواد پھیلانے اورگھٹیا تحریروں کو دوسروں تک پہنچانے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے لیکن ایسے نوجوانوں کی بھی معقول تعداد موجود ہے، جو سوشل میڈیا کو منفی سرگرمیوں کے بجائے اپنی تعلیمی استعداد بڑھانے، مختلف زبانیں سیکھنے، نایاب کتابوں کے مسودے(P D F) حاصل کرنے، تاریخ اور جغرافیہ کی گہرائیوں تک پہنچنے، ذرایع ابلاغ کے بڑے اداروں تک رسائی حاصل کرنے اور دنیا بھر کے بدلتے ہوئے ارضی و موسمی تجزیے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
طبقاتی نظام تعلیم اور غربت کی وجہ سے ہمارا تعلیمی نظام تباہی کے جس دہانے تک پہنچ چکا ہے، اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ ہم سب پڑھے لکھوں میں شمار ہوتے ہیں مگر حقیقت سے اس کا دورکا بھی تعلق نہیں ہے۔ جو شخص اپنا نام لکھ سکے یا کسی دستاویزکو پڑھے بغیر اس پر دستخط کردے ہمارے ہاں تو اسے بھی پڑھا لکھا تصورکیا جانے لگا ہے اور ملک کے مختلف تعلیمی ادارے مستقبل کے معماروں کو تعلیم کے نام پر جو سرٹیفکیٹ بانٹ رہے ہیں، ان کی اصلیت بھی کئی سرکاری اداروں کی بڑی بڑی کرسیوں پر بیٹھے منظور نظر افسران کی کارکر دگی اور علمیت کو بے نقاب کر چکی ہے، اگرسوشل میڈیا کا جائزہ لیا جائے تو یہاں بھی ایسے ہی پڑھے لکھے افرادکی بہتات نظر آئے گی۔
ملک میں نئی حکومت کو آئے ابھی چند ہی دن ہوئے مگر اس دوران اور اس سے قبل اس کے پلیٹ فارم سے مستقبل کے کئی منصوبوں اور تبدیلیوں کا اعلان کیا گیا ۔ ان منصوبوں کے ساتھ سوشل میڈیا کی نگرانی کے لیے ایسے سافٹ ویئرکی منظوری بھی دی گئی ہے جو سوشل میڈیا پر اہم اداروں اور شخصیات کے خلاف مہم چلانے والوں کی نشان دہی کرے گا اور جن نا پسندیدہ سرگرمیوں کی نشان دہی ہوگی ان میں شامل افراد کے خلاف ایف آئی اے بھرپورکارروائی کرسکے گی۔
دوسال قبل آزادی اظہار کے سلسلے میں چھپنے والی ایک رپورٹ میں اس بات کا دعویٰ کیا گیا تھا کہ بھارت ، بنگلہ دیش،سری لنکا، ویت نام ، انڈونیشیا ، مالدیپ ، برما، ملائیشیا اور پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی مسلسل پابندیوں کا شکار ہو رہی ہے ۔ اس رپورٹ کے بعد برما کے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف تشدد کی جو کارروائیاں ہوئیں انھیں چھپانے اور اپنی مرضی کی خبریں چلانے کے لیے وہاں کی حکومت نے بھر پورکردار ادا کیا، اس کے باوجود سوشل میڈیا ہی وہ واحد ذریعہ تھا جو بنگلہ دیش میں پناہ لینے والے ہزاروں پناہ گزینوں کی مشکلات سے ہمیں آگاہ کرتا رہا۔
مقبوضہ کشمیر میں پچھلے طویل عرصے سے انسانی حقوق کی جو خلاف ورزیاں جاری ہیں وہ نہ تو بھارتی میڈیا اور نہ ہی کسی بین الاقوامی نشریاتی ادارے کی مدد سے ہم تک پہنچتی ہیں بلکہ ان میں سے زیادہ تر واقعات کی اطلاع ہمیں سوشل میڈیا کے ذریعے ہی ملتی ہے ۔ شام ، افغانستان اور یمن کے مخدوش سیاسی وسماجی حالات ہوں یا فلسطینیوںکی جدو جہد کو دبانے کی مذموم کوشش ہو سوشل میڈیا ہی ہمیں ان خبروں سے آگاہی دیتا ہے جن کو افشاکر نے سے پہلے میڈیا کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے ۔
پچھلے کچھ دنوں سے آزادی اظہار رائے کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا تھاجو سوشل میڈیا کی نگرانی کے بعد مزید تنگ ہو سکتا ہے، اگر حکومت سوشل میڈیاکے ذریعے ملکی اداروں اور شخصیات پرکی جانے والی غیر مہذب ، جھوٹی اور شر انگیز مہم چلانے والے افراد کے خلاف کوئی کارروائی کرتی ہے تو شاید اس پر کسی کو بھی کوئی اعتراض نہ ہو مگر ایسی خبریں جو جھوٹ کا پردہ چاک کرتی ہوں اگر ذرایع ابلاغ میں جگہ نہ پائیں تو اس کے لیے سوشل میڈیا کے علاوہ کون سے متبادل ذریعہ استعمال کیا جا سکتا ہے؟
یاد رہے کہ جمہوریت میں حکومت کی خرابیوں پر تنقید کرنے والوں کی پکڑ دھکڑکے بجائے ان خرابیوں کو دورکرنے کی کوشش کی جاتی ہے جن کی جمہوری انداز میں کی نشان دہی کی جائے ۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کچھ افراد آزادی اظہارکا ناجائزفائدہ اٹھاتے ہوئے سوشل میڈیا استعمال کرتے وقت اپنے معاشرے اور رسم و رواج کے بنائے ہوئے اصولوں کی خلاف ورزی کے مرتکب بھی ہوتے ہیں لیکن ایسے چند افراد کا بہانہ بنا کر اگر ان سیاست دانوں، دانشوروں ، سماجی کارکنوں اور لکھاریوں کے خلاف کارروائیوںکا منصوبہ بنایا جا رہا ہے جن کے خیالات اور جائز تنقید سے حکومت کو اختلاف رہتا ہے تو یہ بات نہ صرف جمہوریت بلکہ حکومت کے لیے بھی نا قابل تلافی نقصان ہوسکتی ہے۔
پچھلے چند برسوں کے دوران ہمارے ملک میں سوشل میڈیا تک رسائی حاصل کرنے والے نوجوانوں میں جس سرعت کے ساتھ اضافہ ہوا ہے، اس کا موازنہ ہم کسی بھی دوسرے ملک سے کرسکتے ہیں لیکن اس سے پیدا ہونے والے خدشات کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت نے اس کی نگرانی کا فیصلہ کیا ہے۔
اعدادوشمار جمع کرنے والے مختلف ادارے دنیا کے مختلف ممالک میں سوشل میڈیا تک رسائی حاصل کرنے والوں کی تعداد اپنے اپنے اندازے سے بتاتے ہیں، لیکن ایک عالمی ادارے کی اعدادوشمار کے مطابق اس سال کے ساتویں مہینے تک ہمارے ملک میں گوگل کے ذریعے اپنے آپ کو مختلف دلچسپیوں میں مصروف رکھنے والوں کی تعداد 0.12% انسٹا گرام سے تعلق رکھنے والوں کی 0.38%ٹویٹر استعمال کرنے والوں کی 2.67% یو ٹیوب دیکھنے والوں کی 5.02%اور فیس بک استعمال کرنے والوں کی تعداد ناقابل یقین حد تک سب سے زیادہ یعنی 90.05%تھی ۔
