ایران پر سخت ترین پابندیاں عائد کرنے کے پابند ہیں امریکا
ایران کا رویہ بدلنا چاہتے ہیں اس کے نظام سے کوئی سروکار نہیں، امریکی مندوب برائن ہک
ایران کے امور پر نظر رکھنے کے لیے امریکا کی طرف سے متعین کردہ خصوصی مندوب برائن ہک نے کہا ہے کہ امریکا حزب اللہ اور ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب کے خلاف سخت ترین پابندیاں عائد کرنے کی پالیسی پرعمل درآمد کا پابند ہے۔
واشنگٹن میں ایک تقریب سے خطاب میں برائن ہک نے کہا کہ واشنگٹن دوسرے اتحادی ممالک کو بھی ایران اور حزب اللہ کے خلاف جاری مہم میں شامل ہونے پر قائل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا ایران کے منفی طرزعمل کو بے نقاب کرنے کی پالیسی پر عمل درآمد جاری رکھے گا۔ ایران کے ساتھ کسی بھی معاہدے سے قبل تہران کو ہماری شرائط ماننا ہوں گی۔ آبنائے ہرمز بین الاقوامی تجارتی گزرگاہ کے طورپر کام کرتی رہے گی۔
امریکی ایلچی کا کہنا تھا کہ ان کا ملک ایران پر سخت ترین پابندیاں عائد کرنے کے اعلان پر سختی سے عمل درآمد کرے گا۔ ایران اور 6 عالمی طاقتوں کے درمیان معاہدے نے تہران کو بے پناہ فوائد پہنچائے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا اس معاہدے سے اس لیے باہر نکلا تاکہ ایران کی خطرناک سرگرمیوں کے خلاف سفارتی جنگ شروع کی جاسکے۔ ہم ایران کا رویہ بدلنا چاہتے ہیں ایرانی نظام سے ہمیں کوئی سروکار نہیں۔ برائن ہک کا کہنا تھا کہ ایران مشرق وسطیٰ میں انتشار پھیلانے کے لیے اربوں ڈالر کی رقم خرچ کررہا ہے۔
دوسری طرف ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا کہ ہم نے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں ایک مختلف انداز سے جینے کا راستہ چنا ہے۔ ہم یہ نہیں چاہتے کہ کوئی ہمیں یہ بتائے کہ ہم نے کس طرح زندگی بسر کرنی ہے۔ ہم اپنے قوانین کے مطابق اپنے عوام کے حقوق کو تحفظ دینا چاہتے ہیں ۔ہم ایک ایسا نظام حکومت چاہتے ہیں جسے ہم ترجیح دیتے ہیں۔
واشنگٹن میں ایک تقریب سے خطاب میں برائن ہک نے کہا کہ واشنگٹن دوسرے اتحادی ممالک کو بھی ایران اور حزب اللہ کے خلاف جاری مہم میں شامل ہونے پر قائل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا ایران کے منفی طرزعمل کو بے نقاب کرنے کی پالیسی پر عمل درآمد جاری رکھے گا۔ ایران کے ساتھ کسی بھی معاہدے سے قبل تہران کو ہماری شرائط ماننا ہوں گی۔ آبنائے ہرمز بین الاقوامی تجارتی گزرگاہ کے طورپر کام کرتی رہے گی۔
امریکی ایلچی کا کہنا تھا کہ ان کا ملک ایران پر سخت ترین پابندیاں عائد کرنے کے اعلان پر سختی سے عمل درآمد کرے گا۔ ایران اور 6 عالمی طاقتوں کے درمیان معاہدے نے تہران کو بے پناہ فوائد پہنچائے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا اس معاہدے سے اس لیے باہر نکلا تاکہ ایران کی خطرناک سرگرمیوں کے خلاف سفارتی جنگ شروع کی جاسکے۔ ہم ایران کا رویہ بدلنا چاہتے ہیں ایرانی نظام سے ہمیں کوئی سروکار نہیں۔ برائن ہک کا کہنا تھا کہ ایران مشرق وسطیٰ میں انتشار پھیلانے کے لیے اربوں ڈالر کی رقم خرچ کررہا ہے۔
دوسری طرف ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا کہ ہم نے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں ایک مختلف انداز سے جینے کا راستہ چنا ہے۔ ہم یہ نہیں چاہتے کہ کوئی ہمیں یہ بتائے کہ ہم نے کس طرح زندگی بسر کرنی ہے۔ ہم اپنے قوانین کے مطابق اپنے عوام کے حقوق کو تحفظ دینا چاہتے ہیں ۔ہم ایک ایسا نظام حکومت چاہتے ہیں جسے ہم ترجیح دیتے ہیں۔