لوڈ شیدنگ کا عذاب

ایسا نہیں ہے کہ پاکستان میں توانائی کے ذرائع موجود نہیں ہیں، اصل معاملہ سیاسی مفادات کا ہے۔۔

لوڈشیڈنگ نے کاروباری سرگرمیوں کو بھی بری طرح متاثر کر دیا ہے۔ فوٹو: فائل

گزشتہ روز پاکستان میں امریکا کے سفیر رچرڈ اولسن نے متوقع وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے الگ الگ ملاقات کی اور دو طرفہ تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے متوقع وزیراعظم میاں نواز شریف سے رائیونڈ لاہور میں ملاقات کے دوران میں کہا ہے کہ ہم پاکستان کی معیشت کی بحالی اور توانائی کے بحران میں مدد دینے کے لیے تیار ہیں اور امریکہ نے پاکستان کی نئی حکومت کو توانائی کے سنگین بحران میں مدد دینے کی پیشکش کی ہے۔

ادھر ملک بھر میں شدید گرمی کی لہر برقرار ہے جب کہ اس دوران طویل لوڈ شیڈنگ اور پانی کی بدترین قلت نے عوام کو عذاب میں مبتلا کر دیا ہے اور کئی شہروں میں مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔ شدید گرمی سے ہلاکتیں بھی ہو رہی ہیں۔ ادھر اخباری اطلاعات کے مطابق بجلی کا شارٹ فال 9 ہزار میگاواٹ سے بڑھ گیا۔ شہروں میں ہر گھنٹے بعد چار گھنٹے بجلی بند رکھی جا رہی ہے جب کہ شدید گرمی میں بار بار طویل لوڈ شیڈنگ نے کاروبار زندگی مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔

بجلی کا بحران پاکستان میں شدید ترین ہو گیا ہے۔ پاکستانی عوام نے ماضی میں اتنی لوڈشیڈنگ کبھی نہیں برداشت کی تھی۔ لوڈشیڈنگ نے کاروباری سرگرمیوں کو بھی بری طرح متاثر کر دیا ہے۔ میاں محمد نواز شریف چونکہ آنے والے دنوں میں ملک کا اقتدار سنبھالنے والے ہیں اس لیے ان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج بجلی کا بحران ہے۔

میاں محمد نواز شریف کئی بار یہ کہہ بھی چکے ہیں کہ وہ اور ان کی ٹیم ابھی سے بجلی کے بحران کے خاتمے کے لیے مختلف آپشنز پر غور کر رہی ہے۔ پاکستان کے عوام کو بھی میاں محمد نواز شریف اور ان کی ٹیم سے بڑی توقعات وابستہ ہیں اور انھیں یقین ہے کہ ان کی حکومت بجلی کے بحران کو اگر مکمل طور پر ختم نہیں کر سکتی تو کم ازکم اس میں خاطرخواہ کمی ضرور لانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ جہاں تک امریکی سفیر کا یہ کہنا ہے کہ امریکا پاکستان کو توانائی بحران کے حل میں تعاون کرے گا، تو اس حوالے سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ اگر امریکا واقعی ہی ایسا کرتا ہے تو پھر اچھی بات ہے لیکن عملاً صورت حال یہ ہے کہ امریکا نے ماضی میں بھی ایسی باتیں کی تھیں کہ وہ پاکستان میں معیشت کی بہتری اور توانائی کے بحران کے خاتمے کے لیے مدد دے گا لیکن ایسا نہیں ہوا اور پاکستان بدترین بحران کا شکار ہو گیا۔


ایسا نہیں ہے کہ پاکستان میں توانائی کے ذرائع موجود نہیں ہیں، اصل معاملہ سیاسی مفادات کا ہے۔ پاکستان پانی سے سستی بجلی بنا سکتا ہے لیکن جو منصوبہ سب سے زیادہ جلد مکمل ہو سکتا ہے، وہ صوبائی نفرتوں کی بھینٹ چڑھ گیا ہے۔ پاکستان کے پاس بھاشا ڈیم کا منصوبہ بھی موجود ہے لیکن اسے مکمل ہونے میں خاصا عرصہ لگے گا۔ پاکستان بجلی کے جس بحران کا شکار ہے، اس میں فوری ریلیف کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں اس وقت جو ادارے بجلی پیدا کر رہے ہیں، اگر وہ بھی اپنی پوری صلاحیت کے مطابق بجلی پیدا کریں تو لوڈشیڈنگ میں خاصی کمی ہو سکتی ہے۔

اخباری اطلاعات کے مطابق تو یہی چیز سامنے آتی ہے کہ بجلی پیدا کرنے والے اداروں کو بروقت ادائیگیاں نہیں ہو رہیں یا انھیں تیل نہیں مل رہا۔ اس لیے وہ بجلی پیدا کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ متوقع وزیراعظم میاں نواز شریف کو اس حوالے سے ضرور منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ اس وقت پاکستان کے عوام کو سب سے زیادہ ضرورت فوری ریلیف کی ہے۔ ویسے تو پاکستان کو بجلی کے حوالے سے چین بھی پیش کش کر رہا ہے اور بھارت بھی پیش کش کر رہا ہے، اس طرح دوسرے ممالک بھی پیش کش کر رہے ہیں لیکن ان پیش کشوں کو عملی شکل دینے کے لیے وقت درکار ہے۔

پاکستان کو اگر جلد بجلی فراہم ہو سکتی ہے تو وہ بھارت سے ہو سکتی ہے۔ ایسی خبریں شائع ہو رہی ہیں جن میں کہا جا رہا ہے کہ بھارت پاکستان کو ایک ہزار میگاواٹ بجلی دینے کے لیے تیار ہے۔ اگر ان اطلاعات میں صداقت ہے تو اس آپشن پر ضرور غور ہونا چاہیے۔ بھارتی حکومت کو بھی اس حوالے سے مثبت جواب دینا چاہیے اور پاکستان کی حکومت کو اس پر کام کرنا چاہیے۔ دنیا میں ہر ملک ایک دوسرے سے تعاون کرتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کو بھی معیشت کے میدان میں ایک دوسرے سے تعاون کرنا چاہیے۔ بہرحال یہ کام حکومتوں کا ہے کہ وہ کس آپشن کو بہتر سمجھتے ہیں۔

سب سے زیادہ ضرورت تو اس وقت بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو ادائیگیاں ممکن بنانا ہے۔ پاکستان اس وقت خاصی مالی مشکلات کا شکار ہے۔ میاں محمد نواز شریف کی حکومت کو پاکستانی معیشت کو بہتر کرنے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کرنا پڑے گا۔ بجلی کا بحران ہو یا دہشت گردی کا مسئلہ ہو، دنیا میں کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کا حل موجود نہ ہو۔ ضرورت صرف نیک نیتی کی ہوتی ہے۔ میاں محمد نواز شریف نے عام انتخابات میں جو کامیابی حاصل کی ہے، اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ عوام نے انھیں ملک کی معیشت کو بہتر کرنے کے لیے مینڈیٹ دیا ہے۔

میاں نواز شریف پاکستان کے دو بار وزیراعظم رہ چکے ہیں، اب وہ تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے جارہے ہیں۔ انھیں پاکستان کے مسائل کا بخوبی علم ہے۔ اب ان کی شخصیت عالمی سطح پر بھی قابل قبول ہے۔ اخباری اطلاعات سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی برادری بھی میاں نواز شریف کی حکومت سے تعاون کرے گی۔ سعودی عرب کے حوالے سے ایسی باتیں سننے میں آ رہی ہیں کہ وہ بھی توانائی کے بحران کی شدت کو کم کرنے کے لیے پاکستان کو امداد دینے کے لیے تیار ہے۔ یہ سارے مثبت اشارے ہیں۔ امید ہے کہ آنے والی حکومت ناصرف بجلی کی لوڈشیڈنگ پر قابو پانے میں کامیاب ہو بلکہ ملکی معیشت کو بھی مستحکم کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
Load Next Story