قرعہ فال بنام من دیوانہ زدند
میاں صاحب کو بہت سارے چیلنجوں کا سامنا ہے لیکن باعث اطمینان یہ بات ہے کہ طالبان اور انتہا پسند مذہبی قوتوں سے انھیں۔۔۔
عجیب و غریب صورت حال ہے۔ جیتنے والے بھی احتجاج کر رہے ہیں اور ہارنے والے بھی۔ یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے والی صورت حال ہے۔ بچوں کے ادب میں تو ایک ہی پنڈورا بکس کا ذکر ملتا ہے۔ جس میں تمام مہلک بیماریاں بند تھیں۔ اور ایک ننھی بچی پنڈورا کو منع کر دیا گیا تھا کہ وہ اسے ہرگز نہ کھولے۔ لیکن انسانی فطرت اور تجسس سے مجبور ہو کر وہ صندوق کھول ڈالا۔ اور ۔۔۔۔۔ اور اس کے کھلتے ہی انتہائی مہلک بیماریاں ساری دنیا میں پھیل گئیں اور تباہی مچاتی رہیں لیکن پاکستان میں دہشت گردی، انتہا پسندی اور نفرتوں کے کئی پنڈورا بکس ہیں جنھیں باری باری سب نے کھولا۔
سب سے پہلا جو پنڈورا بکس اپنے اقتدار کو طول دینے اور بھائی کو بھائی سے لڑانے کے لیے کھولا گیا اس کے لیے 1958ء کا سال مبارک قرار پایا، پھر ایک پنڈورا بکس 1971ء میں بھی کھولا گیا جس کے ذریعے لوگوں کو روٹی، کپڑا اور مکان کے نام پر اور لسانی بنیادوں پر نفرت کو فروغ دینے کے لیے کھولا گیا ۔۔۔۔۔ اور پھر ان دونوں مہلک پنڈورا بکس کے عفریتوں کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بدترین ڈکٹیٹر ضیاء الحق نے مذہبی منافرتوں کا صندوق کٹر اور انتہا پسند مولویوں اور مذہبی جماعتوں کے بھرپور تعاون سے کھولا۔۔۔۔ اور تمام صندوقوں کی بلاؤں کو اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے خوب خوب استعمال کیا۔
یہ وہ بدترین دور تھا جس میں اسٹیبلشمنٹ اور مذہبی قوتوں نے یہ راز جان لیا کہ ہمیشہ کے لیے اقتدار میں رہنے کے لیے انھیں انتہا پسندی کے اپنے اپنے ذاتی صندوق بھی بنانے پڑیں گے۔ اس طریقے سے عوام کو تقسیم کرنا انتہائی آسان ہو جاتا ہے۔ مختلف ادوار میں یہ کام بڑی مہارت اور چابکدستی سے ہوا۔
وہ قوتیں جو اقتدار پر قابض تھیں، انھیں یہ صندوق بہت بھائے۔ ان قوتوں کے سربراہوں نے ضیاء الحق کے فارمولے پر عمل کر کے اسے دو آتشہ بنا دیا۔اور سارا ملک لہولہان ہو گیا۔ وہ اس طرح کہ کشمیر کے نام کی ایک ایسی جڑی بوٹی بھی اس میں ڈالی گئی جس نے تمام ذائقوں کو مات دے دی۔ پہلے سے کھلے ہوئے پنڈورا بکس میں سے چند غلیظ بیماریوں کو اپنے ساتھ ملایا اور ایجنڈے پر کام شروع ہو گیا۔ اس ایجنڈے میں سرفہرست بجٹ کا وہ کثیر حصہ تھا جو نہ تو تعلیم پر خرچ ہوتا تھا نہ عوام کی فلاح و بہبود پر بلکہ بجٹ کی 80 فیصد رقم ان پر خرچ ہونے لگی جنھوں نے اپنے اپنے پنڈورابکس انتہا پسندوں اور علیحدگی پسندوں کی مدد سے تیار کیے تھے۔
پنڈورا بکس کے خالقوں کے لیے اسٹیج تیار تھا۔ خوب تماشے ہوئے۔ پنڈورابکس کی زہر آلود بیماریوں نے انسانی روپ دھارا اور ٹیلی ویژن اسکرین پر یوں چھا گئیں کہ سچ ہمیشہ کے لیے غائب ہو گیا۔ بس حکم حاکم مرگ مفاجات کے تحت جو چاہا وہی دکھایا گیا اور وہی سنایا گیا۔۔۔۔۔اس کا آج تک ہم سارے بھگت رہے ہیں۔
لیکن پھر ہوا یوں کہ مختلف پنڈورا بکسوں سے نکلی ہوئی بعض عفریتیں، مادر پدر آزاد ہو گئیں اور اپنے تخلیق کاروں اور گاڈ فادرز کے کنٹرول سے باہر ہو گئیں۔ انھوں نے من مانی شروع کر دی۔ اور پھر اپنے ہی وطن کو لہولہان کرنا شروع کر دیا۔ بندوقیں اپنے ہی لوگوں پر تان لی گئیں۔ اپنے تو ان کا شکار ہو ہی رہے تھے، لیکن انھوں نے دنیا کوموت کا کنواں بنا دیا۔ جس میں ہر وہ انسان گردن زدنی ہے جس کا مسلک، عقیدہ اور مذہب ان سے مختلف ہے۔
اسلامی ممالک میں اقلیتیں ان کے نشانے پر ہیں۔ دیگر ممالک میں وہ پیٹرو ڈالرز، امریکی ڈالرز، ریال اور درہم میں معصوم اور بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ بالکل وہی کھیل کھیلا جا رہا ہے جس کا سرغنہ حسن بن صباح تھا۔ وہ بھی تو اپنے مذموم مقاصد کے لیے خوبصورت عورتیں، پیسہ اور شراب کے ذریعے نوجوانوں کو اپنے چنگل میں پھنساتا تھا۔ آج کا منظرنامہ اس سے کچھ مختلف تو نہیں؟
ایسی ہولناک صورتحال میں حکومت کا قرعہ فال (ن) لیگ کے نام نکل آیا ہے گویا۔۔۔۔۔ قرعہ فال بنام من دیوانہ زدند، والا معاملہ ہے۔ ملک اس وقت ہر لحاط سے تباہی کے دہانے پہ ہے۔ معیشت کا برا حال ہے۔ صنعتیں بند ہو رہی ہیں۔
بے روزگاری میں اضافے کے ساتھ ساتھ ڈکیتی، چوری اور تاوان کی وارداتیں بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔ فقیروں کی تعداد میں ہولناک اضافہ ہو رہا ہے۔ میرٹ کا قتل عام، بیروزگاری، لوڈشیڈنگ اور سی این جی کی بندش ایک الگ عذاب ہے۔ میاں صاحب کو بہت سارے چیلنجوں کا سامنا ہے لیکن باعث اطمینان یہ بات ہے کہ طالبان اور انتہا پسند مذہبی قوتوں سے انھیں کوئی خطرہ نہیں ہے لہٰذا سب سے پہلے انھیں اپنی ترجیحات کا تعین کرنا ہو گا۔ اولین ترجیح اس وقت ملک کو اندھیروں سے نکالنا ہے۔
خدا کرے میاں صاحب اپنے قدم زمین پر مضبوطی سے جما کر رکھیں، ان میں تکبر نہیں ہے اور یہ بات خدا تعالیٰ کو بھی پسند ہے۔ محل کی ٹھنڈی فضا میں سانس لینے والا لیڈر ایک عام آدمی کا دکھ اور کرب نہیں سمجھ سکتا جب کہ مطلب پرست راجہ نے پورے ملک کو اندھیروں کے عذاب میں مبتلا کرنے کے بعد جس ڈھٹائی سے الیکشن لڑا وہ ان کا کچا چٹھا بیان کرنے کو کافی ہے۔
میاں صاحب کو اپنی ٹیم میں محنتی اور بے لوث خدمت کرنیوالے لوگوں کو شامل کرنا چاہیے۔ ریس کے گھوڑوں اور تانگے کے گھوڑوں کے درمیان فرق کرنیوالوں کا حشر آپ نے دیکھ لیا۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ انقلاب فرانس کا محرک ایک بیکری سے ڈبل روٹی کا چرایا جانا اور ملکہ میری کا بھوکے عوام کو جو آٹا مانگ رہے تھے انھیں کیک کھانے کا مشورہ دینا کتنا مہنگا پڑا۔۔۔۔۔؟؟ جن لوگوں نے ہٹ دھرمی اور بدنیتی سے شیطانوں سے ساز باز کر کے عوام کو خودکشیاں کرنے پر مجبور کیا ایسے لوگوں سے ربط ضبط نہ بڑھانا ہی اچھا ہے۔
سندھ خصوصاً کراچی کے لوگ اس وقت بہت پریشان ہیں کہ صوبے میں ایک بار پھر انہی سے واسطہ پڑے گا جنھوں نے اس شہر کا سکون ختم کر دیا۔ اپنے خزانے بھرنے کے لیے الیکشن سے پہلے کروڑوں کے قرضے معاف کرا لیے۔ جیلوں سے مجرموں اور سزا یافتہ قیدیوں کو رہا کر کے بھتہ خوری کو بڑھاوا دیا گیا۔
پیپلز امن کمیٹی کے کارندے اور بھتہ خور کس کے بیٹے تھے۔ یہ سب کو یاد ہے۔ روشنیوں کے شہر کے باسی ایک بار پھر خوف کا شکار ہیں کہ میاں صاحب کے دور اقتدار کے زمانے میں ماضی میں ایک جماعت کے دو دھڑے بنوائے گئے تھے اور ایک دھڑے کو وزیر اعلیٰ ہاؤس میں پناہ دی گئی تھی۔ ایک ہفت روزہ نے یہ بھی لکھا تھا کہ انھیں نہ صرف تحفظ فراہم کیا گیا تھا بلکہ قیمتی گاڑیاں بھی تحفوں میں دی گئی تھیں۔ جن علاقوں میں ان تحائف حاصل کرنیوالوں کی اکثریت ہے وہاں ابھی سے ماحول گرم ہونا شروع ہو گیا ہے، لوگوں کو ڈرانے اور دھمکانے کے واقعات بھی شروع ہو گئے ہیں۔
خدارا میاں صاحب! اس بار بدلے کی اور انتقام کی سیاست کو خیرباد کہہ کر امن اور انسانیت کی بات کیجیے۔ کراچی کو بیروت بننے سے بچانے کے لیے تدبر سے کام لیا جائے۔ اور سب سے پہلے ترجیحی بنیادوں پر لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے احکامات دیجیے۔ اس کے علاوہ نگراں حکومت نے اور نگراں وزیر اعظم نے جو تقرریاں کی ہیں انھیں کالعدم قرار دیا جائے۔ کتنی افسوس کی بات ہے کہ نگراں وزیر اعظم نے نہ اپنی عمر کی پرواہ کی نہ بدنامی کی۔ وہ صرف زرداروں کے ربڑ اسٹیمپ بن کر رہ گئے۔ شاید یہی وہ واحد خوبی تھی جس کی بنیاد پر ان کا نام تجویز کیا گیا تھا کہ دونوں اس بات پر متفق تھے اور ہیں کہ:
پاکستان کا مطلب کیا؟
میں بھی کھاؤں تو بھی کھا
سب سے پہلا جو پنڈورا بکس اپنے اقتدار کو طول دینے اور بھائی کو بھائی سے لڑانے کے لیے کھولا گیا اس کے لیے 1958ء کا سال مبارک قرار پایا، پھر ایک پنڈورا بکس 1971ء میں بھی کھولا گیا جس کے ذریعے لوگوں کو روٹی، کپڑا اور مکان کے نام پر اور لسانی بنیادوں پر نفرت کو فروغ دینے کے لیے کھولا گیا ۔۔۔۔۔ اور پھر ان دونوں مہلک پنڈورا بکس کے عفریتوں کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بدترین ڈکٹیٹر ضیاء الحق نے مذہبی منافرتوں کا صندوق کٹر اور انتہا پسند مولویوں اور مذہبی جماعتوں کے بھرپور تعاون سے کھولا۔۔۔۔ اور تمام صندوقوں کی بلاؤں کو اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے خوب خوب استعمال کیا۔
یہ وہ بدترین دور تھا جس میں اسٹیبلشمنٹ اور مذہبی قوتوں نے یہ راز جان لیا کہ ہمیشہ کے لیے اقتدار میں رہنے کے لیے انھیں انتہا پسندی کے اپنے اپنے ذاتی صندوق بھی بنانے پڑیں گے۔ اس طریقے سے عوام کو تقسیم کرنا انتہائی آسان ہو جاتا ہے۔ مختلف ادوار میں یہ کام بڑی مہارت اور چابکدستی سے ہوا۔
