موسمیاتی تبدیلیاں اور نئی حکومت

ایسا ہرگز نہیں تھا کہ ترقی یافتہ ملکوں کے طاقتور حلقوں کو اصل حقیقت کا ادراک نہیں تھا۔


[email protected]

سائنسدان اب اس بات پر متفق ہیں کہ انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں کرہ ارض کی آب وہوا تبدیل ہوئی۔ دنیا ایک طویل عرصے تک اس حقیقت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھی کہ کرہ ارض کا موسم بدل رہا ہے۔ زہریلی گیسوں کے اخراج اور آلودگیوں کے باعث عالمی حدت میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس موضوع پر طویل عرصے تک تنازعہ جاری رہا ۔ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی اس مسئلے پر توجہ نہیں دی گئی اور جب بھی ماحولیاتی ماہرین، تنظیموں اور اداروں کی جانب سے موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے کی طرف توجہ مبذول کروانے کی کوشش کی گئی تو سیاستدانوں اور حکمرانوں نے اسے کوئی اہمیت نہیں دی۔

ایسا ہرگز نہیں تھا کہ ترقی یافتہ ملکوں کے طاقتور حلقوں کو اصل حقیقت کا ادراک نہیں تھا۔ صورتحال یہ تھی کہ انھیں حقیقت سے پوری طرح آگاہی تھی لیکن وہ ایسے طبقات کے مفادات کی نمایندگی کرتے تھے جن کی کاروباری سرگرمیوں کی وجہ سے یہ مظہر پیدا ہوا تھا۔ صنعت و حرفت، نقل و حمل اور توانائی کے شعبے بالخصوص ماحول دشمن گیسوں کا اخراج کرتے ہیں۔

اس حوالے سے ان طبقات کے اربوں نہیں بلکہ سیکڑوں، کھربوں ڈالر کے مفادات وابستہ ہیں۔ پیداواری عمل، ذرایع، نقل وحمل اور بجلی کی پیداوار میں متبادل توانائی کے استعمال کے بغیر زہریلی گیسوں کے اخراج کو روکنا ممکن نہیں ہے،کوئی سیاسی یا حکمران جماعت ہنگامی یا جنگی بنیادوں پر متبادل توانائی کے استعمال کا ''خطرہ'' مول نہیں لے سکتی لہٰذا بہتر یہی سمجھا گیا کہ اس مسئلے کو اول تو قبول کرنے سے انکار کیا جائے اور جب تباہی سر پر آ جائے تو بعض اقدامات کے اعلانات کر دیے جائیں۔

آج صورتحال یہ ہے کہ کرہ ارض پر رونما ہونے والی ان تبدیلیوں کے نتیجے میں گرمی کی شدید لہر، شدید سردی، تیز اور غیر متوقع بارشیں، سمندری طوفان، خشک سالی، گلیشیرز کا پگھلاؤ، سیلاب، سطح سمندر میں اضافہ اور اس جیسے متعدد دیگر سنگین خطرات کا سامنا بلا تخصیص دنیا کی اقوام کر رہی ہیں۔ دنیا کے کئی معتبر ترین بین الاقوامی اداروں کی رپورٹوں کے مطابق ایشیائی ممالک ان تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونگے۔ مثال کے طور پر ایشیائی ترقیاتی بینک اور موسمیاتی تبدیلی کے انسٹیٹیوٹ جرمن پاٹسڈیم کی جانب سے جاری کی جانیوالی رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2050ء تک ایشیائی ممالک کو جن میں پاکستان بھی شامل ہے سیلابوں کی وجہ سے 50 ارب ڈالرکے نقصانات پہنچ سکتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق رواں صدی کے آخر تک موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات شدت اختیار کر لیں گے۔

ان ملکوں میں درجہ حرارت 8 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھنے کی پیشگوئی کرتے ہیں ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ نے پاکستان، تاجکستان، افغانستان اور شمالی چین کو سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ قرار دیا جب کہ پاکستان اور افغانستان میں بارشیں 20 سے50 فیصد تک کم ہونے کی پیش گوئی بھی کی، رپورٹ میں واضح طور پر اقتصادی ترقی کی راہ پر چلنے والے ایشیائی ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے کو متنبہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اگر ان ملکوں نے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے پر توجہ نہ دی تو اس کے سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کرتے ہوئے اقدامات اٹھا رہے ہیں تو دوسری جانب تیسری دنیا سے تعلق رکھنے والے ملکوں میں موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کا ایجنڈا ترجیحی مسائل میں جگہ نہیں بنا سکا ہے۔

