مائیکل پومپیو کا دورہ پاکستان
ہمیں آگے بڑھنے کے لیے موجودہ حالات اور حقائق کو سمجھنا ہوگا اس کے لیے ہمیں اگر دو قدم پیچھے ہٹنا بھی پڑے تو بات نہیں۔
امریکا کے سیکریٹری خارجہ مائیکل پومپیو پانچ ستمبرکو پاکستان آرہے ہیں۔ شاید پہلی مرتبہ ہوگا کہ یہاں نئی حکومت بنے ہوئے کچھ ہفتے ہی گزرے ہونگے کہ امریکا کی انتہائی اعلیٰ سطح قیادت بین الاقوامی امورکے حوالے سے اسلام آباد پہنچے گی۔
ایک ایسا لمحہ جب پاکستان کو اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کو خطرناک صورتحال سے نکالنے کے لیے ڈالر کی اشد ضرورت ہے اور جس کے لیے ہمیں آئی ایم ایف جانا ہو گا جہاں امریکا کو ویٹو پاور حاصل ہے اور امریکا کے سیکریٹری خارجہ مائیکل پومپیو نے اسی حوالے سے آئی ایم ایف کو خبردار بھی کیا ہے۔
انھوں نے بذریعہ فون ہمارے نئے وزیر اعظم کو مبارکباد دی اور اس حوالے سے امریکا کے محکمہ وزارت خارجہ نے بیان جاری کیا اور اس بیان میں یہ کہا گیا کہ امریکا کے سیکریٹری خارجہ نے پاکستان کے نئے وزیراعظم کو مبارکباد بھی پیش کی اور ساتھ ہی پاکستان میں موجود دہشتگردوں کے ٹھکانوں کے خاتمے کے حوالے سے امریکا کی تشویش سے بھی آگاہ کیا۔
ہماری وزارت خارجہ اس بات سے متفق نہیں کہ مائیکل پومپیو نے نئے وزیراعظم کو مبارکباد کے ساتھ اس بات سے بھی آگاہ کیا اور اس کی تردید بھی کی گئی۔ امریکا کی وزارت خارجہ کو پیغام بھی دیا گیا کہ اس بیان کو درست کیا جائے۔
بہرحال مائیکل پومپیوکا دورہ اسلام آباد بہت اہم ہے۔ اس دورے سے ہمیں یہ جانکاری حاصل ہوگی کہ مستقبل میں امریکا کی اس دور حکومت کی کیا engagment ہونگی کیونکہ ہندوستان میں ٹرمپ حکومت کی بہت سی engagment ہیں۔think tank گروپس جو واشنگٹن میں لابنگ کرتے ہیں۔ ہم اس حوالے سے بھی بہت کمزور ہیں اور چند طاقتور پاکستانی جووہاں موجود ہیں اور جن کی امریکا کیا ہم اداروں میں سنی جاتی ہے وہ کم ازکم خان صاحب کی حکومت کے حمایتی نہیں لیکن کیا اس سے یہ سمجھا جائے کہ عمران خان سے دشمنی کو پاکستان دشمنی تک لایا جائے؟
امریکا کے وزیرخارجہ جیسے ہی پاکستان سے نکلیں گے، چین کے وزیرخارجہ پاکستان تشریف لاچکے ہونگے اور ان کے جانے کے فورأ بعد ایران کے وزیرخارجہ دورہ کرینگے پھر جاپان کے وزیرخارجہ پاکستان آئیں گے۔ جاپان کے ساتھ ہمارے گہرے تعلقات ہیں،ایسٹ ایشیا میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ سے جاپان خائف ہے اور امریکا کا اتحادی ہے۔
جاپان کے ہندوستان کے ساتھ بھی اچھے مراسم ہیں۔ ایران اس وقت مشکل حالات سے گزر رہا ہے۔ چالیس سالہ مذہبی اجارہ داری نے ایران کی عوام میں بے چینی کردی ہے اور ایران مشرق وسطیٰ کی سیاست میں امریکی مفادات سے براہ راست ٹکراؤ میں ہے اور ایران کی معیشت اس قدر خستہ حال کہ صدر ٹرمپ کے ایک ٹویٹ نے ان کی کرنسی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
ایران بین الاقوامی کمیونٹی میں اپنی ماہیت کے اعتبار سے نارتھ کوریا نما ایک ملک ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ایران کے پاس پٹرول و گیس کے کثیر ذخائرہیں اور تاریخی لحاظ سے تہذیبی ملک بھی ہے جسکے اندراتنی طاقت ہے کہ وہ دوبارہ دنیا کی ایک ماڈرن ریاست کی حیثیت سے ابھرسکتا ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ ہمارے تعلقات بہت گہرے ہیں۔ایران اور سعودی عرب کے تعلقات آپس میں کشیدہ رہے، جس کا اثر براہ راست ایران اور پاکستان کے تعلقات پر بھی ہوتا رہا ہے۔
دوسری طرف امریکا اب سپر پاورکی حیثیت میں نہیں رہا۔ وہ چین کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ سے پریشان ہے۔ وہ چین کو روکنا چاہتا ہے، چین کی بڑھتی ہوئی طاقت اس کی معیشت ہے جو امریکا کو بھی جی ڈی پی کے اعتبار سے 2030ء تک پیچھے چھوڑ دیگا اگر اس کی معیشت اسی طرح بڑھتی رہی جس طرح گزشتہ تیس سال سے بڑھ رہی ہے۔ چین کے پاس اس وقت 3000 ارب ڈالر سے زیادہ بیرونی ذخائر ہیں اور وہ ان میں سے1000 ارب ڈالر چین One belt one Road (OBOR) کے میگا پروجیکٹس جسکی دنیا کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی اس میں انویسٹ کرنا چاہتا ہے۔
سی پیک بھی اسی کا ایک اہم حصہ ہے اور اس پروجیکٹس سے پاکستان کی معاشی بہتری کے لیے راہیں کھلتی ہیں لیکن کسی حد تک اس پروجیکٹ میں transparency نہیں۔ یہ جو اتنے بڑے پروجیکٹ پاکستان میں آرہے ہیں وہ چین کے بینکوں سے قرضوں پر لیے جا رہے ہیں اور ان قرضوں کا بوجھ پاکستان کے کندھوں پر ہے جوکہ ہمیں اتارنے ہونگے۔
یہ تمام پروجیکٹ over invoiced ہیں، بینکوں کے شرائط اور سود کی شرح زیادہ ہے وہاں سے جو انویسٹر پاکستان آرہے ہیں ان کی پوزیشن چین کی مارکیٹ میں کچھ زیادہ اچھی نہیں جانی جاتی۔ ملائیشیا نے چین کے بائیس ارب ڈالر کے پروجیکٹ کینسل کر دیے ہیں، سینٹرل ایشیا اور سری لنکا جیسے ملک جب چین کے قرضے نہ اتار سکے تو انھوں نے اپنے ملک کی زمین کو گروی رکھا۔ بین الاقوامی بینک کی guarantees بہت خطرناک ہو تی ہیں کیونکہ ملک default کرنے لگتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے یہ صورتحال یونان کی بھی تھی اور لاطینی امریکا میں وینزیلا کی بھی۔ ہمارا ملک بھی اسے دہانے پر ہے۔
امریکا اور چین کے درمیان تجارتی جنگ شروع ہوچکی ہے۔ چین کے پاکستان میں بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کو امریکا روکنا چاہتا ہے۔ افغانستان کے مسائل پاکستان دوستی کے بغیر حل نہیں ہوسکتے اور ہندوستان کے لیے مسئلہ کشمیر پیچیدہ ہوتا جارہا ہے جسکی ایک وجہ پاکستان اور ہندوستان کے کشیدہ تعلقات ہیں اور پاکستان کے اندر موجود انتہا پرست قوتیں یہ چاہتی ہیں کہ پاکستان کے تعلقات امریکا کے ساتھ کشیدہ ہی رہیں تاکہ وہ اپنے ایجنڈے کو بہتر طریقے سے آگے بڑھا سکیں۔ ان حالات کا اثر افغانستان سے لے کر کشمیر تک پڑیگا اس لیے نہ یہ پاکستان کے حق میں ہے کہ امریکا سے تعلقات کشیدہ رہیں اور نہ یہ امریکا کے حق میں بہتر ہے کہ وہ پاکستان کو دیوار سے لگائے۔
اس بنتی بگڑتی بین الاقوامی صورتحال میں جہاں دنیا کا نظام نہ unipolar ہے نہ bipolar ہے اور نہ multipolar ہے۔یہ تمام phrases کلاسیکل ہیں اور اب ثانوی حیثیت رکھتی ہیں جب کہ اس دنیاوی نظام کی حقیقت بہت آگے نکل چکی ہے اور نہ ہی یہ نظام فوکو ھاما والا end of history ہے ۔ اب ریاستوں کے مختلف مفادات اور زاویے ہیں۔ اس وقت دنیا میں جمہوریت کو جیسے پھپوندی لگ چکی ہے۔اس وقت دنیا کو بہت بڑے بحرانوں کا سامنا ہے اس میں ماحولیاتی بحران سب سے پیچیدہ ہے۔ حال ہی میں شام میں پیدا ہونے والی صورتحال نے پوری دنیا کو لرزہ دیا جسکی وجہ سے بہت بڑی ہجرت ہوئی اور اسی طرح ماحولیاتی بحرانوں کی وجہ سے بھی ہجرتیں ہوں گی۔
جس طرح ہٹلر اور میسولینی اپنی قوم کو ڈرا کر populist بنے اسی طرح آج کی لیڈرشپ بھی اسی ٹکراؤ کے ماحول کو ہتھکنڈا بنا کر populist بن رہی ہے۔آج دنیا کے لیڈرشپ بہت ہی bankrupt ہے کیونکہ right wing populist لیڈرشپ کے پاس کسی مسئلے کا کوئی ٹھوس حل موجود نہیں ہوتا۔
خان صاحب کو اس وقت اس بات سے غرض ہونی چاہیے کہ ایک وسیع تناظر میں پاکستان کے مفادات کو مد نظر رکھیں۔ہمیں امریکا اور چین کے تعلقات میں ایک اعتدال لانا ہوگا اور امریکا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ پاکستان کوکیا مسائل درپیش ہیں ۔دوسری طرف بطور ایک ذمے دار ملک world community کے اندر یہ باور کروانا ہوگا کہ ہم ان کے ساتھ ایک پیج پر ہیں۔ اگر پاکستان کو قرضہ لینا پڑا تو آئی ایم ایف سے لینا چاہیے، برعکس اس کے کہ ہم کسی دوست ملک کی طرف جائیں جن کے شرائط و ضوابط کا ہمیں کوئی علم نہ ہو۔
جو کل تک ہماری expansionist پالیسی تھی جو پالیسی اپنے آپ کو دھوکے میں رکھنے کے برابر تھی اور یہ انھی پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارا ملک اس مقام پرکھڑا ہے۔اس وقت ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں، ماسوائے کہ ہم تمام انویسٹمنٹ انسانی وسائل کی مد میں کریں اور اداروں کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنائیں۔ میں سمجھتا ہوں اس نئی حکومت کو جس چیلنج کا سامنا ہے وہ یہ ہے کہ امریکا سے تعلقات بہتر بنائے جائیں کیونکہ اس کا براہ راست تعلق آئی ایم ایف کے فنڈز سے ہے جو ہمیں لینا ہے۔ ہمیں آگے بڑھنے کے لیے موجودہ حالات اور حقائق کو سمجھنا ہوگا اس کے لیے ہمیں اگر دو قدم پیچھے ہٹنا بھی پڑے تو بات نہیں کیونکہ آگے بڑھنے کے لیے دو قدم پیچھے ہٹنا ہی بہتر ہے۔
ایک ایسا لمحہ جب پاکستان کو اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کو خطرناک صورتحال سے نکالنے کے لیے ڈالر کی اشد ضرورت ہے اور جس کے لیے ہمیں آئی ایم ایف جانا ہو گا جہاں امریکا کو ویٹو پاور حاصل ہے اور امریکا کے سیکریٹری خارجہ مائیکل پومپیو نے اسی حوالے سے آئی ایم ایف کو خبردار بھی کیا ہے۔
انھوں نے بذریعہ فون ہمارے نئے وزیر اعظم کو مبارکباد دی اور اس حوالے سے امریکا کے محکمہ وزارت خارجہ نے بیان جاری کیا اور اس بیان میں یہ کہا گیا کہ امریکا کے سیکریٹری خارجہ نے پاکستان کے نئے وزیراعظم کو مبارکباد بھی پیش کی اور ساتھ ہی پاکستان میں موجود دہشتگردوں کے ٹھکانوں کے خاتمے کے حوالے سے امریکا کی تشویش سے بھی آگاہ کیا۔
ہماری وزارت خارجہ اس بات سے متفق نہیں کہ مائیکل پومپیو نے نئے وزیراعظم کو مبارکباد کے ساتھ اس بات سے بھی آگاہ کیا اور اس کی تردید بھی کی گئی۔ امریکا کی وزارت خارجہ کو پیغام بھی دیا گیا کہ اس بیان کو درست کیا جائے۔
بہرحال مائیکل پومپیوکا دورہ اسلام آباد بہت اہم ہے۔ اس دورے سے ہمیں یہ جانکاری حاصل ہوگی کہ مستقبل میں امریکا کی اس دور حکومت کی کیا engagment ہونگی کیونکہ ہندوستان میں ٹرمپ حکومت کی بہت سی engagment ہیں۔think tank گروپس جو واشنگٹن میں لابنگ کرتے ہیں۔ ہم اس حوالے سے بھی بہت کمزور ہیں اور چند طاقتور پاکستانی جووہاں موجود ہیں اور جن کی امریکا کیا ہم اداروں میں سنی جاتی ہے وہ کم ازکم خان صاحب کی حکومت کے حمایتی نہیں لیکن کیا اس سے یہ سمجھا جائے کہ عمران خان سے دشمنی کو پاکستان دشمنی تک لایا جائے؟
امریکا کے وزیرخارجہ جیسے ہی پاکستان سے نکلیں گے، چین کے وزیرخارجہ پاکستان تشریف لاچکے ہونگے اور ان کے جانے کے فورأ بعد ایران کے وزیرخارجہ دورہ کرینگے پھر جاپان کے وزیرخارجہ پاکستان آئیں گے۔ جاپان کے ساتھ ہمارے گہرے تعلقات ہیں،ایسٹ ایشیا میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ سے جاپان خائف ہے اور امریکا کا اتحادی ہے۔
جاپان کے ہندوستان کے ساتھ بھی اچھے مراسم ہیں۔ ایران اس وقت مشکل حالات سے گزر رہا ہے۔ چالیس سالہ مذہبی اجارہ داری نے ایران کی عوام میں بے چینی کردی ہے اور ایران مشرق وسطیٰ کی سیاست میں امریکی مفادات سے براہ راست ٹکراؤ میں ہے اور ایران کی معیشت اس قدر خستہ حال کہ صدر ٹرمپ کے ایک ٹویٹ نے ان کی کرنسی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
