نقصان پوری قوم کا ہوتا ہے 

مہذب اور شائستہ خواتین نکلیں جنہوں نے برصغیرکی مسلمان عورت کے زمین و آسمان بدل دیے۔

zahedahina@gmail.com

اگست کا مہینہ تھا،انتخابی مہم زور و شور سے چل رہی تھی، ایسے میں دیا میر سے خبر آئی کہ انتہا پسندوں نے لڑکیوں کے 2درجن سے زیادہ اسکول جلا کر خاکستر کر دیے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی خبر میں یہ بتایا گیا تھا کہ مختلف کلاسوں میں موجود کتابوں اورکاپیوں کو بھی نکالا گیا اور انھیں اکٹھا کرکے ان کی ہولی جلائی گئی ۔

یہ ایک اندوہ ناک خبر تھی۔ خیال تھا کہ اس سانحے پر ملک کی اہم سیاسی جماعتیں احتجاج کریں گی اور اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کوگرفتار کرنے کی کوشش کی جائے گی لیکن ہر طرف انتخابات کا غلغلہ تھا چنانچہ اس خبرکا کوئی پرسان حال نہ ہوا ۔ مجھ جیسے لوگ بھی صبرکرکے بیٹھے رہے۔ ہمارے یہاں اول تو تعلیم کی کوئی حیثیت نہیں اور وہ بھی لڑکیوں کی تعلیم ۔

اب گلگت سے خبر آئی ہے کہ 6 مشکوک انتہا پسند گرفتارکیے گئے ہیں جو اتوارکوگلگت بلتستان کے ضلع غذر میں لڑکیوں کے اسکولوں اور لڑکیوں کے ایک کا لج کو بارود سے اڑانے کی کوشش کرتے ہوئے پکڑے گئے ہیں۔

ڈی آئی جی پولیس گوہر نفیس کا کہنا ہے کہ اس افسوس ناک منصوبے کو بنانے کے مبینہ ذمے دار 13نوجوان انتہا پسند تھے ۔ ان میں سے 10 دیا میرکے ایک مدرسے کے طلبہ تھے ۔ یہ لوگ اپنی اس کارروائی میں کامیاب نہ ہوسکے تھے کہ مخبروں کے ذریعے پولیس کو اس منصوبے کی خبر ہوگئی اور اس نے چھاپہ مارکر 6انتہا پسند نوجوانوں کوگرفتارکرلیا۔ ان کی رہنمائی علاقے کا ایک مولوی عنایت اللہ کررہا تھا اور یہ اچھی خبر ہے کہ وہ بھی گرفتارکرلیا گیا ہے۔ ان شرپسندوں نے پوچھ گچھ کے بعد اس بات کا اعتراف کیا کہ انھوں نے آغا خان اسکول سسٹم کے تحت چلنے والے لڑکیوں کے اسکولوں اور ایک ویمنز ڈگری کالج کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا ۔

انھوں نے بتایا کہ دیا میر میں 2درجن سے زیادہ گرلز اسکولوں کو تباہ کرنے اورکتابوں کو جلاکر راکھ کرنے کا منصوبہ انھوں نے ہی بنایا تھا جسے وہ پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ انھوں نے اس کا اعتراف بھی کیا کہ انھوں نے 2016 اور 2017 میں لڑکیوں کے ایک ایک اسکول جلائے تھے ۔ یہ وہ شرپسند ہیں جنہوں نے 2015میں پرنس کریم آغا خان اورگلگت بلتستان کے گورنرکرم علی شاہ پر قاتلانہ حملہ بھی کیا تھا جس میں یہ ناکام رہے ۔ اس حملے کی منصوبہ بندی ایک مدرسے میں تیارکی گئی تھی جس کا کھوج علاقے کی پولیس نے لگایا اور یوں ملک ایک افسوس ناک سانحے سے دوچار نہ ہوا ۔

