کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں
کراچی کا حل سیاسی ہوتا توحل ڈھونڈا جاسکتا تھا،معاشی ہوتا توبھی علاج ممکن تھا لیکن کراچی کا مسئلہ نہ سیاسی ہے نہ معاشی۔
کراچی کو ایسا روگ لگ گیا ہے، جس کی آج تک درست تشخیص نہیں ہوسکی، اگر یہ مان لیا جائے کہ تشخیص تو ہوگئی تھی تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ علاج کیوں نہیں کیا گیا ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ علاج کرنا ہی نہیں تھا۔ خیر اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ مسیحاؤں کی مسیحائی کام نہ آئی، نہ کوئی وید اور سنیاسی درد کی دوا کر پایا، حکما کی حکمتیں بے کار گئیں، حکام کی حکمت عملیاں رائیگاں ہوئیں اور شاید دعائیں بھی اپنا اثر کھو بیٹھی ہیں۔
ہم نے جب سے شعور کی آنکھ کھولی ہے اس شہر میں زندگی کی ناپائیداری اور انسانی خون کی ارزانی ہی دیکھی۔ ہمیں تو یہ خواب ہی لگتا ہے اور سچ پوچھیں تو نرا جھوٹ کہ اس شہر کی راتیں حسین اور شامیں دلفریب ہوتی تھیں، سڑکیں روز دھلا کرتی تھیں، یہاں کے باسی خوش اور خوش حال تھے، صاف ستھرا ساحلِ سمندر ایسے نظارہ پیش کرتا تھا کہ اگر کوئی حزن و ملال کا مارا وہاںچلا جاتا تو نیا جیون پاتا تھا۔ اسی لیے اس شہر کو لاڈ اور پیار سے روشنیوں کا شہر اور عروس البلاد جیسے ناموں سے پکارا جاتا تھا۔ دنیا جہاں کے سیاح کراچی دیکھنے آتے تھے۔ جہاںکوئی بھوکا نہیں سوتا تھا۔ ہمیں تو یہ سب جھوٹی کہانی اور من گھڑت داستان لگتی ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ایک طویل عرصے سے کراچی میں قتل و غارت گری اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ دہشت گردی نے اس شہر ناپرساں کو اپنے شکنجے میں کسا ہوا ہے۔ فرقہ بندی اور لسانی تعصب کا زہر ہر جا سرائیت کرگیا ہے۔ شہر کے باسی ڈرے، سہمے، ہراساں اور بے زار ہیں اور کوچہ و بازار ویران ا ور خون انسانی سے رنگین ہیں۔ چوراہوں پر اداسیوں نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ کہیں اگر کچھ لوگ دکھ درد بانٹنے جمع ہوجائیں تو نہ چاہتے ہوئے بھی کان کسی بری خبر کے منتظر رہتے ہیں اور ہزارہا اندیشے پھن پھیلائے کھڑے رہتے ہیں کہ نہ جانے اگلے لمحے کیا ہوجائے۔
انسانی جان کی بے حرمتی اور انسان کا خون اس شہر میں جتنا سستا ہے، شاید ہی کہیں اور ہو۔ سمجھ نہیں آتا اس شہر کا بیمار کون ہے، تیماردار کون اور مسیحا کون اور کہاں ہے؟ گزشتہ کئی برسوں سے اس شہر میں اگر کسی کو فروغ ملا ہے تو وہ ہے ''جرم''۔ مجرم کو اتنی سازگار فضا کہیں میسر نہیں آسکتی جتنی اس شہر میں ملی۔ جب سزا نہیں ملے گی تو جرم کو کیوں پنپنے کا موقع نہیں ملے گا؟ سزا کا خوف وہ واحد خوف ہے جو جرم کی روک تھام کرسکتا ہے۔
نیکی کرنے والے کی کوئی داد و تحسین نہیں اور بدی کرنے والے کی لعنت و ملامت نہیں تو پھر کیوں بدی کے ہاتھ مضبوط نہیں ہوں گے؟ ہر روز یہ خبر سننے کو ملتی ہے کہ قیمتی جانیں نامعلوم افراد کی گولیوں کا نشانہ بن گئیں۔ اب تو ہم بھی اتنے عادی اور شاید بے حس بھی ہوگئے کہ ہمیں خود بھی اس شدت کا درد نہیں ہوتا جو کبھی ہوتا تھا۔ اس لیے یہ خبر خبر نہیں لگتی بلکہ خبر یقیناً اس وقت اہم لگے گی جب یہ سننے کو ملے گا کہ آج شہر کراچی میں کوئی معصوم کسی گولی کا نشانہ نہیں بنا۔ یہ احساس ہی انتہائی لطیف اور خوشگوار ہے۔ اور یقیناً ہماری طرح کئی لوگ اس بڑی اور اچھی خبر کے منتظر بھی ہوں گے۔
کراچی کا حل سیاسی ہوتا تو حل ڈھونڈا جاسکتا تھا، معاشی ہوتا تو بھی علاج ممکن تھا لیکن کراچی کا مسئلہ نہ سیاسی ہے نہ معاشی۔ معاشی و اقتصادی ہوتا تو لوگ یہاں سرمایہ کاری نہ کرتے، نہ لاکھوں لوگوں کو روزگار میسر ہوتا۔ اس شہر کا مسئلہ بدانتظامی اور حکومت کی عدم دل چسپی ہے۔ ماضی میں جتنی بھی حکومتیں آئیں کسی نے بھی اس شہر بیمار کراچی کے مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور نہ اسے حل کرنے کی کوشش کی۔ ہر ایک نے دعوے تو بہت کیے مگر عملاً کسی نے کچھ بھی نہیں کیا۔ اس کے پیچھے کون سی حکمتیں پوشیدہ تھیں یہ ہم ناسمجھ سمجھنے سے قاصر ہیں۔
ماضی کی قوموں کے زوال کے بہت سے اسباب میں سے دو اہم سبب یہ تھے کہ یا تو ان کے امرا حقیقت سے آنکھیں چرانے لگے تھے اور جانتے بوجھتے اندھے بن گئے تھے یا ان کے عوام خود اپنے آپ سے بیر رکھنے لگے تھے اور خود اپنی جان کے دشمن بن گئے تھے۔ بدقسمتی سے ہم دونوں بیماریوں کا شکار ہیں۔ ہمارے امرا چاہے ان کاتعلق مذہی جماعت سے ہو، سیاسی یا لسانی اپنے اپنے مفادات کے باعث اس شہر کے مکینوں کی آہ و بکا سننے سے قاصر ہیں۔ روز اس شہر میں مرثیے لکھے جاتے اور نوحے پڑھے جاتے ہیں۔ مگر ہمارے امرا اندھے ہی نہیں بہرے بھی ہیں، اس لیے ان سے کسی بھلائی کی توقع رکھنا عبث ہے۔
جو کرنا ہے ہمیں خود کرنا ہے۔ سسکتی ہوئی اور ذلت آمیز زندگی سے بہتر ہے کہ ظالموں کو للکارا جائے اور ظلم کے خلاف آواز بلند کی جائے۔ ہمیں اس بات پر یقین کامل ہونا چاہیے کہ ہماری موت کی جگہ اور وجہ دونوں کا تعین اﷲ رب العزت نے کیا ہوا ہے۔ اس کے لکھے کے آگے کسی انسان کا بس نہیں چلتا۔ جس دن موت کا خوف ہم نے اپنے دل سے نکال دیا اسی دن اﷲ تعالیٰ ہمارا ہاتھ پکڑ کر ہمیں اپنی قوت سے نوازے گا جس کے آگے تمام ظاہری طاقتیں اور قوتیں بے معنی ہیں۔ جن لوگوں نے ہمارے اندر سے محبت کی شیرینی کو ختم کیا، ہماری آنکھوں سے بصارتیں چھینیں، ہمارے دلوں میں نفرتوں کے بیج بوئے، ہمیں ان کے خلاف متحد ہو کر لڑنا پڑے گا ورنہ یہ شہر یونہی تاریکیوں میں ڈوبا رہے گا اور اس شہر کے مکین اسی طرح ہر روز اپنے پیاروں کو کاندھا دیتے اور آنسو بہاتے رہیں گے۔
ہم نے جب سے شعور کی آنکھ کھولی ہے اس شہر میں زندگی کی ناپائیداری اور انسانی خون کی ارزانی ہی دیکھی۔ ہمیں تو یہ خواب ہی لگتا ہے اور سچ پوچھیں تو نرا جھوٹ کہ اس شہر کی راتیں حسین اور شامیں دلفریب ہوتی تھیں، سڑکیں روز دھلا کرتی تھیں، یہاں کے باسی خوش اور خوش حال تھے، صاف ستھرا ساحلِ سمندر ایسے نظارہ پیش کرتا تھا کہ اگر کوئی حزن و ملال کا مارا وہاںچلا جاتا تو نیا جیون پاتا تھا۔ اسی لیے اس شہر کو لاڈ اور پیار سے روشنیوں کا شہر اور عروس البلاد جیسے ناموں سے پکارا جاتا تھا۔ دنیا جہاں کے سیاح کراچی دیکھنے آتے تھے۔ جہاںکوئی بھوکا نہیں سوتا تھا۔ ہمیں تو یہ سب جھوٹی کہانی اور من گھڑت داستان لگتی ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ایک طویل عرصے سے کراچی میں قتل و غارت گری اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ دہشت گردی نے اس شہر ناپرساں کو اپنے شکنجے میں کسا ہوا ہے۔ فرقہ بندی اور لسانی تعصب کا زہر ہر جا سرائیت کرگیا ہے۔ شہر کے باسی ڈرے، سہمے، ہراساں اور بے زار ہیں اور کوچہ و بازار ویران ا ور خون انسانی سے رنگین ہیں۔ چوراہوں پر اداسیوں نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ کہیں اگر کچھ لوگ دکھ درد بانٹنے جمع ہوجائیں تو نہ چاہتے ہوئے بھی کان کسی بری خبر کے منتظر رہتے ہیں اور ہزارہا اندیشے پھن پھیلائے کھڑے رہتے ہیں کہ نہ جانے اگلے لمحے کیا ہوجائے۔
انسانی جان کی بے حرمتی اور انسان کا خون اس شہر میں جتنا سستا ہے، شاید ہی کہیں اور ہو۔ سمجھ نہیں آتا اس شہر کا بیمار کون ہے، تیماردار کون اور مسیحا کون اور کہاں ہے؟ گزشتہ کئی برسوں سے اس شہر میں اگر کسی کو فروغ ملا ہے تو وہ ہے ''جرم''۔ مجرم کو اتنی سازگار فضا کہیں میسر نہیں آسکتی جتنی اس شہر میں ملی۔ جب سزا نہیں ملے گی تو جرم کو کیوں پنپنے کا موقع نہیں ملے گا؟ سزا کا خوف وہ واحد خوف ہے جو جرم کی روک تھام کرسکتا ہے۔
نیکی کرنے والے کی کوئی داد و تحسین نہیں اور بدی کرنے والے کی لعنت و ملامت نہیں تو پھر کیوں بدی کے ہاتھ مضبوط نہیں ہوں گے؟ ہر روز یہ خبر سننے کو ملتی ہے کہ قیمتی جانیں نامعلوم افراد کی گولیوں کا نشانہ بن گئیں۔ اب تو ہم بھی اتنے عادی اور شاید بے حس بھی ہوگئے کہ ہمیں خود بھی اس شدت کا درد نہیں ہوتا جو کبھی ہوتا تھا۔ اس لیے یہ خبر خبر نہیں لگتی بلکہ خبر یقیناً اس وقت اہم لگے گی جب یہ سننے کو ملے گا کہ آج شہر کراچی میں کوئی معصوم کسی گولی کا نشانہ نہیں بنا۔ یہ احساس ہی انتہائی لطیف اور خوشگوار ہے۔ اور یقیناً ہماری طرح کئی لوگ اس بڑی اور اچھی خبر کے منتظر بھی ہوں گے۔
کراچی کا حل سیاسی ہوتا تو حل ڈھونڈا جاسکتا تھا، معاشی ہوتا تو بھی علاج ممکن تھا لیکن کراچی کا مسئلہ نہ سیاسی ہے نہ معاشی۔ معاشی و اقتصادی ہوتا تو لوگ یہاں سرمایہ کاری نہ کرتے، نہ لاکھوں لوگوں کو روزگار میسر ہوتا۔ اس شہر کا مسئلہ بدانتظامی اور حکومت کی عدم دل چسپی ہے۔ ماضی میں جتنی بھی حکومتیں آئیں کسی نے بھی اس شہر بیمار کراچی کے مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور نہ اسے حل کرنے کی کوشش کی۔ ہر ایک نے دعوے تو بہت کیے مگر عملاً کسی نے کچھ بھی نہیں کیا۔ اس کے پیچھے کون سی حکمتیں پوشیدہ تھیں یہ ہم ناسمجھ سمجھنے سے قاصر ہیں۔
ماضی کی قوموں کے زوال کے بہت سے اسباب میں سے دو اہم سبب یہ تھے کہ یا تو ان کے امرا حقیقت سے آنکھیں چرانے لگے تھے اور جانتے بوجھتے اندھے بن گئے تھے یا ان کے عوام خود اپنے آپ سے بیر رکھنے لگے تھے اور خود اپنی جان کے دشمن بن گئے تھے۔ بدقسمتی سے ہم دونوں بیماریوں کا شکار ہیں۔ ہمارے امرا چاہے ان کاتعلق مذہی جماعت سے ہو، سیاسی یا لسانی اپنے اپنے مفادات کے باعث اس شہر کے مکینوں کی آہ و بکا سننے سے قاصر ہیں۔ روز اس شہر میں مرثیے لکھے جاتے اور نوحے پڑھے جاتے ہیں۔ مگر ہمارے امرا اندھے ہی نہیں بہرے بھی ہیں، اس لیے ان سے کسی بھلائی کی توقع رکھنا عبث ہے۔
جو کرنا ہے ہمیں خود کرنا ہے۔ سسکتی ہوئی اور ذلت آمیز زندگی سے بہتر ہے کہ ظالموں کو للکارا جائے اور ظلم کے خلاف آواز بلند کی جائے۔ ہمیں اس بات پر یقین کامل ہونا چاہیے کہ ہماری موت کی جگہ اور وجہ دونوں کا تعین اﷲ رب العزت نے کیا ہوا ہے۔ اس کے لکھے کے آگے کسی انسان کا بس نہیں چلتا۔ جس دن موت کا خوف ہم نے اپنے دل سے نکال دیا اسی دن اﷲ تعالیٰ ہمارا ہاتھ پکڑ کر ہمیں اپنی قوت سے نوازے گا جس کے آگے تمام ظاہری طاقتیں اور قوتیں بے معنی ہیں۔ جن لوگوں نے ہمارے اندر سے محبت کی شیرینی کو ختم کیا، ہماری آنکھوں سے بصارتیں چھینیں، ہمارے دلوں میں نفرتوں کے بیج بوئے، ہمیں ان کے خلاف متحد ہو کر لڑنا پڑے گا ورنہ یہ شہر یونہی تاریکیوں میں ڈوبا رہے گا اور اس شہر کے مکین اسی طرح ہر روز اپنے پیاروں کو کاندھا دیتے اور آنسو بہاتے رہیں گے۔