خوابوں کے بیوپاری
خوابوں کے کچھ بیوپاری ایسے بھی ہیں جو انسانی لہو کشید کرکے اپنی سرمائے کی عمارت تعمیر کرتے ہیں۔
قدیم چین کی بات ہے۔ غالباً 400 قبل مسیح کی۔ ایک شام ژوانگ ژو کے دوست اسے تلاش کر رہے تھے۔ آخرکار وہ انھیں ایک قہوہ خانے میں مل ہی گیا۔ وہ ہمیشہ کی طرح کسی سوچ میں غرق قہوے کی چسکیاں لے رہا تھا۔ ''تم یہاں چھپے بیٹھے ہو۔۔۔۔ ہم کب سے تمہیں تلاش کر رہے ہیں؟'' ایک دوست نے کہا۔
''میں مصروف ہوں''۔ ژوانگ بولا۔ ''میرے ذہن میں ایک سوال ہے، اپنے اور ہمارے تمہارے وجود کے بارے میں''۔
''بھلا وہ سوال کیا ہے؟''
''تم یوں نہیں سمجھوگے۔۔۔۔ سوال سمجھنے کے لیے تمہیں میرا خواب سننا ہوگا''۔ پھر ژوانگ ژو نے اپنا وہ خواب اپنے دوستوں کو پہلی مرتبہ سرشام سنایا جس کی شہرت اور اثر آج تک موجود ہے۔
''دوپہر کے کھانے کے بعد میری عادت قیلولے کی ہے۔۔۔۔میں اپنی پسندیدہ جگہ ۔۔۔۔ گھنے درخت کے نیچے بیٹھا تھا اور مقصد حیات پر غور کر رہا تھا۔
ماحول اتنا عمدہ تھا کہ میں سوچتے سوچتے سوگیا۔ پھر میں نے خواب دیکھا کہ میں کھیتوں اور باغوں میں اڑ رہا ہوں۔ میں نے خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کیا۔ مڑ کر دیکھا تو میرے تو پر نکل آئے تھے۔ یہ بہت بڑے بڑے اور بہت خوبصورت تھے۔ متاثر کن رنگین نقوش لیے، میں تیز تیز پر مار رہا تھا اور بڑی آزادی سے ادھر ادھر اڑتا پھر رہا تھا۔ مجھے احساس ہوا کہ میں تو ایک تتلی ہوں۔ ایک ننھی سی خوب صورت تتلی۔ ہر ہر چیز بالکل اصل کی مانند لگ رہی تھی۔ میں قطعی بھول گیا تھا کہ میں ژوانگ ژو ہوں۔ میں بہت خوش تھا۔ آزادی اور بے فکری سے میں دیر تک ادھر ادھر اڑتا رہا''۔
''میں نے بھی خواب دیکھے ہیں اور میں بھی خواب میں اڑتا پھرا ہوں۔۔۔۔۔ یہ ایک دل چسپ تجربہ ہوتا ہے''۔ ژوانگ کے دوست نے کہا۔
''ایسا تو ہے''۔ ژوانگ نے کہا ''خواب سے جاگنے کے بعد میں نے دیکھا کہ میں تو ژوانگ ژو ہوں۔۔۔۔ لیکن یہی تو مسئلہ ہے۔۔۔۔۔ یہی تو میرا سوال ہے؟''
''اس میں مسئلہ کیا ہے؟ تم تو ہر چیز کو مشکل بنادیتے ہو؟''
''میرا سوال یہ ہے کہ میں جب خواب دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔ یا اب خواب دیکھ رہا ہوں؟''
''کیا مطلب؟'' ژوانگ کے دوست نے نہ سمجھتے ہوئے سوال کیا۔
''بھئی! مطلب یہ کہ میں ژوانگ ژو ہوں جس نے تتلی کا خواب دیکھا تھا۔۔۔۔۔ یا میں ایک تتلی ہوں جو اپنے خواب میں ژوانگ بن گئی ہے؟''
''واہ۔۔۔۔۔ یہ کیا بات ہوئی، میں جو تمہیں بتا رہا ہوں کہ تم ژوانگ ہو''۔
''یہ بات تم نہیں بتا سکتے۔۔۔۔۔ تم تو میرے خواب کا حصہ ہو۔ تم میری کوئی مدد نہیں کرسکتے کہ میں کون ہوں تتلی یا ژوانگ؟ وجود کے بارے میں یہ اہم سوال ہے؟
دوستوں نے ژوانگ کے ساتھ کیا معاملہ کیا ہم نہیں جانتے لیکن ژوانگ کا یہ اہم سوال اور اہم خواب آج تک نفسیات اور فلسفے کی کتابوں میں موجود ہے اور سنایا اور پڑھایا جاتا ہے۔ چین میں ژوانگ کنفیوشس کے بعد غالباً سب سے بڑا نام ہو ''تاؤ ازم'' میں بھی اس خواب اور ژوانگ کی فکر کا بڑا مقام ہے۔ ہم خواب میں ہیں یا خواب ہم میں ہوتے ہیں؟
یہ بڑے طویل مباحث ہیں۔ ہم نیند میں ہیں یا جاگ رہے ہیں؟ اس پر بھی خوب بات کی گئی ہے۔ پاسکل نے اس بارے میں خوب بات کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ جب ہم خواب دیکھتے ہیں تو خواب میں مختلف تجربات ہوتے ہیں، یعنی ہم مختلف تجربات کرتے ہیں مثلاً ژوانگ نے اڑنے کا تجربہ کیا وغیرہ، پھر جب ہم جاگ جاتے ہیں تب بھی تجربے ہی کی سطح پر ہوتے ہیں۔ پاسکل سوال اٹھاتا ہے کہ پھر خواب اور حقیقت میں فرق کیا رہ گیا؟ جب دونوں ہی جگہ پر ہم تجربے ہی کی سطح پر رہے تو اصلاً اور اصولاً فرق کیا پڑا۔ کیا ایسا نہیں کہ تمام تر مباحث محض دو خوابوں ہی کے بارے میں ہیں یا دو حقیقتوں کے بارے میں۔ واﷲ اعلم
ہماری آپ کی دنیا میں آجائیں۔ یہ خواب ہے، سراب ہے، مایا ہے، جو بھی ہے، ابھی تو یہ ہی ہمارے سامنے ہے۔ ہم ایک دوسرے کا تجربہ کر رہے ہیں۔ میں لکھ رہا ہوں اور آپ پڑھ رہے ہیں۔ ہماری آپ کی اس دنیا کے بارے میں۔۔۔۔۔ یہ جو بھی ہے۔۔۔۔۔ میرے ذہن میں ایک بات یہ آتی ہے کہ یہ خواب ہو یا نہ ہو، یہاں سب کسی دوسری ہی دنیا کی بات کرتے ہیں۔ مثلاً ہمارے مذہبی حضرات۔۔۔۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ ہر تہذیب میں مذہبی افراد قیامت، سوال جواب، قبر حشر، نیکی بدی، جنت جہنم کی بات کرتے ہیں۔ مرنے کے بعد کی زندگی کے خواب دکھاتے ہیں، ڈراتے ہیں، خوش خبریاں سناتے ہیں۔ کم و بیش ہر تہذیب میں فرق کے ساتھ ایسے تصورات موجود ہیں اور ہمیشہ سے رہے ہیں۔
دوسری جانب دیکھیے وہاں بھی خواب ہیں۔ کوئی جمہوریت اور اصل جمہوریت کی راگنی الاپتا ہے اور اصل جمہوریت کے ''یوٹوپیا'' میں اسے فلاح نظر آتی ہے۔ یہ سب خواب دکھانے والے خوابوں کے بیوپاری تو نہیں؟ اور ہم آپ خوابوں میں رہنے والے تو نہیں؟ ایک خاص ''فینٹیسی'' میں زندگی گزارنا کسے پسند نہیں؟ یا کون نہیں گزارتا؟ ہم اچھے کی امید کھونا نہیں چاہتے۔ خوابوں کے کچھ بیوپاری ایسے بھی ہیں جو انسانی لہو کشید کرکے اپنی سرمائے کی عمارت تعمیر کرتے ہیں۔ لوگوں کو خوابوں خیالوں کی دنیا میں لے جانا ہی ان کا پیشہ قرار پاتا ہے مثلاً گلیمر کی دنیا، سلور اسکرین کی دنیا۔ ہمارے علاقے میں بھارتی فلمی صنعت سب سے آگے ہے۔ یہ فلمی لوگ ہمیں خواب و خیال کی ایک ایسی دنیا میں لے جاتے ہیں کہ ہم کچھ دیر کے لیے ہی سہی زندگی کی تلخیوں کو فراموش کر بیٹھتے ہیں۔
3 مئی کو بھارتی فلمی صنعت نے 100 برس مکمل کیے ہیں۔ کئی اعتبار سے یہ دنیا کی سب سے بڑی فلمی صنعت ہے۔ بھارتیوں کو فلم دیکھنے کا جنون ہے۔ ایک اندازے کے مطابق روزانہ ایک کروڑ چالیس لاکھ افراد بھارت میں سینما دیکھنے جاتے ہیں۔ روزانہ۔۔۔۔۔ یعنی کل آبادی کا قریباً 1.4 فی صد۔ وہاں سالانہ قریباً ایک ہزار فلمیں بنتی ہیں۔ اور فلم بین اکثر غریب طبقہ ہے۔ سیکڑوں فلم بین تو ایسے ہوتے ہیں جو اپنے تمام دن کی مزدوری فلم کے ٹکٹ پر صرف کردیتے یہں اور ہاتھ جھاڑ کر گھر آجاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس صنعت کا حجم 2 بلین ڈالر کے قریب ہے۔
باکس آفس کا ریونیو 84 فی صد ہے۔ ایک اندازے کے مطابق صرف بھارت میں 25 کروڑ نوجوان اس فلمی صنعت کا ہدف ہیں۔ اب ذرا اندازہ کیجیے کہ خوابوں کے یہ سوداگر اپنے ہدف کا حشر کیا کرتے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا کسی کو اندازہ ہے کہ دلیپ کمار، امیتابھ بچن اور شاہ رخ بننے کے لیے کتنے نوجوانوں کی زندگیاں برباد ہوئیں؟ آخر ان کی بھی کوئی کہانی منظر عام پر کیوں نہیں آتی؟ ایک اندازے کے مطابق 63 فی صد بھارتی لڑکے اور لڑکیاں زندگی میں ایک بار شوبز میں داخل ہونے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔ ان میں سے 93 فیصد ناکام رہتے ہیں۔ 45 فیصد کی زندگی ہمیشہ کے لیے حسرت اور عبرت کا نمونہ بن جاتی ہے۔ ناکامیوں کی یہ داستان کون سنائے گا؟ کب سنائے گا؟فلمی صنعت کی حقیقت سے ٹکرا کر بکھرنے والے خوابوں کے اجڑے مزار دکھا کر آپ کو خواب غفلت سے جگانا جائز نہیں، کہ اس سے سرمائے کی بڑھوتری کے عمل پر حرف آتا ہے۔
''میں مصروف ہوں''۔ ژوانگ بولا۔ ''میرے ذہن میں ایک سوال ہے، اپنے اور ہمارے تمہارے وجود کے بارے میں''۔
''بھلا وہ سوال کیا ہے؟''
''تم یوں نہیں سمجھوگے۔۔۔۔ سوال سمجھنے کے لیے تمہیں میرا خواب سننا ہوگا''۔ پھر ژوانگ ژو نے اپنا وہ خواب اپنے دوستوں کو پہلی مرتبہ سرشام سنایا جس کی شہرت اور اثر آج تک موجود ہے۔
''دوپہر کے کھانے کے بعد میری عادت قیلولے کی ہے۔۔۔۔میں اپنی پسندیدہ جگہ ۔۔۔۔ گھنے درخت کے نیچے بیٹھا تھا اور مقصد حیات پر غور کر رہا تھا۔
ماحول اتنا عمدہ تھا کہ میں سوچتے سوچتے سوگیا۔ پھر میں نے خواب دیکھا کہ میں کھیتوں اور باغوں میں اڑ رہا ہوں۔ میں نے خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کیا۔ مڑ کر دیکھا تو میرے تو پر نکل آئے تھے۔ یہ بہت بڑے بڑے اور بہت خوبصورت تھے۔ متاثر کن رنگین نقوش لیے، میں تیز تیز پر مار رہا تھا اور بڑی آزادی سے ادھر ادھر اڑتا پھر رہا تھا۔ مجھے احساس ہوا کہ میں تو ایک تتلی ہوں۔ ایک ننھی سی خوب صورت تتلی۔ ہر ہر چیز بالکل اصل کی مانند لگ رہی تھی۔ میں قطعی بھول گیا تھا کہ میں ژوانگ ژو ہوں۔ میں بہت خوش تھا۔ آزادی اور بے فکری سے میں دیر تک ادھر ادھر اڑتا رہا''۔
