پاکستان پر پابندی کے لیے آئی او سی کی ایک اور دھمکی

کھیلوں کو سیاست سے پاک رکھنے کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے


Asif Riaz May 25, 2013
کھیلوں کو سیاست سے پاک رکھنے کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔ فوٹو : فائل

معاشرے میں مفاد پرستی کا چلن عام ہو تو اختیارات کی رسہ کشی میں کوئی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوتا۔

قیام پاکستان سے اب تک کی تاریخ کے اوراق پلٹیں تو قدم قدم پر عہدوں کے لیے کھینچاتانی کی مثالیں بکھری دکھائی دیتی ہیں۔افسوس کی بات ہے کہ سیاسی تبدیلیوں کے فوری اثرات قبول کرنے والی اسپورٹس فیڈریشنز بھی اس رجحان سے خالی نظر نہیں آتیں۔ دنیا کے بیشتر ملکوں میں حکومتیں کھیلوں سے وابستہ اداروں کی آزادانہ حیثیت تسلیم کرتے ہوئے معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کرتیں جبکہ ہمارے ہاں اقتدار کی طاقت ملتے ہی دیگر شعبوں کی طرح اسپورٹس کی باگ ڈور بھی من پسند شخصیات کے ہاتھوں میں دینے کے لیے حکمت عملی وضع کرنے کا عمل شروع ہوجاتا ہے، نتیجے میں عہدوں کے لیے کشمکش کی کہانی طویل اور کھلاڑیوں کی فلاح بہبود اور بہتر انفرا سٹرکچر بنانے کے کام مختصر ہوتے جاتے ہیں۔

ایسی ہی ایک داستان ملک میں کھیلوں کے سب سے بڑے تنظیمی ڈھانچے پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے تنازع کی صورت میں پلیئرز کے ذہنوں میں مایوسی پھیلانے کا ذریعہ بن رہی ہے۔ پی او اے کا قیام 1848 میں عمل میں لایا گیا، چیف پیٹرن قائداعظم تھے، انھوں نے ہی اولمپکس گیمز میں شرکت کے لیے ملک کا پہلا دستہ روانہ کیا۔ پی او اے کے ساتھ 34 فیڈریشنز کا الحاق ہے، اولمپکس کامن ویلتھ، ایشین گیمز میں کھلاڑی اسی کے بینر تلے شرکت کرتے ہیں ، گرانٹ بھی آئی او سی کی طرف سے ملتی ہے۔ دوسری طرف پاکستان اسپورٹس بورڈ 1962ء میں تشکیل دیاگیا، مقصد کھیلوں کے فروغ کے لیے انفرا سٹرکچر بنانا اور مختلف یونٹس کی مالی مدد کرنے کے لیے نظام وضع کرناتھا۔ اس وقت 22 فیڈریشنز پی ایس بی کے ساتھ منسلک ہیں۔

دونوں تنظیموں میں اختیارات کے لیے رسہ کشی نے ملکی کھیلوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ بین الاقوامی سطح کے بیشتر میگا ایونٹ آئی او سی کے تحت ہوتے ہیں جبکہ دیگر انٹر نیشنل اسپورٹس فیڈریشنز بھی اسی کے چارٹر کے مطابق اپنی پالیسیاں تشکیل دیتی ہیں۔ پاکستان میں اسپورٹس پالیسی 2005 میں بنائی گئی تھی لیکن کئی سال تک اس پر عمل درآمد ممکن نہ ہوسکا۔ بعدازاں عدالتی چارہ جوئی کے بعد فیصلہ اسپورٹس بورڈ کے حق میں ہوا جس کے تحت قرار دیا گیا کہ کسی بھی کھیلوں کی تنظیم میں کوئی عہدیدار 2 سے زیادہ ٹرم کے لیے اختیار اپنے پاس نہیں رکھ سکتا۔

