اسے ہنی مون نہ سمجھیں
ملاوٹ شدہ خوردنی اشیا اور ادویہ کے کاروبار نے اس ملک کو دنیا بھر میں بدنام کر کے رکھ دیا ہے
گیارہ مئی کا سورج خوش خبری لے کر طلوع ہوا اور اقتدار کے ہما نے آپ کے سر پر بیٹھنے کی ٹھان لی۔ محاورتاً تو کہا جاتا ہے کہ جام اور لبوں کا درمیانی فاصلہ بھی بسا اوقات زیادہ ہوتا ہے جب تک کہ طے نہ ہو جائے، مگر آپ کے ہاتھ میں جام اقتدار آپ کی اپنی دانست میں بھی آ چکا ہے... اور صدر محترم جو کہ اپنا بوریا بستر سمیٹنے کو ہیں، انھوں نے بھی آپ کو وزیر اعظم تسلیم کر لیا ہے۔ جواباً آپ نے ان سے استعفی نہ مانگنے کا وعدہ کیا ہے، جو ان وعدوں کی طرح نہ ہو جو ماضی میں ہوئے اور ٹوٹ گئے... واضح اکثریت کے بغیر بھی آپ حکومت بنا سکتے ہیں مگر پھر بھی آپ نے جیت کر سب لوگوں کو ''دعوت عام'' دی ہے...
اس سے دو فوائد ہوں گے، آپ کی کرسی اقتدار کے پائے مزید استقامت پا سکیں گے (کاش کہ آپ اس بھاری منڈیٹ کے بعد اپنی مستقبل کی حکمت عملی طے کرنے میں زیادہ مصروف ہوتے نہ کہ اپنی نشستیں مزید بڑھا کر اکثریت پیدا کر سکیں، جس کی ضرورت جانے آپ کو کیوں محسوس ہو رہی ہے؟)۔ دوسرے آپ کو سہولت رہے گی یہ جانچنے میں کہ جب انسان با اختیار ہوتا ہے تو پرائے بھی اپنے ہو جاتے ہیں اور بے اختیار ہونے کی صورت میں تو سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔ بہتر ہوتا کہ آپ ان موسمی پرندوں کو اپنے گرد اکٹھا کرنے کی بجائے انھیں ان کے لالچ اور خود غرضی سمیت الگ رکھتے... مگر آپ کے فیصلے، آپ ہی جانیں۔
آپ کو وزارت عظمی مبارک ہو اور دعا ہے کہ جو کچھ کیا جا رہا ہے اس کے بعد بھی ملک کے لیے آپ کا اقتدار ترقی کا باعث ہو۔ عوام نے اس بار پیپلز پارٹی کو رد کر کے آپ کو ووٹ دیا ہے اور ان کی بہت سی امیدیں آپ سے وابستہ ہیں، اگر آپ کچھ deliver نہ کر سکے تو یقین کریں کہ اگلی شکست آپ کی جماعت کے لیے تیار پڑی ہو گی۔
ہر آنے والے سے لوگ اسی طرح امیدیں لگا لیتے ہیں کہ اسے ہمارے مسائل کا ادراک ہو گا، مگر ہر کوئی اپنی سیاست کی دکان لگاتا، اپنا وقت گزارتا اور ہماری مشکلات میں اضافہ کر کے ڈگڈگی بجاتا چلا جاتا ہے، ہم تکتے رہ جاتے ہیں۔
اقتدار انعام نہیں بلکہ آزمائش ہے، کرسی اقتدار کی بے وفائی بھی آپ دیکھ چکے ہیں... حضرت عمرؓ اگر اس وجہ سے رات بھر سو نہیں سکتے تھے کہ وہ اپنی رعایا میں سے کسی بھوکے سو جانے والے کے لیے بھی اللہ کو جواب دہ ہیں، اور اگر دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوکا مر جائے تو عمرؓ اس کے لیے اللہ کو جواب دہ ہیں، آپ بھی حکمران بن رہے ہیں، اللہ کی عدالت میں ایک دن آپ بھی اسی طرح جواب دہ ہوں گے۔
