بلم… تو کرلے ستم

کمپیوٹر اب ہر کوئی استعمال کرتا ہے۔ اس کے استعمال میں سب سے بڑی بدمزگی وہ وائرس ہے جو اس پر حملہ کرتا ہے۔

tariq@tariqmian.com

بدگمانی اچھی بات نہیں لیکن میرا آج کا موضوع ایسا ہے کہ امید ہے میں تھوڑی ہی دیر میں قنوطیت کی معراج کو چھو لوں گا۔ ہم لوگ مسائل کے حل کے بارے میں کیسی کیسی امیدیں باندھ لیتے ہیں۔ من میں آس کا دیا تو جلا لیکن بتی کے نیچے تیل کی بس دو عدد بوندیں۔ بعد میں پتہ چلتا ہے کہ تیل کا ڈرم پچھواڑے میں چھپادیا گیا تھا۔کیسی تلخ حقیقت ہے کہ جن مسیحاؤں سے ہم اپنے دکھ کا مداوا چاہتے ہیں وہی اس درد کی وجہ ہوتے ہیں۔ یہ کام بڑی پلاننگ سے ہوتا ہے اور یہی کامیاب کاروبار ہے۔

بارشوں کا موسم تھا۔ تھوڑی بے احتیاطی ہوئی تو گلا خراب ہوگیا اور کچھ کچھ بخار بھی۔ ڈاکٹر کے پاس گیا تو اس سے پہلے کہ وہ میرا حال پوچھتا، میں نے پوچھ لیا ''ڈاکٹر صاحب کیسے حالات ہیں؟ کام کا کیا حال ہے؟''

بولا ''الحمداللہ بہت اچھے حالات ہیں۔ بارشیں ہوئی ہیں تو جوہڑ بن گئے ہیں۔ مچھروں کی خوب بہتات ہے۔ ماشاء اللہ سیزن بہت اچھا جارہا ہے۔''

''ڈاکٹر ٹھیک کہہ رہا تھا۔ واقعی اس کا سیزن لگ گیا تھا۔ باہر مریضوں کی بھیڑ تھی۔ میرا اپنا نمبر 85 تھا۔

چلیے خراب حالات اور خراب صورت حال سے فائدہ اٹھانا ایک الگ بات ہے لیکن فائدہ اٹھانے کے لیے صورت حال کو خراب کرنا کیا کہلائے گا؟ ملک میں ایک دم سے اشیائے صرف کی قلت ہوجاتی ہے اور دام بڑھ جاتے ہیں۔ کبھی چینی غائب ہوگئی تو کبھی گندم اور کبھی کچھ اور۔ بلیک مارکیٹنگ شروع اور اسٹاک کرنے والوں کی چاندی۔ جتنا گزشتہ پورے سال میں نہیں کمایا ہوتا اتنا دو ہفتوں میں اینٹھ لیتے ہیں۔ بعد میں پتہ چلتا ہے کہ یہ سارا کھیل چینی کے کارخانہ مالکان کا تھا۔ انہوں نے ہی میچ فکسنگ کی تھی۔

اور تو اور اسی فارمولے کے تحت چوکیدار بھی محلے میں چھوٹی موٹی چوریاں کروانی شروع کردیتے ہیں تاکہ ان کی نوکریوں کا مستقل بندوبست ہوسکے۔ یہ تمام چھوٹی بڑی سیکیورٹی کمپنیاں بھی ایسے ہی حالات کی پیداوار ہیں۔ کراچی کی بدامنی میں جانے کس کس کے وارے نیارے ہورہے ہیں اور کون کون کس کس طرح اس میں حصہ دار ہے۔ امن وامان کے مسئلے سے زیادہ مجھے تو یہ کاروباری معاملہ دکھائی دیتا ہے۔ مال بنانے اور بٹورنے کے عجب ہتھکنڈے ہیں۔ باقی آپ خود سمجھدار ہیں۔

کمپیوٹر اب ہر کوئی استعمال کرتا ہے۔ اس کے استعمال میں سب سے بڑی بدمزگی وہ وائرس ہے جو اس پر حملہ کرتا ہے۔ وائرس کی ہزارہا قسمیں ہیں جو کمپیوٹر سے اٹھکیلیاں بھی کرتی ہیں اور اسے تباہ و برباد بھی کردیتی ہیں۔ اٹھکیلیاں ایسی کہ آپ کے کمپیوٹر سے آپ کے احباب کو خود بخود ای میلز جانا شروع ہوجاتی ہیں ان میں ایسے پیغامات ہوتے ہیں کہ آپ ان سے منہ چھپاتے پھرتے ہیں اور وضاحتیں کر کرکے ہانپ جاتے ہیں، پھر ایسے وائرس ہیں جو آپ کا سوفٹ ویئر، ڈیٹا اور ہارڈویئر بھی تبدیل کرسکتے ہیں یا انہیں ناقابل استعمال بنا دیتے یہں۔


