اعتزاز احسن صدارت کے شایان شان مگر
اعتزازاحسن صدارت کے امیدوار ہیں اور شخصی طور پر ہر لحاظ سے اپنے مقابل امیدواروں سے بہتر ہیں۔
یہ 16اکتوبر1970 ء کا دن ہے ۔18 اکتوبر سی ایس ایس اکیڈیمی جوائن کرنے کی آخری تاریخ ہے، مگر نوجوان وکیل سخت تذبذب کا شکار ہے اورکوئی فیصلہ نہیں کر پا رہا۔ امتحان میں اس نے پاکستان بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے، نوجوان اپنے ایک مہربان استاد سے مشورہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے ۔
عزیز الدین صاحب پنجاب یونیورسٹی میں انگریزی کے پروفیسر ہیں۔ نوجوان یونیورسٹی پہنچتا ہے۔ نوجوان اپنی مشکل استاد کے سامنے رکھتا ہے۔ پروفیسر صاحب کہتے ہیں،اس پر بھی بات کریں گے، لیکن آو پہلے کچھ چہل قدمی کرتے ہیں۔ نوجوان اور پروفیسر چلتے چلتے انار کلی بازار کی طرف آ نکلتے ہیں۔ نکڑ پر دس بارہ سال کا ایک کم سن لڑکا کھڑا ہے۔ اس کے کندھے پر ہینگر میں گرم کوٹ ٹنگے ہیں۔ وہ ان کو بیچنے کے لیے صدا لگا رہا ہے ۔
پروفیسر صاحب چلتے چلتے رک جاتے ہیں اوراس کم سن لڑکے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، دیکھو، آج یہ لڑکا ہی تمھیں اس الجھن سے نکال سکتا ہے۔' سر ، وہ کیسے ' وہ اس طرح کہ فرض کرو، آج تم اس لڑکے سے کوٹ خریدتے ہو اور اسے پہن کر سیٹی بجاتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہو تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تمھیں سول سروس جوائن کر لینی چاہیے۔لیکن اگر تم اس لڑکے سے یہ کوٹ خرید کر اسی کو پہنا دیتے ہو تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تم سول سروس کے لیے موزوں نہیں۔
نوجوان پروفیسر صاحب کی بات کا کوئی جواب نہیں دے پاتا، لیکن گھر واپس آ کے بارش میں بھیگتے اس لڑکے کے بارے میں مسلسل سوچتا رہتا ہے۔ صبح طلوع ہوتی ہے ، وہ فیصلے پر پہنچ چکا ہوتا ہے کہ وہ سول سروس جوائن نہیں کرے گا۔ اس نوجوان کو پاکستان کے لوگ آج اعتزاز احسن کے نام سے جانتی ہے جو حالیہ صدارتی الیکشن میں تحریک انصاف کے عارف علوی اور ن لیگ اور جے یو آئی کے فضل الرحمن کے مقابلہ میں پیپلز پارٹی کے امیدوار ہیں۔
ٰاعتزازاحسن نے اکیڈیمی جوائن نہیں کی اور والد اور داداکی تقلید میں سیاست میں آ گئے۔ 1988ء، 1990ء، 1997ء، 2002 ء میں لاہو ر سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ وزیر داخلہ اور وزیر قانون، سینیٹ میں قائدایوان اور قائد حزب اختلاف رہ چکے ہیں۔ سپریم کورٹ بار کے صدر رہے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ وثقافت پر ان کی کتابThe Indus Saga and the Making of Pakistan علمی حلقوں سے بے پناہ داد وصول کر چکی ہے،گویا مصنف اور محقق کے طور پر بھی اپنے تئیں منوا چکے ہیں۔ اعتزازاحسن کی سیاسی زندگی کا مگر سب سے اہم دور، جس میں ان کی مقبولیت اپنے بام عروج پر پہنچی، 2007ء کی عدلیہ بحالی تحریک ہے۔
جنرل پرویز مشرف، چیف جسٹس آف پاکستان کو معزول کرکے ان کے خلاف ریفرنس دائر کر دیتے ہیں۔ معزول چیف جسٹس اور وکلا ریفرنس کو چیلنج کر نے اور حکومت کے خلاف قانونی جنگ لڑنے کا اعلان کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ عدالت میں یہ قانونی جنگ کون لڑے گا۔سب کی نظریں اعتزازاحسن کی طرف اٹھتی ہیں۔ اعتزازاحسن یہ مقدمہ اس طرح لڑتے ہیں کہ چیف جسٹس کو ان کے عہدے پر بحال کرا کے دم لیتے ہیں۔3 نومبر2007ء کو جنرل پرویز مشرف دوبارہ چیف جسٹس کو معزول کر دیتے ہیں۔
اعتزازاحسن پھر میدان میں اترتے ہیں۔ اس اثنا میں 2008 ء کے الیکشن آ جاتے ہیں۔ نوازشریف پیش کش کرتے ہیں کہ لاہور میں وہ جس نشست پر بھی الیکشن لڑیں گے، ان کے خلاف امیدوار کھڑا نہیں کیا جائے گا۔ اعتزاز احسن یہ پیش کش مسترد کر دیتے ہیں اور عدلیہ بحالی تحریک سے اظہار یکجہتی کے لیے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیتے ہیں۔ پیپلز پارٹی برسراقتدار آ جاتی ہے، لیکن وہ اپنے موقف سے سر مو انحراف نہیں کرتے اور عدلیہ بحالی کے لیے جدوجہد جاری رکھتے ہیں۔16 مارچ 2009 ء کو لانگ مارچ اسلام آباد کی طرف رواں دواں ہے۔
گوجرانوالہ کے قریب آرمی چیف جنرل کیانی اعتزازاحسن کو براہ راست فون کرتے ہیں اور چیف جسٹس کی بحالی کی نوید سناتے ہیں۔ اعتزازاحسن کی آزمایش مگر ابھی ختم نہیں ہوئی، کیونکہ ان کا اعلان ہے بطور وکیل وہ اس بنچ کے سامنے پیش نہیں ہوں گے، جس کی سربراہی افتخار چوہدری کر رہے ہوں گے۔اپنے ان موکلوں کی کروڑوں کی فیسیں واپس کر دیتے ہیں، جن کے مقدمات کی سماعت افتخار چوہدری کر رہے ہیں۔اس دوران میں توہین عدالت کے صرف ایک مقدمے میں پیش ہوتے ہیں، اور وہ بھی اس شرط پر کہ فیس نہیں لیں گے۔
پاناما لیکس پر عمران خان کے ساتھ اول اول اعتزاز احسن نے ہی پاکستان میں عوامی آگاہی کی مہم چلائی۔ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر نوازشریف حکومت کو ایکسپوز کیا،حالانکہ اس وقت تک پیپلزپارٹی کی قیادت اس پر قطعاً یکسو نہیں تھی۔ یوں پاناما لیکس پر ان کی آگاہی مہم کا تمام تر فائدہ عمران خان کو پہنچا۔گاہے یوں محسوس ہوتا تھا کہ اعتزازاحسن پیپلزپارٹی میں تحریک انصاف کی آواز بن چکے ہیں۔ رضا ربانی، یوسف رضا گیلانی اور خورشید شاہ کئی باران سے سخت نالاں پائے گئے، لیکن اعتزازاحسن نے پاناما لیکس پر اپنی لے نہیں بدلی اور عمران خان کی آواز کے ساتھ آواز ملائے رکھی۔ پاناما لیکس آخر کار ن لیگ حکومت کو لے ڈوبیں اور اب زمام کار عمران خان کے ہاتھ میں ہے۔
اعتزازاحسن صدارت کے امیدوار ہیں اور شخصی طور پر ہر لحاظ سے اپنے مقابل امیدواروں سے بہتر ہیں۔ صدارت کے شایان شان بھی ہیں۔ مگر پیپلزپارٹی کی عددی حیثیت ایسی نہیں کہ وہ صدر منتخب ہو سکیں۔ دوسری طرف عمران خان اور اعتزاز احسن زمان پارک فیلو ہیں،ایک دوسرے کے مداح بھی ہیں، لیکن دونوں کی پارٹیاں ان کی مجبوری بن چکی ہیں۔ ایسے میں عارف علوی جیسے بھی ہیں ، و ہی آیندہ صدر نظر آرہے ہیں؛گویا ممنون حسین کی جگہ اگلے پانچ سال کے لیے اب ایک دوسرا ''ممنون حسین'' آ رہا ہے۔
شاعر نے ایسے ہی نہیں کہا تھا کہ
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
عزیز الدین صاحب پنجاب یونیورسٹی میں انگریزی کے پروفیسر ہیں۔ نوجوان یونیورسٹی پہنچتا ہے۔ نوجوان اپنی مشکل استاد کے سامنے رکھتا ہے۔ پروفیسر صاحب کہتے ہیں،اس پر بھی بات کریں گے، لیکن آو پہلے کچھ چہل قدمی کرتے ہیں۔ نوجوان اور پروفیسر چلتے چلتے انار کلی بازار کی طرف آ نکلتے ہیں۔ نکڑ پر دس بارہ سال کا ایک کم سن لڑکا کھڑا ہے۔ اس کے کندھے پر ہینگر میں گرم کوٹ ٹنگے ہیں۔ وہ ان کو بیچنے کے لیے صدا لگا رہا ہے ۔
پروفیسر صاحب چلتے چلتے رک جاتے ہیں اوراس کم سن لڑکے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، دیکھو، آج یہ لڑکا ہی تمھیں اس الجھن سے نکال سکتا ہے۔' سر ، وہ کیسے ' وہ اس طرح کہ فرض کرو، آج تم اس لڑکے سے کوٹ خریدتے ہو اور اسے پہن کر سیٹی بجاتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہو تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تمھیں سول سروس جوائن کر لینی چاہیے۔لیکن اگر تم اس لڑکے سے یہ کوٹ خرید کر اسی کو پہنا دیتے ہو تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تم سول سروس کے لیے موزوں نہیں۔
نوجوان پروفیسر صاحب کی بات کا کوئی جواب نہیں دے پاتا، لیکن گھر واپس آ کے بارش میں بھیگتے اس لڑکے کے بارے میں مسلسل سوچتا رہتا ہے۔ صبح طلوع ہوتی ہے ، وہ فیصلے پر پہنچ چکا ہوتا ہے کہ وہ سول سروس جوائن نہیں کرے گا۔ اس نوجوان کو پاکستان کے لوگ آج اعتزاز احسن کے نام سے جانتی ہے جو حالیہ صدارتی الیکشن میں تحریک انصاف کے عارف علوی اور ن لیگ اور جے یو آئی کے فضل الرحمن کے مقابلہ میں پیپلز پارٹی کے امیدوار ہیں۔
ٰاعتزازاحسن نے اکیڈیمی جوائن نہیں کی اور والد اور داداکی تقلید میں سیاست میں آ گئے۔ 1988ء، 1990ء، 1997ء، 2002 ء میں لاہو ر سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ وزیر داخلہ اور وزیر قانون، سینیٹ میں قائدایوان اور قائد حزب اختلاف رہ چکے ہیں۔ سپریم کورٹ بار کے صدر رہے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ وثقافت پر ان کی کتابThe Indus Saga and the Making of Pakistan علمی حلقوں سے بے پناہ داد وصول کر چکی ہے،گویا مصنف اور محقق کے طور پر بھی اپنے تئیں منوا چکے ہیں۔ اعتزازاحسن کی سیاسی زندگی کا مگر سب سے اہم دور، جس میں ان کی مقبولیت اپنے بام عروج پر پہنچی، 2007ء کی عدلیہ بحالی تحریک ہے۔
جنرل پرویز مشرف، چیف جسٹس آف پاکستان کو معزول کرکے ان کے خلاف ریفرنس دائر کر دیتے ہیں۔ معزول چیف جسٹس اور وکلا ریفرنس کو چیلنج کر نے اور حکومت کے خلاف قانونی جنگ لڑنے کا اعلان کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ عدالت میں یہ قانونی جنگ کون لڑے گا۔سب کی نظریں اعتزازاحسن کی طرف اٹھتی ہیں۔ اعتزازاحسن یہ مقدمہ اس طرح لڑتے ہیں کہ چیف جسٹس کو ان کے عہدے پر بحال کرا کے دم لیتے ہیں۔3 نومبر2007ء کو جنرل پرویز مشرف دوبارہ چیف جسٹس کو معزول کر دیتے ہیں۔
اعتزازاحسن پھر میدان میں اترتے ہیں۔ اس اثنا میں 2008 ء کے الیکشن آ جاتے ہیں۔ نوازشریف پیش کش کرتے ہیں کہ لاہور میں وہ جس نشست پر بھی الیکشن لڑیں گے، ان کے خلاف امیدوار کھڑا نہیں کیا جائے گا۔ اعتزاز احسن یہ پیش کش مسترد کر دیتے ہیں اور عدلیہ بحالی تحریک سے اظہار یکجہتی کے لیے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیتے ہیں۔ پیپلز پارٹی برسراقتدار آ جاتی ہے، لیکن وہ اپنے موقف سے سر مو انحراف نہیں کرتے اور عدلیہ بحالی کے لیے جدوجہد جاری رکھتے ہیں۔16 مارچ 2009 ء کو لانگ مارچ اسلام آباد کی طرف رواں دواں ہے۔
گوجرانوالہ کے قریب آرمی چیف جنرل کیانی اعتزازاحسن کو براہ راست فون کرتے ہیں اور چیف جسٹس کی بحالی کی نوید سناتے ہیں۔ اعتزازاحسن کی آزمایش مگر ابھی ختم نہیں ہوئی، کیونکہ ان کا اعلان ہے بطور وکیل وہ اس بنچ کے سامنے پیش نہیں ہوں گے، جس کی سربراہی افتخار چوہدری کر رہے ہوں گے۔اپنے ان موکلوں کی کروڑوں کی فیسیں واپس کر دیتے ہیں، جن کے مقدمات کی سماعت افتخار چوہدری کر رہے ہیں۔اس دوران میں توہین عدالت کے صرف ایک مقدمے میں پیش ہوتے ہیں، اور وہ بھی اس شرط پر کہ فیس نہیں لیں گے۔
پاناما لیکس پر عمران خان کے ساتھ اول اول اعتزاز احسن نے ہی پاکستان میں عوامی آگاہی کی مہم چلائی۔ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر نوازشریف حکومت کو ایکسپوز کیا،حالانکہ اس وقت تک پیپلزپارٹی کی قیادت اس پر قطعاً یکسو نہیں تھی۔ یوں پاناما لیکس پر ان کی آگاہی مہم کا تمام تر فائدہ عمران خان کو پہنچا۔گاہے یوں محسوس ہوتا تھا کہ اعتزازاحسن پیپلزپارٹی میں تحریک انصاف کی آواز بن چکے ہیں۔ رضا ربانی، یوسف رضا گیلانی اور خورشید شاہ کئی باران سے سخت نالاں پائے گئے، لیکن اعتزازاحسن نے پاناما لیکس پر اپنی لے نہیں بدلی اور عمران خان کی آواز کے ساتھ آواز ملائے رکھی۔ پاناما لیکس آخر کار ن لیگ حکومت کو لے ڈوبیں اور اب زمام کار عمران خان کے ہاتھ میں ہے۔
اعتزازاحسن صدارت کے امیدوار ہیں اور شخصی طور پر ہر لحاظ سے اپنے مقابل امیدواروں سے بہتر ہیں۔ صدارت کے شایان شان بھی ہیں۔ مگر پیپلزپارٹی کی عددی حیثیت ایسی نہیں کہ وہ صدر منتخب ہو سکیں۔ دوسری طرف عمران خان اور اعتزاز احسن زمان پارک فیلو ہیں،ایک دوسرے کے مداح بھی ہیں، لیکن دونوں کی پارٹیاں ان کی مجبوری بن چکی ہیں۔ ایسے میں عارف علوی جیسے بھی ہیں ، و ہی آیندہ صدر نظر آرہے ہیں؛گویا ممنون حسین کی جگہ اگلے پانچ سال کے لیے اب ایک دوسرا ''ممنون حسین'' آ رہا ہے۔
شاعر نے ایسے ہی نہیں کہا تھا کہ
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے