ورنہ ایسا نہ ہو

مراد علی شاہ کو ’’زیروکرپشن‘‘ اور میرٹ کی پالیسی اختیارکرنی چاہیے۔


Dr Tauseef Ahmed Khan August 29, 2018
[email protected]

مراد علی شاہ نے ایک ایسے وقت میں سندھ کی حکومت سنبھالی جب پیپلز پارٹی کو نئے چیلنج کا سامنا ہے ۔ لیاری کا قلعہ ٹوٹ گیاہے اور لاڑکانہ سے ایک صوبائی اسمبلی کی نشست اس یلغار میں کھوگئی ہے۔ عمران خان کا کرپشن کے خلاف بیانیہ نوجوانوں کے ذہنوں کو فتح کرچکا ہے۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت کو سیاسی میدان سے باہر پھینکنے کے منصوبے پر عمل ہورہا ہے ۔ پولیٹیکل انجنیئرنگ کے دو مراحل کی حمایت کے باوجود نیب کی کارروائیاں جاری ہیں ۔ پیپلز پارٹی کے بارے میں سب سے بڑا چیلنج اس بیانیے کی نفی کرنا ہے کہ اچھی طرز حکومت اور کرپشن کا خاتمہ اس کی ترجیحات میں نہیں۔ 2008ء میں جب پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو پارٹی کے شریک چیئر پرسن آصف زر داری نے ایک سینئر ترین رکن قائم علی شاہ کو وزیر اعلیٰ مقررکیا۔

قائم علی شاہ 1970ء سے پیپلز پارٹی کی ہر حکومت میں شامل رہے۔ ان کے بارے میں عام تصور ہے کہ وہ درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل ہیں جو ہر دور میں اپنی ذات کو مالیاتی اسکینڈلز سے دور رکھتے ہیں مگر پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے قائم علی شاہ کوکبھی آزاد کام کرنے کی اجازت نہیں دی ۔ آصف زر داری کی ہمشیرہ سمیت کئی وزراء ، وزیراعلیٰ کے فرائض انجام دیتے رہے۔

شاید قائم علی شاہ کا حقیقی کارنامہ یہ ہے کہ ان وزراء اور صدر زرداری کے درمیان رابطوں اور ان کے فیصلوں پر عملدرآمد میں کبھی رکاوٹ نہیں ڈالی مگر اس صورتحال کے نتیجے میں سندھ میں نظام حکومت بری طرح متاثر ہوا ۔کرپشن تمام وزارتوں میں سرائیت کر گئی۔ بدانتظامی کے نتیجے میں ترقی کا عمل سست پڑگیا ۔

کراچی میں 2007 میں تعمیر ہونے والا سول اسپتال کا ٹراما سینٹر ان کے 8 سالہ دور حکومت میں بھی پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔ پہلے کئی سال ایم کیو ایم سے اتحاد بننے اور ٹوٹنے، بلدیاتی نظام کو با اختیارکرنے اور بے اختیار بلدیاتی نظام کی بحث میں گزرگئے۔ ایم کیو ایم کے جنگجوؤں اور لیاری کے گینگسٹرزکی لڑائی اور طالبان کی دہشت گردی کی صورتحال کی نذر ہوگئے مگرکرپشن کے الزامات اور اچھی طرز حکومت نہ ہونے کی بناء پر اندرون سندھ میں ترقی نہ ہوسکی۔ بدعنوانیاں اتنی بڑھیں کہ عالمی بینک نے وزارت تعلیم کی گرانٹ روکنے کی دھمکی دی۔

نیب والوں نے حکومت سندھ پر حملہ کیا۔ ہرطرف معاملہ کرپشن اورکمزور حکومت کا تھا۔ مراد علی شاہ نے اقتدار سنبھالتے ہی ترقی کی رفتارکو تیزکیا ۔کراچی سمیت سندھ میں سڑکوں کا جال بچھا ۔ صحت کے شعبے میں حالات بہتر ہوئے۔ تھرپارکرکول پروجیکٹ سے روزگارکے نئے وسائل سامنے آئے مگر یہ سب کچھ پنجاب اور پختون خواہ کے مقابلے میں بہت کم تھا ۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی کے فلسفے پر یقین نہیں رکھتی۔

پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت شاید یہ سمجھتی ہے کہ اس طرح سندھ کے بڑے شہروں کراچی اور حیدرآباد میں ایم کیو ایم کو نئی طاقت مل جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کوڑا کرکٹ، سیوریج ،پانی کی فراہمی اور عمارتوں کی تعمیر جیسے بلدیاتی معاملات خود سنبھالتی ہے۔ اس ناقص پالیسی کی بناء پر بلدیاتی نظام مفلوج ہوا۔ حکومت سندھ نے ان مسائل کے حل کے لیے جو ادارے قائم کیے وہ کرپشن کی نذر ہوگئے۔

صورتحال اس حد تک خراب ہوئی کہ کراچی کو فراہم پانی میں کلورین کی مقدار نہ ملنے یا کم ملانے سے دماغ کو ختم کرنے والا نیا جراثیم ہلاکتوں کا باعث بننے لگا ۔ شہر بھر میں بلند ترین عمارتیں تعمیر ہوگئیں جس کے نتیجے میں ماحولیات کو نقصان پہنچا ۔ پانی اور بجلی کی کمی کے مسائل بھی پیدا ہوئے۔ صورتحال اتنی بگڑی کہ سپریم کورٹ کو مداخلت کرنا پڑی۔ سپریم کورٹ نے اپنے سابق جج کی قیادت میں کمیشن قائم کیا۔

اس کمیشن کے سربراہ جسٹس امیر ہانی مسلم گزشتہ کئی مہینوں سے سندھ بھر میں پانی کی فراہمی، گندے پانی کی نکاسی اور دریائے سندھ اور سمندر میں آلودگی جیسے بنیادی معاملات پر بدعنوانیوں کی نشاندہی کرتے تھک گئے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں ملازمتوں کی فروخت کے نظام نے خوب تقویت پائی۔ پانی، تعلیم، صحت، پولیس، آبپاشی ، اطلاعات اور ہر وزارت میں ملازمتیں فروخت ہوئیں۔ یہ بات عام ہوئی کہ جب متعلقہ وزارت کے وزیر ہی اپنی نشست کے لیے بھاری مقدار میں زر ادا کر کے آئیں گے تو پھر تو ہر سطح پر کاروبار ہی ہوگا۔

یہ الزام تک لگایا گیا کہ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں اور تعلیمی بورڈ کے عہدیداروں کے تقرر کے لیے بھی اسی رواج پر عمل ہوا۔ جب سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس افتخار چوہدری نے کراچی میں بدامنی کی صورتحال پر ازخود نوٹس پر سماعت شروع کی تو اس وقت کے آئی جی نے یہ حلف نامہ داخل کیا کہ انھیں گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے افسروں کے تبادلوں اور تقرریوں کے اختیارات نہیں ہیں۔ پیپلز پارٹی کے دور میں ہزاروں افراد کو بغیر کسی میرٹ ٹیسٹ کے استاد بھرتی کرلیا گیا۔

جب عالمی بینک نے اس صورتحال کا نوٹس لیا اور گرانٹ بند کرنے کی دھمکی دی تو ان افراد کو ملازمتوں سے فارغ کیا گیا۔ اس میں سے ہر فرد نے اس ملازمت کے لیے کئی کئی لاکھ روپے دیے تھے۔ یوں یہ افراد کئی سال تک کراچی پریس کلب کے سامنے دھرنا دیتے رہے۔ سندھ اسمبلی کے اجلاس کے موقعے پر یہ سیکڑوں افراد جن میں خواتین بھی شامل تھیں، مظاہرہ کرنے کی کوشش کرتے، پولیس آنسوگیس کی گولیوں کا استعمال کرکے انھیں منتشرکرنے کی کوشش کرتی۔ ٹی وی چینل اس منظرکو براہِ راست نشرکرتے رہے۔

پیپلز پارٹی کی حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ سندھ پبلک سروس کمیشن کے تقدس کی پامالی ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے پہلے تو کمیشن کی سفارشات پر عملدرآمد کرنا چھوڑ دیا ، پھر ایسے افراد کوکمیشن کا سربراہ اور رکن بنایا گیا کو اس عہد ے کے اہل ہی نہیں تھے۔ حکومت نے کمیشن کے ارکان کے تقرر میں شہری علاقوں کی نمایندگی کو مکمل طور پر نظرانداز کیا۔ کچھ عرصے بعد کمیشن میں بدعنوانی کی خبریں ذرایع ابلاغ کی زینت بننے لگیں۔ سپریم کورٹ نے اس صورتحال کا نوٹس لیا اورکمیشن کے اراکین کی تقرری کو منسوخ کیا۔

وزیر اعلیٰ کا بنیادی فرض ہے کہ سندھ پبلک سروس کمیشن کو مکمل طور پر خود مختار کیا جائے، اس کے اراکین کے تقرر میں شہری اور دیہی علاقوں کی نمایندگی کو یقینی بنایا جائے اور گریڈ 5 اور اس سے اوپرکی تمام تقرریاں کمیشن کے سپرد کی جائیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے قائد اعظم کے مزار کے سائے میں اپنی پہلی تقریر میں کوٹہ سسٹم کا ذکرکیا تھا۔ اندرون سندھ اب اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی معقول تعداد ہے۔ اندرون سندھ طلبہ کے تعلیمی معیار میں بہت بہتری آئی ہے۔

اسی بناء پر اب شہری اور دیہی علاقے کے کوٹہ سسٹم پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اب میرٹ کے اصول کو اپنا کر ہی ایک جدید اور شفاف نظام کی بنیاد پڑسکتی ہے۔ سندھ میں اس وقت 50 فیصد بچے اسکولوں میں نہیں جاتے۔ ان بچوں کو اسکولوں میں داخلہ اور سرکاری اسکولوں کے نظام میں انقلابی تبدیلیوں کے ذریعے ہی خواندگی کی شرح میں اضافہ اور ترقی کا عمل تیزکیا جاسکتا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالتے ہی اپنی تقریر میں سادگی، میرٹ اورکرپشن کے خاتمے کا خصوصی ذکر کیا ہے۔ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں بار بارکراچی کے کوڑے، پانی کی کمی اور ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر بنانے کا عندیہ بھی دیا۔ وہ پورے ملک کے پولیس کے نظام میں اصلاحات کرنے کے خواہاں ہیں۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ وفاقی حکومت کراچی کے لیے خصوصی پیکیج کا اعلان کرے گی۔ تحریک انصاف نے ڈاکٹر عارف علوی کو ملک کا صدر بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

نئے گورنر عمران اسماعیل نے اپنا عہدہ سنبھالنے سے پہلی ہی بلاول ہاؤس کی حفاظتی دیوار توڑنے کا عندیہ دیا ہے۔ اس حفاظتی دیوار سے اس علاقے کے لوگوں کو بہت پرانی شکایات ہیں۔ اگرچہ ممنون حسین کا تعلق بھی کراچی سے تھا مگر مسلم لیگ ن کی حکومت کوکراچی سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی اور ممنون حسین نے زیادہ عرصہ اپنے مصاحبین کی گفتگو سنتے گزارا مگر ڈاکٹر عارف علوی کراچی کے حوالے سے ایک متحرک صدر ثابت ہونگے۔ یہ سب کچھ پیپلز پارٹی کی حکومت کے لیے بڑا چیلنج ہوگا۔

پیپلز پارٹی کے اندرونی حلقے کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنے قریبی رشتے داروں کو ناراض کرکے مراد علی شاہ کا تقرر کیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو مراد علی شاہ کو آزادانہ طور پر حکومت چلانے کا موقع دینا چاہیے۔ صورتحال یہ ہے کہ مراد علی شاہ کی کابینہ میں زرداری خاندان کی چھاپ نظر آتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان بلدیاتی اداروں کو بااختیار کرنا چاہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے بلدیاتی اداروں کی حیثیت کو تسلیم نہ کرنے کا عہد کیا ہوا ہے اور اب اس معاملے کو صوبائی خود مختاری کا مسئلہ بنایا جا رہا ہے۔

اس صورتحال کے نتیجے میں کوڑے اور صفائی کا مسئلہ قومی مسئلہ بن گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو اب یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ ان مسائل کا حل بااختیار بلدیاتی نظام میں ہی مضمر ہے۔ مراد علی شاہ کو ''زیروکرپشن'' اور میرٹ کی پالیسی اختیارکرنی چاہیے۔ حکومت کی ہر سطح پر بحث، میرٹ پر فیصلوں اور تقری کا عمل تیز کرنا چاہیے ورنہ ایسا نہ ہوکہ 2023ء میں کسی اور جماعت کا نمایندہ وزیر اعلیٰ کا حلف اٹھائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں