مجسم سخاوت حضرت عثمان غنی ؓ

تفسیر خازن اور تفسیر معالم التنزیل میں ہے کہ آپؓ نے ساز و سامان کے ساتھ ایک ہزار اونٹ اس موقع پر پیش کیے تھے۔


تفسیر خازن اور تفسیر معالم التنزیل میں ہے کہ آپؓ نے ساز و سامان کے ساتھ ایک ہزار اونٹ اس موقع پر پیش کیے تھے۔ فوٹو:فائل

FRANCEVILLE: حضرت عثمان غنیؓ کے حق میں قرآن مجید کی آیات کریمہ نازل ہوئی ہیں۔ جنگ تبوک کا واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا جب مدینہ منورہ میں سخت قحط تھا اور عام مسلمان بہت زیادہ تنگی میں تھے، یہاں تک کہ درخت کی پتے کھا کر لوگ گزارہ کرتے تھے۔ اسی لیے اس جنگ کے لشکر کو جیش عُسرہ یعنی تنگ دستی کا لشکر کہا جاتا ہے۔

ترمذی شریف میں حضرت عبدالرحمٰن بن خباّبؓ سے روایت ہے ، کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اس وقت حاضر تھا، جب آپ ﷺ جیش عسُرہ کی مدد کے لیے لوگوں کو ترغیب دے رہے تھے۔ حضرت عثمان غنیؓ آپ ﷺ کا پُرجوش خطاب سن کر کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! میں سو اونٹ سامان کے ساتھ خدائے تعالیٰ کی راہ میں پیش کروں گا۔

اس کے بعد پھر حضور ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو سامان لشکر کے بارے میں ترغیب دی اور امداد کے لیے متوجہ فرمایا تو پھر حضرت عثمان غنیؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! میں دو سو اونٹ مع سازو سامان اللہ کی راہ میں نذر کروں گا، اس کے بعد پھر رسول کریم ﷺ نے سامان جنگ کی فراہمی کی طرف مسلمانوں کو رغبت دلائی، پھر حضرت عثمان غنی ؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! میں تین سو اونٹ سامان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں حاضر کروں گا۔ حدیث کے راوی حضرت عبدالرحمٰن بن خبابؓ فرماتے ہیں، میں نے دیکھا کہ حضور ﷺ منبر سے اُترتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے: ''یعنی ایک ہی جملے کو حضور سید عالم ﷺ نے دو بار فرمایا۔ اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ اب عثمان کو وہ عمل کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا جو اس کے بعد کریں گے۔

تفسیر خازن اور تفسیر معالم التنزیل میں ہے کہ آپؓ نے ساز و سامان کے ساتھ ایک ہزار اونٹ اس موقع پر پیش کیے تھے۔ حضرت عبدالرحمٰن ؓ بن سمرہ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان غنی ؓجیش عُسرہ کی تیاری کے زمانے میں ایک ہزار دینار اپنے کُرتے کی آستین میں بھر کر لائے (دینا ر ساڑھے چار ماشے سونے کا سکّہ ہوتا ہے ) ان دیناروں کو آپؓ نے رسول مقبول ﷺ کی گود میں ڈال دیا۔ راوی حدیث حضرت عبدالرحمٰنؓ بن سمرہ فرماتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ ان دیناروں کو اپنی گود میں اُلٹ پلٹ کر دیکھتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے: ''یعنی آج کے بعد عثمان کو ان کا کوئی عمل نقصان نہیں پہنچائے گا، سرکا ر اقدس ﷺ نے ان کے بارے میں اس جملے کو دوبارہ فرمایا۔ مطلب یہ ہے کہ فرض کرلیا جائے کہ اگر حضرت عثمان غنیؓ سے کوئی خطا واقع ہوتو آج کا ان کا یہ عمل ان کی خطا کے لیے کفارہ بن جائے گا۔ (مشکوٰۃ شریف )

تفسیر خازن اور تفسیر معالم التنزیل میں ہے کہ جب حضرت عثمان غنیؓ نے جیش عُسرہ کی اس طرح مد د فرمائی کہ ایک ہزار اونٹ سازوسامان کے ساتھ پیش فرمایا اور ایک ہزار دینار بھی چندہ دیا۔ اور حضرت عبد الرحمٰن بن عوف ؓ نے صدقے کے چار ہزار درہم بارگاہ رسالت ﷺ میں پیش کیے تو ان دونوں حضرات کے بارے میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔

مفہوم : ''یعنی جو لوگ کہ اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ پھر دینے کے بعد نہ احسان رکھتے ہیں اور نہ تکلیف دیتے ہیں، تو ان کا اجر و ثواب ان کے رب کے پاس ہے، اور نہ ان پر کو ئی خوف طاری ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔''

مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی نے بھی اپنی تفسیر خزائن العرفان میں تحریر فرمایا ہے کہ یہ آیت مبارکہ حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ کے حق میں نازل ہوئی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں