ذکر ایک دوست کا
یہ ڈائریکٹرکا کمال ہوتا ہے جو کچھ اسے ضرورت ہوتی ہے وہ اداکار کو یاد رہتا ہے اور جو وہ بھلانا چاہتا ہے وہ بھول جاتا ہے
آج کا کالم میں اپنے ایک دوست کے نام لکھ رہا ہوں اور میں برملا ی کہتا ہوں کہ معاف کرنا دوست ۔۔ اس لفظ دوست کو محض رسمی یا سیاسی مت سمجھئے کیوں کہ نہ تو میں سیاسی ہوں اور نہ رسمی بلکہ ایک سیدھا سادا اور اندر باہر ایک جیسا قلمکار ہوں، تو معاف کرنا دوست مجھ سے بہت بڑی بھول ہو گئی ہے، اتنی بڑی بھول جس کی نہ اب تلافی ممکن ہے اور نہ معافی، لیکن اعتراف گناہ تو کر ہی سکتا ہوں اور وہی کر رہا ہوں، مجھے افسوس کے اوپر افسوس ہے کہ میں خواہ مخواہ آپ سے لڑتا رہا، برا بھلا کہتا رہا اور آپ کے بدلے ہوئے بلکہ قطعی الٹے رویے کی شکایت کرتا رہا حتیٰ کہ بقول دوستوں کے آپ کی انتخابی شکست کا سامان بھی میں نے ہی کیا، لیکن بدلہ لینے کی یہ خوشی اس وقت انتہائی غم دکھ اور پچھتاوے میں بدل گئی جب مجھے پتہ چلا کہ آپ تو بھولے بھالے تھے، آپ صورت حال سمجھ نہیں پائے۔
بالکل انڈین فلموں کی طرح آپ کو ہوش آیا اور جو کچھ بھی آپ سے سرزد ہوا وہ اس بھولپن کی وجہ سے تھا، یہ تو ابھی ابھی مجھے معلوم ہوا جب آپ کے بارے میں یہ بتایا گیا کہ آپ اب صورت حال کو خاصی حد تک پہچاننے لگے ہیں تو مجھے اس پر خوشی بھی ہوئی لیکن ساتھ ہی دکھ اور پچھتاوا بھی ہوا کہ ہم خواہ مخواہ انھیں دشمن سمجھتے رہے اور انھیں دکھ پہنچاتے رہے، یہ ہماری غلطی تھی، ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا
لیکن یہ دکھ اور بڑھ گیا کہ جب یہ پتا چلا کہ آپ کو ایک منصوبے کے تحت ہپناٹائز کیا گیا تھا کہ جیسے ہی ہم چٹکی بجائیں آپ سب کچھ بھول جائیں گے اور وہی کریں گے، سمجھیں گے اور کہیں گے جو ہم تمہیں بتائیں گے اور پھر آپ ایسا ہی کرتے رہے، کم از کم بھارتی فلموں میں یہ بتایا جاتا ہے کہ جب انسان کسی وجہ سے کسی حصار میں پھنس جاتا ہے تو پھر جانتے ہوئے بھی حقائق بھول جاتا ہے لیکن اس احتیاط کے ساتھ کہ زبان وہی بولتا ہے جو منصوبہ بنانے والے چاہتے ہیں، لیکن سیاسی دنیا میں بھی اور فلمی دنیا میں وہی ہوتا ہے جو ڈائریکٹر چاہتا ہے۔
یہ ڈائریکٹر کا کمال ہوتا ہے جو کچھ اسے ضرورت ہوتی ہے وہ اداکار کو یاد رہتا ہے اور جو وہ بھلانا چاہتا ہے وہ بھول جاتا ہے۔ یہ بڑا مہارت کا کام ہوتا ہے۔ ہمارے دوست کے ''ڈائریکٹر'' بھی کمال کے تھے۔ وہ ہمارے دوست کی یادداشت کا خانہ ہی خالی کر گئے جو انھیں نہیں چاہیے تھا اور وہ کچھ ان کو کہانی کی ڈیمانڈ کے لیے تھا وہ اسے سب یاد رہا۔
ہمارے دوست کی زبان، ان کی خطابیت اور وہ سب کچھ جو ان کو چاہیے تھا اور وہ بے پناہ خلوص اور دھوکہ کھانے کی زبردست صلاحیت جو ان میں موجود رہی اور وہ چنے کے جھاڑ پر چڑھ کر آسمان کو چھونا۔۔۔۔ اور ڈیھلے پر چڑھ کر کشمیر دیکھنا بھی آپ کا ویسا ہی رہا، چنانچہ آپ کو چنے کی جھاڑ پر چڑھا کر وہ وہ بلوایا گیا کہ ساری دنیا عش عش کر اٹھی، ڈیھلے پر چڑھ کر آپ نے کشمیر تو کیا افغانستان تک دیکھ لیا، طالبان یا جو کچھ بھی کہئے کیونکہ ان کے نام وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔
کبھی دوست ہوتے ہیں، کبھی دشمن، کبھی مجاہد ہوتے ہیں کبھی شر پسند، کبھی جہادی ہوتے ہیں تو کبھی فسادی، بہرحال جو کچھ وہ ہیں ان کے ساتھ ہمیں سینگ بہ سینگ کر دیا گیا۔ ان ہی دنوں جب میں نے دیکھا کہ سارے گناہ پختونوں کے سر ڈال کر لوگ مزے کر رہے ہیں تو آپ کو خبردار کرنا چاہا کئی بار ملنے کی کوشش کی کئی تقریبات میں آپ سے بالمشافہ بھی درخواست کی کہ مجھے تھوڑا سا وقت دو، میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں لیکن وہ وقت کبھی نہیں آیا، یا یوں کہئے کہ ڈائریکٹروں نے نہیں آنے دیا کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ بہرحال ہم پرانے یار ہیں ایسا نہ ہو کہ میں آپ کو جھنجھوڑ کر آپ کی یادداشت کو جگا دوں ۔
آپ کے اردگرد بعض لوگ ایسے بھی تھے جنھیں میرے بارے میں اچھی طرح معلوم تھا کہ میں لوگوں کی کھوئی ہوئی یادداشت بحال کرنے کا ماہر ہوں، اس لیے انھوں نے میرے اور آپ کے درمیان اتنا دھواں پھیلایا کہ میں آپ کو سامنے ہوتے ہوئے بھی نہ پا سکا اور یہی میری غلطی تھی، آپ کا کوئی قصور نہیں تھا۔
آپ توبری طرح موقع پرستوں کے حصار میں تھے۔ مریض تھے، روگی تھے ہیپناٹائزڈ تھے اور یہی بات مجھے معلوم نہیں تھی میں تو آپ کو صحیح سلامت سمجھ کر ناراض ہو گیا تھا اور پھر آپ کو برا بھلا کہتا رہا، آپ کو بھی موقع پرست بانس پر چڑھاتے رہے اور یوں ہم دشمن ہو گئے۔ دشمن جو کبھی دوست تھے، اس عرصے میں ڈائریکٹر لوگ اپنے آپ کو مضبوط کرتے رہے۔
چاروں اطراف میں جڑیں پھیلاتے رہے اور پاس پڑوس کے ممالک اور علاقوں کو فتح کرتے رہے ۔۔۔۔ افغانستان تو پہلے ہی سے اپنا تھا۔ پاکستان کے رہائشی اور شہری تھے، کے پی کے پر مستقل قبضہ کرنے بلکہ قبضے کو مضبوط کرنے کی خواہش ہو رہی تھی۔ ایک پنجاب سے کوئی ان بن تھی یا دکھاوے کی ''پشتونیت'' تھی سو وہ مسئلہ بھی حل ہو گیا پنجاب کے ایک مشہور و معروف ڈائریکٹر اور ہنر مند سے رشتہ بن گیا، گویا اطراف میں چھا گئے۔۔۔
ایک چیونٹی کو ہاتھی پر سوار کر دیا گیا لیکن یہ تو صرف ہمارا خیال تھا جو سراسر غلط تھا وہ تو باقاعدہ ایک منصوبہ تھا دارالحکومت کو کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کا اپنی سہولت کے لیے آپ کراچی کو صوبہ خیبرپختونخوا کا کوئی علاقہ اور اسلام آباد کو بھی یہیں کا ایک علاقہ سمجھ لیجیے بے چارے جانشین کو دور سونے کے پنجرے میں ڈال کر صرف میاں مٹھو بنا دیا گیا۔ جو ہنر مند ہوتے ہیں وہ دریائی ''لہریں'' گننے میں اپنا کمال دکھا ہی دیتے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ ہوشیار کوئی خانہ خالی نہیں چھوڑتا حالانکہ میرے ایک دوست کو بھی سینیٹر بنایا جا سکتا تھا لیکن ان کی اتنی قسمت کہاں۔۔۔۔
لیکن ایسا لگتا ہے کہ بڑے منصوبہ سازوں نے آپ کو تو صرف پانچ سال کے لیے رکھنا تھا۔ ان کا جو مقصد تھا وہ پورا ہو رہا تھا، عالمی سیاست دان بھی بڑے سمجھدار ہوتے ہیں۔ انھیں جتنی کسی کی ضرورت ہوتی ہے اس وقت تک ساتھ چلتے ہیں اور اس کے بعد بھول جاتے ہیں اور پھر انھیں کچھ یاد نہیں رہتا۔ آپ دونوں کی ایکسپائری ڈیٹ پہلے سے طے تھی (11 مئی 2013ء)، بہرحال مجھے دکھ بھی ہے پشمانی بھی لیکن حیرانی بالکل بھی نہیں کیوں کہ بادشاہ گر لوگ آپ جیسے سادہ لوگوں کو استعمال کرنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ مجھے جو بھی نقصان وہ سب میں نے معاف کر دیا ہے کیوں کہ آپ تو ہوش میں تھے نہیں۔