وہ قوتیں جو اقتدار پر قابض تھیں، انھیں یہ صندوق بہت بھائے۔ ان قوتوں کے سربراہوں نے ضیاء الحق کے فارمولے پر عمل کر کے اسے دو آتشہ بنا دیا۔اور سارا ملک لہولہان ہو گیا۔ وہ اس طرح کہ کشمیر کے نام کی ایک ایسی جڑی بوٹی بھی اس میں ڈالی گئی جس نے تمام ذائقوں کو مات دے دی۔ پہلے سے کھلے ہوئے پنڈورا بکس میں سے چند غلیظ بیماریوں کو اپنے ساتھ ملایا اور ایجنڈے پر کام شروع ہو گیا۔ اس ایجنڈے میں سرفہرست بجٹ کا وہ کثیر حصہ تھا جو نہ تو تعلیم پر خرچ ہوتا تھا نہ عوام کی فلاح و بہبود پر بلکہ بجٹ کی 80 فیصد رقم ان پر خرچ ہونے لگی جنھوں نے اپنے اپنے پنڈورابکس انتہا پسندوں اور علیحدگی پسندوں کی مدد سے تیار کیے تھے۔
پنڈورا بکس کے خالقوں کے لیے اسٹیج تیار تھا۔ خوب تماشے ہوئے۔ پنڈورابکس کی زہر آلود بیماریوں نے انسانی روپ دھارا اور ٹیلی ویژن اسکرین پر یوں چھا گئیں کہ سچ ہمیشہ کے لیے غائب ہو گیا۔ بس حکم حاکم مرگ مفاجات کے تحت جو چاہا وہی دکھایا گیا اور وہی سنایا گیا۔۔۔۔۔اس کا آج تک ہم سارے بھگت رہے ہیں۔
لیکن پھر ہوا یوں کہ مختلف پنڈورا بکسوں سے نکلی ہوئی بعض عفریتیں، مادر پدر آزاد ہو گئیں اور اپنے تخلیق کاروں اور گاڈ فادرز کے کنٹرول سے باہر ہو گئیں۔ انھوں نے من مانی شروع کر دی۔ اور پھر اپنے ہی وطن کو لہولہان کرنا شروع کر دیا۔ بندوقیں اپنے ہی لوگوں پر تان لی گئیں۔ اپنے تو ان کا شکار ہو ہی رہے تھے، لیکن انھوں نے دنیا کوموت کا کنواں بنا دیا۔ جس میں ہر وہ انسان گردن زدنی ہے جس کا مسلک، عقیدہ اور مذہب ان سے مختلف ہے۔
اسلامی ممالک میں اقلیتیں ان کے نشانے پر ہیں۔ دیگر ممالک میں وہ پیٹرو ڈالرز، امریکی ڈالرز، ریال اور درہم میں معصوم اور بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ بالکل وہی کھیل کھیلا جا رہا ہے جس کا سرغنہ حسن بن صباح تھا۔ وہ بھی تو اپنے مذموم مقاصد کے لیے خوبصورت عورتیں، پیسہ اور شراب کے ذریعے نوجوانوں کو اپنے چنگل میں پھنساتا تھا۔ آج کا منظرنامہ اس سے کچھ مختلف تو نہیں؟
ایسی ہولناک صورتحال میں حکومت کا قرعہ فال (ن) لیگ کے نام نکل آیا ہے گویا۔۔۔۔۔ قرعہ فال بنام من دیوانہ زدند، والا معاملہ ہے۔ ملک اس وقت ہر لحاط سے تباہی کے دہانے پہ ہے۔ معیشت کا برا حال ہے۔ صنعتیں بند ہو رہی ہیں۔
بے روزگاری میں اضافے کے ساتھ ساتھ ڈکیتی، چوری اور تاوان کی وارداتیں بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔ فقیروں کی تعداد میں ہولناک اضافہ ہو رہا ہے۔ میرٹ کا قتل عام، بیروزگاری، لوڈشیڈنگ اور سی این جی کی بندش ایک الگ عذاب ہے۔ میاں صاحب کو بہت سارے چیلنجوں کا سامنا ہے لیکن باعث اطمینان یہ بات ہے کہ طالبان اور انتہا پسند مذہبی قوتوں سے انھیں کوئی خطرہ نہیں ہے لہٰذا سب سے پہلے انھیں اپنی ترجیحات کا تعین کرنا ہو گا۔ اولین ترجیح اس وقت ملک کو اندھیروں سے نکالنا ہے۔