پی او اے کے صدر عارف حسن 4 فروری 2012ء کو پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر قاسم ضیاء اور اتھلیٹکس فیڈریشن کے صدر جنرل(ر) اکرم ساہی کو شکست دے کر تیسری بار منتخب ہوئے۔ ناکام امیدواروں نے خوب شور مچایا کہ اسپورٹس پالیسی پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں وہ ایک بار پھر عہدہ سنبھالنے کے اہل نہیں۔ دوسری طرف عارف حسن کا موقف تھا کہ پی او اے کسی داخلی پالیسی نہیں بلکہ آئی او سی چارٹر کے مطابق معاملات چلانے کی پابند ہے، اسپورٹس بورڈ سے فنڈز نہیں لیتے تو اس کی پالیسیوں پر عمل درآمد کیوں کریں؟ اس صورتحال میں انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی نے پاکستان میں کھیلوں کے نظام اور فیڈریشنز میں حکومتی مداخلت، سیاسی اثرو رسوخ سے عہدیداروں کی نامزدگی اور انتخاب کا نوٹس لیتے ہوئے وارننگ جاری کی کہ اولمپکس سے قبل اسپورٹس پالیسی میں متنازع شقوں کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ تنظیموں کی آزادانہ اور خود مختار حیثیت بر قرار رکھنے کا طرز عمل اپنایا جائے۔

پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کی درخواست پر ڈیڈ لائن میںتوسیع کرتے ہوئے کھلاڑیوں کو لندن گیمز میں ملکی نمائندگی کی اجازت دید ی گئی، تاہم بعد ازاں اس ضمن میں کوئی مثبت پیش رفت نہ دیکھتے ہوئے آئی اوسی نے ایک بار پھر 31 اگست تک کی مہلت دیکر سخت اقدامات اٹھانے کا اشارہ دیا، کھیلوں کی انٹرنیشنل باڈی کا کہنا تھا کہ کسی بھی ملک کی داخلی پالیسیاں ایسی نہیں ہونا چاہیں کہ اسپورٹس سے وابستہ تنظیموں کی آزادانہ حیثیت پر قدغن لگے مگر پاکستان میں بیشتر کھیلوں کی فیڈریشنز کے کرتا دھرتا اپنے اثر ورسوخ سے کئی کئی سال تک مختلف عہدوں پر قبضہ برقرار رکھتے ہیں، آئی او سی کی طرف سے تحریر کئے گئے ایک اور خط میں 15 ستمبر تک کی ڈیڈلائن دیتے ہوئے کہا گیا کہ کئی امور حل طلب ہونے کے باوجود کوئی ایسا نا خوشگوار فیصلہ نہیں کرنا چاہتے جس سے ملک میں کھیلوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے۔

اس لیے معاملات درست کرنے کیلیے دیئے وقت میں توسیع کی جارہی ہے، امید ہے کہ حکام ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوری فیصلے کرکے تفصیلات بھجوائیں گے، بصورت دیگر پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کو معطل کرکے دنیا کی دیگر فیڈریشنز کو بھی بائیکاٹ کرنے کا پابند کردیاجائے گا۔ دوسری طرف دونوں طرف کے حکام افہام و تفہیم سے کوئی قابل قبول حل تلاش کرنے کے بجائے بدستور اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ پاکستان اسپورٹس بورڈ کے اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں پی او اے پر ایڈہاک لگانے اور لاہور میں ہونے والے نیشنل گیمزکو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے کھیلوں کا دوبارہ اسلام آباد میں انعقاد کرانے کا اعلان ہوا، پی ایس بی کی جانب سے آصف باجوہ کی زیرسربراہی7 رکنی ایڈہاک کمیٹی کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔



پاکستان کے معاملات کا جائزہ لینے کے لیے 15فروری کو سوئٹزر لینڈ کے شہر لوزانے میں ہونے والے اجلاس میں آئی اوسی کے پاکستان میں ممبر سید شاہد علی اور پی او اے کے صدر عارف حسن کو بھی ریکارڈ سمیت طلب کیا گیا،تاہم ملکی حالات کو دیکھتے ہوئے ایک بار پھر کسی سخت کارروائی سے گریز کیا گیا۔ تاہم کچھ وقت گزرنے کے بعد اب ایک بار پھر پابندی کی تلوار لٹکتی نظر آرہی ہے۔

23 مئی کو آئی او سی نے پی ایس بی کی قائم کردہ عبوری کمیٹی کو تسلیم کرنے سے انکار اور عارف حسن کی سربراہی میں کام کرنے والی پی او اے کو ہی پاکستان کی نمائندہ تنظیم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اولمپک چارٹر کی خلاف ورزی کے اقدامات جاری رکھے گئے تو انٹرنیشنل مقابلوں میں شرکت پر پابندی عائد کی جاسکتی ہے۔ آئی او سی نے اپنی ای میل میں واضح کیا ہے کہ صرف پی او اے کے تحت ہی پاکستان کے کھلاڑی اور وفود اولمپک گیمز، یوتھ اولمپک، او سی اے گیمز اور آئی او سی کے دائرہ کار میں آنے والے تمام کھیلوں میں ملک کی نمائندگی کرسکتے ہیں۔

تازہ دھمکی کے بعد اسپورٹس حلقوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے کیونکہ انٹر نیشنل باڈی نے معطلی کا فیصلہ کردیا تو نہ صرف پاکستانی کھلاڑیوں پر عالمی مقابلوں میں شرکت کے دروازے بند ہو جائیں گے اور وہ ملکی پرچم کے بجائے آئی او سی کے بینر تلے ایونٹس میں شرکت پر مجبور ہوں گے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک آئی او سی کے چارٹر پر عمل درآمد کے ثبوت فراہم نہیں کر دیئے جاتے۔ دنیا کے ہر ملک میں حکومتی ادارے کھیلوں میں مداخلت نہیں بلکہ اسپورٹس فیڈریشنز کی سرپرستی کرتے ہیں۔

لندن اولمپکس جیسا میگا ایونٹ بھی حکومت کی طرف سے خطیر فنڈز کی فراہمی کے بغیر کرانا ممکن نہیں تھا۔ مالی اسپورٹ اور بنیادی انفرا سٹرکچر سرکاری طور پر فراہم کئے جانے کے باوجود لندن اولمپک ایسوسی ایشین کی پالیسیاں اور طریقہ کار آئی او سی چارٹر کے مطابق ہی تھا،اس حوالے سے کوئی حکومتی مداخلت دیکھنے میں نہیں آئی اور نہ ہی دنیا کے دیگر ملکوں میں ایسا ہوتا ہے، دوسری طرف پاکستان میں پی او اے کی آزادانہ حیثیت پامال کرنے کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔

دنیا بھرمیں حکومتیں کھیلوں کی سہولتیں فراہم کرتی اور زیادہ سے زیادہ ایونٹس آرگنائز کرکے نوجوانوں کو صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع پیدا کرتی ہیں مگر اسپورٹس تنظیموں میں عہدیداروں کے انتخاب کے لیے وہی طریقہ کا ر اپنایا جاتا ہے جو آئی او سی کے چارٹر کے تحت درست ہے۔ ہمارے ہاں بااثر شخصیات دیگر شعبوں میں تسلط جمانے کے ساتھ ساتھ کھیلوں پر بھی شب خون مارنے کی تیاری کر رہی ہیں جو کسی طور درست اقدام نہیں کہا جاسکتا۔ اسپورٹس کو سیاست سے پاک رکھنے کے لیے فیڈریشنز کی خود مختاری یقینی بنانا ہوگی۔

پاکستان میں نئی حکومت کا قیام چند روز میں ہوجائے گا، نواز شریف اپنی سیاسی مہم کے دوران ہر شعبہ میں گڈگورننس لانے کے دعوے کرتے رہے ہیں، انھیں کھیلوں میں تنازعات کا فوری نوٹس لیتے ہوئے ایسے اقدامات کرنا ہوں گے کہ فیڈریشنز کی محاذ آرائی ختم ہو، اسپورٹس کو سیاسی اثر ورسوخ سے آزاد کرکے انفراسٹرکچرکو مضبوط بنانے سے ہی ایسے کھلاڑیوں کی کھیپ تیا ر کی جاسکتی ہے جو انٹرنیشنل مقابلوں میں پاکستان کی نیک نامی کا باعث بن سکیں۔

[email protected]

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں