فریدا تن سُکا پنجر تِھیا تلیاں کھونڈیں کاگ
تصوف کے متحرک مگرساکت سمندرمیں صوفی ہردم غوطہ زن رہتے ہیں۔
تصوف ایک گہراسمندرہے۔اتنی گہرائی کہ انسان کی روح ڈوب جاتی ہے مگرآخری سطح ہرگزنہیں آتی۔صوفی اوربزرگ فقرکے موتیوں جیسے پانی سے شرابورہوتے ہیں مگر اظہارنہیں کرتے۔قطعاًگرہ نہیں کھولتے۔مگرعامی،معمولی ساعلم حاصل کرنے کے بعد،لوگوں میں سرفرازی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔درویش بہت ہی عجیب لوگ ہوتے ہیں۔ شہرت،نموداورنمائش سے ہزاروں نوری سال دور۔جبہ ود ستارسے بھی بہت گریزاں۔نامعلوم سے معلوم تک کا سفر اس طرح گزارتے ہیں کہ کسی کوکانوں کان خبرنہ ہوپائے۔
کیاکیاہیرے،سفرِتصوف میں پیہم جگمگاتے رہتے ہیں۔ایسی ایسی روحانی تراش کے مالک کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔عقل توویسے ہی بہت تھوڑی دورتک سفرکرپاتی ہے۔ عقل بذات خودمحدودہے۔مگرسلوک کی اصل منزل صرف اورصرف جذب طے کرواتا ہے۔ بختیار کاکی کا نایاب جملہ اس اُجلے سفرکی ایک کڑی ہے۔
مقام ما مقام شماست!
ترجمہ:میرامقام ،تمہارامقام ہے
بختیارکاکی محفل سماع میں گئے۔یہ شیخ علی سنجری نے برپاکی تھی۔ایک شعر سناتوحالت جذب میں چلے گئے۔ حالت یہ ہوگئی کہ عالم استغراق میں پہنچ گئے۔اس کیفیت سے کبھی باہرنہ آپائے۔اسی طرح دنیاسے رخصت ہوگئے۔ عشق کے قافلے کے یہ مسافر،اپنی طرزکے بندے ہوتے ہیں۔انکانہ ہی کوئی ہمسفرہوتاہے اورنہ ہی کوئی قافلہ۔یہ قافلے بھی خودہوتے ہیں اورہمسفربھی صرف اورصرف اپنے۔ دنیاجونہیں دیکھ سکتی،وہ ان کی آنکھ کے سامنے آشکار کر دیا جاتا ہے۔جب بختیارکاکی کواپنے وصال کامعلوم ہوا تو بابا فریدؒ نے حانس میں خواب دیکھاکہ انھیں دہلی بلایاجا رہا ہے۔ بختیار کاکی کے دربارمیں۔یہ دراصل موت کااعلان تھا۔تین دن بعدجب بابافریدؒدہلی پہنچے توان کے مرشد دنیا سے پردہ کر چکے تھے۔سوال ہے۔سوال کیا،ذہن میں ایک دھند ہے۔ کیاان لوگوں کوموت کا بتا دیا جاتا ہے۔ کیا یہ اس روحانی بالیدگی کے حامل ہوتے ہیں کہ کسی کوخواب میں آکر بلانے پرقادرہوجاتے ہیں۔سمجھ نہیں آتاکہ کیسے۔ مگر یہ ہوتا ہے۔ بات صرف بختیارکاکی اوربابافریدؒکی نہیں۔ ہر صاحبِ بصیرت انسان،زمانے کوبدلنے پر قادر ہو جاتا ہے۔ مگر کیسے! اس سوال کامیرے پاس کوئی جواب نہیں۔ شائد ہونا بھی نہیں چاہیے۔
سائنس کی دنیاکاآدمی ہوں۔بارہاعرض کرچکاہوں کہ عمل اورردِعمل کی دنیامیں سانس لیتاہوں۔مگراکثر مقامات پرکسی قسم کی کوئی توجیح کام نہیں آتی۔دیکھاجائے توتصوف ایک ایسی کائنات ہے جس میں حواسِ خمسہ بے بس ہوکر عاجزسے نظرآتے ہیں۔آنکھ کی طاقت بے حدمحدود ہے۔ ڈاکٹرکے طورپرعرض کررہاہوں کہ یہ صرف سات رنگوں کو دیکھنے کی استطاعت رکھتی ہے۔عام آدمی صرف اورصرف انھی رنگوں کی آمیزیش دیکھنے پرقادرہے۔یہاں سے ہی وہ دلیل جنم لیتی ہے کہ اگرآنکھ صرف سات رنگ دیکھ سکتی ہے۔ توکیااس کے علاوہ رنگ نہیں ہوسکتے ہیں۔لازم ہے کہ ہوسکتے ہیں۔ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ہوسکتے ہیں۔ کیا اتنی محدود بصیرت،انسان کوسب کچھ دکھاسکتی ہے۔جواب نفی میں ہے۔کچھ دیکھناممکن ہے۔مگرسب کچھ نہیں دیکھا جاسکتا۔ محدودسے لامحدودکی طرف جانے کی قوت دراصل اس آنکھ میں موجودہی نہیں۔مگرصوفی توبہت زیادہ رنگ دیکھتا ہے۔ بہت زیادہ۔اکثرکااظہارنہیں کرتا۔ اسکا سفر محدود سے لامحدودکی جانب ہے۔ایساسفرجوخفی ہے۔ہرایک پریہ راز کھلتا بھی نہیں۔شائدکھلنابھی نہیں چاہیے۔
سننے کی قوت کی طرف آئیے۔کسی بھی ڈاکٹر یا سائنسدان سے پوچھ لیجیے۔انسانی سماعت کی طاقت صرف اورصرف ایک مخصوص پیمانے میں ہے۔چندڈیسی بلز (Decibels)کے درمیان۔مگرسائنس ہی کے مطابق، آواز،اس رینج سے اوپربھی ہے اورنیچے بھی۔کیاکوئی سن سکتا ہے۔عام آدمی توخیرقوت سماعت کے اندربھی کچھ سن نہیں پاتا۔اگرسنتاہے توسمجھ نہیں پاتا۔مگرخواص توہرآوازسن پاتے ہیں۔ان کی سننے کی طاقت،قدرت کی طرف سے بہت زیادہ کردی جاتی ہے۔بالکل ایسے ہی جیسے کچھ جانوروں کی قوت سماعت،خداکی طرف سے بڑھادی جاتی ہے۔کئی توآنے والے خطرے تک کومحسوس کرسکتے ہیں۔عام انسان پریہ دربندکردیاگیاہے۔مگرصوفی تواس بنددروازے کے باہرکا مکین ہے۔مکمل طورپرہرچیزسننے کے باوجود، "سادہ" سا دکھائی دیتاہے۔اہم ہونے کے باوجود،غیراہم نظرآتا ہے۔ کوشش کرتاہے کہ لوگوں سے دور رہے۔ پہچانانہ جائے۔کسی کومعلوم ہی نہ ہوپائے کہ حقیقت کیا ہے۔ رازکورازہی رکھنے کی کوشش میں سلوک کی منزلیں طے کرتارہتاہے۔
ہاں ایک اوربات۔صوفی کسی کی بھی اَناکومجروح نہیں کرتے۔اپنے اندرکی روحانی لوکوقائم رکھتے ہیں۔مگرکسی بھی صورت میں لوگوں کوکسی قسم کادکھ نہیں دیتے۔اصل میں وہ ہر طرح سے برگزیدہ لوگ ہوتے ہیں۔اگرکوئی عالم یا عامی، انھیں علم کی کسوٹی پرپرکھ کرناکام قرارتک دے دے۔پھربھی یہ لوگ خاموش رہتے ہیں۔سلطان ناصرالدین محمودکے زمانے میں ایک زبردست عالم،مولانافصیح الدین تھے۔ انھیں اپنے بھرپورعلم پرزعم بھی تھااورکچھ تکبربھی۔بابافریدؒکی شہرت سنی تواجودھن آگئے۔بابافریدؒ سے مذہب کے دقیق مسائل پربحث کرنی چاہی۔صاحب نظرتوخاموش رہا۔ مگر انھی کے ایک شاگردنے فصیح الدین کوحددرجہ عمدہ جواب دیے۔ مولانا،تواپنے آپ کووقت کاسب سے عظیم عالم گردانتے تھے۔جب بابافریدؒ کے ایک شاگردنے تمام جزئیات بتا ڈالیںتومغموم ہوکرواپس دہلی پہنچ گئے۔غورسے پرکھیے۔ بابافریدؒ نے اپنے طالبعلم سے خفگی کااظہارکیاکہ درویش تو کسی بھی حالت میں کسی کی بھی دلآزاری نہیں کرتا۔اگرفصیح الدین کوعلمی تکبرتھا،تواسے خودبخوداپنی غلطی کااندازہ ہونا چاہیے تھا۔آپ نے تواسے جاہل ہی بنادیااوروہ توشکستہ دل واپس گیاہے۔درویش کے حکم پر،شاگرد،دہلی گیااورفصیح الدین سے معذرت کی۔جب مولاناکواصل بات معلوم ہوئی توننگے پیر،دہلی سے اجودھن آئے۔بابافریدؒ کے پیر پکڑ لیے۔معافی مانگی اوربیعت ہونے کی اجازت طلب کی۔ جواب بے حدپُرمغزتھا۔شرط تھی کہ اپنے علمی تکبراوردین کو بحث مباحثہ کے مغالطوں سے باہرآناہوگا۔فصیح الدین اس کے بعدپوری زندگی بابافریدؒ کی چوکھٹ سے باہرنہ جاسکے۔ یہ صوفی کاجمال نہیں بلکہ کمال ہے۔وہ لوگوں کے دل محبت سے جیتتاہے۔انکواحساس کمتری میں مبتلاکرکے نہیں۔
