نواز شریف خوش نصیبی کا قرض
وقت نے ایک بار پھر میاں صاحب کو اس کا موقعہ دیا ہے کہ وہ پاکستان کو اس دلدل سے نکالیں جس میں بدعنوانیوں، رشوت۔۔۔
میاں نواز شریف نے عروج کے دن دیکھے تو یوں محسوس ہوتا تھا جیسے انھیں کبھی زوال نہیں آئے گا لیکن پھر ان پر اور ان کے خاندان پر ایسا زوال آیا جس کی مثالیں مغل تاریخ میں ہی ڈھونڈی جاسکتی ہیں۔ پھانسی کا پھندا ان پر سایہ کیے رہا۔ پھانسی سے بچے تو جلاوطن کردیے گئے۔ جلاوطنی کے دور میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے مل کر سیاسی دشمنی کو گہرا دفن کیا اور میثاق جمہوریت پر دستخط کیے۔
لوگوں نے سکھ کا سانس لیا، کسی ترقی پذیر ملک کے دو بڑے لیڈر اگر جمہوریت کی بحالی اور عوام کے مسائل کے حل کے لیے اکٹھے ہوجائیں تو اس سے بڑی بات اورکیا ہوسکتی ہے۔ لوگ سمجھے کہ شاید ہمارے دن پھرنے والے ہیں لیکن درمیان میں کچھ بد عہدیاں ہوئیں۔ ابھی اس کی تلخی ختم نہیں ہوئی تھی کہ پھر ہم نے بے نظیر بھٹو جیسی کرشماتی شخصیت کو خون میں نہاتے دیکھا ۔
بی بی کا سوگ منانے والوں کے لیے یہ ایک ناقابل یقین منظر تھا کہ راولپنڈی کے اسپتال میں میاں نواز شریف پیپلز پارٹی کے کارکنوں سے پرسہ کرتے ہوئے زار زار رو رہے تھے۔ اس وقت سے آج تک میاں صاحب نے بی بی سے کیا ہوا میثاق جمہوریت کا وعدہ نبھایا ہے۔ انھوں نے اس حوالے سے 5 برس تک 'فرینڈلی اپوزیشن' 'نورا کشتی' اور 'مُک مُکا' جیسے طعنے سنے ہیں لیکن ہمت نہیں ہاری اور جمہوریت کی خاطر سب کچھ سہہ لیا ۔ یہ اسی صبرو تحمل کا نتیجہ ہے کہ ان کے عروج کے دن ایک بار پھر سامنے نظر آرہے ہیں۔
دو دن پہلے ایک انگریزی اخبار میں کارٹون شائع ہوا جس میں وزارتِ عظمیٰ کا تاج نظر آرہا ہے یہ تاج اس شاہی کرسی کے برابر رکھا ہے جس پر صرف کانٹے ہی کانٹے ہیں۔ اس فنکار نے صرف چند لکیروں کے ذریعے پاکستان کی وزارت ِعظمیٰ کا احوال بیان کردیا ہے جو چند دن بعد میاں صاحب کے حصے میں آنے والی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کی سربراہی اتنا بڑا چیلنج ہے کہ جس کا تصور کرتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے۔ اندرونی خلفشار اور پاکستان پر انتہا پسندوں کی یلغار نے ملک کو مسائل کا گڑھ بنادیا ہے۔
میاں صاحب نے خوش آئند وعدوں پر الیکشن جیت لیا ہے لیکن ان وعدوں کی تکمیل جس قدر مشکل ہے اس کا اندازہ ان کو اور ان کے قریبی ساتھیوں کو بہ خوبی ہے۔ دوسری طرف عوام ہیں جن سے زیادہ بہترطور پر کون جان سکتا ہے کہ بجلی کا بحران، مہنگائی اور بیروزگاری ان کی ہڈیاں چبا رہے ہیں اور اس کے ساتھ ہی دہشت گردوں نے ان کا گھر دیکھ لیا ہے۔
میاں صاحب نے گزشتہ کئی تقاریر میں اور بہ طور خاص لاہور میں مسلم لیگ ن کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں باتیں کرتے ہوئے کسی لگی لپٹی سے کام نہیں لیا۔ انھوں نے خوش آئند وعدے یا خوب صورت دعوے کرنے کی بجائے کھل کا یہ کہا کہ میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم ہونے کا وقت نہیں دے سکتا لیکن پہلے 30 دنوں میں عوام کو حکومت کی کارکردگی نظر آئے گی، بجلی بحران حل کرنے کے لیے فوری طور پر 500 ارب روپے کا گردشی قرض اتارنا ہوگا، شہباز شریف جوشِ خطابت میں جو کہہ جاتے ہیں ایسی باتیں میں نہیں کہوں گا، مجھے مسائل کے حل کی فکر ہے میں وزیراعظم بننے نہیں آیا۔ حکومت میں آنے کے بعد تمام اراکین ذمے داری کا احساس کریں۔ جنھوں نے اپنے دور حکومت میں ذمے داری نہیں دکھائی ان کا حشر قوم نے دیکھ لیا ہے، ہم برسوں کے کام مہینوں میں کریں گے۔
پانچ سال ہمارے لیے امتحان ہونگے۔ انھوں نے بجا طور پر کہا کہ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کراچی کے حالات ٹھیک کریں، اس سلسلے میں مرکز ہر طرح کی مدد کو تیار ہے، انھوں نے لوگوں کو یاد دلایا کہ ملک 16ہزار ارب روپے کا مقروض ہو چکا ہے۔جسے اتارنے کے لیے جان جوکھوں میں ڈالنا پڑے گی، انھوں نے تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی سمیت تمام جماعتوں کو قومی ایجنڈے پر گفتگو کی دعوت دی۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی کے حکمرانوں نے بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور عوامی مسائل کے حل کے لیے کچھ نہیں کیا،سابق حکومت بجلی کا بحران ہمارے لیے چھوڑ گئی لیکن ہم تمام مسائل حل کرکے جائیں گے، انھوں نے یہ بات بھی کہی کہ اقتدار میں آکر 30 فیصد حکومتی اخراجات کو کم کیا جائیگا اور تمام اضافی اخراجات بھی ختم کر دیئے جائیں گے، جب دہشتگردی اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم ہو گی تو ملک معاشی طور پر مضبوط ہو گا۔
مسلم لیگ ن پر پنجاب کی پارٹی ہونے کا الزام لگتا ہے، اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جس طرح ہم لاہور اور پنجاب کی خدمت کرتے ہیں اسی طرح دیگر صوبوں میں بھی عوام کی خدمت کریں گے اور اس بارے میں کسی قسم کی تفریق نہیں کی جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ ہماری کسی جماعت سے کوئی دشمنی نہیں۔ عام انتخابات میں عوام نے کہیں جذباتی، کہیں روایتی اور کہیں میچورٹی کے ساتھ ووٹ دیئے ہیں اور ہم تمام جماعتوں کا مینڈیٹ تسلیم کرتے ہیں۔
وہ یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ (ن) لیگ کی پانچ سالہ حکومت ان کی پارٹی کے لیے بہت بڑا امتحان ہو گا۔ کامیاب ہو گئے تو آنے والے انتخابات میں بھی قوم ان پر مکمل اعتماد کریگی۔ وہ لوگوں کو یہ بات بھی یاد دلاتے ہیں کہ (ن) لیگ سے گزشتہ پانچ برسوں میں بار بار کہا گیا کہ پارلیمنٹ سے استعفے دو، پنجاب حکومت چھوڑو اور سڑکوں پر آکر احتجاج کرو لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا اور میں سمجھتا ہوں کہ اب سڑکوں پر آکر حکومت ختم کرنے کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔ انھوں نے لوگوں کو یہ بات یاد دلائی کہ 11مئی کو پاکستان میں بہت بڑا یوم احتساب تھا جس میں عوام نے کارکردگی نہ دکھانے والوں کو مسترد کر دیا۔
ملک جن مسائل اور سنگین بحران سے دوچار ہے اس کے حل کے لیے ان کا کہنا تھا کہ ہم مہینوں کے کام دنوں میں اور برسوں کے کام مہینوں میں کریں گے اور عوام کو جلد ازجلد ریلیف دیا جائیگا۔ اپنے اس نقطہ نظر کی بھی انھوں نے کھل کر وضاحت کی کہ بندوق اور گولی سے مسائل حل نہیں ہو سکتے، ہم اب تک دہشتگردی کی جنگ میں 40 ہزار جانوں کی قربانیاں دے چکے ہیں اور اب اگر طالبان نے مذاکرات کی پیشکش کی ہے تو یہ بہترین آپشن ہے اورتمام فریقوں کو اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے۔
آج ملک میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ایک جن کی شکل اختیار کر چکی ہے بجلی کی مسلسل بحالی کے لیے صرف 500 ارب روپے کا گردشی قرض ادا کرنا ہے۔ وہ صدر پاکستان کی دعوت پر اسلام آباد گئے۔ چینی وزیر اعظم کو دی جانے والی ضیافت میں شریک ہوئے تو انھوں نے فرمائش کی چین سول ایٹمی ٹیکنالوجی دے جس کی اس وقت پاکستان کوبے پناہ ضرورت ہے۔ اس سے پہلے یہ خبریں بھی آچکی ہیں کہ سعودی عرب سے تیل اور فرنس آئل کی درآمد کا معاہدہ چند دنوں میں ہوجائے گا۔ جس کی ادائیگی بعد میں ہوگی۔ اسی طرح پاور جنریشن کے مختلف منصوبوں پر ہنگامی طور سے غور ہورہا ہے۔
وقت نے ایک بار پھر میاں صاحب کو اس کا موقعہ دیا ہے کہ وہ پاکستان کو اس دلدل سے نکالیں جس میں بدعنوانیوں، رشوت ستانیوں اور نااہلی کے بدترین مظاہروں نے اسے دھکیل دیا ہے۔ یہ وہ کام ہے جس کے لیے کسی ایک نہیں درجنوں ایسے دیوانوں کی ضرورت ہوتی ہے جو سردھڑ کی بازی لگا کر اپنے کام میں جُٹ جائیں اور وہ کر گزریں جسے بہ ظاہر ناممکن سمجھا جارہا ہے۔
میاں صاحب نے اپنی انتخابی کامیابی کے بعد پہلے دن سے رواداری اور دوست داری کا مظاہرہ کیا ہے۔ انھوں نے انتخابات میں کامیاب ہونے والی تمام سیاسی جماعتوں کو مبارکباد دی اور سب کو یقین دلایا ہے کہ وہ ان کے مینڈیٹ کا احترام کریں گے۔ مولانا فضل الرحمان کی پیش کش کے باوجود انھوں نے یہی کہا کہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کے مینڈیٹ کا احترام ہونا چاہیے۔ کچھ وہ لوگ جو ان پر اور ان کے خاندان پرنہایت رکیک ذاتی حملے کرتے رہے ہیں، ان کے بارے میں بھی انھوں نے سخت بات کہنے سے گریز کیا اور در گزر سے کام لیا۔ وہ تیسری مرتبہ پاکستان کا وزیر اعظم ہونے کا شرف حاصل کرنے والے ہیں یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے جو پاکستانیوں نے انھیں دیا ہے۔
اگر قوم ان سے وزیر اعظم ہونے کے ساتھ ہی مدبر اور رہنما ہونے کی توقع کرے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ اکتوبر 1999ء کے بعد ذاتی طور پر وہ نہایت اندوہناک حالات سے گزرے ہیں اور ان کے خاندان نے بھی ان کے ساتھ ہی جلاوطنی کے دن بسر کیے ہیں۔ وہ جب کال کوٹھری میں تھے تو اپنی زندگی کے بارے میں بے یقینی کے لمحات گزارے ہیں۔ ان کرب ناک لمحوں سے گزر کر ایک بار پھر ایوان اقتدار کی طرف چلنے کا شرف بہت کم انسانوں کو حاصل ہوتا ہے۔