اس وقت دنیا کے ہر ملک کی طرح ہمارے ملک کو بھی جن خطرات کا سامنا ہے ان میں قدرتی ماحول کی تباہی اور ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلی سرفہرست ہیں کوئی بھی حکومت اپنے سیاسی اور معاشی پروگرام کو اس وقت تک عملی جامہ نہیں پہنا سکتی جب تک وہ ان دونوں اہم ترین مسائل کے حل کے لیے جدوجہد نہ کرے۔ وجہ اس کی صاف ظاہرہے کہ ماحولیاتی تنزلی کے معاشی اثرات انتہائی بھیانک ہیں۔

پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کو اس مسئلے کی وجہ سے سالانہ اربوں ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی ہمارے لیے ایک خطرناک چیلنج بن چکی ہے۔ موسم تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ آپ یہ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ کب اورکس وقت کوئی موسمیاتی مظہر رونما ہونے والا ہے۔ ہیٹ ویو یعنی تپش کی شدید اور اچانک لہرکے بارے میں خیال آرائی ممکن نہیں۔ اب اس کی لپیٹ میں کینیڈا اور امریکا کے وہ شہر بھی آنے لگے ہیں جہاں انتہائی سخت سردی پڑتی تھی۔

اس افسوسناک حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ماحولیات کا تحفظ عام شہریوں سے لے کر ہماری اشرافیہ اور پالیسی ساز اداروں کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے لہٰذا اس مسئلے کی جانب کسی کی کوئی توجہ بھی نہیں ہے۔ پاکستان بالخصوص موسمیاتی تغیر سے شدید متاثر ہو رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں سیلاب، غیر معمولی بارشوں ، خشک سالی سمیت متعدد غیر معمولی موسمیاتی مظاہرکے باعث ملک کو اربوں ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ ایک ایسے ملک میں جسکی معیشت بحران میں ہے، جہاں بجٹ سازی کے لیے اندرونی وبیرونی ذرایع سے اربوں کا قرض اور امداد لینا پڑتی ہے اسے اگر موسمیاتی تبدیلی کے باعث مسلسل اربوں ڈالرکا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے تو ذرا سوچئے کہ کتنی بھیانک معاشی تباہی ہماری منتظر ہے۔

پاکستان اگر آج ایک مستحکم جمہوری نظام سے محروم ہے، معاشی نمو اور سماجی ترقی کے اشاریوں کے اعتبار سے جنوبی ایشیائی ملکوں سے پیچھے رہ گیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود ریاست کی ترجیح میں شامل نہیں ہے۔ روٹی،کپڑا، مکان، روزگار اور صحت تو دورکی بات پاکستان کے شہریوں کو پینے کا صاف پانی تک مہیا نہیں کیا جا سکا ہے۔

مذکورہ بالا حقائق سے ہم سب واقف ہیں اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ اس کا تدراک کس طرح ممکن ہے۔ موسمی تبدیلی، عالمی درجہ حرات میں اضافہ، قدرتی ماحول کی بربادی اور تیزی سے بڑھتی ہوئی ہر نوع کی آلودگی جیسے مسئلوں پر قابو پانا بالکل ممکن ہے لیکن ایسا ہونے کی راہ میں وہ مخصوص مفادات کے حامل طبقات اور عناصر حائل ہیں جو ان مسائل کے ذمے دار ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ یہ طبقات سیاست، معیشت اور ریاست کے کئی دیگر شعبوں پر حاوی ہیں اور وہ ایک بہتر اور ماحول دوست معاشی نظام کو عمل میں نہیں آنے دیتے۔ اس صورتحال کا مقابلہ صرف سیاسی عزم اور بصیرت سے ہی ممکن ہے۔

پاکستان میں ایک نئی حکومت قائم ہو چکی ہے۔ سیاسی مباحثے اور تنازعات اپنی جگہ لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں صورتحال کیا رنگ اختیار کرتی ہے اور نئی حکومت ملک کے اندر کس طرح ایسی تبدیلیاں عمل میں لاتی ہے جس سے معلوم ہو سکے کہ پاکستان بالخصوص موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے واقعی تبدیل ہو رہا ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