خدا کرے میاں صاحب اپنے قدم زمین پر مضبوطی سے جما کر رکھیں، ان میں تکبر نہیں ہے اور یہ بات خدا تعالیٰ کو بھی پسند ہے۔ محل کی ٹھنڈی فضا میں سانس لینے والا لیڈر ایک عام آدمی کا دکھ اور کرب نہیں سمجھ سکتا جب کہ مطلب پرست راجہ نے پورے ملک کو اندھیروں کے عذاب میں مبتلا کرنے کے بعد جس ڈھٹائی سے الیکشن لڑا وہ ان کا کچا چٹھا بیان کرنے کو کافی ہے۔
میاں صاحب کو اپنی ٹیم میں محنتی اور بے لوث خدمت کرنیوالے لوگوں کو شامل کرنا چاہیے۔ ریس کے گھوڑوں اور تانگے کے گھوڑوں کے درمیان فرق کرنیوالوں کا حشر آپ نے دیکھ لیا۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ انقلاب فرانس کا محرک ایک بیکری سے ڈبل روٹی کا چرایا جانا اور ملکہ میری کا بھوکے عوام کو جو آٹا مانگ رہے تھے انھیں کیک کھانے کا مشورہ دینا کتنا مہنگا پڑا۔۔۔۔۔؟؟ جن لوگوں نے ہٹ دھرمی اور بدنیتی سے شیطانوں سے ساز باز کر کے عوام کو خودکشیاں کرنے پر مجبور کیا ایسے لوگوں سے ربط ضبط نہ بڑھانا ہی اچھا ہے۔
سندھ خصوصاً کراچی کے لوگ اس وقت بہت پریشان ہیں کہ صوبے میں ایک بار پھر انہی سے واسطہ پڑے گا جنھوں نے اس شہر کا سکون ختم کر دیا۔ اپنے خزانے بھرنے کے لیے الیکشن سے پہلے کروڑوں کے قرضے معاف کرا لیے۔ جیلوں سے مجرموں اور سزا یافتہ قیدیوں کو رہا کر کے بھتہ خوری کو بڑھاوا دیا گیا۔
پیپلز امن کمیٹی کے کارندے اور بھتہ خور کس کے بیٹے تھے۔ یہ سب کو یاد ہے۔ روشنیوں کے شہر کے باسی ایک بار پھر خوف کا شکار ہیں کہ میاں صاحب کے دور اقتدار کے زمانے میں ماضی میں ایک جماعت کے دو دھڑے بنوائے گئے تھے اور ایک دھڑے کو وزیر اعلیٰ ہاؤس میں پناہ دی گئی تھی۔ ایک ہفت روزہ نے یہ بھی لکھا تھا کہ انھیں نہ صرف تحفظ فراہم کیا گیا تھا بلکہ قیمتی گاڑیاں بھی تحفوں میں دی گئی تھیں۔ جن علاقوں میں ان تحائف حاصل کرنیوالوں کی اکثریت ہے وہاں ابھی سے ماحول گرم ہونا شروع ہو گیا ہے، لوگوں کو ڈرانے اور دھمکانے کے واقعات بھی شروع ہو گئے ہیں۔
خدارا میاں صاحب! اس بار بدلے کی اور انتقام کی سیاست کو خیرباد کہہ کر امن اور انسانیت کی بات کیجیے۔ کراچی کو بیروت بننے سے بچانے کے لیے تدبر سے کام لیا جائے۔ اور سب سے پہلے ترجیحی بنیادوں پر لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے احکامات دیجیے۔ اس کے علاوہ نگراں حکومت نے اور نگراں وزیر اعظم نے جو تقرریاں کی ہیں انھیں کالعدم قرار دیا جائے۔ کتنی افسوس کی بات ہے کہ نگراں وزیر اعظم نے نہ اپنی عمر کی پرواہ کی نہ بدنامی کی۔ وہ صرف زرداروں کے ربڑ اسٹیمپ بن کر رہ گئے۔ شاید یہی وہ واحد خوبی تھی جس کی بنیاد پر ان کا نام تجویز کیا گیا تھا کہ دونوں اس بات پر متفق تھے اور ہیں کہ:
پاکستان کا مطلب کیا؟
میں بھی کھاؤں تو بھی کھا