پاکستانی معیشت اور ’’گیم تھیوری‘‘
اس تھیوری کو سمجھنے کے لیے ایک سادہ سی مثال سے مدد لیتے ہیں کہ فرض کریں بدقسمتی سے آج آپ کا دفترمیں بہت مصروف دن ہے۔
''گیم تھیوری ''امریکی معیشت دانوں جان سی ہر سنائی،جان نیش اور رین ہارڈ سیلٹن نے پیش کی، انھیں اس تھیوری پر 1994ء میں نوبل پرائز سے بھی نواز ا گیا۔
گیم تھیوری کے مطابق ''ایسی صورتحال سے نمٹنا یا نمٹنے کے لیے حکمت عملی ترتیب دینا جس میں مختلف لوگ اپنے فائدے کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کریں ، اور فیصلے ایسا ہو جو اس کے لیے بہترین ہو، خواہ اس سے کسی دوسرے کو نقصان ہی کیوں نہ پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ یا یوں کہیں ایسا فیصلہ جوکسی بھی صورتحال میں کم سے کم نقصان اور زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچائے قطع نظر اِس سے کہ دوسرے لوگ کیا قدم اٹھاتے ہیں۔''
اس تھیوری کو سمجھنے کے لیے ایک سادہ سی مثال سے مدد لیتے ہیں کہ فرض کریں بدقسمتی سے آج آ پ کا دفتر میں بہت مصروف دن ہے، فائلوں کا ڈھیر لگا ہے، کچھ بور قسم کی میٹنگز میں بھی شرکت کرنی ہے،آپ کا اسٹاف بھی کچھ کچھ دیر بعد آکر آپ سے اہم معاملات میں ہدایات لے رہا ہے، ان حالات میں اگر کوئی بن بلایا ملاقاتی آ جائے جسے آپ ملنے سے انکار نہ کر سکیں اور اُس ملاقاتی نے کم ازکم ایک گھنٹہ آپ کی جان نہ چھوڑنی ہو تو آ پ کیا کریں گے ؟
ایک طریقہ تو یہ ہے کہ آپ آج کے مصروف دن میں اسے ایک گھنٹہ دیں اور نتیجے میں اپنا تمام شیڈول درہم برہم کرلیں، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں اور اسے کہیں کہ آج ملاقات نہیں کی جا سکتی، اس کا نتیجہ یقیناً اچھا نہیں نکلے گا اور موصوف ہمیشہ کے لیے آپ سے ناراض ہو جائیں گے، تیسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ فوراً چائے منگوانے کے بجائے پوچھیں کہ سر آپ چائے پئیں گے ،اگر بندہ معقول ہوا تو انکار کرکے جلد جان چھوڑ دے گا مگراِس معقولیت کا امکان کم اور نا معقولیت کا زیادہ ہے، چوتھا طریقہ یہ ہے کہ آپ کہیں سر آپ سے تو گپ لگانے کا بہت مزا آنا تھا مگر آج میری گیارہ بجے میٹنگ ہے اور میرا اسٹاف ایسا نالائق ہے کہ سب کام مجھے خود کرنا پڑتا ہے، غالب امکان ہے کہ اس بیان کے نتیجے میں آپ کی جان چھوٹ جائے گی۔یعنی آخری طریقہ میں عزت بھی بچ گئی ، دوستی بھی نہ چھوٹی اور بن بلائے مہمان سے جان بھی چھوٹ گئی۔
اب آتے ہیں پاکستان کی معیشت کی طرف جو پچھلی حکومتوں کی کارستانیوں کی وجہ سے زبوں حالی کا شکار نظر آرہی ہے۔اور حالت ایسے گھر کے مانند بن چکی ہے جہاں کمانے والا بے روزگار ہے اور گھر قرضے لے لے کر چل رہا ہے، اب حالات یہ ہیں کہ قرض دینے والا آپ کی آزادی سلب کرچکا ہے اور آپ پر حکم چلا رہا ہے کہ گھر اُسکی مرضی کے مطابق چلائوورنہ نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہو جائو۔ جب کہ آپ کو چاہتے اور نہ چاہتے ہوئے بھی ایسا کرنا پڑ رہا ہے۔
اب ایسی حالت میں پاکستان کیا کرے جب امریکا جیسا ملک امداد دے کر ''ڈومور'' کا مطالبہ کرتا ہے، ہمارا وزیر اعظم منتخب ہوتا ہے تو امریکی صدر یا نائب صدر فون پر مبارکباد دینے کے بجائے اُن کا وزیر خارجہ فون کرکے مبارکباد دیتا ہے جب کہ ہمارے نو منتخب وزیر اعظم کو چاہتے نہ چاہتے وزیر خارجہ سے مبارکباد وصول کرنا پڑتی ہے اور ڈومور کا مطالبہ بھی سننا پڑتا ہے۔ سعودی عرب چھپ چھپا کر ہماری مدد کرتا ہے تو اُس کے بھی اپنے مفادات ہیں، وہ یمن کے خلاف جنگ میں پاکستان کا ساتھ چاہتا ہے، جب کہ پاکستان کو چاہتے نہ چاہتے ہوئے یمن پر سعودی بمباری کو ''سراہنا'' پڑتا ہے۔
چین جب پاکستان کو قرض دینے کی بات کر تا ہے تو وہ براہ راست خود نہیں قرض فراہم کرتا بلکہ اپنے بینکوں کے ذریعے پاکستان کو خاص شرائط پر قرض دے کر پاکستان میں کسی ایک پراجیکٹ پر ہاتھ صاف کر لیتا ہے۔ پیچھے رہ گیا ایران تو ایران پہلے ہی امریکی پابندیوں کی زد میں ہے، اور پاکستان پر پابندی ہے کہ وہ ایران سے کسی قسم کے تجارتی تعلقات بڑھا نہیں سکتا۔ بھارت اور افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے معاشی تعلقات بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔
اس وقت پاکستانی معیشت کی جو صورتحال ہو گئی ہے، اس پر قابو پانے کے لیے یقیناً کسی ایسی ''کاری گری'' کی ضرورت ہے جس سے دھاگہ تلواروں کے ساتھ لڑ سکے ۔ اب تووزیر خزانہ اسد عمر بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ ہمیں عوام نے اس لیے ووٹ نہیں دیے کہ ہم انھیں یہ بتائیں کہ خزانے خالی پڑے ہوئے ہیں۔
ہم 1988ء سے اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرام کے تحت آئی ایم ایف کے شکنجے میں ہیں۔ امریکا اپنے بدلے ہوئے رویّے کے تناظر میں نیو گریٹ گیم کے تحت پاکستان کے گرد شکنجہ مضبوط کرتا نظرآرہا ہے۔ پاکستان آئی ایم ایف سے بھاری قرضہ لینے جا رہا ہے، تو آئی ایم ایف کی شرائط دیکھنا نہایت ضروری ہے۔ اب یا تو وہی 1988ء والا طریقہ استعمال ہوگا کہ بجلی، گیس، پیٹرول کو مہنگا کردیا جائے، روپے کی قدر گرا دیں، ترقیاتی اخراجات کم کرکے اور شرح سود میں اضافہ کرکے عوام پر بوجھ ڈالا جائے گا، یا جو اصل طریقہ ہے اُن کی سخت شرائط پوری کرنے کا کہ ٹیکس کی چوری روکیں، طاقتور طبقات سے ٹیکس لیں۔
اب واپس ہم گیم تھیوری کی طرف آتے ہیں جس میں تمام کامن سینس کی باتیں ہیں، کوئی راکٹ سائنس نہیں، لیکن اگر ان باتو ں کو باقاعدہ حکمت عملی کا روپ دے کر ایک تھیوری کی شکل میں ڈھالا جائے تو اسے Induction Reverseکہیں گے۔ اِس طریقہ کار میں آپ کسی بھی صورتحال کے نتیجے میں ممکنہ نتائج کا پہلے سے احاطہ کرتے ہیں اور پھر عقلی بنیاد پر ہر نتیجے کی ''بیک ورڈ ''پڑتال کرتے ہیں کہ بہترین نتیجہ کس حکمت عملی کے تحت نکلے گا۔ یعنی ایک ان چاہے ملاقاتی سے جان چھڑانے کے چار ممکنہ طریقے تھے، آپ نے چاروں کا ممکنہ نتیجہ دماغ میں سوچا اور پھر اُن میں سے ایک پر عمل کیا جس میں ناکامی کا احتما ل سب سے کم تھا۔ یہی گیم تھیوری ہے۔اور اسد عمر ، عمران خان اور اُن کی ٹیم کو بھی اسی انداز میں سوچنے کی ضرورت ہے۔