انسان کی بشری کمزوریاں اور نفسیات آخری حصہ

اکثریت میں انسان مناصب کی منزلیں طے کرنے کے بعد انا کی بلندیوں پر چڑھ جاتا ہے

1978 سے جن چند ساتھیوں نے میرے ساتھ کام شروع کیا تھا، تو رات رات بھر ہم خود ہی ہاتھ سے پمفلٹ کے Stencils کاٹا کرتے تھے، پھر اس کو برنس روڈ لے جاکر اس کے پمفلٹ بنواتے تھے وغیرہ وغیرہ۔ کہنے کا مقصد ہم خود ہی رات رات بھر مل کر چند ہی لوگ کام کیا کرتے تھے اور عموماً کام میرے گھر میں ہوا کرتا تھا، اس وقت بھی میں ساتھیوں کے لیے چائے بناتا تھا، کھانا پکاتا تھا اور آٹا گوندھتا تھا، روٹیاں پکاتا تھا،

اس وقت الطاف حسین کو کوئی نہیں جانتا تھا ماسوائے دس پندرہ افراد کے، لہٰذا اس وقت تو الطاف حسین یہ کرلیتا تھا لیکن آج الطاف حسین کو اﷲ تعالیٰ کے فضل وکرم سے Nationaly اور Internationaly طور پر پہچانا جاتاہے، کم از کم ملک میں تو سب ہی الطاف حسین کے نام سے واقف ہیں لیکن 35 سال گزر جانے کے باوجود آج بھی الطاف حسین وقتاً فوقتاً اپنے ہاتھ سے کھانا پکا کر انٹرنیشنل سیکریٹریٹ کے ساتھیوں کو بھیجتا ہے، ایک باورچی کی حیثیت سے سارے کام کرتا ہے، پیاز بھی کاٹتا ہے، کھانے کے برتن بھی دھوتا ہے،

سارا کام خود کرتا ہے اور وہ کھانا ساتھیوں کو انٹرنیشنل سیکریٹریٹ بھیجتا ہے، تو آج جب اسے اتنے لوگ جانتے ہیں تو آج اس مقام کی جو Ego اور انا ہوتی ہے وہ الطاف حسین کو باورچی کا کام کرنے کی راہ میں رکاوٹ کیوں نہیں بنتی؟ اس لیے کہ جب کل میں نے کام شروع کیا تھا تو نظریہ میرے ذہن پر غالب تھا، آج پورے پاکستان میں سب ہی میرے نام سے واقف ہیں، اس کا مطلب ہے اﷲ تعالیٰ نے بڑی عزت دی، بڑا مقام دیا لیکن مقام بڑا ہوگیا مگر میں نے نظریے پر مقام، نام اور شہرت کو غالب نہیں آنے دیا، بلکہ ذہن پر نظریہ ہی کل بھی حاوی تھا آج بھی حاوی ہے،

یہ ہی وجہ ہے کہ آج الطاف حسین ساتھیوں کو غلام، نوکر، حقیر نہیں سمجھتا، ساتھی سمجھتا ہے، کل بھی ساتھی سمجھتا تھا آج بھی ساتھی سمجھتا ہے۔ پاکستان کا کون سا صدر یا پرائم منسڑ ایسا ہوگا جس سے الطاف حسین کی ملاقات نہ ہوئی ہو، جو اپنی مدد کے لیے Political support کے لیے الطاف حسین کے پاس نہ آیا ہو، تو الطاف حسین کا دماغ خراب نہیں ہوا۔ اکثریت میں انسان مناصب کی منزلیں طے کرنے کے بعد انا کی بلندیوں پر چڑھ جاتا ہے، الطاف حسین کا ذہن بلندیوں پر پہنچنے کے باوجود، الطاف حسین کی انا بلندیوں پر کیوں نہ پہنچی؟ اس لیے کہ الطاف حسین کی نظر میں، الطاف حسین کی سوچ و فکرمیں، روح میں، ایمان میں نظریہ کل بھی اول تھا اور آج بھی نظریہ اول ہے۔

ہمارے 35 سا لہ تجربات کیا کہتے ہیں، مختلف شعبہ جات میں ذمے داریوں پر پہنچنے کے بعد اکثریت میں ذمے داروں کے دماغ خراب ہوجاتے ہیں، گفتگو کا انداز بدل جاتا ہے، چال میں فرق آجاتا ہے، لہجے میں فرق آجاتا ہے اور انداز گفتگو تبدیل ہوجاتا ہے، مخاطب کرنے کا انداز ساتھیوں جیسا نہیں بلکہ حاکمانہ ہوجاتا ہے۔ اکثریت کا یہی عمل ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کا نظریاتی غلاف بہت باریک جھلی کی مانند ہوتا ہے یا انتہائی خستہ نازک کپڑے کی مانند ہوتا ہے، کچے دھاگے کی مانند ہوتا ہے،


جیسے ہی وہ انسان کسی بلند مقام پر پہنچنا شروع ہوتا ہے، یہ مقام ہی اس کے نظریاتی لباس کو تار تار کر ڈالتے ہیں۔ اور دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ بڑے بڑے مقام پر پہنچنے والوں کی اکثریت کسی نظریاتی تحریک، امتحانات یا مشکلات میںچھوڑ کر یا تو چلی جاتی ہے یا تحریک کے دشمنوں سے جاکرمل جاتی ہے۔ حالات سے گھبرا کر دشمنوں سے ملنے والوں کی اکثریت وہ ہوتی ہے جو بڑے بڑے مقام رکھتی ہے لیکن عام کارکنوں کی نہیں ہوتی، کیونکہ کارکن غور سے سنتا ہے اور ذمے دار جو ہے، فکری نشست کے دوران عموماً سوجاتا ہے۔

سیکریٹریٹ میں فکری نشست کے دوران کوئی سوگیا تھا اور سارے کارکن جو ہیں وہ بے چارے لکھ رہے ہیں کوئی غورسے سن رہے تھے اور ذمے دار خواب و خرگوش کے مزے لے رہے ہیں، یہی ہے کارکن اور ذمے دار کا فرق... الطاف حسین جو کہتا ہے قدرت ویسا ہی دکھاتی ہے فوراً دکھاتی ہے۔ تو جب ذمے داران کی اکثریت سوئے گی تو کڑے اور مشکل وقت میں پہلے وہ ہی بھاگے گی اور کارکن جو غور سے سنتا ہے، کڑے اور برے وقت میں وہ ہی الطاف حسین کا دست و بازو بنا رہتا ہے۔

میرے ساتھیو! اپنے نظریاتی لباس کو، اپنے نظریاتی غلاف کو ایسے مضبوط دھاگے کے بنے کپڑے جیسا بنائیے جو نہ بارش سے متاثر ہوسکے اور جس میں آگ نہ لگ سکے، جس کو کوئی پھاڑ نہ سکے، جس کو کوئی توڑ نہ سکے، اتنے مضبوط اور نظریاتی غلاف میں اپنے آپ کو بند کرلیجیے تاکہ کوئی سازشی آندھی ہو، سازشی آگ ہو، سازشی طوفان ہو، سیلاب ہو، وہ نہ آپ کو بہا کے لے جاسکے نہ آپ کی نظریاتی سوچ کو آگ لگاسکے۔ ساتھیو! 35 سال سے آپ نے سب کو دیکھ لیا ہے، ساری چیزیں ساری آزمائشیں آپ کے سامنے آچکی ہیں،

کس طرح سہل پسند اور آرام دہ زندگی میں آجانے والے افراد تحریک کو اپنے مفاد اور ذاتی مفاد کا ذریعہ بنانے والے تو حالات کے جبر کا سامنا کرنے کے بجائے بک جایا کرتے ہیں، لیکن نظریاتی مشن اور مقصد کو اپنا ایمان بنانے والے جان دے دیتے ہیں مگر اپنے ضمیر کا اور اپنے نظریے کا سودا نہیں کرتے، جس طرح بہت سے ساتھیوں کی اکثریت ماضی یعنی 19 جون 1992 کو جو آپریشن ہوا اور اس کے بعد ساتھیوں کے ماورائے عدالت قتل ہوئے، ہزاروں ساتھی شہید کیے گئے، بے گھر کیے گئے، بیدخل کیے گئے، لاپتہ کیے گئے لیکن ساتھیوں نے تمام سازشوں کا مقابلہ کیا اور شہید ساتھیوں کے لہو کا سودا نہیں کیا۔

نظریاتی مشن کا جو ایمان ہے اسے اور زیادہ مضبوط کرو، کیونکہ ہمارا نظریہ سچائی کا نظریہ ہے، سچائی کی تبلیغ، انصاف کے نظام کا قیام، سب کے ساتھ مساویانہ سلوک اور چھوٹے بڑے کی تفریق کا خاتمہ، سب کی عزت برابر ہو، سارے نیک لوگوں کا یہی پیغام رہا ہے کہ انسانیت کی عزت، انسانیت کی فلاح، انسانیت کی خدمت بلا امتیاز رنگ و نسل و زبان و مذہب کی جائے۔

آپ جس مقام، پوزیشن پر، جس منصب پر کیوں نہ ہوں آپ سے میں request کرتا ہوں، اپیل کرتا ہوں کہ اپنا نظریاتی حصار اتنا مضبوط بنالیں کہ آپ کا مقام منصب کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو مگر اس کے ساتھ آپ کی انا کبھی بلند نہیں ہونی چاہیے، آپ کسی بھی منصب پر ہوں آپ کا نظریاتی عمل یہی ہونا چاہیے کہ آپ کارکن تھے اور کارکن ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر آپ اس پر عمل کریں گے تو اپنے منصب کے ساتھ ساتھ اپنی آخری سانس تک ثابت قدم رہنے والوں کی فہرست میں شامل رہیں گے۔
Load Next Story