''میں نے بھی خواب دیکھے ہیں اور میں بھی خواب میں اڑتا پھرا ہوں۔۔۔۔۔ یہ ایک دل چسپ تجربہ ہوتا ہے''۔ ژوانگ کے دوست نے کہا۔
''ایسا تو ہے''۔ ژوانگ نے کہا ''خواب سے جاگنے کے بعد میں نے دیکھا کہ میں تو ژوانگ ژو ہوں۔۔۔۔ لیکن یہی تو مسئلہ ہے۔۔۔۔۔ یہی تو میرا سوال ہے؟''
''اس میں مسئلہ کیا ہے؟ تم تو ہر چیز کو مشکل بنادیتے ہو؟''
''میرا سوال یہ ہے کہ میں جب خواب دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔ یا اب خواب دیکھ رہا ہوں؟''
''کیا مطلب؟'' ژوانگ کے دوست نے نہ سمجھتے ہوئے سوال کیا۔
''بھئی! مطلب یہ کہ میں ژوانگ ژو ہوں جس نے تتلی کا خواب دیکھا تھا۔۔۔۔۔ یا میں ایک تتلی ہوں جو اپنے خواب میں ژوانگ بن گئی ہے؟''
''واہ۔۔۔۔۔ یہ کیا بات ہوئی، میں جو تمہیں بتا رہا ہوں کہ تم ژوانگ ہو''۔
''یہ بات تم نہیں بتا سکتے۔۔۔۔۔ تم تو میرے خواب کا حصہ ہو۔ تم میری کوئی مدد نہیں کرسکتے کہ میں کون ہوں تتلی یا ژوانگ؟ وجود کے بارے میں یہ اہم سوال ہے؟
دوستوں نے ژوانگ کے ساتھ کیا معاملہ کیا ہم نہیں جانتے لیکن ژوانگ کا یہ اہم سوال اور اہم خواب آج تک نفسیات اور فلسفے کی کتابوں میں موجود ہے اور سنایا اور پڑھایا جاتا ہے۔ چین میں ژوانگ کنفیوشس کے بعد غالباً سب سے بڑا نام ہو ''تاؤ ازم'' میں بھی اس خواب اور ژوانگ کی فکر کا بڑا مقام ہے۔ ہم خواب میں ہیں یا خواب ہم میں ہوتے ہیں؟
یہ بڑے طویل مباحث ہیں۔ ہم نیند میں ہیں یا جاگ رہے ہیں؟ اس پر بھی خوب بات کی گئی ہے۔ پاسکل نے اس بارے میں خوب بات کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ جب ہم خواب دیکھتے ہیں تو خواب میں مختلف تجربات ہوتے ہیں، یعنی ہم مختلف تجربات کرتے ہیں مثلاً ژوانگ نے اڑنے کا تجربہ کیا وغیرہ، پھر جب ہم جاگ جاتے ہیں تب بھی تجربے ہی کی سطح پر ہوتے ہیں۔ پاسکل سوال اٹھاتا ہے کہ پھر خواب اور حقیقت میں فرق کیا رہ گیا؟ جب دونوں ہی جگہ پر ہم تجربے ہی کی سطح پر رہے تو اصلاً اور اصولاً فرق کیا پڑا۔ کیا ایسا نہیں کہ تمام تر مباحث محض دو خوابوں ہی کے بارے میں ہیں یا دو حقیقتوں کے بارے میں۔ واﷲ اعلم
ہماری آپ کی دنیا میں آجائیں۔ یہ خواب ہے، سراب ہے، مایا ہے، جو بھی ہے، ابھی تو یہ ہی ہمارے سامنے ہے۔ ہم ایک دوسرے کا تجربہ کر رہے ہیں۔ میں لکھ رہا ہوں اور آپ پڑھ رہے ہیں۔ ہماری آپ کی اس دنیا کے بارے میں۔۔۔۔۔ یہ جو بھی ہے۔۔۔۔۔ میرے ذہن میں ایک بات یہ آتی ہے کہ یہ خواب ہو یا نہ ہو، یہاں سب کسی دوسری ہی دنیا کی بات کرتے ہیں۔ مثلاً ہمارے مذہبی حضرات۔۔۔۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ ہر تہذیب میں مذہبی افراد قیامت، سوال جواب، قبر حشر، نیکی بدی، جنت جہنم کی بات کرتے ہیں۔ مرنے کے بعد کی زندگی کے خواب دکھاتے ہیں، ڈراتے ہیں، خوش خبریاں سناتے ہیں۔ کم و بیش ہر تہذیب میں فرق کے ساتھ ایسے تصورات موجود ہیں اور ہمیشہ سے رہے ہیں۔
دوسری جانب دیکھیے وہاں بھی خواب ہیں۔ کوئی جمہوریت اور اصل جمہوریت کی راگنی الاپتا ہے اور اصل جمہوریت کے ''یوٹوپیا'' میں اسے فلاح نظر آتی ہے۔ یہ سب خواب دکھانے والے خوابوں کے بیوپاری تو نہیں؟ اور ہم آپ خوابوں میں رہنے والے تو نہیں؟ ایک خاص ''فینٹیسی'' میں زندگی گزارنا کسے پسند نہیں؟ یا کون نہیں گزارتا؟ ہم اچھے کی امید کھونا نہیں چاہتے۔ خوابوں کے کچھ بیوپاری ایسے بھی ہیں جو انسانی لہو کشید کرکے اپنی سرمائے کی عمارت تعمیر کرتے ہیں۔ لوگوں کو خوابوں خیالوں کی دنیا میں لے جانا ہی ان کا پیشہ قرار پاتا ہے مثلاً گلیمر کی دنیا، سلور اسکرین کی دنیا۔ ہمارے علاقے میں بھارتی فلمی صنعت سب سے آگے ہے۔ یہ فلمی لوگ ہمیں خواب و خیال کی ایک ایسی دنیا میں لے جاتے ہیں کہ ہم کچھ دیر کے لیے ہی سہی زندگی کی تلخیوں کو فراموش کر بیٹھتے ہیں۔
3 مئی کو بھارتی فلمی صنعت نے 100 برس مکمل کیے ہیں۔ کئی اعتبار سے یہ دنیا کی سب سے بڑی فلمی صنعت ہے۔ بھارتیوں کو فلم دیکھنے کا جنون ہے۔ ایک اندازے کے مطابق روزانہ ایک کروڑ چالیس لاکھ افراد بھارت میں سینما دیکھنے جاتے ہیں۔ روزانہ۔۔۔۔۔ یعنی کل آبادی کا قریباً 1.4 فی صد۔ وہاں سالانہ قریباً ایک ہزار فلمیں بنتی ہیں۔ اور فلم بین اکثر غریب طبقہ ہے۔ سیکڑوں فلم بین تو ایسے ہوتے ہیں جو اپنے تمام دن کی مزدوری فلم کے ٹکٹ پر صرف کردیتے یہں اور ہاتھ جھاڑ کر گھر آجاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس صنعت کا حجم 2 بلین ڈالر کے قریب ہے۔
باکس آفس کا ریونیو 84 فی صد ہے۔ ایک اندازے کے مطابق صرف بھارت میں 25 کروڑ نوجوان اس فلمی صنعت کا ہدف ہیں۔ اب ذرا اندازہ کیجیے کہ خوابوں کے یہ سوداگر اپنے ہدف کا حشر کیا کرتے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا کسی کو اندازہ ہے کہ دلیپ کمار، امیتابھ بچن اور شاہ رخ بننے کے لیے کتنے نوجوانوں کی زندگیاں برباد ہوئیں؟ آخر ان کی بھی کوئی کہانی منظر عام پر کیوں نہیں آتی؟ ایک اندازے کے مطابق 63 فی صد بھارتی لڑکے اور لڑکیاں زندگی میں ایک بار شوبز میں داخل ہونے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔ ان میں سے 93 فیصد ناکام رہتے ہیں۔ 45 فیصد کی زندگی ہمیشہ کے لیے حسرت اور عبرت کا نمونہ بن جاتی ہے۔ ناکامیوں کی یہ داستان کون سنائے گا؟ کب سنائے گا؟فلمی صنعت کی حقیقت سے ٹکرا کر بکھرنے والے خوابوں کے اجڑے مزار دکھا کر آپ کو خواب غفلت سے جگانا جائز نہیں، کہ اس سے سرمائے کی بڑھوتری کے عمل پر حرف آتا ہے۔