آپ کو سب سے پہلے تو ادراک ہونا چاہیے کہ آپ کن لوگوں پر حکمران بن کر حکومت کرنے جا رہے ہیں، پہلے ان سے تعارف حاصل کریں، اس ملک میں بڑے بڑے کاروباری بھی ہیں اور بیوپاری بھی، جن کے اندرون ملک اور بیرون ممالک میں کاروبار دن دوگنی اوررات چوگنی رفتار سے بڑھ رہے ہیں تو وہیں عام دکاندار اور تاجر بھی ہے، فیکٹری مالکان بھی ہیں، یہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے ستائے ہوئے لوگ ہیں، ان کے کاروبار بند ہونے سے لاکھوں گھروں کے چولہے بند ہو چکے ہیں۔
جان و مال کا تحفظ ملک کے ہر شہری کا بنیادی حق ہے، جو اسی صورت میسر آ سکتا ہے اگر ہمارے ملک میں وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کر کے، لاکھوں کی تعداد میں وی آئی پی ڈیوٹی پر تعینات پولیس اور فوج والوں کو ان کے اصل فرض کی طرف لوٹایا جائے۔ صدارتی اور وزارتی محلوں کے اخراجات میں کمی کی جائے تو ہر روز لاکھوں گھروں میں ایک ایک چراغ جل سکتا ہے، ایک وقت کا کھانا میسر آ سکتا ہے۔ جن ملکوں کے سربراہ اپنے ملک کے بنیادی مسئلے، یعنی بھوک کا علاج نہیں کر سکتے، انھیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے عوام سے کسی معاملے میں تعاون کا مطالبہ کریں۔سستا اور فوری انصاف... کیا ملک ہے جہاں انصاف بھی بکتا ہے! جہاں قانون کے بنانیوالے اور رکھوالے ہی متنازعہ ہو جائیں تو کیا توقع کی جائے؟ ملک میں اگر چند مجرم اپنے جرم کے مطابق سزا کے حقدار ٹھہریں، خواہ وہ ملک کے حاکم ہی کیوں نہ ہوں تو یہ سب کے لیے نشان عبرت بن سکتے ہیں۔
بے روزگاری... ایک ایسا اہم مسئلہ ہے جس نے ملک میں نفسیاتی امراض، خود کشیوں اور جرائم کے واقعات میں اضافہ کر رکھا ہے۔ نظام تعلیم میں پائے جانے والے سقم ایسے ہیں کہ انھوں نے طبقاتی فرق کی انتہا کر دی ہے، لوگ احساس کمتری اور برتری کے لیے ایک پیمانہ یہ استعمال کرتے ہیں کہ کہ کسی کا بچہ کس اسکول میں تعلیم پا رہا ہے۔ آپ نے بھی کسی بیرونی ملک کی دی ہوئی امداد سے Danish اسکول قائم کیے، کاش آپ اس امداد کو موجودہ سرکاری اسکولوں کی بہتری کے لیے استعمال کرتے اور ان اسکولوں کی کھوئی ہوئی ساکھ لوٹ آتی۔
ملاوٹ شدہ خوردنی اشیا اور ادویہ کے کاروبار نے اس ملک کو دنیا بھر میں بدنام کر کے رکھ دیا ہے، مرے ہوئے جانوروں کے علاوہ ہر طرح کا حرام گوشت فروخت کیا جا رہا ہے، ٹیلی وژن پر تمام تر ثبوتوں کے ساتھ، علاقوں کے ناموں کے ساتھ ناقص اشیائے خوردنی کی تیاری کے پروگرام دکھائے جاتے ہیں مگر پھر بھی موت کے ان سوداگروں کی پکڑ نہیں ہوتی اور ان کا سد باب نہیں کیا جاتا۔
ہر ریاست ذمے دار ہوتی ہے اپنے عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے لیے... اس کا جواب اگر آپ یہ دیں کہ جو عوام ٹیکس نہیں دیتی اسے سہولیات کس طرح دی جا سکتی ہیں۔ جناب اعلی!! ہم میں سے ہر شخص اپنی اپنی بساط کے مطابق ٹیکس دیتا ہے، ہم ہر چیز کی خریداری پر ٹیکس ادا کرتے ہیں، خواہ وہ دوائیں ہوں یا خوراک وغیرہ، اور اس ٹیکس کی شرح دنیا بھر میں غالباً سب سے زیادہ ہو گی، اس ٹیکس کو ہی عام آدمی کے لیے استعمال کیا جائے تو بھی کچھ نہ کچھ امید کی جا سکتی ہے۔ زیادہ تفصیل میں جائیں تو پھر آپ سمیت ''بڑے بڑے'' لوگ جو ٹیکس دیتے ہیں، وہ ہمارے ہاں کے ایک پچاس ساٹھ ہزار تنخواہ پانے والے ملازم کی تنخواہ سے کٹوتی ہو جانے والے ٹیکس سے بھی کم ہے۔
