تسلط یافتہ قوم
پاکستان میں تعلیم کے حوالے سے بہت سے ایشوز اٹھتے رہتے ہیں یہ ہونا چاہیے، یہ نہیں، لیکن مثبت انداز کی سوچ کو پرے۔۔۔
مذہب اسلام میں تعلیم کی حیثیت کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ جب حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم پر پہلی بار وحی نازل ہوئی تو جو پہلا لفظ رب العزت کی جانب سے حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ کو سنایا وہ تھا اقراء''پڑھ'' گویا طے کردیا گیا تھا کہ ہر مسلمان پر پڑھنا لازمی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ لفظ جس عظیم ہستی کے ذریعے دنیا پر آشکار ہوا وہ خود امی تھے لیکن کرشمہ قدرت اس ذات کا کہ جس نے اتنی محبت سے اپنا محبوب تخلیق کیا تھا کہ علم کا ایک سمندر تھا جو آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے امنڈ امنڈ کر ساری دنیا کو سیراب کرتا رہا۔ تعلیم انسان کو باشعور بناتی ہے، اسے زندگی گزارنے کے سلیقے سکھاتی ہے۔
قدرت کی جانب سے عطا کردہ نعمتوں سے کس کس طرح سے مستفید ہوا جاسکتا ہے یہ سب تعلیم ہی کا کمال ہے، تعلیم کس طرح کی ہونی چاہیے، آج ہمارے ملک میں یہ سوال ذہنوں میں ابھر رہا ہے، اسے حاصل کرنا تو اشد ضروری ہے لیکن اس سے کس کس طرح سے مستفید ہوا جاسکتا ہے یہ سب سے اہم ہے۔
بھارت کے ایک اعلیٰ درجے کے اسکول کے نصاب میں بھارتی اداکارہ پریانکا چوپڑا پر ایک سبق شامل کیا گیا جس میں موصوفہ کی تصاویر میں ان کے انتہائی جدید انداز کے لباس اور ملکہ حسن کے تاج سے مزین انتہائی خوشگوار انداز میں دکھایا گیا تھا جب کہ دوسری تصویر میں وہ ان ہی مختصر کپڑوں میں تھیں جوکہ عام طور پر بھارتی اداکارائیں زیب تن کرتی ہیں۔
کچھ برسوں پہلے تک موصوفہ ملکہ حسن قرار دیے جانے کے باوجود فلمی دنیا میں کوئی اہم مقام نہ حاصل کرسکی تھیں۔ سنا تھا کہ ایک معروف فلمی گھرانے کے سپوت سے ان کا افیئر بھی چلا تھا لیکن وہ بھی خوب رہے ، شادی کے نام پر ایسے بدکے کہ پھر نہ لوٹے، پھر چوپڑا صاحبہ نے شاہ رخ خان سے دوستی بڑھائی جو خاصی مبارک ثابت ہوئی، گلوکاری پر بھی ہاتھ صاف کرلیا اور ایک انگریزی زبان میں البم کے اجراء کے بعد بہترین گلوکاروں کی فہرست میں شامل کرلی گئیں۔
سب کچھ ٹھیک ہے لیکن ان کو نصاب میں شامل کرلینا ایسا ہی ہے جیسے سربجیت سنگھ کی پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ آخری رسومات ادا کرنا۔ پڑوس میں تعلیم کی اہمیت اب کس اعلیٰ درجے پر جاچکی ہے اس کا اندازہ کچھ کچھ تو ہورہا ہے، خواتین کے ساتھ تشدد کے واقعات، ایڈز کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ بھی بھارت میں اسی تیز رفتاری سے ہورہا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ تو غیر متوازن ہے جو ان کے معاشرے میں اخلاقی قدروں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ہندوستانی تہذیب شاید زوال آمادہ ہے۔