پرنس کریم آغا خان کا شمار دنیا کے نہایت اہم مدبرین میں ہوتا ہے۔ انھوں نے پاکستان کے دور افتادہ شمالی علاقوں میں تعلیم اور صحت کی سہولتوں کو پھیلانے کا قابل رشک کام کیا ہے ۔ پرنس کریم نے ان علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم پر بہ طور خاص توجہ دی ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ ہمیں ملک کے بڑے تعلیمی اداروں میں چترال،گلگت اور بلتستان کی پڑھی لکھی لڑکیاں نظر آتی ہیں ۔ان میں سے بہت سی لڑکیوں نے نرسنگ کی تعلیم حاصل کی ہے اور وہ صحت کے شعبے میں اپنی صلاحیتوں کو ثابت کر رہی ہیں ۔ پرنس کریم آغا خان نے اسلامی ثقافت ، تعمیرات اور فنون لطیفہ کے شعبوں میں کروڑوں روپے لگائے ہیں اور دنیا کو اسلام کا روشن چہرہ دکھایا ہے۔ ایسے شخص کے بنائے ہوئے تعلیمی اداروں کو نقصان پہنچانا کہاں کی اسلام دوستی ہے ، یہ بات ناقابل فہم ہے ۔


اس موقعے پر انیسویں اور بیسویں صدی کے وہ مسلمان ماہرین تعلیم یاد آتے ہیں جنہوں نے لڑکیوں میں تعلیم عام کرنے کا بیڑا اٹھایا تو اپنی جائیداد اور مال و متاع اس عظیم مقصد کے لیے صرف کردی ۔ شیخ عبداللہ ، مولوی کرامت حسین، رقیہ سخاوت حسین اور دوسرے متعدد مرد اور خواتین ۔ یہ لوگ سمجھتے تھے کہ جب تک قوم کی لڑکیوں کو تعلیم نہیں ملتی، اس وقت تک مسلمانوں کی ترقی کا راستہ محدود رہے گا ۔

کیسی عجیب بات ہے کہ ایک طرف سو ڈیڑھ سو برس پہلے گزرنے والے ہمارے یہ بزرگ تھے جو دل میں قوم کا درد رکھتے تھے،ان کے بنائے ہوئے تعلیمی اداروں سے سیکڑوں تعلیم یافتہ ، مہذب اور شائستہ خواتین نکلیں جنہوں نے برصغیرکی مسلمان عورت کے زمین و آسمان بدل دیے، ان لوگوں پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کون سے مدرسے ہیں جو لڑکیوں کی تعلیم کوکفروالحاد خیال کرتے ہیں ۔ انھیں اس بات کا درد بھی نہیں ہوتا کہ پاکستان جس کے وسائل بہت کم ہیں، ان کم وسائل سے بننے والے تعلیمی ادارے اگر اس بے دردی سے تباہ وبرباد کردیے جائیں تو اس کا نقصان پوری قوم کو ہوتا ہے ۔

ضلع غذر،گلگت بلتستان کا وہ علاقہ ہے جہاں لڑکیوں کی تعلیم کا تناسب سارے پاکستان میں سب سے کم ہے۔ اس سے بہت پہلے بھی 2004 میں لڑکیوں کے 6اسکول جلادیے گئے تھے اور پھر 2011سے 2015 کے دوران اس علاقے میں کئی اسکول تباہ و برباد کردیے گئے۔

ایک غیر سرکاری ادارے الف اعلان کے مطابق ضلع دیامیر میں 244 سرکاری اسکول ہیں جن میں سے 83 فی صد پرائمری تعلیم دے رہے ہیں۔ 106مڈل اسکول ہیں جب کہ 6فی صد ہائی اسکول ہیں۔ سارے ضلع میں کوئی ہائیر سکینڈری اسکول نہیں ہے ۔ ان 244سرکاری اسکولوں میں سے 156لڑکوں کے لیے اور 88 لڑکیوں کے لیے مختص ہیں۔ ضلع میں 16,800طلبہ ہیں جن میں لڑکیوں کی تعداد صرف 3,479 ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیجیے کہ وہ تعلیم حاصل کرنے والوں کا صرف 20 فی صد ہیں۔

چترال ، گلگت ، بلتستان اور سندھ کے دیہی علاقے ہوں یا خیبر پختونخوا اور سرائیکی پٹی کے علاقے،ان میں سے عموماً جگہوں پر لڑکیوں کی تعلیم کا احوال بہت درد ناک ہے ، تاہم لڑکوں کا حال بھی کچھ بہت بہتر نہیں ۔ بہ طور خاص وہ لڑکے جنھیں ان کے والدین غربت کے سبب مدرسوں میں داخل کرا دیتے ہیں۔ وہ اپنے ان بچوں کو جنت میں جانے کا وسیلہ خیال کرتے ہیں اور بیشتر ان مدرسوں میں پلٹ کر ان کا احوال پوچھنے نہیں جاتے جہاں انھوں نے اپنے جگرکے ٹکڑوں کو ''بھرتی'' کرایا تھا ۔ ان نام نہاد تعلیمی اداروں میں بچوں سے عموماً جس قدر ناروا سلوک ہوتا ہے ، اس کی تفصیل جان کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

اب سے دس بارہ برس یا شاید اس سے بھی پہلے کی بات ہے جب ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اپنی سالانہ رپورٹ کے سرورق پر ان بچوں کی تصویر شایع کی تھی جن میں وہ زنجیروں سے بندھے ہوئے تھے۔ ان بچوں کے ساتھ کس قدر ظالمانہ اور غیر انسانی سلوک ہوتا تھا،اس کی تفصیل نے لوگوں کے دل دہلا دیے تھے۔ حکومت سے مطالبہ ہوا تھا کہ ایسے مدارس کے بارے میں تحقیقات کی جائے اور وہاں قید بچوں کوآزاد کرایا جائے۔ دوسری طرف ان مدرسوں کے حامی تھے جنہوں نے اس رپورٹ اور ان تصویروں پر شدید احتجاج کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ دراصل کچھ مغرب زدہ اور امریکا پرست افراد کا پروپیگنڈا ہے جو نہیں چاہتے کہ ہمارے بچے دین کی فیوض و برکات سے فیضیاب ہوں ۔ جیسا کہ ہمارے یہاں کا معمول ہے ، دونوں طرف سے شور شرابہ ہوا اور پھر یہ معاملہ رفت گزشت ہوا۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ لڑکوں کی وہ تعلیم جو انھیں بعض مدارس میں دی جاتی ہے، وہ ان کے دل میں گداز پیدا کرنے کے بجائے انھیں سخت گیر بناتی ہے ۔ آپ بید سے کسی بچے کی کھال ادھیڑ دیں گے ۔ سبق یاد نہ کرنے پر اسے مرغا بناکرگھنٹوں دھوپ میں کھڑا رکھیں گے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ جسمانی اذیتیں اس کی عزت نفس کو مجروح نہ کریں اور اسے ایک نرم دل انسان بنائیں ۔

لڑکیوں کے اسکول ہوں یا لڑکوں کے، وہ تعلیم پھیلانے کا دوسرا نام ہیں۔ان کی تعمیر پر لاکھوں اور بعض حالات میں کروڑوں روپے صرف ہوتے ہیں ۔ ایسے میں انھیں آگ لگا دینا یا بارود سے اڑا دینا ، سماجی اور اخلاقی جرم کے زمرے میں آتا ہے ۔ اس افسوسناک واقعے کی ترغیب دینے والوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ کس طور اپنی عاقبت خراب کر رہے ہیں اور دنیا میں بھی ان بچوں اور بچیوں کی ناپسندیدگی کا نشانہ بن رہے ہیں جن کی مستقبل کی تمام امیدیں تعلیم سے وابستہ ہیں ۔
Load Next Story