میاں صاحب خوش نصیب ہیں کہ کچھ لوگ انھیں تختۂ دار تک نہیں لے جاسکے۔ اس خوش نصیبی کا قرض وہ اسی طور اتار سکتے ہیں کہ آنے والے 5 برسوں میں کسی لسانی، نسلی، صوبائی اور مسلکی فرق کے بغیر پاکستانیوں کی زندگی سہل بنا دیں اور جب رخصت ہوں تو سالہا سال تک اپنی بلاتفریق قومی خدمات کے لیے یاد رکھے جائیں۔
لوگوں نے سکھ کا سانس لیا، کسی ترقی پذیر ملک کے دو بڑے لیڈر اگر جمہوریت کی بحالی اور عوام کے مسائل کے حل کے لیے اکٹھے ہوجائیں تو اس سے بڑی بات اورکیا ہوسکتی ہے۔ لوگ سمجھے کہ شاید ہمارے دن پھرنے والے ہیں لیکن درمیان میں کچھ بد عہدیاں ہوئیں۔ ابھی اس کی تلخی ختم نہیں ہوئی تھی کہ پھر ہم نے بے نظیر بھٹو جیسی کرشماتی شخصیت کو خون میں نہاتے دیکھا ۔
بی بی کا سوگ منانے والوں کے لیے یہ ایک ناقابل یقین منظر تھا کہ راولپنڈی کے اسپتال میں میاں نواز شریف پیپلز پارٹی کے کارکنوں سے پرسہ کرتے ہوئے زار زار رو رہے تھے۔ اس وقت سے آج تک میاں صاحب نے بی بی سے کیا ہوا میثاق جمہوریت کا وعدہ نبھایا ہے۔ انھوں نے اس حوالے سے 5 برس تک 'فرینڈلی اپوزیشن' 'نورا کشتی' اور 'مُک مُکا' جیسے طعنے سنے ہیں لیکن ہمت نہیں ہاری اور جمہوریت کی خاطر سب کچھ سہہ لیا ۔ یہ اسی صبرو تحمل کا نتیجہ ہے کہ ان کے عروج کے دن ایک بار پھر سامنے نظر آرہے ہیں۔
دو دن پہلے ایک انگریزی اخبار میں کارٹون شائع ہوا جس میں وزارتِ عظمیٰ کا تاج نظر آرہا ہے یہ تاج اس شاہی کرسی کے برابر رکھا ہے جس پر صرف کانٹے ہی کانٹے ہیں۔ اس فنکار نے صرف چند لکیروں کے ذریعے پاکستان کی وزارت ِعظمیٰ کا احوال بیان کردیا ہے جو چند دن بعد میاں صاحب کے حصے میں آنے والی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کی سربراہی اتنا بڑا چیلنج ہے کہ جس کا تصور کرتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے۔ اندرونی خلفشار اور پاکستان پر انتہا پسندوں کی یلغار نے ملک کو مسائل کا گڑھ بنادیا ہے۔
میاں صاحب نے خوش آئند وعدوں پر الیکشن جیت لیا ہے لیکن ان وعدوں کی تکمیل جس قدر مشکل ہے اس کا اندازہ ان کو اور ان کے قریبی ساتھیوں کو بہ خوبی ہے۔ دوسری طرف عوام ہیں جن سے زیادہ بہترطور پر کون جان سکتا ہے کہ بجلی کا بحران، مہنگائی اور بیروزگاری ان کی ہڈیاں چبا رہے ہیں اور اس کے ساتھ ہی دہشت گردوں نے ان کا گھر دیکھ لیا ہے۔
میاں صاحب نے گزشتہ کئی تقاریر میں اور بہ طور خاص لاہور میں مسلم لیگ ن کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں باتیں کرتے ہوئے کسی لگی لپٹی سے کام نہیں لیا۔ انھوں نے خوش آئند وعدے یا خوب صورت دعوے کرنے کی بجائے کھل کا یہ کہا کہ میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم ہونے کا وقت نہیں دے سکتا لیکن پہلے 30 دنوں میں عوام کو حکومت کی کارکردگی نظر آئے گی، بجلی بحران حل کرنے کے لیے فوری طور پر 500 ارب روپے کا گردشی قرض اتارنا ہوگا، شہباز شریف جوشِ خطابت میں جو کہہ جاتے ہیں ایسی باتیں میں نہیں کہوں گا، مجھے مسائل کے حل کی فکر ہے میں وزیراعظم بننے نہیں آیا۔ حکومت میں آنے کے بعد تمام اراکین ذمے داری کا احساس کریں۔ جنھوں نے اپنے دور حکومت میں ذمے داری نہیں دکھائی ان کا حشر قوم نے دیکھ لیا ہے، ہم برسوں کے کام مہینوں میں کریں گے۔
پانچ سال ہمارے لیے امتحان ہونگے۔ انھوں نے بجا طور پر کہا کہ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کراچی کے حالات ٹھیک کریں، اس سلسلے میں مرکز ہر طرح کی مدد کو تیار ہے، انھوں نے لوگوں کو یاد دلایا کہ ملک 16ہزار ارب روپے کا مقروض ہو چکا ہے۔جسے اتارنے کے لیے جان جوکھوں میں ڈالنا پڑے گی، انھوں نے تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی سمیت تمام جماعتوں کو قومی ایجنڈے پر گفتگو کی دعوت دی۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی کے حکمرانوں نے بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور عوامی مسائل کے حل کے لیے کچھ نہیں کیا،سابق حکومت بجلی کا بحران ہمارے لیے چھوڑ گئی لیکن ہم تمام مسائل حل کرکے جائیں گے، انھوں نے یہ بات بھی کہی کہ اقتدار میں آکر 30 فیصد حکومتی اخراجات کو کم کیا جائیگا اور تمام اضافی اخراجات بھی ختم کر دیئے جائیں گے، جب دہشتگردی اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم ہو گی تو ملک معاشی طور پر مضبوط ہو گا۔
مسلم لیگ ن پر پنجاب کی پارٹی ہونے کا الزام لگتا ہے، اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جس طرح ہم لاہور اور پنجاب کی خدمت کرتے ہیں اسی طرح دیگر صوبوں میں بھی عوام کی خدمت کریں گے اور اس بارے میں کسی قسم کی تفریق نہیں کی جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ ہماری کسی جماعت سے کوئی دشمنی نہیں۔ عام انتخابات میں عوام نے کہیں جذباتی، کہیں روایتی اور کہیں میچورٹی کے ساتھ ووٹ دیئے ہیں اور ہم تمام جماعتوں کا مینڈیٹ تسلیم کرتے ہیں۔
وہ یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ (ن) لیگ کی پانچ سالہ حکومت ان کی پارٹی کے لیے بہت بڑا امتحان ہو گا۔ کامیاب ہو گئے تو آنے والے انتخابات میں بھی قوم ان پر مکمل اعتماد کریگی۔ وہ لوگوں کو یہ بات بھی یاد دلاتے ہیں کہ (ن) لیگ سے گزشتہ پانچ برسوں میں بار بار کہا گیا کہ پارلیمنٹ سے استعفے دو، پنجاب حکومت چھوڑو اور سڑکوں پر آکر احتجاج کرو لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا اور میں سمجھتا ہوں کہ اب سڑکوں پر آکر حکومت ختم کرنے کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔ انھوں نے لوگوں کو یہ بات یاد دلائی کہ 11مئی کو پاکستان میں بہت بڑا یوم احتساب تھا جس میں عوام نے کارکردگی نہ دکھانے والوں کو مسترد کر دیا۔
ملک جن مسائل اور سنگین بحران سے دوچار ہے اس کے حل کے لیے ان کا کہنا تھا کہ ہم مہینوں کے کام دنوں میں اور برسوں کے کام مہینوں میں کریں گے اور عوام کو جلد ازجلد ریلیف دیا جائیگا۔ اپنے اس نقطہ نظر کی بھی انھوں نے کھل کر وضاحت کی کہ بندوق اور گولی سے مسائل حل نہیں ہو سکتے، ہم اب تک دہشتگردی کی جنگ میں 40 ہزار جانوں کی قربانیاں دے چکے ہیں اور اب اگر طالبان نے مذاکرات کی پیشکش کی ہے تو یہ بہترین آپشن ہے اورتمام فریقوں کو اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے۔
آج ملک میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ایک جن کی شکل اختیار کر چکی ہے بجلی کی مسلسل بحالی کے لیے صرف 500 ارب روپے کا گردشی قرض ادا کرنا ہے۔ وہ صدر پاکستان کی دعوت پر اسلام آباد گئے۔ چینی وزیر اعظم کو دی جانے والی ضیافت میں شریک ہوئے تو انھوں نے فرمائش کی چین سول ایٹمی ٹیکنالوجی دے جس کی اس وقت پاکستان کوبے پناہ ضرورت ہے۔ اس سے پہلے یہ خبریں بھی آچکی ہیں کہ سعودی عرب سے تیل اور فرنس آئل کی درآمد کا معاہدہ چند دنوں میں ہوجائے گا۔ جس کی ادائیگی بعد میں ہوگی۔ اسی طرح پاور جنریشن کے مختلف منصوبوں پر ہنگامی طور سے غور ہورہا ہے۔
وقت نے ایک بار پھر میاں صاحب کو اس کا موقعہ دیا ہے کہ وہ پاکستان کو اس دلدل سے نکالیں جس میں بدعنوانیوں، رشوت ستانیوں اور نااہلی کے بدترین مظاہروں نے اسے دھکیل دیا ہے۔ یہ وہ کام ہے جس کے لیے کسی ایک نہیں درجنوں ایسے دیوانوں کی ضرورت ہوتی ہے جو سردھڑ کی بازی لگا کر اپنے کام میں جُٹ جائیں اور وہ کر گزریں جسے بہ ظاہر ناممکن سمجھا جارہا ہے۔
میاں صاحب نے اپنی انتخابی کامیابی کے بعد پہلے دن سے رواداری اور دوست داری کا مظاہرہ کیا ہے۔ انھوں نے انتخابات میں کامیاب ہونے والی تمام سیاسی جماعتوں کو مبارکباد دی اور سب کو یقین دلایا ہے کہ وہ ان کے مینڈیٹ کا احترام کریں گے۔ مولانا فضل الرحمان کی پیش کش کے باوجود انھوں نے یہی کہا کہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کے مینڈیٹ کا احترام ہونا چاہیے۔ کچھ وہ لوگ جو ان پر اور ان کے خاندان پرنہایت رکیک ذاتی حملے کرتے رہے ہیں، ان کے بارے میں بھی انھوں نے سخت بات کہنے سے گریز کیا اور در گزر سے کام لیا۔ وہ تیسری مرتبہ پاکستان کا وزیر اعظم ہونے کا شرف حاصل کرنے والے ہیں یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے جو پاکستانیوں نے انھیں دیا ہے۔
اگر قوم ان سے وزیر اعظم ہونے کے ساتھ ہی مدبر اور رہنما ہونے کی توقع کرے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ اکتوبر 1999ء کے بعد ذاتی طور پر وہ نہایت اندوہناک حالات سے گزرے ہیں اور ان کے خاندان نے بھی ان کے ساتھ ہی جلاوطنی کے دن بسر کیے ہیں۔ وہ جب کال کوٹھری میں تھے تو اپنی زندگی کے بارے میں بے یقینی کے لمحات گزارے ہیں۔ ان کرب ناک لمحوں سے گزر کر ایک بار پھر ایوان اقتدار کی طرف چلنے کا شرف بہت کم انسانوں کو حاصل ہوتا ہے۔
میاں صاحب خوش نصیب ہیں کہ کچھ لوگ انھیں تختۂ دار تک نہیں لے جاسکے۔ اس خوش نصیبی کا قرض وہ اسی طور اتار سکتے ہیں کہ آنے والے 5 برسوں میں کسی لسانی، نسلی، صوبائی اور مسلکی فرق کے بغیر پاکستانیوں کی زندگی سہل بنا دیں اور جب رخصت ہوں تو سالہا سال تک اپنی بلاتفریق قومی خدمات کے لیے یاد رکھے جائیں۔