بچوں کو میڈیا کے اثرات سے بچائیے
استاد کی تعلیم اپنی جگہ لازم ہے لیکن رہنمائی اور نگہداشت میں والدین کا کردار سب سے اہم اور ضروری ہے
لگ بھگ سال بھر پہلے مفتی عبدالقوی صاحب نے ایک معروف چینل پر بیان دیا تھا کہ جیل میں انہوں نے سکون کی نیند پوری کی ہے۔ یہ جان کر بڑی حیرت ہوئی تھی کہ جیل میں لوگوں کی نیند اڑ جاتی ہے لیکن موصوف کی طبیعت اوروں سے یکسر مختلف ہے۔ میرے آٹھ سالہ بیٹے نے مفتی صاحب کے ریمارکس پر مجھ سے پوچھا تھا ''پاپا! کیا جیل میں اچھی نیند آتی ہے۔'' اس معصوم سے سوال پر میری حیرت دو چند ہوگئی تھی۔ بچہ شاید جیل کو کوئی گھر گمان کر رہا تھا لہذا اس کی اصلاح نہایت ضروری امر تھا۔ میں نے بڑے پیار سے صاحبزادے کو جیل کے اصل مفہوم سے آگاہ کیا تھا، شاید وہ وقتی طور پرسمجھ بھی گیا ہوگا لیکن میں تھوڑی دیر گومگو کی کیفیت میں رہا۔
یہ ایک بھیانک حقیقت تھی جس کا مجھے حادثاتی طور پر ادراک ہوا تھا کہ بچے صرف والدین یا ٹیچر سے ہی نہیں بلکہ اپنے ارد گرد کے ماحول سے بھی بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ خاص کر اس دور کے بچے جو ٹی وی چینلز سے بہت زیادہ ٹچ میں رہتے ہیں۔ چونکہ یہ عمر ہی سیکھنے کی ہوتی ہے اس لیے بچوں کی مکمل اور جامع آگہی رکھنی بہت ضروری ہوتی ہے۔ آپ جیسے جیسے بچے کی طبیعت و رجحان سمجھنے کی کوشش کریں گے، ویسے ویسے بچے کی تربیت آپ کےلیے آسان مرحلہ ثابت ہوگی۔ مثلاً اگر بچے مذہبی چینل دیکھیں گے تو مذہبی باتیں سیکھیں گے، لیکن اگر وہ کسی اسپورٹس چینل پر گرل ریسلنگ دیکھیں گے تو... آپ خود سمجھ دار ہیں۔ لب لباب اور حاصل یہ کہ بچے اپنے آئی کیو لیول اور عمر کے حساب سے مفہوم کا دراک کرتے ہیں۔ جیل کا جو مفہوم بچے نے اپنے ذہن میں اخذ کیا تھا، وہ اصل مفہوم کا متضاد تھا۔ چونکہ بچپن کا علم پتھر پر لکیر ہوتا ہے اس لیے اس عمر میں بچے کو بڑی رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔
استاد کی تعلیم اپنی جگہ لازم ہے لیکن رہنمائی اور نگہداشت میں والدین کا کردار سب سے اہم اور ضروری ہے۔
راقم نے فیس بک پر ''ٹیچر اینڈ ڈیسک'' نام کا ایک گروپ جوائن کر رکھا ہے جس میں ایک خاتون ٹیچر نے اپنی کلاس کا ایک عبرت ناک واقعہ یوں پوسٹ کیا: ''آج فری ٹائم میں بچوں سے گپ شپ لگانے کا دل کیا تو ایسے ایسے انکشافات ہوئے کہ حیرت سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ میں جماعت ششم کی طالبات کے کمرہ جماعت میں موجود تھی۔ میں نے باری باری سب سے ایک ہی سوال کیا کہ آپ بڑی ہوکر کیا بننا چاہیں گی؟ کُل 14 طالبات تھیں جن میں سے تین کے جوابات نے مجھے سوچنے پر مجبور کردیا کہ آخر ہمارا مستقبل کیا ہوگا؟ ایک بچی نے کہا میں سنگر بنناچاہتی ہوں۔ جب میں نے اس کی وجہ پوچھی تو کہنے لگی 'Teacher Because I love Music, Music is My Life۔' دوسری بچی نے کہا میں ڈانس سیکھنا چاہتی ہوں لیکن میرے والدین مجھے سپورٹ نہیں کرتے اس لیے وہ جب گھر پر نہیں ہوتے تو میں کمرہ بند کرکے فل والیوم میوزک پر ڈانس کرتی ہوں۔ تیسری بچی نے کہا کہ میں قندیل بلوچ بننا چاہتی ہوں۔ میں نے پوچھا وہ کیوں؟ تو اس نے انکشاف کیا کہ ٹیچر جی وہ بہت مظلوم تھی، نہ صرف اس نے اپنے گھر والوں کو سپورٹ کیا بلکہ اپنے خوابوں کو بھی پورا کیا۔ میں نے پوچھا یہ سب آپ کو کیسے پتا چلا؟ تو جواب ملا: ٹیچر جی اس کی لائف پر جو ڈراما بنا ہے، میں نے وہ دیکھا ہے۔''
ایک اور واقعہ کچھ اس طرح سے ہے کہ راقم کے ایک ہم زلف سعودیہ میں 35 سال کے لگ بھگ رہے، بچے بھی وہیں پیدا ہوئے۔ ایک اسلامی ملک ہونے کے باوجود دنیا کے سارے چینلز آپ اپنے گھر کی چاردیواری میں بہ آسانی دیکھ سکتے ہیں۔ انڈین فیملیز تو اسٹار پلس دیکھتی ہی ہیں اور پاکستانی فیملیز بھی انڈین چینلز دیکھنے میں کسی سے کم نہیں۔ اب موصوف کے بچوں نے پاکستانی تہذیب و ثقافت تو کبھی زندگی میں ملاحظہ کی تھی نہ ہی کبھی والدین کو شاید اتنا وقت مل پایا کہ وہ بچوں کو اچھے طریقے سے گائیڈ کرسکتے۔ خدا کا کرنا کچھ ایسا ہوا کہ موصوف کے والد انتقال کرگئے تو اچانک انہیں فیملی سمیت پاکستان لوٹنا پڑا۔ جنازے کے وقت ان کے بچوں میں سے (جن کی عمریں بمشکل آٹھ اور نو سال کے لگ بھگ ہوں گی) چھوٹا بچہ بولا پاپا، کیا دادا ابو کی چتا نہیں جلانی؟
اس سے آگے راقم کیا بیان کرسکتا ہے، بات اب سمجھنے اور سمجھانے کی ہے۔ کہتے ہیں عقلمند کےلیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ ہماری نسل ہی ہمارا مستقبل ہے۔ کل ہم فوت شدگان میں شمار ہوں گے تو ہماری قبر پر بچے تب ہی آکر فاتحہ پڑھیں گے جب ہم نے ان کی تربیت اسلامی اصولوں کے مطابق کی ہوگی، ورنہ بچے بھی کہیں گے جان چھوٹی بڈھے سے!
راقم کی استدعا ہے کہ خدارا بچوں کو میڈیا کے اثرات سے بچائیے۔ بچوں کو آپ کی خصوصی نگرانی کی اشد ضرورت ہے، انہیں دین کی آگاہی دیجیے کیونکہ اب سب کچھ نصاب میں شامل نہیں ہوتا۔ بچوں کا ذہنی میلان، رویہ اور رجحان چیک کیجیے اور اس کے مطابق بچوں کی اصلاح پر توجہ دیجیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یہ ایک بھیانک حقیقت تھی جس کا مجھے حادثاتی طور پر ادراک ہوا تھا کہ بچے صرف والدین یا ٹیچر سے ہی نہیں بلکہ اپنے ارد گرد کے ماحول سے بھی بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ خاص کر اس دور کے بچے جو ٹی وی چینلز سے بہت زیادہ ٹچ میں رہتے ہیں۔ چونکہ یہ عمر ہی سیکھنے کی ہوتی ہے اس لیے بچوں کی مکمل اور جامع آگہی رکھنی بہت ضروری ہوتی ہے۔ آپ جیسے جیسے بچے کی طبیعت و رجحان سمجھنے کی کوشش کریں گے، ویسے ویسے بچے کی تربیت آپ کےلیے آسان مرحلہ ثابت ہوگی۔ مثلاً اگر بچے مذہبی چینل دیکھیں گے تو مذہبی باتیں سیکھیں گے، لیکن اگر وہ کسی اسپورٹس چینل پر گرل ریسلنگ دیکھیں گے تو... آپ خود سمجھ دار ہیں۔ لب لباب اور حاصل یہ کہ بچے اپنے آئی کیو لیول اور عمر کے حساب سے مفہوم کا دراک کرتے ہیں۔ جیل کا جو مفہوم بچے نے اپنے ذہن میں اخذ کیا تھا، وہ اصل مفہوم کا متضاد تھا۔ چونکہ بچپن کا علم پتھر پر لکیر ہوتا ہے اس لیے اس عمر میں بچے کو بڑی رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔
استاد کی تعلیم اپنی جگہ لازم ہے لیکن رہنمائی اور نگہداشت میں والدین کا کردار سب سے اہم اور ضروری ہے۔
راقم نے فیس بک پر ''ٹیچر اینڈ ڈیسک'' نام کا ایک گروپ جوائن کر رکھا ہے جس میں ایک خاتون ٹیچر نے اپنی کلاس کا ایک عبرت ناک واقعہ یوں پوسٹ کیا: ''آج فری ٹائم میں بچوں سے گپ شپ لگانے کا دل کیا تو ایسے ایسے انکشافات ہوئے کہ حیرت سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ میں جماعت ششم کی طالبات کے کمرہ جماعت میں موجود تھی۔ میں نے باری باری سب سے ایک ہی سوال کیا کہ آپ بڑی ہوکر کیا بننا چاہیں گی؟ کُل 14 طالبات تھیں جن میں سے تین کے جوابات نے مجھے سوچنے پر مجبور کردیا کہ آخر ہمارا مستقبل کیا ہوگا؟ ایک بچی نے کہا میں سنگر بنناچاہتی ہوں۔ جب میں نے اس کی وجہ پوچھی تو کہنے لگی 'Teacher Because I love Music, Music is My Life۔' دوسری بچی نے کہا میں ڈانس سیکھنا چاہتی ہوں لیکن میرے والدین مجھے سپورٹ نہیں کرتے اس لیے وہ جب گھر پر نہیں ہوتے تو میں کمرہ بند کرکے فل والیوم میوزک پر ڈانس کرتی ہوں۔ تیسری بچی نے کہا کہ میں قندیل بلوچ بننا چاہتی ہوں۔ میں نے پوچھا وہ کیوں؟ تو اس نے انکشاف کیا کہ ٹیچر جی وہ بہت مظلوم تھی، نہ صرف اس نے اپنے گھر والوں کو سپورٹ کیا بلکہ اپنے خوابوں کو بھی پورا کیا۔ میں نے پوچھا یہ سب آپ کو کیسے پتا چلا؟ تو جواب ملا: ٹیچر جی اس کی لائف پر جو ڈراما بنا ہے، میں نے وہ دیکھا ہے۔''
ایک اور واقعہ کچھ اس طرح سے ہے کہ راقم کے ایک ہم زلف سعودیہ میں 35 سال کے لگ بھگ رہے، بچے بھی وہیں پیدا ہوئے۔ ایک اسلامی ملک ہونے کے باوجود دنیا کے سارے چینلز آپ اپنے گھر کی چاردیواری میں بہ آسانی دیکھ سکتے ہیں۔ انڈین فیملیز تو اسٹار پلس دیکھتی ہی ہیں اور پاکستانی فیملیز بھی انڈین چینلز دیکھنے میں کسی سے کم نہیں۔ اب موصوف کے بچوں نے پاکستانی تہذیب و ثقافت تو کبھی زندگی میں ملاحظہ کی تھی نہ ہی کبھی والدین کو شاید اتنا وقت مل پایا کہ وہ بچوں کو اچھے طریقے سے گائیڈ کرسکتے۔ خدا کا کرنا کچھ ایسا ہوا کہ موصوف کے والد انتقال کرگئے تو اچانک انہیں فیملی سمیت پاکستان لوٹنا پڑا۔ جنازے کے وقت ان کے بچوں میں سے (جن کی عمریں بمشکل آٹھ اور نو سال کے لگ بھگ ہوں گی) چھوٹا بچہ بولا پاپا، کیا دادا ابو کی چتا نہیں جلانی؟
اس سے آگے راقم کیا بیان کرسکتا ہے، بات اب سمجھنے اور سمجھانے کی ہے۔ کہتے ہیں عقلمند کےلیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ ہماری نسل ہی ہمارا مستقبل ہے۔ کل ہم فوت شدگان میں شمار ہوں گے تو ہماری قبر پر بچے تب ہی آکر فاتحہ پڑھیں گے جب ہم نے ان کی تربیت اسلامی اصولوں کے مطابق کی ہوگی، ورنہ بچے بھی کہیں گے جان چھوٹی بڈھے سے!
راقم کی استدعا ہے کہ خدارا بچوں کو میڈیا کے اثرات سے بچائیے۔ بچوں کو آپ کی خصوصی نگرانی کی اشد ضرورت ہے، انہیں دین کی آگاہی دیجیے کیونکہ اب سب کچھ نصاب میں شامل نہیں ہوتا۔ بچوں کا ذہنی میلان، رویہ اور رجحان چیک کیجیے اور اس کے مطابق بچوں کی اصلاح پر توجہ دیجیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