ایران بین الاقوامی کمیونٹی میں اپنی ماہیت کے اعتبار سے نارتھ کوریا نما ایک ملک ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ایران کے پاس پٹرول و گیس کے کثیر ذخائرہیں اور تاریخی لحاظ سے تہذیبی ملک بھی ہے جسکے اندراتنی طاقت ہے کہ وہ دوبارہ دنیا کی ایک ماڈرن ریاست کی حیثیت سے ابھرسکتا ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ ہمارے تعلقات بہت گہرے ہیں۔ایران اور سعودی عرب کے تعلقات آپس میں کشیدہ رہے، جس کا اثر براہ راست ایران اور پاکستان کے تعلقات پر بھی ہوتا رہا ہے۔
دوسری طرف امریکا اب سپر پاورکی حیثیت میں نہیں رہا۔ وہ چین کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ سے پریشان ہے۔ وہ چین کو روکنا چاہتا ہے، چین کی بڑھتی ہوئی طاقت اس کی معیشت ہے جو امریکا کو بھی جی ڈی پی کے اعتبار سے 2030ء تک پیچھے چھوڑ دیگا اگر اس کی معیشت اسی طرح بڑھتی رہی جس طرح گزشتہ تیس سال سے بڑھ رہی ہے۔ چین کے پاس اس وقت 3000 ارب ڈالر سے زیادہ بیرونی ذخائر ہیں اور وہ ان میں سے1000 ارب ڈالر چین One belt one Road (OBOR) کے میگا پروجیکٹس جسکی دنیا کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی اس میں انویسٹ کرنا چاہتا ہے۔
سی پیک بھی اسی کا ایک اہم حصہ ہے اور اس پروجیکٹس سے پاکستان کی معاشی بہتری کے لیے راہیں کھلتی ہیں لیکن کسی حد تک اس پروجیکٹ میں transparency نہیں۔ یہ جو اتنے بڑے پروجیکٹ پاکستان میں آرہے ہیں وہ چین کے بینکوں سے قرضوں پر لیے جا رہے ہیں اور ان قرضوں کا بوجھ پاکستان کے کندھوں پر ہے جوکہ ہمیں اتارنے ہونگے۔
یہ تمام پروجیکٹ over invoiced ہیں، بینکوں کے شرائط اور سود کی شرح زیادہ ہے وہاں سے جو انویسٹر پاکستان آرہے ہیں ان کی پوزیشن چین کی مارکیٹ میں کچھ زیادہ اچھی نہیں جانی جاتی۔ ملائیشیا نے چین کے بائیس ارب ڈالر کے پروجیکٹ کینسل کر دیے ہیں، سینٹرل ایشیا اور سری لنکا جیسے ملک جب چین کے قرضے نہ اتار سکے تو انھوں نے اپنے ملک کی زمین کو گروی رکھا۔ بین الاقوامی بینک کی guarantees بہت خطرناک ہو تی ہیں کیونکہ ملک default کرنے لگتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے یہ صورتحال یونان کی بھی تھی اور لاطینی امریکا میں وینزیلا کی بھی۔ ہمارا ملک بھی اسے دہانے پر ہے۔
امریکا اور چین کے درمیان تجارتی جنگ شروع ہوچکی ہے۔ چین کے پاکستان میں بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کو امریکا روکنا چاہتا ہے۔ افغانستان کے مسائل پاکستان دوستی کے بغیر حل نہیں ہوسکتے اور ہندوستان کے لیے مسئلہ کشمیر پیچیدہ ہوتا جارہا ہے جسکی ایک وجہ پاکستان اور ہندوستان کے کشیدہ تعلقات ہیں اور پاکستان کے اندر موجود انتہا پرست قوتیں یہ چاہتی ہیں کہ پاکستان کے تعلقات امریکا کے ساتھ کشیدہ ہی رہیں تاکہ وہ اپنے ایجنڈے کو بہتر طریقے سے آگے بڑھا سکیں۔ ان حالات کا اثر افغانستان سے لے کر کشمیر تک پڑیگا اس لیے نہ یہ پاکستان کے حق میں ہے کہ امریکا سے تعلقات کشیدہ رہیں اور نہ یہ امریکا کے حق میں بہتر ہے کہ وہ پاکستان کو دیوار سے لگائے۔
اس بنتی بگڑتی بین الاقوامی صورتحال میں جہاں دنیا کا نظام نہ unipolar ہے نہ bipolar ہے اور نہ multipolar ہے۔یہ تمام phrases کلاسیکل ہیں اور اب ثانوی حیثیت رکھتی ہیں جب کہ اس دنیاوی نظام کی حقیقت بہت آگے نکل چکی ہے اور نہ ہی یہ نظام فوکو ھاما والا end of history ہے ۔ اب ریاستوں کے مختلف مفادات اور زاویے ہیں۔ اس وقت دنیا میں جمہوریت کو جیسے پھپوندی لگ چکی ہے۔اس وقت دنیا کو بہت بڑے بحرانوں کا سامنا ہے اس میں ماحولیاتی بحران سب سے پیچیدہ ہے۔ حال ہی میں شام میں پیدا ہونے والی صورتحال نے پوری دنیا کو لرزہ دیا جسکی وجہ سے بہت بڑی ہجرت ہوئی اور اسی طرح ماحولیاتی بحرانوں کی وجہ سے بھی ہجرتیں ہوں گی۔
جس طرح ہٹلر اور میسولینی اپنی قوم کو ڈرا کر populist بنے اسی طرح آج کی لیڈرشپ بھی اسی ٹکراؤ کے ماحول کو ہتھکنڈا بنا کر populist بن رہی ہے۔آج دنیا کے لیڈرشپ بہت ہی bankrupt ہے کیونکہ right wing populist لیڈرشپ کے پاس کسی مسئلے کا کوئی ٹھوس حل موجود نہیں ہوتا۔
خان صاحب کو اس وقت اس بات سے غرض ہونی چاہیے کہ ایک وسیع تناظر میں پاکستان کے مفادات کو مد نظر رکھیں۔ہمیں امریکا اور چین کے تعلقات میں ایک اعتدال لانا ہوگا اور امریکا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ پاکستان کوکیا مسائل درپیش ہیں ۔دوسری طرف بطور ایک ذمے دار ملک world community کے اندر یہ باور کروانا ہوگا کہ ہم ان کے ساتھ ایک پیج پر ہیں۔ اگر پاکستان کو قرضہ لینا پڑا تو آئی ایم ایف سے لینا چاہیے، برعکس اس کے کہ ہم کسی دوست ملک کی طرف جائیں جن کے شرائط و ضوابط کا ہمیں کوئی علم نہ ہو۔
جو کل تک ہماری expansionist پالیسی تھی جو پالیسی اپنے آپ کو دھوکے میں رکھنے کے برابر تھی اور یہ انھی پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارا ملک اس مقام پرکھڑا ہے۔اس وقت ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں، ماسوائے کہ ہم تمام انویسٹمنٹ انسانی وسائل کی مد میں کریں اور اداروں کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنائیں۔ میں سمجھتا ہوں اس نئی حکومت کو جس چیلنج کا سامنا ہے وہ یہ ہے کہ امریکا سے تعلقات بہتر بنائے جائیں کیونکہ اس کا براہ راست تعلق آئی ایم ایف کے فنڈز سے ہے جو ہمیں لینا ہے۔ ہمیں آگے بڑھنے کے لیے موجودہ حالات اور حقائق کو سمجھنا ہوگا اس کے لیے ہمیں اگر دو قدم پیچھے ہٹنا بھی پڑے تو بات نہیں کیونکہ آگے بڑھنے کے لیے دو قدم پیچھے ہٹنا ہی بہتر ہے۔