برصغیر میں مسلمانوں کی آمد کے بعد اس سرزمین پر بہت سے انقلابات آئے جس نے برصغیر کی تاریخ کو تابناک بنادیا تھا، مسلمان بادشاہوں کے راج سے لے کر انگریزوں کے تسلط سے پہلے تک برصغیر کے ہندو مسلمان جس خوشحالی اور آزادی سے زندگی گزار رہے تھے وہ ایک بہترین نمونہ تھا جسے دنیا کے نقشے پر دلچسپی سے دیکھا جارہا تھا یہاں کی دولت، تعلیم اور ترقی غیرملکی باشندوں کو ششدر کردیتی تھی، اہل مغرب جو اپنے آپ کو اعلیٰ ترین مہذب قوم ہونے کے زعم میں مبتلا تھے اپنے سے کہیں زیادہ مہذب اور تعلیم یافتہ برصغیر کو دیکھ کر ہڑبڑا اٹھے۔ یہاں کا تعلیمی نظام ان کے کیمبرج سسٹم کے مقابلے میں کہیں پرانا اور مضبوط تھا جو برصغیر کی ترقی میں بھرپور کردار ادا کر رہا تھا۔ یہاں عالموں کی قدر تھی۔
اسے تسخیر کرنا آسان نہ تھا، لیکن وار کرنا ان کے لیے ضروری تھا نشانے کے لیے انھوں نے کیا کیا منتخب کیا۔ 1835 بتاریخ 2 فروری برطانوی پارلیمنٹ سے لارڈ میکاڈلے نے خطاب کیا جس میں اس نے اقرار کیا کہ اس نے انڈیا کے طول و عرض میں سفر کیا ہے لیکن وہاں اتنی دولت ہے کہ اسے ایک بھی فقیر یا چور نہیں ملا، صرف یہی نہیں اس نے یہ بھی مانا کہ یہاں کی اخلاقی قدریں اور لوگوں میں اتنی خوبیاں ہیں کہ وہ انھیں فتح نہیں کرسکتے، جب تک کہ ان کے مذہبی اور ثقافتی ورثے کو نہ توڑدیں۔ لارڈ میکاڈلے نے اس مذہبی اور ثقافتی ورثے کو برصغیر کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیا، جسے آج ہم فرسودہ اور بوسیدہ قرار دیتے ہیں۔ لارڈ میکاڈلے نے اپنے اس خطاب میں کہا کہ ہم ان کے پرانے اور قدیم تعلیمی نظام کو اس طرح بیرونی و انگریزی سے تبدیل کردیں کہ وہ یہ سمجھنے لگیں کہ یہی بہترین اور عظیم ہے۔
اس طرح وہ اپنی عزت و توقیر کھودیں گے اور پھر وہ ایسے بن جائیں گے جیسا کہ ہم چاہتے ہیں ایک مکمل تسلط یافتہ قوم۔ آج پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں جو کچھ ہورہا ہے اسے دیکھ کر لارڈ میکالے کے اس خطاب کی جھلک واضح نظر آتی ہے۔
ان تینوں ممالک میں مغرب کا تسلط بھرپور رنگ جما چکا ہے، بھارت اپنے طاقتور ہونے کا بڑا شور مچاتا ہے، وہاں کی فلمی دنیا ہالی ووڈ سے آگے نکل چکی ہے، رنگ برنگے ستاروں کی دنیا میں کیا ہورہا ہے، لوگ جاننا چاہتے ہیں۔ ان کی طرز کے کپڑے جو بے حیائی و عریانیت کا کھلا نمونہ ہیں عوام میں بھی مقبول ہیں۔ اسے وہ جدت پسندی اور کھلے ذہن ہونے کا ثبوت قرار دیتے ہیں لیکن وہیں اس جدت پسندی کے درخت تلے ہزاروں لاکھوں معصوم بچیاں، خواتین دکھ و اذیت سے سسک رہی ہیں، انھیں اسی ترقی پسندی نے بے آبرو کرکے معاشرے میں ایک سوال بناکر چھوڑ دیا جس کا جواب وہ ڈھونڈنا ہی نہیں چاہتے۔