ان سے بچاؤ کے لیے اینٹی وائرس پروگرام انسٹال کیا جاتا ہے۔ ایسے پروگرام بنانے والی درجنوں کمپنیاں ہیں جو مہنگے داموں اپنا سوفٹ ویئر فروخت کرتی ہیں اور کروڑوں ڈالر کا بزنس کرتی ہیں۔ وائرس بنانے والوں اور اینٹی وائرس پروگرام بنانے والوں میں ایک جنگ ہے جو مسلسل جاری ہے۔ روزانہ سینکڑوں نئے وائرسز حملہ آور ہوتے ہیں اور روز ہی ان کا توڑ کیا جاتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر وائرس خود یہی اینٹی وائرس پروگرام بنانے والی کمپنیاں تیار کرواتی ہیں اور اس کام کے لیے انہوں نے ماہرین رکھے ہوئے ہیں۔ یہی ان کا کاروباری راز ہے۔

اسی طرح کی ایک اور بدگمانی بھی پیش خدمت ہے۔ ذرا سوچیے کہ کاریں چوری کروانے میں برگلر الارم اور ٹریکنگ سسٹم بنانے والوں کا کتنا ہاتھ ہوگا۔ جو یہ ستم کرتے ہیں انہی سے ہم کرم کی تمنا کرتے ہیں۔ تمہی نے درد دیا ہے تمہی دوا دینا۔ کاروں کی چوری ختم ہوجائے تو اینٹی کار لفٹنگ آلات بنانے والی کتنی ہی صنعتیں بند ہوجائیں۔

کچھ ایسی ہی صورت حال دوائیں بنانے والی کمپنیوں کی ہے۔ شنید ہے کہ کئی ناقابل علاج بیماریوں کا علاج دریافت کرلیا جاتا ہے لیکن دوائیں بازار میں نہیں لائی جاتیں یا اس میں تاخیر کی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس بیماری کو کنٹرول میں رکھنے کی دوائیں بنانے اور بیچنے سے لاکھوں افراد کا روبار وابستہ ہوتا ہے۔ انہیں صورت حال سے نپٹنے کے لیے وقت دیا جاتا ہے۔ میں نے یہاں تک سنا ہے کہ شوگر کی بیماری کا بھی کوئی تدارک کرلیا گیا ہے لیکن ابھی اسے خفیہ رکھا جارہا ہے۔ یہ عام ہوجائے تو دوائیں اور ٹیسٹ کے آلات بنانے والی کئی کمپنیاں ڈوب جائیں۔ میں نے کچھ ماہرین سے بات کی تو انہوں نے اس علاج کے امکان میں شبہ ظاہر کیا ہے۔ لیکن بہرحال اس سے ایک کاروباری حقیقت تو ظاہر ہو ہی جاتی ہے۔

اب آئیے اس دیسی بیماری کی طرف جس نے ایسا ستم ڈھایا ہے کہ حکومت کا نقشہ بدل کے رکھ دیا ہے۔ وہ پیپلزپارٹی کھا گئی ہے اور شاید اگلے چند برسوں میں اگلی حکومت کو بھی ہضم کرجائے۔ بجلی کی کمی اور لوڈ شیڈنگ۔ مجھے یقین ہے کہ یہ بحران جاری رہے گا۔ اس کی شدت میں کمی ہوسکتی ہے لیکن ختم کبھی نہیں ہوگا۔ نااہلیاں اور نالائقیاں تو اس بحران کے پیچھے ہمیشہ سے موجود ہیں لیکن بدنیتیں اور کاروباری مصلحتیں بھی اپنا کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ آئندہ بھی یہی ہوگا۔ نئے لوگوں میں کوئی سرخاب کے پر نہیں لگے ہوئے۔ نہ ہی وہ اپنے ہمراہ وہ چراغ لے کے آئے ہیں جنہیں گھسیں گے ''تو کیا حکم ہے میرے آقا۔۔۔۔!'' والے جن برآمد ہوجائیں گے اور آناً فاناً بجلی کا بحران ختم کردیں گے۔

دیگر عملی مجبوریوں کے ساتھ ساتھ وہ کاروباری مافیا بھی ان کی ٹانگوں کو جھپا مارے گا جس کا کیس میں نے اس کالم میں پیش کیا ہے۔ بجلی کی کمی پوری ہوگئی تو جنریٹر بنانے اور بیچنے والے کہاں جائیں گے اور یوپی ایس، بیٹریاں، ایمرجنسی لائٹس، پنکھے اور سولر آلات بنانے والے کیا فاقے کریں گے؟ یہ اربوں اور کھربوں کا کاروبار ہے۔ ان کی تقدیر اس بحران کے جاری رہنے سے وابستہ ہے۔ وہ اس کے لیے ہر حربہ استعمال کریں گے۔ نوٹ بھی اور چوٹ بھی۔

کوئی نوجوان اور پروفیشنل قیادت سامنے لائی جاتی تو امکان تھا کہ وہ اپنی تازہ دم توانائیاں اور صلاحیتوں کے بل پر اس مسئلے اور اس مافیا کا بیک وقت مقابلہ کرلیتی۔ مسلم لیگ (ن) کے پاس یقینا ایسے باصلاحیت لوگ موجود ہیں لیکن جنہیں سامنے لایا جارہا ہے وہ کون ہیں۔ وہی پرانی عقلیں، پرانی شکلیں اور مصلحتوں میں گردن تک دھنسے ہوئے بندے۔ کنوئیں کے مینڈک اور چلے ہوئے کارتوس۔

ویسے ایک بات بتائیں۔ جب ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ سیل کمزور ہیں تو پھر بھی ریموٹ کا بٹن زور زور سے کیوں دباتے ہیں؟
Load Next Story