زندگی میں بہت سے لوگ نظرآئینگے جومحدوداکتسابی علم کی بدولت،مختلف موضوعات پردلیل سے بات کرنے کا ملکہ رکھتے ہیں۔یہ اپنے علم کواحساسِ برتری کا ہتھیار بنا کر لوگوں میں ممتازہوناچاہتے ہیں۔حقیقت ہے کہ وقتی طورپر برتری حاصل بھی کرلیتے ہیں۔چندسو یاچندہزار کتابیں پڑھ کریہ عالم توبن جاتے ہیں۔مگرعلم کی باطنی کیفیت کوکبھی نہیں جان سکتے۔محدوددائرے میں زندگی گزاردیتے ہیں۔لوگ ان سے متاثرہوتے ہیں۔اس طرح کے لوگوں کاحلقہ ارادت بھی بہت زیادہ ہوتاہے۔مگریہ تصوف کے قافلے کے مسافرنہیں ہوتے۔کلغی والی ٹوپی پہن کرنمایاں توہوجاتے ہیں مگرروحانیت کے میدان میں طفلِ مکتب تک نہیں ہوتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں پوری عمر،وحدت کے کنویں کاپانی نصیب نہیں ہوتا۔پیاسے ہی دنیاسے چلے جاتے ہیں۔کئی بارتوانھیں پیاسے ہونے کااحساس تک نہیں ہوتا۔تصوف کے سمندرکے ساحل تک جانابھی انھیں نصیب نہیں ہوپاتا۔ صوفی تواس اَنجانے سمندرمیں ڈبکیاں لگاتاہے۔عشق کی کشتی پربیٹھ کرایسے سفرپرگامزن رہتاہے جسکی کوئی آخری منزل ہے ہی نہیں۔صوفی،عالم نہیں ہوتا۔ صاحب علم ہوتا ہے۔ صاحب جذب ہوتا ہے۔ صاحب کیفیت ہوتاہے۔
ہر کہ دربند نام وآوازہ است
خانہ اوبروں دروازہ است
ترجمہ جوشخص نام وشہرت کی فکرمیں ہے۔ اس کا گھر، دروازے سے باہرہے۔
صوفی اوردرویش ہردورمیں موجودہوتے ہیں بلکہ قائم رہتے ہیں۔یہ بے حدعجیب سے لوگ،بے نیازی کی زندگی گزارتے ہیں۔عام لوگوں سے حددرجہ مختلف بلکہ متضاد۔ جاہ وحشم سے دور۔تعریف سے دور۔دنیاوی آسائشوں سے کوسوں دور۔یہ تواس درجہ متحرک ہوتے ہیں کہ اگرکسی جگہ پرریاضت کے لیے بیٹھ جائیں توپرندے انھیں بے جان سمجھتے ہوئے ان کے سروں پرگھونسلے بنالیتے ہیں۔ بادشاہوں، حکمرانوں کے دربارسے بہت دوررہنے والے لوگ،عشق کے سفرکے وہ مسافرہوتے ہیں جنکے سامنے دنیا،بے حیثیت ہوجاتی ہے۔کسی بھی اہمیت کی حامل نہیں رہتی۔
فریدا تن سُکا، پنجر تِھیا، تلیاں کھونڈیں کاگ
اجے سُ رَب نہ بَوہڑیو، دیکھ بندے کے بھاگ
تصوف کے متحرک مگرساکت سمندرمیں صوفی ہردم غوطہ زن رہتے ہیں۔عشق جیسی آگ میں جلنے والے،یہ لوگ میلے کچیلے کپڑوں میں ہمارے درمیان بظاہرمعمولی سی زندگی گزاررہے ہوتے ہیں۔مگریہ انتہائی قیمتی لوگ،اس دنیا کے اصلی بادشاہ ہوتے ہیں۔خداکی طرف سے یہی درویش فیصلے کرتے ہیں اورہمارے جیسے بابولوگ،کاغذوں پردستخط کرکے سمجھتے ہیں کہ یہ توہمارے فیصلے ہیں۔ صاحبان!فیصلے توکہیں اورہوتے ہیں اورپیہم ہوتے ہیں۔ فقرکے خزانے کے مالک یہ صوفی لوگ،بے حدچالاک ہوتے ہیں۔ آپکا سب کچھ لے لیتے ہیں۔اپنے کھیسے میں ڈال کر بھول جاتے ہیں۔پھرکسی بھی وقت آپکوسب کچھ لوٹا دیتے ہیں۔ بہت زیادہ کرکے۔شائدہمارے جیسے عامی لوگوں کی برداشت سے باہر۔