صدارتی انتخاب اور اپوزیشن
اپوزیشن جب کسی معاملے میں متحد اور متفق ہونے لگتی تھی وہ اُسے فوراً ہی اپنے کسی عمل سے سبوتاژکر دیتی تھی۔
WASHINGTON:
قومی سطح پر ہونے والے حالیہ انتخابات کے نتیجے میںبننے والی حکومت کے بارے میں عام طور پر یہ تصورکیا جاتا ہے کہ پارلیمنٹ میں عددی اعتبار سے یہ ایک کمزور وفاقی حکومت ہے جب کہ اُس کے خلاف معرض وجود میں آنے والی اپوزیشن ایک بڑی اورمضبوط اپوزیشن ہے، مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ اِس اپوزیشن نے ابھی تک اپنی اِس حیثیت کا کوئی خاطر خواہ فائدہ حاصل نہیں کیا۔
معاملہ وزیراعظم کے انتخاب کا ہو یا صوبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ کا یا پھر 4 ستمبرکو ہونے والے صدارتی انتخاب کا۔ تینوں موقعوں پر ہماری یہ اپوزیشن کسی بھی متفقہ فیصلے پر پہنچنے میں غیر متفق اور منتشر دکھائی دی ۔اپوزیشن کے اِس رویے کا فائدہ حکومت کو پہنچ رہا ہے۔ حزب اختلاف کی اِس نا اتفاقی اور چپقلش میں دیکھا جائے تو اصل کردار پاکستان پیپلز پارٹی کا ہی رہا ہے۔
پیپلز پارٹی سابقہ دور میں جس طرح پاناما کیس کے ایشو پر بظاہر تحریک انصاف کے ساتھ کھڑی تھی لیکن وہ اِس تحریک کاکریڈٹ خانصاحب کو دینے پر رضا مند بھی نہ تھی اِسی طرح اب بھی وہ اِس نئی اپوزیشن کی سپہ سالاری صرف اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی ہے ۔اِس مقصد کے لیے پہلے ایک طے شدہ فارمولے کے تحت وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے وہ شہباز شریف کی نامزدگی سے منحرف ہوگئی اور ووٹنگ والے دن وہ مکمل طور پر غائب رہی ۔
یہی طرز عمل اُس نے صوبہ پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے موقعے پر بھی اپنائے رکھا لیکن اب جب صدارتی انتخاب کا مرحلہ قریب آیاتو وہ اچانک اپنی ساری بے رخیاں اور بے اعتنائیاںفراموش کرکے صدر مملکت کے عہدے کے لیے اپنی جانب سے یکطرفہ نامزد اُمیدوار اعتزاز احسن کے حق میں مدد مانگنے کے لیے مسلم لیگ (ن) کے پاس پہنچ گئی ۔ اُسے کوئی عار محسوس نہیں ہوئی کہ ابھی چند ہی روز پہلے وہ شہباز شریف اور حمزہ شریف کے معاملے میں ایک طے شدہ فارمولے پر عمل کرنے سے انکارکر چکی ہے تو بھلا کس منہ سے اب مسلم لیگ نون سے حمایت کی اُمید لگائے بیٹھی ہے۔
اِسے پیپلز پارٹی کی مکاری یا چالاکی کہیے یا پھر سیاسی سوجھ بوجھ پر مشتمل حکمت عملی قرار دیجیے کہ وہ کسی بھی فیصلے پر پہنچنے میں اپنا مفاد سب سے زیادہ مقدم رکھتی ہے۔''صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں'' کی مصداق وہ اپوزیشن کا حصہ بنے رہتے ہوئے بھی کھلم کھلا اپوزیشن کرنے سے کتراتی دکھائی دیتی ہے۔ بلکہ وہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے بھی حکومت وقت کی درون پردہ مدد کرتے دکھائی دیتی ہے۔یہی حال اُس کا سابقہ مسلم لیگی دور میں بھی رہا ہے۔
اپوزیشن جب کسی معاملے میں متحد اور متفق ہونے لگتی تھی وہ اُسے فوراً ہی اپنے کسی عمل سے سبوتاژکر دیتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اُسے سابقہ دور میں فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ بھی دیاجاتا رہا مگر اُس نے اپنا طرز عمل نہیں بدلا ۔ یہی رویہ اُس نے اب بھی اپنائے رکھا ہے اور بظاہر مضبوط نظر آنے والی اپوزیشن کو انتہائی کمزور بنا کے رکھ دیا ہے ۔ وہ اپوزیشن کی ساری پارٹیوں کوکسی متفقہ فیصلے پر پہنچنے ہی نہیں دیتی اور پہلے سے رخنہ اندازی کر کے ساری گیم کو پلٹ کر رکھ دیتی ، ابھی بھی اُس نے ایسا ہی کیا۔
صدارتی انتخاب کے لیے کسی متفقہ اُمیدوارکا نام لانے کی بجائے یکطرفہ طور پر پہلے سے اپنا ایک اُمیدوار سامنے لے آئی اور اتفاق اور اتحاد کے نام پر ساری جماعتوں کو اُس پر رضا مند ہونے کا مطالبہ کرنے لگی ۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ساری اپوزیشن جماعتیں مل بیٹھ کر کوئی ایک نام اِس عہدے کے لیے تجویزکرتی اور پھر متفقہ طور پر ایک واحد اُمیدوارکے طور پر اُس کا اعلان کرتی، مگر پیپلز پارٹی نے خود اپنے طور پر ایک متنازع شخص کو نامزد کرکے لگتا ہے جان بوجھ کر سارا کھیل بگاڑا ہے ۔ وہ اگر اپنے فیصلے میں سنجیدہ اور مخلص ہوتی تو شاید اعتزاز احسن کی بجائے اپنی ہی پارٹی میں سے کسی دوسرے غیر متنازعہ اور سب کے لیے قابل قبول شخص کو نامزد کرتی۔
مثال کے طور پر رضاربانی پیپلز پارٹی میں ایک ایسے منفرد اُمیدوار ہوسکتے تھے جنھیں شاید حزب اختلاف کی ساری جماعتوں کی تائید وحمایت حاصل ہوسکتی تھی، مگر سینیٹ چیئرمین کے انتخاب کی مانند اِس بار بھی پیپلز پارٹی نے اس مستحسن فیصلے سے ارادتاً اجتناب کیا ۔ رضاربانی صاحب کی جمہوریت پسندی اوردستور پاکستان پر ثابت قدمی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔
پیپلز پارٹی کو اپنے اِس شخص پر فخر اور نازکرنا چاہیے، مگر نجانے کیوں وہ ایسے قابل، باضمیر اور با اُصول شخص کواب اعلیٰ سطح کی ذمے داریاں سونپنے سے مسلسل انکاری ہے۔ ممکن ہے رضا ربانی کی جمہوریت پسندی ، خود داری اور باضمیری پارٹی کے منافقانہ اورمصلحت کوش فیصلوں کے لیے خطرناک اور ضرر رساں تصورکی جاتی ہوورنہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ جس شخص کوسیاستدانوں کی موجودہ کھیپ میں سب سے زیادہ لائق، معتبر اور قابل قبول تصورکیا جاتا ہو پارٹی اُسے آگے لانے سے یوں کترا رہی ہو۔
پیپلزپارٹی کے موجود ہ رویہ اور طرز عمل کودیکھتے ہوئے کہ اب یہ بات وثوق سے کی جاسکتی ہے کہ صدارتی الیکشن بھی حکمراں جماعت باآسانی جیت جائے گی۔ حالانکہ اپوزیشن اگر متحد و متفق رہتی توکوئی وجہ نہ تھی کہ وہ اپنا نامزد کردہ اُمیدوارکو صدر مملکت بنانے میں کامیاب ہو جاتی ۔ عددی اعتبار سے مسلم لیگ (ن) کو ساری اپوزیشن جماعتوں پر برتری حاصل ہے لیکن وہ اتفاقِ رائے کو اہمیت دیتے ہوئے اپنے فیصلے دوسروں پر مسلط کرنے سے مسلسل اجتناب کرتی دکھائی دے رہی ہے جب کہ پیپلز پارٹی کا رویہ اِس کے بالکل برعکس ہے۔
وہ مسلم لیگ کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں مسلسل سرگرداں اور مشغول ہے۔اُس کی قیادت اپنے دعوؤں کو درست اور سچا ثابت کرنے کی خاطر ہر وہ قدم اُٹھالینے پر مصر دکھائی دیتی ہے جو مسلم لیگی قیادت کو خجالت اور شرمندگی سے دوچارکردے۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری اپنی تقریروں میں کہہ چکے ہیں کہ ہم تمہیں سینیٹ کی چیئرمین شپ نہیں لینے دیں گے اور انھوں نے ایسا کردکھایا ۔ اِسی طرح انھوں نے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے بارے میں بھی ایسا ہی بلند و بانگ دعویٰ بھی کر ڈالا تھا اور پھر اُسے ثابت بھی کردکھایا۔
2018ء کے انتخابات کی نتیجے میںمسلم لیگ (ن) پنجاب میں واحد اکثریتی پارٹی ہونے کے باوجود وہاں اپنا وزیراعلیٰ منتخب نہیں کرواسکی تو اِس میں جہانگیر ترین کی کوششوں کے علاوہ پیپلز پارٹی کی پی ایم ایل (ن) سے دیرینہ دشمنی کا بھی بہت بڑا کردار رہا ہے ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کے نزدیک صوبہ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کا قائم ہوجاناکوئی اتنا غیر پسندیدہ نہیں تھا جتنا شہباز شریف کی وہاں دوبارہ حکومت کا برسر اقتدار آجانا۔ وہاں چاہے تحریک انصاف حکومت بنائے یا پھر شہباز شریف دونوں صورتوں میں پیپلز پارٹی کے ہاتھ کچھ نہیں آنا تھا۔ لہذا اول الذکرکوکامیابی سے دوچارکرکے شہباز شریف کوحزیمت سے دوچارکرنا زیادہ ضروری سمجھا گیا۔
سیاست اِسی طرح کی چالاکیوں کا نام ہے، جو شخص اِس کھیل میں صحیح موقعے پر صحیح ضرب لگا گیا وہی دانا اور ذہین مانا گیا ۔ آصف زرداری ابھی تک اپنی حکمت عملیوں میں بڑے کارگر ثابت رہے ہیں ۔آگے آگے دیکھیے وہ خود کو اور اپنے ساتھیوں کو ایف آئی اے اور نیب کے احتسابی شکنجے سے کیسے بچا پاتے ہیں۔
قومی سطح پر ہونے والے حالیہ انتخابات کے نتیجے میںبننے والی حکومت کے بارے میں عام طور پر یہ تصورکیا جاتا ہے کہ پارلیمنٹ میں عددی اعتبار سے یہ ایک کمزور وفاقی حکومت ہے جب کہ اُس کے خلاف معرض وجود میں آنے والی اپوزیشن ایک بڑی اورمضبوط اپوزیشن ہے، مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ اِس اپوزیشن نے ابھی تک اپنی اِس حیثیت کا کوئی خاطر خواہ فائدہ حاصل نہیں کیا۔
معاملہ وزیراعظم کے انتخاب کا ہو یا صوبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ کا یا پھر 4 ستمبرکو ہونے والے صدارتی انتخاب کا۔ تینوں موقعوں پر ہماری یہ اپوزیشن کسی بھی متفقہ فیصلے پر پہنچنے میں غیر متفق اور منتشر دکھائی دی ۔اپوزیشن کے اِس رویے کا فائدہ حکومت کو پہنچ رہا ہے۔ حزب اختلاف کی اِس نا اتفاقی اور چپقلش میں دیکھا جائے تو اصل کردار پاکستان پیپلز پارٹی کا ہی رہا ہے۔
پیپلز پارٹی سابقہ دور میں جس طرح پاناما کیس کے ایشو پر بظاہر تحریک انصاف کے ساتھ کھڑی تھی لیکن وہ اِس تحریک کاکریڈٹ خانصاحب کو دینے پر رضا مند بھی نہ تھی اِسی طرح اب بھی وہ اِس نئی اپوزیشن کی سپہ سالاری صرف اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتی ہے ۔اِس مقصد کے لیے پہلے ایک طے شدہ فارمولے کے تحت وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے وہ شہباز شریف کی نامزدگی سے منحرف ہوگئی اور ووٹنگ والے دن وہ مکمل طور پر غائب رہی ۔