ترقی یافتہ ممالک میں اس وقت سوشل میڈیا کی درجن بھر سے زائد ایپس استعمال ہو رہی ہیں لیکن ترقی پذیر ممالک کے افراد جن میں ہم بھی شامل ہیں زیادہ تر یہی تین چار ایپس استعمال کر رہے ہیں جن کے اعداد و شمار اوپر درج کیے گئے ہیں۔
بیان کی گئی ایپس کے علاوہ دوسری ایپس اس لیے بھی زیادہ استعمال نہیں ہوتیں کہ وہ یو ٹیوب،گوگل یا فیس بک کی طرح اتنی سادہ نہیں کہ کم پڑھے لکھے نوجوان انھیں استعمال کرسکیں یا ان میں دلچسپی لے سکیں لیکن اس آسانی کا ایک خطرناک نتیجہ بھی نکلا ہے کہ ہر دوسرے نوجوان نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی شد بد نہ ہونے کے باوجود یو ٹیوب اور فیس بک پر اپنا اکائونٹ کھول رکھا ہے اور وہ جب چاہے ہر اس شخص کی پگڑی اچھال سکتا ہے جس سے اس کے ذاتی ، سیاسی ، سماجی یا مذہبی اختلافات ہوں ۔ فیس بک کے بہت سارے اکائونٹ ہولڈر تو ایک سے زائد اور جعلی اکائونٹس بنا کر مختلف افراد اور نجی اداروں کو پریشان کرنے، جعلی مصنوعات بیچنے، بغیر تصدیق کیے سنسنی خیز خبروں اور قابل اعتراض تصاویرکو شیئر کرنے ، خواتین کو بلیک میل کرنے، قابل احترام مذہبی رہنمائوں کی توہین پر مبنی مواد پھیلانے اورگھٹیا تحریروں کو دوسروں تک پہنچانے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے لیکن ایسے نوجوانوں کی بھی معقول تعداد موجود ہے، جو سوشل میڈیا کو منفی سرگرمیوں کے بجائے اپنی تعلیمی استعداد بڑھانے، مختلف زبانیں سیکھنے، نایاب کتابوں کے مسودے(P D F) حاصل کرنے، تاریخ اور جغرافیہ کی گہرائیوں تک پہنچنے، ذرایع ابلاغ کے بڑے اداروں تک رسائی حاصل کرنے اور دنیا بھر کے بدلتے ہوئے ارضی و موسمی تجزیے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
طبقاتی نظام تعلیم اور غربت کی وجہ سے ہمارا تعلیمی نظام تباہی کے جس دہانے تک پہنچ چکا ہے، اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ ہم سب پڑھے لکھوں میں شمار ہوتے ہیں مگر حقیقت سے اس کا دورکا بھی تعلق نہیں ہے۔ جو شخص اپنا نام لکھ سکے یا کسی دستاویزکو پڑھے بغیر اس پر دستخط کردے ہمارے ہاں تو اسے بھی پڑھا لکھا تصورکیا جانے لگا ہے اور ملک کے مختلف تعلیمی ادارے مستقبل کے معماروں کو تعلیم کے نام پر جو سرٹیفکیٹ بانٹ رہے ہیں، ان کی اصلیت بھی کئی سرکاری اداروں کی بڑی بڑی کرسیوں پر بیٹھے منظور نظر افسران کی کارکر دگی اور علمیت کو بے نقاب کر چکی ہے، اگرسوشل میڈیا کا جائزہ لیا جائے تو یہاں بھی ایسے ہی پڑھے لکھے افرادکی بہتات نظر آئے گی۔
ملک میں نئی حکومت کو آئے ابھی چند ہی دن ہوئے مگر اس دوران اور اس سے قبل اس کے پلیٹ فارم سے مستقبل کے کئی منصوبوں اور تبدیلیوں کا اعلان کیا گیا ۔ ان منصوبوں کے ساتھ سوشل میڈیا کی نگرانی کے لیے ایسے سافٹ ویئرکی منظوری بھی دی گئی ہے جو سوشل میڈیا پر اہم اداروں اور شخصیات کے خلاف مہم چلانے والوں کی نشان دہی کرے گا اور جن نا پسندیدہ سرگرمیوں کی نشان دہی ہوگی ان میں شامل افراد کے خلاف ایف آئی اے بھرپورکارروائی کرسکے گی۔
دوسال قبل آزادی اظہار کے سلسلے میں چھپنے والی ایک رپورٹ میں اس بات کا دعویٰ کیا گیا تھا کہ بھارت ، بنگلہ دیش،سری لنکا، ویت نام ، انڈونیشیا ، مالدیپ ، برما، ملائیشیا اور پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی مسلسل پابندیوں کا شکار ہو رہی ہے ۔ اس رپورٹ کے بعد برما کے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف تشدد کی جو کارروائیاں ہوئیں انھیں چھپانے اور اپنی مرضی کی خبریں چلانے کے لیے وہاں کی حکومت نے بھر پورکردار ادا کیا، اس کے باوجود سوشل میڈیا ہی وہ واحد ذریعہ تھا جو بنگلہ دیش میں پناہ لینے والے ہزاروں پناہ گزینوں کی مشکلات سے ہمیں آگاہ کرتا رہا۔
مقبوضہ کشمیر میں پچھلے طویل عرصے سے انسانی حقوق کی جو خلاف ورزیاں جاری ہیں وہ نہ تو بھارتی میڈیا اور نہ ہی کسی بین الاقوامی نشریاتی ادارے کی مدد سے ہم تک پہنچتی ہیں بلکہ ان میں سے زیادہ تر واقعات کی اطلاع ہمیں سوشل میڈیا کے ذریعے ہی ملتی ہے ۔ شام ، افغانستان اور یمن کے مخدوش سیاسی وسماجی حالات ہوں یا فلسطینیوںکی جدو جہد کو دبانے کی مذموم کوشش ہو سوشل میڈیا ہی ہمیں ان خبروں سے آگاہی دیتا ہے جن کو افشاکر نے سے پہلے میڈیا کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے ۔
پچھلے کچھ دنوں سے آزادی اظہار رائے کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا تھاجو سوشل میڈیا کی نگرانی کے بعد مزید تنگ ہو سکتا ہے، اگر حکومت سوشل میڈیاکے ذریعے ملکی اداروں اور شخصیات پرکی جانے والی غیر مہذب ، جھوٹی اور شر انگیز مہم چلانے والے افراد کے خلاف کوئی کارروائی کرتی ہے تو شاید اس پر کسی کو بھی کوئی اعتراض نہ ہو مگر ایسی خبریں جو جھوٹ کا پردہ چاک کرتی ہوں اگر ذرایع ابلاغ میں جگہ نہ پائیں تو اس کے لیے سوشل میڈیا کے علاوہ کون سے متبادل ذریعہ استعمال کیا جا سکتا ہے؟
یاد رہے کہ جمہوریت میں حکومت کی خرابیوں پر تنقید کرنے والوں کی پکڑ دھکڑکے بجائے ان خرابیوں کو دورکرنے کی کوشش کی جاتی ہے جن کی جمہوری انداز میں کی نشان دہی کی جائے ۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کچھ افراد آزادی اظہارکا ناجائزفائدہ اٹھاتے ہوئے سوشل میڈیا استعمال کرتے وقت اپنے معاشرے اور رسم و رواج کے بنائے ہوئے اصولوں کی خلاف ورزی کے مرتکب بھی ہوتے ہیں لیکن ایسے چند افراد کا بہانہ بنا کر اگر ان سیاست دانوں، دانشوروں ، سماجی کارکنوں اور لکھاریوں کے خلاف کارروائیوںکا منصوبہ بنایا جا رہا ہے جن کے خیالات اور جائز تنقید سے حکومت کو اختلاف رہتا ہے تو یہ بات نہ صرف جمہوریت بلکہ حکومت کے لیے بھی نا قابل تلافی نقصان ہوسکتی ہے۔