رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم کیا ہے

اگرچہ اس نئے نظام پر بیشتر سیاسی پارٹیوں کو تحفظات ہیں، لیکن اس کی افادیت پر کسی کو کوئی شبہ نہیں۔


Rana Naseem August 30, 2018
اگرچہ اس نئے نظام پر بیشتر سیاسی پارٹیوں کو تحفظات ہیں، لیکن اس کی افادیت پر کسی کو کوئی شبہ نہیں۔ فوٹو: فائل

ملکی تاریخ کے گیارہویں عام انتخابات میں جہاں بیلٹ پیپر کے لئے واٹر مارک کا استعمال، 21 ارب روپے کے اخراجات یا 1976ء کے بعد نئے الیکشن ایکٹ کا نفاذ پہلی بار ہوا وہاں الیکشن کے بروقت نتائج کے حصول کے لئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بھی کیا گیا، جسے آر ٹی ایس یعنی رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم (نتائج کی بروقت ترسیل) کہا جاتا ہے۔

اگرچہ اس نئے نظام پر بیشتر سیاسی پارٹیوں کو تحفظات ہیں، لیکن اس کی افادیت پر کسی کو کوئی شبہ نہیں۔ اس ایپلی کیشن کو بنانے کے لئے الیکشن کمشین آف پاکستان اور نادرا کے درمیان باقاعدہ ایک معاہدہ طے پایا۔ آر ٹی ایس کے معیار کو جانچنے کے لئے اسے این اے 4(پشاور) اور پی ایس 114(کراچی) کے ضمنی انتخابات میں استعمال بھی کیا گیا جس کے مثبت نتائج آنے پر پھر اس کے ذریعے عام انتخابات کے بروقت نتائج حاصل کرنے کی حکمت عملی طے کی گئی لیکن محدود ضمنی انتخابات میں کامیابی سے کام کرنے والا یہ سسٹم ملک بھر میں ہونے والے انتخابی نتائج کی بروقت ترسیل میں ناکام رہا یا جان بوجھ کر اسے ناکام کر دیا گیا؟ تاہم یہ ہمارا موضوع سخن نہیں، لیکن عام شہریوں کو آر ٹی ایس سے آگاہی ضروری ہے۔

الیکشن ایکٹ 2017ء کی رو سے انتخابی نتائج کے بروقت حصول، اشاعت، شفافیت اور سکیورٹی کے پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک جدید الیکٹرانک تکنیک کو استعمال میں لایا گیا، جسے رزلٹ مینجمنٹ سسٹم کہا جاتا ہے۔ رزلٹ مینجمنٹ سسٹم بنیادی طورپر ایک کمپیوٹر پروگرام ہے، جس کی انسٹالیشن ریٹرننگ آفسر کے دفتر میں رکھے کمپیوٹر میں کی جاتی ہے۔

یہ الیکٹرانک فارمز پر کام کرنے والا سسٹم ہے، جس میں ریٹرننگ افسر کو رپورٹ کرنے والے ڈیٹا انٹری آپریٹرز تمام معلومات درج کر سکتے ہیں، جیسے امیدواروں کے نام، رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد، پولنگ سٹیشن کا نام اور نمبر، ہر امیدوار کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد وغیرہ وغیرہ۔ اس کے بعد ٹھوس نتائج کے فارم رزلٹ مینجمنٹ سسٹم میں سکین کیے جاتے ہیں اور الیکش کمیشن کو بھیج دیے جاتے ہیں، جو پھر ان نتائج کو اپنی ویب سائٹ پر شائع کر دیتا ہے۔ رزلٹ مینجمنٹ سسٹم کی ایک اور خاص بات رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم ( انتخابی نتائج کی بروقت ترسیل کا نظام) یعنی آر ٹی ایس ہے، یہ وہ ذریعہ ہے، جس کے ذریعے تمام پولنگ سٹیشنز سے بروقت نتائج حاصل کئے جاتے ہیں۔

آر ٹی ایس ایک موبائل ایپلی کیشن ہے، جو ہر پولنگ سٹیشن کے پریزائیڈنگ آفیسر کے موبائل فون میں انسٹال کر دی جاتی ہے۔ پولنگ کے اختتام پر گنتی سے حاصل ہونے والے نتائج ایک فارم پر درج کئے جاتے ہیں، جسے فارم 45 کہا جاتا ہے۔ پریزائیڈنگ آفیسر اس فارم 45 کی تصویر بنا کر اسے آر ٹی ایس ایپ کے ذریعے براہ راست الیکشن کمیشن کو بھجوا دیتا ہے۔

آر ٹی ایس کے ذریعے نتائج بھجوانے کے نظام کو سمجھنے کے لئے وٹس ایپ کی مثال کچھ یوں دی جاسکتی ہے کہ آپ ایک تصویر بنائیں اور کسی دوسرے کو بھجوانے کے لئے وٹس ایپ پر اپ لوڈ کر دیں، جو چند سکینڈز یا منٹ میں متعلقہ شخص کے پاس پہنچ جائے گا، جو اسے اپنے ہاں ڈاؤن لوڈ کر لے گا، تاہم اس عمل کے لئے اہم ترین ضرورت انٹرنیٹ ہے، کیوں کہ اس کے بغیر آپ رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم میں کوئی چیز اپ لوڈ کر سکتے ہیں نہ ڈاؤن لوڈ، یعنی نتائج بھیج سکتے ہیں نہ وصول کر سکتے ہیں۔

بلاشبہ انتخابی اصلاحات کے اعتبار سے رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم ایک انقلابی اقدام تھا، لیکن افسوس! ہمارے متعلقہ اداروں کی کم علمی یا غفلت کے باعث اسے ناکامی سے دوچار ہونا پڑا۔

چیف الیکشن کمشنر سردار رضا خان نے موقف اپنایا ہے کہ نتائج کی فراہمی کے نظام یعنی آر ٹی ایس پر دباؤ کے باعث نتائج کے اعلان میں تاخیر ہوئی، تاہم اس سے انتخابی نتائج پر کوئی داغ نہیں لگا، لیکن انتخابات کی شفافیت اور انتخابی عمل پر نظر رکھنے والی غیرسرکاری تنظیم فافن نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ مذکورہ سسٹم کی ناکامی نے الیکشن کمیشن کے لیے ناخوش گوار صورت حال پیدا کر دی جس سے لمحے بھر کے لیے الیکشن کمیشن کی بہتری کی کوششوں کو ماند کر دیا۔

دوسری طرف آر ٹی ایس کے حوالے سے اہم ترین سوال یہ ہے کہ عام انتخابات کے دوران یہ کیوں ناکام ہوگیا؟ اس کی متعدد وجوہات ہو ہیں، لیکن ان تمام وجوہات کی ذمہ داری پھر بھی الیکشن کمیشن پر ہی عائد ہوتی ہے کہ اس نے متبادل انتظامات کیوں نہ کیا یا کیا۔

اس سسٹم کو اس نہج پر جانچا گیا کہ یہ ملک بھر سے آنے والے نتائج کا بوجھ برداشت کر سکے۔ اطلاعات کے مطابق انتخابات سے قبل کچھ ریٹرنگ آفیسرز آر ٹی ایس پر سنجیدہ نوعیت کے تحفظات کا اظہار کر چکے تھے بلکہ کچھ نے تو تحریری طور پر متعلقہ ادارے کو آگاہ بھی کیا تھا، لیکن ان کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔ آر ٹی ایس کی ناکامی کی ایک وجہ انٹرنیٹ کی عدم دستیابی ہو سکتی ہے، یعنی بعض دور دراز کے علاقوں میں قائم پولنگ سٹیشنز پر انٹرنیٹ کی عدم دستیابی یا پھر کمزور سگنلز کا مسئلہ درپیش ہو سکتا ہے۔

پھر انٹرنیٹ کی اچھی سہولت صرف پریزائیڈنگ آفسر کے پاس ہی نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کے مرکزی ڈیٹابیس پر بھی لازمی درکار ہوتی ہے، کیوںکہ ایک چیز جب پولنگ سٹیشن سے اپ لوڈ ہو گی تو وہ انٹرنیٹ کی اچھی کوالٹی کی بدولت ہی ڈیٹا بیس میں ڈاؤن لوڈ ہو گی۔ دوسرا ٹیکنالوجی ماہرین کے مطابق ایسا ممکن ہے کہ جب کسی ایپلی کیشن پر بہت زیادہ دباؤ ہوتا ہے، تو اس کے کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہو جاتی ہے، لہذا جب بھی کسی سسٹم پر مقررہ حد سے زیادہ دباؤ آئے گا وہ کام کرنا چھوڑ سکتا ہے۔

تیسرا مین سرور میں بھی کسی وجہ سے خرابی پیدا ہو سکتی ہے، جس سے متعلقہ سسٹم ہی بیٹھ جائے گا... لیکن ان تمام مسائل کا حل موجود ہے، جیسے ایپلی کیشن کی کیپیسٹی جانچنے کے لئے الیکشن سے قبل ملک بھر سے فرضی نتائج منگوائے جا سکتے تھے، جس کی روشنی میں سامنے آنے والے مسائل پر قابو پایا جا سکتا تھا، پھر انٹرنیٹ کی دستیابی اور سرور(server) بیک اپ کے ذریعے فوری متبادل فراہم کیا جا سکتا تھا۔

آئی ٹی ماہرین کے مطابق لوڈ بڑھنے پر دورانِ کام ہی اسے دوسرے ڈیٹا بیس پر شفٹ کیا جا سکتا ہے یا پھر لوڈ مینجمنٹ کی جا سکتی ہے، یعنی لوڈ کو دو حصوں میں بانٹ دیا جائے، سسٹم جام ہونے کی صورت میں اسے چند منٹوں میں ریکور کیا جا سکتا ہے۔

ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ بروقت اور باسہولت طریقے سے انتخابی نتائج کی فراہمی کے لئے بنائے جانے والے رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم میں کوئی سقم نہیں بلکہ خامیاں اسے کنٹرول کرنے والوں میں ہیں۔ آر ٹی ایس جدید ٹیکنالوجی کا وہ مثبت ثمر ہے، جس سے دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں کسی نہ کسی شکل میں استفادہ کیا جاتا ہے، کیوں کہ اس کے استعمال سے جہاں وقت اور پیسہ بچتا ہے وہاں انتخابات کی شفافیت کو بھی یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں