’’ہیلی کاپٹر سیاست‘‘
پاکستان میں بے شمار اور مسائل چھوڑ کر ہم نے بے تکا ایشو اُٹھا لیا گیا۔
آج کل ملک میں ہیلی کاپٹر سیاست جاری ہے، ویسے تو ملک کی24 کروڑ آبادی میں سے محض ڈھائی لاکھ مستند انجینئر ہیں مگر یہاں ہر کوئی انجینئر بنا ہوا ہے، پورے ملک میں ''ہاسا'' پڑا ہوا ہے اور ایسے لگ رہا ہے جیسے ہم دنیا کی خوشحال ترین قوم ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کیا عجیب قوم ہیں ہم۔ عقل و فہم سے عاری جہالت و جذباتیت میں ڈوبے ہوئے لوگ، کسی کو پسند کریں تو سروں پر بٹھا لیں اور نفرت کریں تو اس کا جینا ہی محال کر دیں، ہم بحثیت قوم ایک انتہائی ''زندہ دل'' ہیں۔
زندگی کے چھوٹے چھوٹے انفرادی مسائل سے لے کر بڑے بڑے قومی مسائل پر ہمارا غیر سنجیدہ اور بے فکرانہ رویہ ہمیں ایک بہترین ''مذاقیہ'' قوم ثابت کرتا ہے۔
عقل سے عاری آراء اور چٹکلوں سے سوشل میڈیا پر اس قوم کا کوئی ہم پلہ نہیں، یہ قوم خوش رہتی ہے اور نہ کسی کو خوش دیکھ سکتی ہے۔ اگر کوئی چائے فروخت وزارت عظمٰی پر فائز ہو تو خوش نہیں، کوئی مولوی صنف نازک سے مل لے تو جلن، ڈالر گرل جیل جائے تو حیرانی، رہائی پائے تو خوشی اور کسی جامعہ میں مدعو کر دی جائے تو اعتراض۔ کسی نے اگر ہیلی کاپٹر کے سفر کو وزیر اعظم کے لیے بہترین قرار دیا کہ اس سے لوگوں کی تکلیف کم ہو گی تو ایسے ایسے مسخرے اپنی بلوں سے نکل آئے جیسے وہ کسی تاک میں بیٹھے یہی انتظار کر رہے تھے نئی نویلی حکومت بات کے نیچے آئے تو اسے دبوچ لیا جائے۔ ہر بات پر بحث کرنا اور بحث کرتے ہوئے دلیل کی جگہ بدزبانی کا مظاہرہ ہماری بیمار سوچ کو ظاہر کرتا ہے۔
جب سے تحریک انصاف نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ہے، جماعت کے رہنما اور حکومتی اراکین نے مسلسل اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ وہ کفایت شعاری سے کام لیں گے ، تو یہی بات مذاق بنی ہوئی ہے۔
اس بابت وزیر اعظم عمران خان نے اپنے پہلے عوامی خطاب میں اعلان کیا تھا کہ وہ وزیر اعظم ہاؤس میں رہائش اختیار نہیں کریں گے، بلٹ پروف گاڑیاں فروخت کر دیں گے اور اپنے لیے پروٹوکول میں کمی کریں گے۔ کفایت شعاری اور خرچے کم کرنے کی بحث نے زور اس وقت پکڑا جب خبر سامنے آئی کہ وزیر اعظم اپنی ذاتی رہائش گاہ بنی گالا سے اپنے دفتر تک سفر کے لیے ہیلی کاپٹر استعمال کر رہے ہیں، جس پر ایک طوفان برپا ہو گیا کہ یہ کیسی کفایت شعاری ہے۔
وزیرِاطلاعات فواد چوہدری نے اپنے تئیں بات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی اور پریس کانفرنس میں کہا کہ یہ معمولی بات ہے اور ہیلی کاپٹر کے اس سفر پر ''ہیلی کاپٹر کا خرچ 50 سے 55 روپے فی کلومیٹر ہے'' لیکن اس بیان کے بعد سوشل میڈیا پر میلز کی بھرمار ہو گئی جس میں لوگوں نے کافی دلچسپ تبصرے کیے۔
بات اتنی بڑی نہیں تھی جتنی بنا دی گئی، قارئین کو یاد ہو گا کہ جب شہباز شریف، نواز شریف، حمزہ شہباز یا اُن کا خاندان بائے روڈ جاتی عمرہ جاتے تھے تو 35، 35 لاکھ روپے تک خرچہ آیا کرتا تھا۔ اور شکر ہے خدا کا ہماری یہ تجویز بھی کسی نے مانی کہ عوام کو کم سے کم تکلیف میں رکھا جائے۔ میں تو اس حوالے سے اُس زمانے میں بھی لکھا کرتا تھا جب یوسف رضا گیلانی کو شادیاں اٹینڈ کرنے کا شوق ہوا کرتا تھا اور پورے لاہور کو اُس نے جام کیا ہوتا تھا۔
اور پھر جب کچھ عرصہ قبل کرکٹ ٹیمیں لاہور آئیں تم میں نے نجم سیٹھی کے لیے اپنے کالموں میں یہ تجاویز دی تھیں کہ ہوٹل سے کرکٹ اسٹیڈیم تک کھلاڑیوں کو روڈ کے ذریعے لے جانے کے بجائے انھیں ہیلی کاپٹر سے لایا لے جایا جائے تاکہ پورا لاہور بند نہ کرنا پڑے اور نہ ہی ملک کو اربوں روپے کا نقصان ہو، مگر اس تجویز پر کسی نے عمل نہ کیا۔ بات سادہ سی ہے کہ عمران خان کی زندگی اس وقت شدید خطرات سے دوچار ہے اور یہ بات کسی کو سمجھ نہیں آ رہی۔
وزیر اعظم کی جان بہت قیمتی ہے۔ اس لیے وہ اپنی حفاظت کے لیے کوئی بھی قدم اٹھائیں ہمیں ان کے ساتھ ہونا چاہیے۔ اور یہ عمران خان کی گریٹنس ہے کہ انھوں نے اس چیز کو محسوس کرتے ہوئے روڈز کے استعمال کو ترجیح نہ دی، یہ اُن کا بڑا پن ہے کہ انھوں نے اپنے لیے روڈز پر سیکڑوں کی تعداد میں نہ تو اہلکار تعینات کیے اور نہ گھنٹوں گھنٹوں ٹریفک کو روکے رکھا۔ بلکہ مجھے یاد ہے کہ اسلام آباد میں پچھلے ادوار میں پروٹوکول کے نام پر ائیر پورٹ کے روڈز تک کو بند کر دیا جاتا تھا اور جب آپ گھر سے ائیر پورٹ کے لیے نکلتے تھے کہ تو اس چانس پر ہوتے تھے کہ پتہ نہیں وقت پر پہنچا بھی جا سکے گا یا نہیں، کیونکہ راستے میں کسی نہ کسی کا روٹ لگا ہوتا تھا۔
بلکہ میرے خیال میں اس کی تقلید دوسروں کو بھی کرنی چاہیے اور عوام کو کم سے کم تکلیف دینے کے کی ضرورت ہے۔ عوام کو تکلیف بھی کم ہے تو میرے خیال میں اس سے بہتر چوائس کوئی نہیں ہو سکتی۔ اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ فی کلومیٹر کتنا خرچ آتا ہے، کتنا نہیں... اب ٹیکنالوجی عام ہو چکی ہے کہ آپ منٹوں میں ہر چیز کی کیلکولیشن نکال سکتے ہیں، جو ہیلی کاپٹر بنی گالا آتا جاتا ہے وہ آگسٹا ویسٹ لینڈ کمپنی کا ہیلی کاپٹر ہے جسے AW139 کہا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ کے سات ہیلی کاپٹر حکومتِ پاکستان کی ملکیت ہیں جن میں دو سویلین ہیلی کاپٹر وزیرِاعظم کے زیرِاستعمال رہتے ہیں۔
الغرض پاکستان میں بے شمار اور مسائل چھوڑ کر ہم نے بے تکا ایشو اُٹھا لیا گیا۔ اسی لیے میں یہ کہنے پر مجبور ہوا ہوں کہ ہم مانیں یا نا مانیںسچ یہی ہے کہ ہم ایک انتہا پسند قوم ہیں، ہم اپنی عینک سے دنیا کو دیکھتے ہیں اور اس کے ہی رنگ کو آخر سمجھتے ہیں اور دنیا کو سمجھانا چاہتے ہیں ہر شخص دانشور اور ہر للو پنجو مذہبی اور سیاسی معاملات کا نقاد ہے۔ ہمارا علم اخبار کی ہیڈ لائن سے شروع ہو کر فیس بک پروپیگنڈا خبروں تک ہی محدود ہے۔
اگر ہم اپنا کچھ وقت گالیاں دینے اور کھانے سے بچاکر سنجیدگی کے ساتھ کچھ سیکھنے سکھانے اور دیگر مثبت سرگرمیوں میں گزاریں، تو شاید کچھ بھلا ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے وگرنہ سچ تو یہ ہے کے ہم پڑھے لکھے جاہل ان پڑھ جاہلوں سے زیادہ نقصان ملک کو پہنچا رہے ہیں۔ لہٰذا ایسے مسئلوں کو سیاسی مسئلہ نہ بنایا جائے۔کیوں کہ ایسے مسئلے ''ہیلی کاپٹر سیاست'' بن جاتے ہیں جو سمجھ سے اوپر اوپر محو پرواز رہتے ہیں جب کہ اصل مسائل اپنی جگہ قائم رہتے ہیں۔
زندگی کے چھوٹے چھوٹے انفرادی مسائل سے لے کر بڑے بڑے قومی مسائل پر ہمارا غیر سنجیدہ اور بے فکرانہ رویہ ہمیں ایک بہترین ''مذاقیہ'' قوم ثابت کرتا ہے۔
عقل سے عاری آراء اور چٹکلوں سے سوشل میڈیا پر اس قوم کا کوئی ہم پلہ نہیں، یہ قوم خوش رہتی ہے اور نہ کسی کو خوش دیکھ سکتی ہے۔ اگر کوئی چائے فروخت وزارت عظمٰی پر فائز ہو تو خوش نہیں، کوئی مولوی صنف نازک سے مل لے تو جلن، ڈالر گرل جیل جائے تو حیرانی، رہائی پائے تو خوشی اور کسی جامعہ میں مدعو کر دی جائے تو اعتراض۔ کسی نے اگر ہیلی کاپٹر کے سفر کو وزیر اعظم کے لیے بہترین قرار دیا کہ اس سے لوگوں کی تکلیف کم ہو گی تو ایسے ایسے مسخرے اپنی بلوں سے نکل آئے جیسے وہ کسی تاک میں بیٹھے یہی انتظار کر رہے تھے نئی نویلی حکومت بات کے نیچے آئے تو اسے دبوچ لیا جائے۔ ہر بات پر بحث کرنا اور بحث کرتے ہوئے دلیل کی جگہ بدزبانی کا مظاہرہ ہماری بیمار سوچ کو ظاہر کرتا ہے۔
جب سے تحریک انصاف نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ہے، جماعت کے رہنما اور حکومتی اراکین نے مسلسل اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ وہ کفایت شعاری سے کام لیں گے ، تو یہی بات مذاق بنی ہوئی ہے۔
اس بابت وزیر اعظم عمران خان نے اپنے پہلے عوامی خطاب میں اعلان کیا تھا کہ وہ وزیر اعظم ہاؤس میں رہائش اختیار نہیں کریں گے، بلٹ پروف گاڑیاں فروخت کر دیں گے اور اپنے لیے پروٹوکول میں کمی کریں گے۔ کفایت شعاری اور خرچے کم کرنے کی بحث نے زور اس وقت پکڑا جب خبر سامنے آئی کہ وزیر اعظم اپنی ذاتی رہائش گاہ بنی گالا سے اپنے دفتر تک سفر کے لیے ہیلی کاپٹر استعمال کر رہے ہیں، جس پر ایک طوفان برپا ہو گیا کہ یہ کیسی کفایت شعاری ہے۔
وزیرِاطلاعات فواد چوہدری نے اپنے تئیں بات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی اور پریس کانفرنس میں کہا کہ یہ معمولی بات ہے اور ہیلی کاپٹر کے اس سفر پر ''ہیلی کاپٹر کا خرچ 50 سے 55 روپے فی کلومیٹر ہے'' لیکن اس بیان کے بعد سوشل میڈیا پر میلز کی بھرمار ہو گئی جس میں لوگوں نے کافی دلچسپ تبصرے کیے۔
بات اتنی بڑی نہیں تھی جتنی بنا دی گئی، قارئین کو یاد ہو گا کہ جب شہباز شریف، نواز شریف، حمزہ شہباز یا اُن کا خاندان بائے روڈ جاتی عمرہ جاتے تھے تو 35، 35 لاکھ روپے تک خرچہ آیا کرتا تھا۔ اور شکر ہے خدا کا ہماری یہ تجویز بھی کسی نے مانی کہ عوام کو کم سے کم تکلیف میں رکھا جائے۔ میں تو اس حوالے سے اُس زمانے میں بھی لکھا کرتا تھا جب یوسف رضا گیلانی کو شادیاں اٹینڈ کرنے کا شوق ہوا کرتا تھا اور پورے لاہور کو اُس نے جام کیا ہوتا تھا۔
اور پھر جب کچھ عرصہ قبل کرکٹ ٹیمیں لاہور آئیں تم میں نے نجم سیٹھی کے لیے اپنے کالموں میں یہ تجاویز دی تھیں کہ ہوٹل سے کرکٹ اسٹیڈیم تک کھلاڑیوں کو روڈ کے ذریعے لے جانے کے بجائے انھیں ہیلی کاپٹر سے لایا لے جایا جائے تاکہ پورا لاہور بند نہ کرنا پڑے اور نہ ہی ملک کو اربوں روپے کا نقصان ہو، مگر اس تجویز پر کسی نے عمل نہ کیا۔ بات سادہ سی ہے کہ عمران خان کی زندگی اس وقت شدید خطرات سے دوچار ہے اور یہ بات کسی کو سمجھ نہیں آ رہی۔
وزیر اعظم کی جان بہت قیمتی ہے۔ اس لیے وہ اپنی حفاظت کے لیے کوئی بھی قدم اٹھائیں ہمیں ان کے ساتھ ہونا چاہیے۔ اور یہ عمران خان کی گریٹنس ہے کہ انھوں نے اس چیز کو محسوس کرتے ہوئے روڈز کے استعمال کو ترجیح نہ دی، یہ اُن کا بڑا پن ہے کہ انھوں نے اپنے لیے روڈز پر سیکڑوں کی تعداد میں نہ تو اہلکار تعینات کیے اور نہ گھنٹوں گھنٹوں ٹریفک کو روکے رکھا۔ بلکہ مجھے یاد ہے کہ اسلام آباد میں پچھلے ادوار میں پروٹوکول کے نام پر ائیر پورٹ کے روڈز تک کو بند کر دیا جاتا تھا اور جب آپ گھر سے ائیر پورٹ کے لیے نکلتے تھے کہ تو اس چانس پر ہوتے تھے کہ پتہ نہیں وقت پر پہنچا بھی جا سکے گا یا نہیں، کیونکہ راستے میں کسی نہ کسی کا روٹ لگا ہوتا تھا۔
بلکہ میرے خیال میں اس کی تقلید دوسروں کو بھی کرنی چاہیے اور عوام کو کم سے کم تکلیف دینے کے کی ضرورت ہے۔ عوام کو تکلیف بھی کم ہے تو میرے خیال میں اس سے بہتر چوائس کوئی نہیں ہو سکتی۔ اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ فی کلومیٹر کتنا خرچ آتا ہے، کتنا نہیں... اب ٹیکنالوجی عام ہو چکی ہے کہ آپ منٹوں میں ہر چیز کی کیلکولیشن نکال سکتے ہیں، جو ہیلی کاپٹر بنی گالا آتا جاتا ہے وہ آگسٹا ویسٹ لینڈ کمپنی کا ہیلی کاپٹر ہے جسے AW139 کہا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ کے سات ہیلی کاپٹر حکومتِ پاکستان کی ملکیت ہیں جن میں دو سویلین ہیلی کاپٹر وزیرِاعظم کے زیرِاستعمال رہتے ہیں۔
الغرض پاکستان میں بے شمار اور مسائل چھوڑ کر ہم نے بے تکا ایشو اُٹھا لیا گیا۔ اسی لیے میں یہ کہنے پر مجبور ہوا ہوں کہ ہم مانیں یا نا مانیںسچ یہی ہے کہ ہم ایک انتہا پسند قوم ہیں، ہم اپنی عینک سے دنیا کو دیکھتے ہیں اور اس کے ہی رنگ کو آخر سمجھتے ہیں اور دنیا کو سمجھانا چاہتے ہیں ہر شخص دانشور اور ہر للو پنجو مذہبی اور سیاسی معاملات کا نقاد ہے۔ ہمارا علم اخبار کی ہیڈ لائن سے شروع ہو کر فیس بک پروپیگنڈا خبروں تک ہی محدود ہے۔
اگر ہم اپنا کچھ وقت گالیاں دینے اور کھانے سے بچاکر سنجیدگی کے ساتھ کچھ سیکھنے سکھانے اور دیگر مثبت سرگرمیوں میں گزاریں، تو شاید کچھ بھلا ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے وگرنہ سچ تو یہ ہے کے ہم پڑھے لکھے جاہل ان پڑھ جاہلوں سے زیادہ نقصان ملک کو پہنچا رہے ہیں۔ لہٰذا ایسے مسئلوں کو سیاسی مسئلہ نہ بنایا جائے۔کیوں کہ ایسے مسئلے ''ہیلی کاپٹر سیاست'' بن جاتے ہیں جو سمجھ سے اوپر اوپر محو پرواز رہتے ہیں جب کہ اصل مسائل اپنی جگہ قائم رہتے ہیں۔