پاکستان میں تعلیم کے حوالے سے بہت سے ایشوز اٹھتے رہتے ہیں یہ ہونا چاہیے، یہ نہیں، لیکن مثبت انداز کی سوچ کو پرے دھکیل دیا گیا ہے۔ جتنا نصاب کو سخت اور مشکل بنانے کی ترکیبیں لڑائی جارہی ہیں اس سے زیادہ بوٹی مافیا عام ہورہا ہے۔ ہمارے کلچر میں جس قسم کی گفتگو کبھی روا تھی اب وہ ہندی کے ملے جلے رنگ سے خاصی بے رنگ ہوچکی ہے۔ ہر دوسرے اسکول میں الگ کورس، جس کے اچھے ہونے کا تعین اس کی موٹی تازی قیمتوں سے کیا جاتا ہے، بھاری بھرکم بستے، کتابوں کے انبار اور بچوں کو اس میں سے کیا کچھ آتا ہے، زیادہ تر سلیبس کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے، بچا کھچا ہڑتالوں، جھگڑوں کے باعث بمشکل امتحان کے قابل بچ جاتا ہے، اردو میڈیم انگلش میڈیم کا شور، دلچسپ بات یہ کہ سرکاری تعلیمی اداروں کے اساتذہ کی تنخواہیں بھاری بھرکم اور نصاب ہلکا پھلکا جب کہ غیر سرکاری اداروں کے اساتذہ کی تنخواہیں شرمناک حد تک کم اور نصاب متاثر کن حد تک بھاری۔
اس قسم کے تعلیمی معیار سے جو پود نکل رہی ہے نہ پوچھیے۔ اور دور کیوں جائیے، اپنے اردگرد ہی ذرا غور فرمائیے، ان کی اہلیت پر۔۔۔۔۔ انگریزی سکھانے کے نام پر ادارے ہیں کہ مینڈک کی طرح اچھل اچھل کر میدان میں ٹپک رہے ہیں۔ آخر ترقی کے ساتھ زبان کا ہنر بھی ضروری ہے۔
رہ گیا بنگلہ دیش جہاں ناموس رسالت کے تقدس کے نام پر عوام گھروں سے امنڈ رہی ہے اور حکومتی ایوان کان بند کیے بیٹھے ہیں جیسے مسلمان ہی نہ ہوں۔ عاشقان رسولؐ پر یوں برسا گیا جیسے ایوانوں میں کفر کے بازار گرم ہوں، اچھی بھلی مسلم حکومت کا نام تو ہم نے بھی سن رکھا ہے پر یہ چلن دیکھ کر فرنگیوں کی ملکہ برطانیہ یاد آئی، ان سے تو وہی بھلی تھی۔ یہ کیسا احساس کمتری ہے جو ہمیں اندر ہی اندر سے کھا رہا ہے، ترقی کے نام پر ہم زمین میں ہی دھنستے جارہے ہیں، لارڈ میکالے نے ٹھیک ہی کہا تھا ہم تسلط یافتہ قوم ہی تو بن گئے ہیں۔ اب ہمیں تسخیر کرنے کی ضرورت نہیں، ہماری جڑیں تو گھن زدہ ہوچکی ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ لفظ جس عظیم ہستی کے ذریعے دنیا پر آشکار ہوا وہ خود امی تھے لیکن کرشمہ قدرت اس ذات کا کہ جس نے اتنی محبت سے اپنا محبوب تخلیق کیا تھا کہ علم کا ایک سمندر تھا جو آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے امنڈ امنڈ کر ساری دنیا کو سیراب کرتا رہا۔ تعلیم انسان کو باشعور بناتی ہے، اسے زندگی گزارنے کے سلیقے سکھاتی ہے۔
قدرت کی جانب سے عطا کردہ نعمتوں سے کس کس طرح سے مستفید ہوا جاسکتا ہے یہ سب تعلیم ہی کا کمال ہے، تعلیم کس طرح کی ہونی چاہیے، آج ہمارے ملک میں یہ سوال ذہنوں میں ابھر رہا ہے، اسے حاصل کرنا تو اشد ضروری ہے لیکن اس سے کس کس طرح سے مستفید ہوا جاسکتا ہے یہ سب سے اہم ہے۔
بھارت کے ایک اعلیٰ درجے کے اسکول کے نصاب میں بھارتی اداکارہ پریانکا چوپڑا پر ایک سبق شامل کیا گیا جس میں موصوفہ کی تصاویر میں ان کے انتہائی جدید انداز کے لباس اور ملکہ حسن کے تاج سے مزین انتہائی خوشگوار انداز میں دکھایا گیا تھا جب کہ دوسری تصویر میں وہ ان ہی مختصر کپڑوں میں تھیں جوکہ عام طور پر بھارتی اداکارائیں زیب تن کرتی ہیں۔