یہی طرز عمل اُس نے صوبہ پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے موقعے پر بھی اپنائے رکھا لیکن اب جب صدارتی انتخاب کا مرحلہ قریب آیاتو وہ اچانک اپنی ساری بے رخیاں اور بے اعتنائیاںفراموش کرکے صدر مملکت کے عہدے کے لیے اپنی جانب سے یکطرفہ نامزد اُمیدوار اعتزاز احسن کے حق میں مدد مانگنے کے لیے مسلم لیگ (ن) کے پاس پہنچ گئی ۔ اُسے کوئی عار محسوس نہیں ہوئی کہ ابھی چند ہی روز پہلے وہ شہباز شریف اور حمزہ شریف کے معاملے میں ایک طے شدہ فارمولے پر عمل کرنے سے انکارکر چکی ہے تو بھلا کس منہ سے اب مسلم لیگ نون سے حمایت کی اُمید لگائے بیٹھی ہے۔
اِسے پیپلز پارٹی کی مکاری یا چالاکی کہیے یا پھر سیاسی سوجھ بوجھ پر مشتمل حکمت عملی قرار دیجیے کہ وہ کسی بھی فیصلے پر پہنچنے میں اپنا مفاد سب سے زیادہ مقدم رکھتی ہے۔''صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں'' کی مصداق وہ اپوزیشن کا حصہ بنے رہتے ہوئے بھی کھلم کھلا اپوزیشن کرنے سے کتراتی دکھائی دیتی ہے۔ بلکہ وہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے بھی حکومت وقت کی درون پردہ مدد کرتے دکھائی دیتی ہے۔یہی حال اُس کا سابقہ مسلم لیگی دور میں بھی رہا ہے۔
اپوزیشن جب کسی معاملے میں متحد اور متفق ہونے لگتی تھی وہ اُسے فوراً ہی اپنے کسی عمل سے سبوتاژکر دیتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اُسے سابقہ دور میں فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ بھی دیاجاتا رہا مگر اُس نے اپنا طرز عمل نہیں بدلا ۔ یہی رویہ اُس نے اب بھی اپنائے رکھا ہے اور بظاہر مضبوط نظر آنے والی اپوزیشن کو انتہائی کمزور بنا کے رکھ دیا ہے ۔ وہ اپوزیشن کی ساری پارٹیوں کوکسی متفقہ فیصلے پر پہنچنے ہی نہیں دیتی اور پہلے سے رخنہ اندازی کر کے ساری گیم کو پلٹ کر رکھ دیتی ، ابھی بھی اُس نے ایسا ہی کیا۔
صدارتی انتخاب کے لیے کسی متفقہ اُمیدوارکا نام لانے کی بجائے یکطرفہ طور پر پہلے سے اپنا ایک اُمیدوار سامنے لے آئی اور اتفاق اور اتحاد کے نام پر ساری جماعتوں کو اُس پر رضا مند ہونے کا مطالبہ کرنے لگی ۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ساری اپوزیشن جماعتیں مل بیٹھ کر کوئی ایک نام اِس عہدے کے لیے تجویزکرتی اور پھر متفقہ طور پر ایک واحد اُمیدوارکے طور پر اُس کا اعلان کرتی، مگر پیپلز پارٹی نے خود اپنے طور پر ایک متنازع شخص کو نامزد کرکے لگتا ہے جان بوجھ کر سارا کھیل بگاڑا ہے ۔ وہ اگر اپنے فیصلے میں سنجیدہ اور مخلص ہوتی تو شاید اعتزاز احسن کی بجائے اپنی ہی پارٹی میں سے کسی دوسرے غیر متنازعہ اور سب کے لیے قابل قبول شخص کو نامزد کرتی۔
مثال کے طور پر رضاربانی پیپلز پارٹی میں ایک ایسے منفرد اُمیدوار ہوسکتے تھے جنھیں شاید حزب اختلاف کی ساری جماعتوں کی تائید وحمایت حاصل ہوسکتی تھی، مگر سینیٹ چیئرمین کے انتخاب کی مانند اِس بار بھی پیپلز پارٹی نے اس مستحسن فیصلے سے ارادتاً اجتناب کیا ۔ رضاربانی صاحب کی جمہوریت پسندی اوردستور پاکستان پر ثابت قدمی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔
پیپلز پارٹی کو اپنے اِس شخص پر فخر اور نازکرنا چاہیے، مگر نجانے کیوں وہ ایسے قابل، باضمیر اور با اُصول شخص کواب اعلیٰ سطح کی ذمے داریاں سونپنے سے مسلسل انکاری ہے۔ ممکن ہے رضا ربانی کی جمہوریت پسندی ، خود داری اور باضمیری پارٹی کے منافقانہ اورمصلحت کوش فیصلوں کے لیے خطرناک اور ضرر رساں تصورکی جاتی ہوورنہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ جس شخص کوسیاستدانوں کی موجودہ کھیپ میں سب سے زیادہ لائق، معتبر اور قابل قبول تصورکیا جاتا ہو پارٹی اُسے آگے لانے سے یوں کترا رہی ہو۔
پیپلزپارٹی کے موجود ہ رویہ اور طرز عمل کودیکھتے ہوئے کہ اب یہ بات وثوق سے کی جاسکتی ہے کہ صدارتی الیکشن بھی حکمراں جماعت باآسانی جیت جائے گی۔ حالانکہ اپوزیشن اگر متحد و متفق رہتی توکوئی وجہ نہ تھی کہ وہ اپنا نامزد کردہ اُمیدوارکو صدر مملکت بنانے میں کامیاب ہو جاتی ۔ عددی اعتبار سے مسلم لیگ (ن) کو ساری اپوزیشن جماعتوں پر برتری حاصل ہے لیکن وہ اتفاقِ رائے کو اہمیت دیتے ہوئے اپنے فیصلے دوسروں پر مسلط کرنے سے مسلسل اجتناب کرتی دکھائی دے رہی ہے جب کہ پیپلز پارٹی کا رویہ اِس کے بالکل برعکس ہے۔
وہ مسلم لیگ کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں مسلسل سرگرداں اور مشغول ہے۔اُس کی قیادت اپنے دعوؤں کو درست اور سچا ثابت کرنے کی خاطر ہر وہ قدم اُٹھالینے پر مصر دکھائی دیتی ہے جو مسلم لیگی قیادت کو خجالت اور شرمندگی سے دوچارکردے۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری اپنی تقریروں میں کہہ چکے ہیں کہ ہم تمہیں سینیٹ کی چیئرمین شپ نہیں لینے دیں گے اور انھوں نے ایسا کردکھایا ۔ اِسی طرح انھوں نے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے بارے میں بھی ایسا ہی بلند و بانگ دعویٰ بھی کر ڈالا تھا اور پھر اُسے ثابت بھی کردکھایا۔
2018ء کے انتخابات کی نتیجے میںمسلم لیگ (ن) پنجاب میں واحد اکثریتی پارٹی ہونے کے باوجود وہاں اپنا وزیراعلیٰ منتخب نہیں کرواسکی تو اِس میں جہانگیر ترین کی کوششوں کے علاوہ پیپلز پارٹی کی پی ایم ایل (ن) سے دیرینہ دشمنی کا بھی بہت بڑا کردار رہا ہے ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کے نزدیک صوبہ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت کا قائم ہوجاناکوئی اتنا غیر پسندیدہ نہیں تھا جتنا شہباز شریف کی وہاں دوبارہ حکومت کا برسر اقتدار آجانا۔ وہاں چاہے تحریک انصاف حکومت بنائے یا پھر شہباز شریف دونوں صورتوں میں پیپلز پارٹی کے ہاتھ کچھ نہیں آنا تھا۔ لہذا اول الذکرکوکامیابی سے دوچارکرکے شہباز شریف کوحزیمت سے دوچارکرنا زیادہ ضروری سمجھا گیا۔
سیاست اِسی طرح کی چالاکیوں کا نام ہے، جو شخص اِس کھیل میں صحیح موقعے پر صحیح ضرب لگا گیا وہی دانا اور ذہین مانا گیا ۔ آصف زرداری ابھی تک اپنی حکمت عملیوں میں بڑے کارگر ثابت رہے ہیں ۔آگے آگے دیکھیے وہ خود کو اور اپنے ساتھیوں کو ایف آئی اے اور نیب کے احتسابی شکنجے سے کیسے بچا پاتے ہیں۔