آپ کی عوام میں پڑھے لکھے بے روز گار بھی ہیں، خاتون خانہ بھی، پنشنر بھی، بے استطاعت مریض بھی، غریب بھی، مزدور بھی، سفید پوش بھی، بچے بھی اور بوڑھے بھی، دہقان بھی اور کاریگر بھی، معذور بھی ہیں اور یتیم و مساکین بھی، بے سہارا بھی اور وہ جو دوسروں کو سہارا دینے کی سکت رکھتے ہیں۔
جناب... ایک لمبی فہرست ہے عام طبقے کے مسائل کی اور لوگوں نے آپ کا انتخاب کیا ہے کہ شاید آپ ان کے مسائل کا ادراک کر کے ان کا کوئی حل نکال سکیں۔ اب آپ کی ذہانت اور آپ کے گرد موجود لوگوں کی فراست کا امتحان ہے کہ کس طرح اپنی پالیسیاں مرتب کرتے ہیں، اپنے ہمسایہ ممالک سے کس طرح تعلقات بہتر کر سکتے ہیں، خطے میں موجود دوست ممالک کی دوستی کو اہمیت دینا چاہتے ہیں یا ان کی دوستی کو قائم رکھنا چاہتے ہیں جو اپنی پالیسیاں مرتب کرتے وقت اس بات کو سب سے اہم گردانتے ہیں کہ اس خطے میں موجود ممالک میں آپس میں اتحاد اور یک جہتی نہ ہونے پائے تو کہ ان کی دکان چلتی رہے۔
آپ کو فیصلہ کرنا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کے لیے لیپ ٹاپ زیادہ اہم ہیں، سی این جی بسیں، میٹرو کا منصوبہ، اوور ہیڈ اور انڈر پاس پل، موٹر وے، سستے تنور... اور آپ کے دیگر منصوبے جو صوبہ پنجاب تک محدود تھے یا اس سے بڑھ کر اہم ہے...
... ملک کے اہم اداروں پر عوام کا اعتماد قائم کرنا
... سستا اور فوری انصاف فراہم کرنا ، جہاں جج بکے ہوئے نہ ہوں
...حکمرانوں کے شاہانہ انداز تبدیل کرنے کی ضرورت
... وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کیا جانا چاہیے
... صدارتی اور وزارتی محلوں کے اخراجات میں کمی
... تعلیم اور صحت کی سستی سہولیات کی فراہمی
... رشوت اور سفارش کا خاتمہ کرنے کی ضرورت
...لوڈ شیڈنگ کے مسئلے سے نجات کے لیے اقدامات اور توانائی کے متبادل ذرائع تلاش کرنا
... جان اور مال کا تحفظ یقینی بنانا
...مہنگائی کے عفریت کو قابو کرنے کے لیے ہنگامی اقدامات کرنا
...ٹیکس کی وصولی کے لیے اصلاحات اور فوری اقدامات کرنا
...آبادی کے جن پر قابو پانے کے لیے فوری اقدامات اور کم بچوں والے جوڑوں کے لیے مراعات دینا
یہ چند ایک بنیادی باتیں ہیں، جن کا آپ حلف لیتے ہی اعلان کر دیں اور ان پر عمل درآمد کو اپنا مقصد بنا لیں۔ کوئی بھی کام نا ممکن نہیں ، نیت کا ہونا اہم ہے، اگر آپ بھی نہ کرنا چاہیں گے تو آپ کا وقت بھی ہمیں کوئی پھل دئیے بغیر گزر جائے گا۔ ان پانچ برسوں کو اپنے لیے ''ہنی مون پریڈ'' نہیں بلکہ ذمے داری کے اہم ترین سال سمجھیں تو آپ ملک کو اس بحرانی دور سے نکالنے کا وہ اہم فریضہ انجام دے سکتے ہیں جس سے شاید تاریخ میں آپ کا نام ملک کے لیے بہترین چنیدہ حکمران کے طور پر لکھا جا سکتا ہے، ویسے یہ تختی ابھی تک بالکل خالی ہے!!!!
اس سے دو فوائد ہوں گے، آپ کی کرسی اقتدار کے پائے مزید استقامت پا سکیں گے (کاش کہ آپ اس بھاری منڈیٹ کے بعد اپنی مستقبل کی حکمت عملی طے کرنے میں زیادہ مصروف ہوتے نہ کہ اپنی نشستیں مزید بڑھا کر اکثریت پیدا کر سکیں، جس کی ضرورت جانے آپ کو کیوں محسوس ہو رہی ہے؟)۔ دوسرے آپ کو سہولت رہے گی یہ جانچنے میں کہ جب انسان با اختیار ہوتا ہے تو پرائے بھی اپنے ہو جاتے ہیں اور بے اختیار ہونے کی صورت میں تو سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔ بہتر ہوتا کہ آپ ان موسمی پرندوں کو اپنے گرد اکٹھا کرنے کی بجائے انھیں ان کے لالچ اور خود غرضی سمیت الگ رکھتے... مگر آپ کے فیصلے، آپ ہی جانیں۔
آپ کو وزارت عظمی مبارک ہو اور دعا ہے کہ جو کچھ کیا جا رہا ہے اس کے بعد بھی ملک کے لیے آپ کا اقتدار ترقی کا باعث ہو۔ عوام نے اس بار پیپلز پارٹی کو رد کر کے آپ کو ووٹ دیا ہے اور ان کی بہت سی امیدیں آپ سے وابستہ ہیں، اگر آپ کچھ deliver نہ کر سکے تو یقین کریں کہ اگلی شکست آپ کی جماعت کے لیے تیار پڑی ہو گی۔
ہر آنے والے سے لوگ اسی طرح امیدیں لگا لیتے ہیں کہ اسے ہمارے مسائل کا ادراک ہو گا، مگر ہر کوئی اپنی سیاست کی دکان لگاتا، اپنا وقت گزارتا اور ہماری مشکلات میں اضافہ کر کے ڈگڈگی بجاتا چلا جاتا ہے، ہم تکتے رہ جاتے ہیں۔
اقتدار انعام نہیں بلکہ آزمائش ہے، کرسی اقتدار کی بے وفائی بھی آپ دیکھ چکے ہیں... حضرت عمرؓ اگر اس وجہ سے رات بھر سو نہیں سکتے تھے کہ وہ اپنی رعایا میں سے کسی بھوکے سو جانے والے کے لیے بھی اللہ کو جواب دہ ہیں، اور اگر دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوکا مر جائے تو عمرؓ اس کے لیے اللہ کو جواب دہ ہیں، آپ بھی حکمران بن رہے ہیں، اللہ کی عدالت میں ایک دن آپ بھی اسی طرح جواب دہ ہوں گے۔
آپ کو سب سے پہلے تو ادراک ہونا چاہیے کہ آپ کن لوگوں پر حکمران بن کر حکومت کرنے جا رہے ہیں، پہلے ان سے تعارف حاصل کریں، اس ملک میں بڑے بڑے کاروباری بھی ہیں اور بیوپاری بھی، جن کے اندرون ملک اور بیرون ممالک میں کاروبار دن دوگنی اوررات چوگنی رفتار سے بڑھ رہے ہیں تو وہیں عام دکاندار اور تاجر بھی ہے، فیکٹری مالکان بھی ہیں، یہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے ستائے ہوئے لوگ ہیں، ان کے کاروبار بند ہونے سے لاکھوں گھروں کے چولہے بند ہو چکے ہیں۔
جان و مال کا تحفظ ملک کے ہر شہری کا بنیادی حق ہے، جو اسی صورت میسر آ سکتا ہے اگر ہمارے ملک میں وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کر کے، لاکھوں کی تعداد میں وی آئی پی ڈیوٹی پر تعینات پولیس اور فوج والوں کو ان کے اصل فرض کی طرف لوٹایا جائے۔ صدارتی اور وزارتی محلوں کے اخراجات میں کمی کی جائے تو ہر روز لاکھوں گھروں میں ایک ایک چراغ جل سکتا ہے، ایک وقت کا کھانا میسر آ سکتا ہے۔ جن ملکوں کے سربراہ اپنے ملک کے بنیادی مسئلے، یعنی بھوک کا علاج نہیں کر سکتے، انھیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے عوام سے کسی معاملے میں تعاون کا مطالبہ کریں۔سستا اور فوری انصاف... کیا ملک ہے جہاں انصاف بھی بکتا ہے! جہاں قانون کے بنانیوالے اور رکھوالے ہی متنازعہ ہو جائیں تو کیا توقع کی جائے؟ ملک میں اگر چند مجرم اپنے جرم کے مطابق سزا کے حقدار ٹھہریں، خواہ وہ ملک کے حاکم ہی کیوں نہ ہوں تو یہ سب کے لیے نشان عبرت بن سکتے ہیں۔
بے روزگاری... ایک ایسا اہم مسئلہ ہے جس نے ملک میں نفسیاتی امراض، خود کشیوں اور جرائم کے واقعات میں اضافہ کر رکھا ہے۔ نظام تعلیم میں پائے جانے والے سقم ایسے ہیں کہ انھوں نے طبقاتی فرق کی انتہا کر دی ہے، لوگ احساس کمتری اور برتری کے لیے ایک پیمانہ یہ استعمال کرتے ہیں کہ کہ کسی کا بچہ کس اسکول میں تعلیم پا رہا ہے۔ آپ نے بھی کسی بیرونی ملک کی دی ہوئی امداد سے Danish اسکول قائم کیے، کاش آپ اس امداد کو موجودہ سرکاری اسکولوں کی بہتری کے لیے استعمال کرتے اور ان اسکولوں کی کھوئی ہوئی ساکھ لوٹ آتی۔
ملاوٹ شدہ خوردنی اشیا اور ادویہ کے کاروبار نے اس ملک کو دنیا بھر میں بدنام کر کے رکھ دیا ہے، مرے ہوئے جانوروں کے علاوہ ہر طرح کا حرام گوشت فروخت کیا جا رہا ہے، ٹیلی وژن پر تمام تر ثبوتوں کے ساتھ، علاقوں کے ناموں کے ساتھ ناقص اشیائے خوردنی کی تیاری کے پروگرام دکھائے جاتے ہیں مگر پھر بھی موت کے ان سوداگروں کی پکڑ نہیں ہوتی اور ان کا سد باب نہیں کیا جاتا۔
ہر ریاست ذمے دار ہوتی ہے اپنے عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے لیے... اس کا جواب اگر آپ یہ دیں کہ جو عوام ٹیکس نہیں دیتی اسے سہولیات کس طرح دی جا سکتی ہیں۔ جناب اعلی!! ہم میں سے ہر شخص اپنی اپنی بساط کے مطابق ٹیکس دیتا ہے، ہم ہر چیز کی خریداری پر ٹیکس ادا کرتے ہیں، خواہ وہ دوائیں ہوں یا خوراک وغیرہ، اور اس ٹیکس کی شرح دنیا بھر میں غالباً سب سے زیادہ ہو گی، اس ٹیکس کو ہی عام آدمی کے لیے استعمال کیا جائے تو بھی کچھ نہ کچھ امید کی جا سکتی ہے۔ زیادہ تفصیل میں جائیں تو پھر آپ سمیت ''بڑے بڑے'' لوگ جو ٹیکس دیتے ہیں، وہ ہمارے ہاں کے ایک پچاس ساٹھ ہزار تنخواہ پانے والے ملازم کی تنخواہ سے کٹوتی ہو جانے والے ٹیکس سے بھی کم ہے۔
آپ کی عوام میں پڑھے لکھے بے روز گار بھی ہیں، خاتون خانہ بھی، پنشنر بھی، بے استطاعت مریض بھی، غریب بھی، مزدور بھی، سفید پوش بھی، بچے بھی اور بوڑھے بھی، دہقان بھی اور کاریگر بھی، معذور بھی ہیں اور یتیم و مساکین بھی، بے سہارا بھی اور وہ جو دوسروں کو سہارا دینے کی سکت رکھتے ہیں۔
جناب... ایک لمبی فہرست ہے عام طبقے کے مسائل کی اور لوگوں نے آپ کا انتخاب کیا ہے کہ شاید آپ ان کے مسائل کا ادراک کر کے ان کا کوئی حل نکال سکیں۔ اب آپ کی ذہانت اور آپ کے گرد موجود لوگوں کی فراست کا امتحان ہے کہ کس طرح اپنی پالیسیاں مرتب کرتے ہیں، اپنے ہمسایہ ممالک سے کس طرح تعلقات بہتر کر سکتے ہیں، خطے میں موجود دوست ممالک کی دوستی کو اہمیت دینا چاہتے ہیں یا ان کی دوستی کو قائم رکھنا چاہتے ہیں جو اپنی پالیسیاں مرتب کرتے وقت اس بات کو سب سے اہم گردانتے ہیں کہ اس خطے میں موجود ممالک میں آپس میں اتحاد اور یک جہتی نہ ہونے پائے تو کہ ان کی دکان چلتی رہے۔
آپ کو فیصلہ کرنا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کے لیے لیپ ٹاپ زیادہ اہم ہیں، سی این جی بسیں، میٹرو کا منصوبہ، اوور ہیڈ اور انڈر پاس پل، موٹر وے، سستے تنور... اور آپ کے دیگر منصوبے جو صوبہ پنجاب تک محدود تھے یا اس سے بڑھ کر اہم ہے...
... ملک کے اہم اداروں پر عوام کا اعتماد قائم کرنا
... سستا اور فوری انصاف فراہم کرنا ، جہاں جج بکے ہوئے نہ ہوں
...حکمرانوں کے شاہانہ انداز تبدیل کرنے کی ضرورت
... وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کیا جانا چاہیے
... صدارتی اور وزارتی محلوں کے اخراجات میں کمی
... تعلیم اور صحت کی سستی سہولیات کی فراہمی
... رشوت اور سفارش کا خاتمہ کرنے کی ضرورت
...لوڈ شیڈنگ کے مسئلے سے نجات کے لیے اقدامات اور توانائی کے متبادل ذرائع تلاش کرنا
... جان اور مال کا تحفظ یقینی بنانا
...مہنگائی کے عفریت کو قابو کرنے کے لیے ہنگامی اقدامات کرنا
...ٹیکس کی وصولی کے لیے اصلاحات اور فوری اقدامات کرنا
...آبادی کے جن پر قابو پانے کے لیے فوری اقدامات اور کم بچوں والے جوڑوں کے لیے مراعات دینا
یہ چند ایک بنیادی باتیں ہیں، جن کا آپ حلف لیتے ہی اعلان کر دیں اور ان پر عمل درآمد کو اپنا مقصد بنا لیں۔ کوئی بھی کام نا ممکن نہیں ، نیت کا ہونا اہم ہے، اگر آپ بھی نہ کرنا چاہیں گے تو آپ کا وقت بھی ہمیں کوئی پھل دئیے بغیر گزر جائے گا۔ ان پانچ برسوں کو اپنے لیے ''ہنی مون پریڈ'' نہیں بلکہ ذمے داری کے اہم ترین سال سمجھیں تو آپ ملک کو اس بحرانی دور سے نکالنے کا وہ اہم فریضہ انجام دے سکتے ہیں جس سے شاید تاریخ میں آپ کا نام ملک کے لیے بہترین چنیدہ حکمران کے طور پر لکھا جا سکتا ہے، ویسے یہ تختی ابھی تک بالکل خالی ہے!!!!