کچھ برسوں پہلے تک موصوفہ ملکہ حسن قرار دیے جانے کے باوجود فلمی دنیا میں کوئی اہم مقام نہ حاصل کرسکی تھیں۔ سنا تھا کہ ایک معروف فلمی گھرانے کے سپوت سے ان کا افیئر بھی چلا تھا لیکن وہ بھی خوب رہے ، شادی کے نام پر ایسے بدکے کہ پھر نہ لوٹے، پھر چوپڑا صاحبہ نے شاہ رخ خان سے دوستی بڑھائی جو خاصی مبارک ثابت ہوئی، گلوکاری پر بھی ہاتھ صاف کرلیا اور ایک انگریزی زبان میں البم کے اجراء کے بعد بہترین گلوکاروں کی فہرست میں شامل کرلی گئیں۔
سب کچھ ٹھیک ہے لیکن ان کو نصاب میں شامل کرلینا ایسا ہی ہے جیسے سربجیت سنگھ کی پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ آخری رسومات ادا کرنا۔ پڑوس میں تعلیم کی اہمیت اب کس اعلیٰ درجے پر جاچکی ہے اس کا اندازہ کچھ کچھ تو ہورہا ہے، خواتین کے ساتھ تشدد کے واقعات، ایڈز کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ بھی بھارت میں اسی تیز رفتاری سے ہورہا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ تو غیر متوازن ہے جو ان کے معاشرے میں اخلاقی قدروں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ہندوستانی تہذیب شاید زوال آمادہ ہے۔
برصغیر میں مسلمانوں کی آمد کے بعد اس سرزمین پر بہت سے انقلابات آئے جس نے برصغیر کی تاریخ کو تابناک بنادیا تھا، مسلمان بادشاہوں کے راج سے لے کر انگریزوں کے تسلط سے پہلے تک برصغیر کے ہندو مسلمان جس خوشحالی اور آزادی سے زندگی گزار رہے تھے وہ ایک بہترین نمونہ تھا جسے دنیا کے نقشے پر دلچسپی سے دیکھا جارہا تھا یہاں کی دولت، تعلیم اور ترقی غیرملکی باشندوں کو ششدر کردیتی تھی، اہل مغرب جو اپنے آپ کو اعلیٰ ترین مہذب قوم ہونے کے زعم میں مبتلا تھے اپنے سے کہیں زیادہ مہذب اور تعلیم یافتہ برصغیر کو دیکھ کر ہڑبڑا اٹھے۔ یہاں کا تعلیمی نظام ان کے کیمبرج سسٹم کے مقابلے میں کہیں پرانا اور مضبوط تھا جو برصغیر کی ترقی میں بھرپور کردار ادا کر رہا تھا۔ یہاں عالموں کی قدر تھی۔
اسے تسخیر کرنا آسان نہ تھا، لیکن وار کرنا ان کے لیے ضروری تھا نشانے کے لیے انھوں نے کیا کیا منتخب کیا۔ 1835 بتاریخ 2 فروری برطانوی پارلیمنٹ سے لارڈ میکاڈلے نے خطاب کیا جس میں اس نے اقرار کیا کہ اس نے انڈیا کے طول و عرض میں سفر کیا ہے لیکن وہاں اتنی دولت ہے کہ اسے ایک بھی فقیر یا چور نہیں ملا، صرف یہی نہیں اس نے یہ بھی مانا کہ یہاں کی اخلاقی قدریں اور لوگوں میں اتنی خوبیاں ہیں کہ وہ انھیں فتح نہیں کرسکتے، جب تک کہ ان کے مذہبی اور ثقافتی ورثے کو نہ توڑدیں۔ لارڈ میکاڈلے نے اس مذہبی اور ثقافتی ورثے کو برصغیر کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیا، جسے آج ہم فرسودہ اور بوسیدہ قرار دیتے ہیں۔ لارڈ میکاڈلے نے اپنے اس خطاب میں کہا کہ ہم ان کے پرانے اور قدیم تعلیمی نظام کو اس طرح بیرونی و انگریزی سے تبدیل کردیں کہ وہ یہ سمجھنے لگیں کہ یہی بہترین اور عظیم ہے۔
اس طرح وہ اپنی عزت و توقیر کھودیں گے اور پھر وہ ایسے بن جائیں گے جیسا کہ ہم چاہتے ہیں ایک مکمل تسلط یافتہ قوم۔ آج پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں جو کچھ ہورہا ہے اسے دیکھ کر لارڈ میکالے کے اس خطاب کی جھلک واضح نظر آتی ہے۔
ان تینوں ممالک میں مغرب کا تسلط بھرپور رنگ جما چکا ہے، بھارت اپنے طاقتور ہونے کا بڑا شور مچاتا ہے، وہاں کی فلمی دنیا ہالی ووڈ سے آگے نکل چکی ہے، رنگ برنگے ستاروں کی دنیا میں کیا ہورہا ہے، لوگ جاننا چاہتے ہیں۔ ان کی طرز کے کپڑے جو بے حیائی و عریانیت کا کھلا نمونہ ہیں عوام میں بھی مقبول ہیں۔ اسے وہ جدت پسندی اور کھلے ذہن ہونے کا ثبوت قرار دیتے ہیں لیکن وہیں اس جدت پسندی کے درخت تلے ہزاروں لاکھوں معصوم بچیاں، خواتین دکھ و اذیت سے سسک رہی ہیں، انھیں اسی ترقی پسندی نے بے آبرو کرکے معاشرے میں ایک سوال بناکر چھوڑ دیا جس کا جواب وہ ڈھونڈنا ہی نہیں چاہتے۔
پاکستان میں تعلیم کے حوالے سے بہت سے ایشوز اٹھتے رہتے ہیں یہ ہونا چاہیے، یہ نہیں، لیکن مثبت انداز کی سوچ کو پرے دھکیل دیا گیا ہے۔ جتنا نصاب کو سخت اور مشکل بنانے کی ترکیبیں لڑائی جارہی ہیں اس سے زیادہ بوٹی مافیا عام ہورہا ہے۔ ہمارے کلچر میں جس قسم کی گفتگو کبھی روا تھی اب وہ ہندی کے ملے جلے رنگ سے خاصی بے رنگ ہوچکی ہے۔ ہر دوسرے اسکول میں الگ کورس، جس کے اچھے ہونے کا تعین اس کی موٹی تازی قیمتوں سے کیا جاتا ہے، بھاری بھرکم بستے، کتابوں کے انبار اور بچوں کو اس میں سے کیا کچھ آتا ہے، زیادہ تر سلیبس کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے، بچا کھچا ہڑتالوں، جھگڑوں کے باعث بمشکل امتحان کے قابل بچ جاتا ہے، اردو میڈیم انگلش میڈیم کا شور، دلچسپ بات یہ کہ سرکاری تعلیمی اداروں کے اساتذہ کی تنخواہیں بھاری بھرکم اور نصاب ہلکا پھلکا جب کہ غیر سرکاری اداروں کے اساتذہ کی تنخواہیں شرمناک حد تک کم اور نصاب متاثر کن حد تک بھاری۔
اس قسم کے تعلیمی معیار سے جو پود نکل رہی ہے نہ پوچھیے۔ اور دور کیوں جائیے، اپنے اردگرد ہی ذرا غور فرمائیے، ان کی اہلیت پر۔۔۔۔۔ انگریزی سکھانے کے نام پر ادارے ہیں کہ مینڈک کی طرح اچھل اچھل کر میدان میں ٹپک رہے ہیں۔ آخر ترقی کے ساتھ زبان کا ہنر بھی ضروری ہے۔
رہ گیا بنگلہ دیش جہاں ناموس رسالت کے تقدس کے نام پر عوام گھروں سے امنڈ رہی ہے اور حکومتی ایوان کان بند کیے بیٹھے ہیں جیسے مسلمان ہی نہ ہوں۔ عاشقان رسولؐ پر یوں برسا گیا جیسے ایوانوں میں کفر کے بازار گرم ہوں، اچھی بھلی مسلم حکومت کا نام تو ہم نے بھی سن رکھا ہے پر یہ چلن دیکھ کر فرنگیوں کی ملکہ برطانیہ یاد آئی، ان سے تو وہی بھلی تھی۔ یہ کیسا احساس کمتری ہے جو ہمیں اندر ہی اندر سے کھا رہا ہے، ترقی کے نام پر ہم زمین میں ہی دھنستے جارہے ہیں، لارڈ میکالے نے ٹھیک ہی کہا تھا ہم تسلط یافتہ قوم ہی تو بن گئے ہیں۔ اب ہمیں تسخیر کرنے کی ضرورت نہیں، ہماری جڑیں تو گھن زدہ ہوچکی ہیں۔