زندگی کا مالک کون ہے
صاحبان اقتدار بہت کمزور لوگ ہوتے ہیں وہ خوفزدہ رہتے ہیں۔ ان کو ڈرانا بہت آسان ہوتا ہے۔
اسلام آباد کا یہ پرانا دستور ہے کہ جب بھی کوئی وزیر اعظم ہائوس میں داخل ہوتا ہے تو اس کے وہاں بیٹھنے سے پہلے پہلے اس کو اس خوبصورت گھر میں بے بس اور قید کرنے کا پروگرام وضع ہو جاتا ہے۔ یہی حال ان ملکی سربراہوں کا بھی ہوتا ہے جو وزیراعظم تو نہیں کہلاتے مگر مکمل بااختیار ہوتے ہیں۔
فی الحال آپ وزیر اعظم کی بات کیجیے کہ اس وقت ملک کا چیف ایگزیکٹو یعنی مالک وہی ہے۔ مارشل لائوں اور صدروں کا زمانہ کا بظاہر گزر چکا ہے، وزیر اعظم اپنے آپ کو عوام کا نمایندہ سمجھ کر وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھتا ہے اور عوام کی فلاح کے لیے بلند بانگ دعوے بھی کرتا ہے، وہ عوام سے رابطہ کی کوشش بھی کرتا ہے کیونکہ اس کے خیال میں طاقت کا سر چشمہ عوام ہی ہوتے ہیں جن کے ووٹوں سے وہ اس مقام تک پہنچا ہے، عوام اسے دیکھ کر اور وہ عوام کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے اور بجا طور پر یہ سمجھتا ہے کہ اگر عوام کا اعتماد اس پر برقرار رہتا ہے تو پھر اس کے اقتدار کو کوئی خطرہ نہیں ہے، عوام کی مدد اور طاقت سے وہ ہر خطرے کا مقابلہ کر سکتا ہے۔
اس معصوم انسان یعنی وزیر اعظم کا یہ خیال ہر لحاظ سے درست ہوتا ہے مگر عوام دیکھتے ہیں کہ وہ رفتہ رفتہ ان سے دور اور دیواروں کے پیچھے غائب ہوتا جا رہا ہے تاآنکہ وہ ٹی وی کی اسکرینوں کے علاوہ کھلی نظر سے زندہ سلامت بہت کم دکھائی دیتا ہے۔ ایسی صورتحال پیدا ہو تو آپ یقین کر لیں کہ اس شخص کی قید کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
وزیر اعظم کے ذاتی اور قریبی عملے کا پہلا منصوبہ یہ ہوتا ہے کہ اسے عوام سے دور اور اپنے قریب کر لیں اتنا قریب کہ وہ ان کی آنکھوں سے دیکھے اور ان کے کانوں سے سنے۔ اس کے ہاتھ میں سفیدچھڑ ی ہو جو کسی افسر یا سدھائے ہوئے کتے نے دانتوں سے پکڑ رکھی ہو اور کانوں میں سماعت کا آلہ لگا ہوا ہو جس کی بیٹری کسی افسر کی جیب میں ہو۔اس طرح یہ اندھا بہرا شخص وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان ہو۔
وزیر اعظم کے قریبی عملے کے لیے یہ صورتحال پسندیدہ ہوتی ہے اور اپنی اس پسند کی صورتحال کے لیے وہ بے حد محنت کرتے ہیں سب سے پہلے وہ ایک ماہر نفسیات کی طرح اس شخص کا مطالعہ کرتے ہیں ان کی بری عادتوں کو بڑھاوا دیتے ہیں اور اچھی عادتوں میں کمی کرتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ بدی بڑی جلد پھلتی پھولتی ہے۔کسی وزیر اعظم کے ملاقاتیوں پر وہ گہری نظر رکھتے ہیں اول تو وزیر اعظم سے ملاقات افسروں کے ذریعے ہوتی ہے اور وہی وزیر اعظم کے سامنے ملاقاتیوں کی فہرست پیش کرتے ہیں۔
ناپسندیدہ اشخاص اس فہرست سے پہلے ہی نکال دیے جاتے ہیں اگر وزیراعظم خاص طور پر کسی سے ملاقات کی فرمائش کرے تو اس شخص کو ملا دیا جاتا ہے مگر اکثر اوقات ملاقات سے پہلے اس کی بریفنگ کر دی جاتی ہے کہ صاحب ایسی بات سننا گوارا نہیں کرتے اور یہ بات پسند کرتے ہیں ۔ عوام تو دور کی بات ہے اہم لوگوں سے بھی وزیر اعظم کو دور کر دیا جاتا ہے اورصرف خاص قسم کے سدھائے ہوئے ملاقاتیوں کو موقع دیا جاتا ہے۔
سیاستدانوں کی ایک عام کمزوری ہوتی ہے کہ وہ فائل ورک پسند نہیں کرتے، بھٹو جیسے لوگ استثنیٰ ہیں۔ اس کمزوری کو پختہ کیا جاتا ہے اور وزیر اعظم کو فائلوں سے دور کر دیا جاتا ہے۔ جس کا صاف مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اقتدار اور اختیار کے سرچشمے سے دور ہو جاتا ہے۔ یہ فائل افسروں کے قبضے میں چلی جاتی ہے۔ آج کل اپنی مرضی کرنے والے وزیر اعظم کے افسر اپنی کار گزاریوں کو بھگت رہے ہیں اور بڑ ے بڑے انکشافات سامنے آرہے ہیں۔ قیام پاکستان کے فوری بعد کا واقعہ ہے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے حکم جاری کیا کہ فائلیں احکامات کے لیے وزیر اعظم کے پاس بجھوائی جائیں۔ چنانچہ افسروں نے وزیر اعظم کی میز پر فائلوں کا ڈھیر لگا دیا۔ چند دن تو وزیر اعظم رات دن ان کو نپٹانے کی کوشش کرتے رہے مگر انھیں
محسوس ہوا کہ وہ نہ صرف یہ کہ کوئی دوسرا کام کر سکیں گے بلکہ ان فائلوں کو بھی بروقت نپٹا نہیں سکیں گے۔ چنانچہ انھوں نے ایک دن کہا کہ صرف اہم فائلیں حکم کے لیے ان کے پاس بھجوائی جائیں اس کی خوشی میں اس رات افسروںنے کراچی کے بوٹ کلب میں جشن منایا۔ سابق وزیر ڈاکٹر مبشر حسن نے جب ایک بار کہا کہ اقتدار کے زمانے میں انھیں تو اقتدار منتقل ہی نہیں ہوا تھا تو ان سے پوچھا گیا کہ پھر اقتدار کس کے پاس تھا تو انھوں نے جواب دیا کہ سیکریٹری کے پاس کیونکہ فائل انھی کے پاس ہوتی تھی اور اقتدار اس فائل میں بند ہوتا ہے۔ چنانچہ افسران بالا فائلوںکو اپنے قبضے میں رکھ کر وزیر اعظم کو اقتدار سے عملاًمحروم کر دیتے ہیں۔
اس کے بعد دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے جس میں وزیر اعظم کو'نظر بند' کر دیا جاتا ہے، یہ سیکیورٹی کا مرحلہ ہوتا ہے۔ حفاظت کے قاعدوں پر مشتمل ایک 'بلیو بک' ہوتی ہے جس میں ترمیم کے لیے ہر حکمران کوشش کرتا ہے اور آپ سنتے ہیں کہ وزیر اعظم نے عوام میں گھل مل جانے کا فیصلہ کیا ہے اور ہٹو بچو ختم کر دیا ہے۔ ایسا ایک آدھ بار ہوتا بھی ہے لیکن بالکل شروع شروع میں۔ پھر وزیر اعظم کی ذات کے لیے خطرات پر مشتمل رپورٹیں تیار کرنی شروع کر دی جاتی ہیں کہیں نہ کہیں تھوڑی بہت گڑ بڑ بھی کرا دی جاتی ہے۔
صاحبان اقتدار بہت کمزور لوگ ہوتے ہیں وہ خوفزدہ رہتے ہیں۔ ان کو ڈرانا بہت آسان ہوتا ہے اس لیے ان کے گرد حفاظتی دائرہ تنگ کرنا شروع کر دیا جاتا ہے اور پھر یہ دائرہ اس قیدی کے گرد اس قدر تنگ کر دیا جاتا ہے کہ اسے دیواروں سے بھی خوف آنا شروع ہو جاتا ہے۔ جلسوں میں شرکت بند ہو جاتی ہے۔ سفری حفاظت کے لیے پہلے سے موجود بلٹ پروف گاڑیوں کے علاوہ مزید نئی بلٹ پروف گاڑیاں منگوائی جاتی ہیں۔وزیر اعظم کو ہراساں کرنے کے لیے ایسا ماحول بنا دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ سے بھی خوفزدہ رہنا شرو ع کر دیتاہے ۔
اس کی زندگی گویا خدا کے ہاتھ میں نہیں چند سیکیورٹی افسروں کی مرہون منت رہ جاتی ہے۔یہ وہ ماحول ہے جس سے ہر وزیر اعظم گزرتا ہے لیکن ابھی جو شخص وزیر اعظم بنا ہے وہ وکھری ٹائپ کا شخص ہے توکل والا انسان ہے اس نے بلٹ پروف گاڑیوں پر انحصار کے بجائے انھیں فروخت کرنے کا اعلان کیا ہے صاف دل و دماغ والے شخص سے گزارش ہے کہ وہ افسروں کے روایتی حربوں سے بچ کر رہیں۔ زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے اور اس کا ایک دن مقرر ہے۔
فی الحال آپ وزیر اعظم کی بات کیجیے کہ اس وقت ملک کا چیف ایگزیکٹو یعنی مالک وہی ہے۔ مارشل لائوں اور صدروں کا زمانہ کا بظاہر گزر چکا ہے، وزیر اعظم اپنے آپ کو عوام کا نمایندہ سمجھ کر وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھتا ہے اور عوام کی فلاح کے لیے بلند بانگ دعوے بھی کرتا ہے، وہ عوام سے رابطہ کی کوشش بھی کرتا ہے کیونکہ اس کے خیال میں طاقت کا سر چشمہ عوام ہی ہوتے ہیں جن کے ووٹوں سے وہ اس مقام تک پہنچا ہے، عوام اسے دیکھ کر اور وہ عوام کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے اور بجا طور پر یہ سمجھتا ہے کہ اگر عوام کا اعتماد اس پر برقرار رہتا ہے تو پھر اس کے اقتدار کو کوئی خطرہ نہیں ہے، عوام کی مدد اور طاقت سے وہ ہر خطرے کا مقابلہ کر سکتا ہے۔
اس معصوم انسان یعنی وزیر اعظم کا یہ خیال ہر لحاظ سے درست ہوتا ہے مگر عوام دیکھتے ہیں کہ وہ رفتہ رفتہ ان سے دور اور دیواروں کے پیچھے غائب ہوتا جا رہا ہے تاآنکہ وہ ٹی وی کی اسکرینوں کے علاوہ کھلی نظر سے زندہ سلامت بہت کم دکھائی دیتا ہے۔ ایسی صورتحال پیدا ہو تو آپ یقین کر لیں کہ اس شخص کی قید کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
وزیر اعظم کے ذاتی اور قریبی عملے کا پہلا منصوبہ یہ ہوتا ہے کہ اسے عوام سے دور اور اپنے قریب کر لیں اتنا قریب کہ وہ ان کی آنکھوں سے دیکھے اور ان کے کانوں سے سنے۔ اس کے ہاتھ میں سفیدچھڑ ی ہو جو کسی افسر یا سدھائے ہوئے کتے نے دانتوں سے پکڑ رکھی ہو اور کانوں میں سماعت کا آلہ لگا ہوا ہو جس کی بیٹری کسی افسر کی جیب میں ہو۔اس طرح یہ اندھا بہرا شخص وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان ہو۔
وزیر اعظم کے قریبی عملے کے لیے یہ صورتحال پسندیدہ ہوتی ہے اور اپنی اس پسند کی صورتحال کے لیے وہ بے حد محنت کرتے ہیں سب سے پہلے وہ ایک ماہر نفسیات کی طرح اس شخص کا مطالعہ کرتے ہیں ان کی بری عادتوں کو بڑھاوا دیتے ہیں اور اچھی عادتوں میں کمی کرتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ بدی بڑی جلد پھلتی پھولتی ہے۔کسی وزیر اعظم کے ملاقاتیوں پر وہ گہری نظر رکھتے ہیں اول تو وزیر اعظم سے ملاقات افسروں کے ذریعے ہوتی ہے اور وہی وزیر اعظم کے سامنے ملاقاتیوں کی فہرست پیش کرتے ہیں۔
ناپسندیدہ اشخاص اس فہرست سے پہلے ہی نکال دیے جاتے ہیں اگر وزیراعظم خاص طور پر کسی سے ملاقات کی فرمائش کرے تو اس شخص کو ملا دیا جاتا ہے مگر اکثر اوقات ملاقات سے پہلے اس کی بریفنگ کر دی جاتی ہے کہ صاحب ایسی بات سننا گوارا نہیں کرتے اور یہ بات پسند کرتے ہیں ۔ عوام تو دور کی بات ہے اہم لوگوں سے بھی وزیر اعظم کو دور کر دیا جاتا ہے اورصرف خاص قسم کے سدھائے ہوئے ملاقاتیوں کو موقع دیا جاتا ہے۔
سیاستدانوں کی ایک عام کمزوری ہوتی ہے کہ وہ فائل ورک پسند نہیں کرتے، بھٹو جیسے لوگ استثنیٰ ہیں۔ اس کمزوری کو پختہ کیا جاتا ہے اور وزیر اعظم کو فائلوں سے دور کر دیا جاتا ہے۔ جس کا صاف مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اقتدار اور اختیار کے سرچشمے سے دور ہو جاتا ہے۔ یہ فائل افسروں کے قبضے میں چلی جاتی ہے۔ آج کل اپنی مرضی کرنے والے وزیر اعظم کے افسر اپنی کار گزاریوں کو بھگت رہے ہیں اور بڑ ے بڑے انکشافات سامنے آرہے ہیں۔ قیام پاکستان کے فوری بعد کا واقعہ ہے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے حکم جاری کیا کہ فائلیں احکامات کے لیے وزیر اعظم کے پاس بجھوائی جائیں۔ چنانچہ افسروں نے وزیر اعظم کی میز پر فائلوں کا ڈھیر لگا دیا۔ چند دن تو وزیر اعظم رات دن ان کو نپٹانے کی کوشش کرتے رہے مگر انھیں
محسوس ہوا کہ وہ نہ صرف یہ کہ کوئی دوسرا کام کر سکیں گے بلکہ ان فائلوں کو بھی بروقت نپٹا نہیں سکیں گے۔ چنانچہ انھوں نے ایک دن کہا کہ صرف اہم فائلیں حکم کے لیے ان کے پاس بھجوائی جائیں اس کی خوشی میں اس رات افسروںنے کراچی کے بوٹ کلب میں جشن منایا۔ سابق وزیر ڈاکٹر مبشر حسن نے جب ایک بار کہا کہ اقتدار کے زمانے میں انھیں تو اقتدار منتقل ہی نہیں ہوا تھا تو ان سے پوچھا گیا کہ پھر اقتدار کس کے پاس تھا تو انھوں نے جواب دیا کہ سیکریٹری کے پاس کیونکہ فائل انھی کے پاس ہوتی تھی اور اقتدار اس فائل میں بند ہوتا ہے۔ چنانچہ افسران بالا فائلوںکو اپنے قبضے میں رکھ کر وزیر اعظم کو اقتدار سے عملاًمحروم کر دیتے ہیں۔
اس کے بعد دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے جس میں وزیر اعظم کو'نظر بند' کر دیا جاتا ہے، یہ سیکیورٹی کا مرحلہ ہوتا ہے۔ حفاظت کے قاعدوں پر مشتمل ایک 'بلیو بک' ہوتی ہے جس میں ترمیم کے لیے ہر حکمران کوشش کرتا ہے اور آپ سنتے ہیں کہ وزیر اعظم نے عوام میں گھل مل جانے کا فیصلہ کیا ہے اور ہٹو بچو ختم کر دیا ہے۔ ایسا ایک آدھ بار ہوتا بھی ہے لیکن بالکل شروع شروع میں۔ پھر وزیر اعظم کی ذات کے لیے خطرات پر مشتمل رپورٹیں تیار کرنی شروع کر دی جاتی ہیں کہیں نہ کہیں تھوڑی بہت گڑ بڑ بھی کرا دی جاتی ہے۔
صاحبان اقتدار بہت کمزور لوگ ہوتے ہیں وہ خوفزدہ رہتے ہیں۔ ان کو ڈرانا بہت آسان ہوتا ہے اس لیے ان کے گرد حفاظتی دائرہ تنگ کرنا شروع کر دیا جاتا ہے اور پھر یہ دائرہ اس قیدی کے گرد اس قدر تنگ کر دیا جاتا ہے کہ اسے دیواروں سے بھی خوف آنا شروع ہو جاتا ہے۔ جلسوں میں شرکت بند ہو جاتی ہے۔ سفری حفاظت کے لیے پہلے سے موجود بلٹ پروف گاڑیوں کے علاوہ مزید نئی بلٹ پروف گاڑیاں منگوائی جاتی ہیں۔وزیر اعظم کو ہراساں کرنے کے لیے ایسا ماحول بنا دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ سے بھی خوفزدہ رہنا شرو ع کر دیتاہے ۔
اس کی زندگی گویا خدا کے ہاتھ میں نہیں چند سیکیورٹی افسروں کی مرہون منت رہ جاتی ہے۔یہ وہ ماحول ہے جس سے ہر وزیر اعظم گزرتا ہے لیکن ابھی جو شخص وزیر اعظم بنا ہے وہ وکھری ٹائپ کا شخص ہے توکل والا انسان ہے اس نے بلٹ پروف گاڑیوں پر انحصار کے بجائے انھیں فروخت کرنے کا اعلان کیا ہے صاف دل و دماغ والے شخص سے گزارش ہے کہ وہ افسروں کے روایتی حربوں سے بچ کر رہیں۔ زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے اور اس کا ایک دن مقرر ہے۔