کرپشن کیسے ختم ہوگی
بناوٹ اور دکھاؤے کی وجہ سے آج ہم کرپشن کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔
یہ لفظ اس ملک کی تاریخ میں نمایاں حروف سے لکھا جائے گا،کیونکہ یہ واحد لفظ ہے جو لاکھوں مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ دیکھا جائے تو اس کا مطلب : جھوٹ، بے ایمانی،دغا، دوغلاپن اور دھوکا ہے۔ دو طرح کی کرپشن کی جاتی ہے۔ ایک مادی طور پر جیسے رشوت، ملاوٹ ، ذخیرہ اندوزی ، چوری یا ڈاکا زنی وغیرہ وغیرہ۔
کرپشن کی دوسری قسم اخلاقی کہلاتی ہے۔ جس میں رویوں واحساس کی بے ایمانی شامل ہوتی ہے۔ روزمرہ کے بے ضرر جھوٹ ، غلط بیانی، غیبت ، تمسخر اور دوغلاپن وغیرہ اس کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ایک استاد کلاس نہیں لیتا یہ بھی بے ایمانی ہے۔ شاگرد کی امتحان میں نقل بھی دھوکے کی ایک قسم ہے جو وہ اساتذہ اور والدین کو دیتے ہیں۔
بدعنوانی دوسرے لفظوں میں حقدارکی حق تلفی ہے۔ جس کا براہ راست تعلق رشوت، دکھاؤے، بناوٹ اور پرتعیش زندگی سے ہے ۔ رشوت کی کئی قسمیں ہیں ۔
جس میں تحفے تحائف بھی شامل ہوتے ہیں۔ مثال ایک شعبے کی سربراہ ماتحت خواتین کو کپڑے کی برانڈ اورکوڈ نمبر بتاکر کپڑے منگوایا کرتی تھیں۔ انھوں نے پاکستان کی مہنگی برانڈزکے کپڑے نہ فقط خود پہنے بلکہ پردیس میں مقیم رشتے داروں کو بھجوائے ، لیکن مجال ہے جو کسی ماتحت نے آواز اٹھائی ہو۔ سب روتے مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق یہ فرمائشیں پوری کرتے رہے ۔ حالانکہ انھیں علم تھا کہ یہ ایک منفی رویہ ہے اور وہ محترمہ تمام تر مراعات سمیٹ کر ریٹائرمنٹ کے بعد بیرون ملک چلی گئیں ۔
اگر سرکاری افسر عمرے یا حج سے واپس آتے ہیں تو اکثر اسٹاف انھیں بیش بہا تحائف پیش کرتے ہیں۔ خواتین کو سونے کے زیورات تک تحفے کے طور پر دیے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں سرکاری افسران کے ملازم ،گھروں پر بھی کام کرتے ہیں ۔ آپ کسی بڑے عہدے پر براجمان ہیں جو چاہے کریں۔کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوگی۔ایک ادارے کے حسین درخت کٹ گئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ان کی بیٹی کے فرنیچر بننے میں کام آگئے۔ ہم کتنی دورکا سوچتے ہیں۔
میری دوست کے شوہرکئی بار جیل جاچکے ہیں نیب کے مقدمات کو بھگتاتے ہوئے اور بیگم کھڑے کھڑے لاکھوں کی شاپنگ کرتی ہیں ۔ جیل سے واپس آکر کلف والے سوٹ میں مسکراتے ہوئے تصویر نکلوانا نہیں بھولتے جو سوشل میڈیا پر خراج تحسین وصول کرتی نظر آتی ہے ۔
اکثر فرماتے ہیں اتنا کما لیا کہ چالیس نسلیں گھر بیٹھے گذارا کرسکتی ہیں ۔ آپ نے زندگی میں اولاد کو تو وقت نہیں دیا مگر چالیس نسلوں کا مستقبل محفوظ کر دیا ۔ اس طرح کی حکمت عملی جوڑنے میں ہم تمام اقوام سے سبقت لے جاچکے ہیں ۔ بڑا سا گھر بنانے پر ساری زندگی لگا دیتے ہیں ۔ پرگھر میں رہنا نصیب نہیں ہوتا۔ نصیب چھے سات گزکی زمین آتی ہے ۔ بچوں کو قرضہ لے کر باہر بھیجتے ہیں اور وہ لوٹ کر واپس نہیں آتے ۔ دکھاؤے کی خاطر اتنے پاپڑ بیلتے ہیں کہ بڑھاپا محتاجی میں گزر جاتا ہے۔ ساری زندگی جھوٹ بولتے جسم کے خلیے تباہ ہوجاتے ہیں ۔
بڑے لوگ پروٹوکول میں سرخرو رہتے ہیں اور چھوٹے لوگ جینے کی خواہش میں فقط حسرتیں پالتے ہیں۔ یورپ میں چھوٹے بڑے کا کوئی تصور نہیں ہوتا ، لوئر کلاس یا اپر کلاس نہیں کہا جاتا ۔ البتہ لو انکم، مڈل انکم یا ہائی انکم آپ کے سماجی رتبے کا تعین کرتی ہے ، مگر یہاں چھوٹے لوگ خسارے میں رہتے ہیں ۔
حکومت کے اعلیٰ افسران کا پروٹوکول دیکھیے ۔ ہرضیافت میںکئی اقسام کے کھانے، جسٹن ٹروڈو سے کچھ نہیں سیکھا۔ کینیڈا کے یہ نوجوان وزیراعظم سادگی اور رواداری میں مثال بن چکے ہیں ۔ جن کے لیے کہا جاتا ہے کہ مذہبی رواداری کی بات کرنے والے یہودی لابی سے ملے ہوئے ہیں ۔ کینیڈا کا ہر وزیر اپنے شعبے کا اعلی ڈگری یافتہ پروفیشنل ہے ۔ ڈاکٹر ہے تو وزیر صحت ، معاشی امور سے تعلق ہے تو معاشیات میں پی اچ ڈی ، ماحولیات کا منسٹر ہے تو اپنے شعبے پر عبور حاصل ہے اور جن کا تعلق اس شعبے سے نہیں وہ اس موضوع کا مکمل احاطہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
لیکن ہم نے کرپشن میں اچھا خاصا نام کمایا ہے۔ اسی شعبے میں کمال کی مہارت رکھتے ہیں ۔
لیکن اس حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ملک کے ہوائی اڈوں پر بااثر شخصیات کو خصوصی توجہ نہیں دی جائے گی۔گزشتہ حکومتوں کے یہ دعوے پایہ تکمیل تک نہ پہنچ پائے مگر اس بار ہدایات سخت قسم کی ہیں ۔ علاوہ ازیں ٹیکس کی چوری، منی لانڈرنگ و دیگر ناجائز طریقے سے حاصل کردہ اربوں ڈالرزکی رقوم جو دوسرے ملکوں کے بینک اکاؤنٹس میں خفیہ طور پر محفوظ کرلی گئی ہے، اس کا بھی کھوج لگایا جائے گا۔ سرکاری کھانوں میں محدود ڈشزہوا کریں گی ۔
آپ ڈشزکتنی محدود کیوں نہ کرلیں مگر ہمارے کھانے کا جنون عروج پر رہے گا۔کہا جاتا ہے اگر انسان کو سمجھنا ہو تو اسے کھاتے ہوئے دیکھوکہ کھاتے ہوئے کس جانورکی جھلک اس میں آرہی ہے۔ آپ فوری طور پر اس کی فطرت سمجھ جائیں گے ۔ جانور خوش قسمت ہیں کہ ان میں انسانوں کی جھلک موجود نہیں ۔ مگر انسان کو جانور لفظ سے بڑی چڑ ہے ۔ شادیوں میں پہلے چار پانچ ڈشز ہوا کرتی تھیں اب پندرہ بیس ہوتی ہیں ۔ کپڑے اورکاسمیٹکس پر بہت لاگت آتی ہے ۔ درآمدات، ملک کے بجٹ پر بڑا بوجھ ہیں ، مگر ہمیں امپورٹیڈ چیزیں چاہیئیں ، اگر ہم معیاری چیزیں بنائیں تو یہ بوجھ کم ہوسکتاہے ۔
بناوٹ اور دکھاؤے کی وجہ سے آج ہم کرپشن کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔ اتنی پرآسائش زندگی بدعنوانیوں کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ جتنا ظاہری زندگی پر توجہ دیتے ہیں اتنی توجہ ذہن یا روح کو نکھارنے پر مرکوز رکھیں تو زندگی ترتیب کے دائرہ کار میں آسکتی ہے ۔