ماریہ سلطان پاک افغان امن اور سی پیک
ماریہ سلطان فزکس اور مَیتھ کی دنیا کی باسی ہیں جہاں صرف ہندسوں اور اعداد کا غلبہ رہتا ہے۔
افغانستان میں امریکا اور بھارت نے باہمی ملی بھگت سے جو گند مچا رکھا ہے، اِس کی بُو سے پاکستان اورپاکستانیوں کے ناک بھی جل رہے ہیں۔ افغان خفیہ ادارے (این ڈی ایس) نے بھارتی خفیہ ایجنسی(را) سے مل کر پاکستان میں دہشتگردی کی جتنی بھی خونی وارداتیں کی ہیں، ہم سب اِن کے گواہ ہیں۔ این ڈی ایس کا سابق سربراہ، امراللہ صالح، بھارتیوں کے اشارے پر پاکستان پر سنگین الزامات عائد کر رہا ہے۔
یہ بہتان کتنے سنگین اوربے بنیاد ہیں، اِن کی ایک ہلکی سی جھلک ہمیں اُس انٹرویو میں بھی نظر آتی ہے جو اِس دریدہ دہن نے حال ہی میں برطانیہ کے ایک مشہور اینکر پرسن (مہدی حسن) کو ''الجزیرہ'' ٹی وی پر دیا ہے۔ امریکا بھی بھارتی خوشنودی کے لیے، پاکستان کو ٹَف ٹائم دے رہا ہے۔ امریکا کو پاکستان سے جو تازہ عناد ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان نے امریکا کے لیے ''ڈُو مور'' کرنے سے صاف انکار کر رکھا ہے۔
اس انکار نے پاکستان کو مالی اور معاشی طور پر سخت پریشانی میں بھی مبتلا کیا ہے ۔ امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے پاکستان جتنی جنگیں لڑ سکتا تھا، لڑ چکا۔ اب مزید نہیں ۔ امریکا کو پاکستان کی طرف سے'' نو ڈُو مور'' کا ٹھینگا دکھایا گیا تو امریکیوں کے پیٹ میں بہت مروڑ اُٹھے۔ ردِ عمل میں اُنہوں نے بھی پاکستان پر متنوع مالی اور دفاعی پابندیاں عائد کردیں۔ پاک ، امریکا تعلقات ہنوز کشیدہ ہیں۔ اگلے ماہ امریکی وزیر خارجہ، مائیک پومپیؤ،اور امریکی افواج کے سربراہ، جنرل جوزف ڈنفورڈ، پاکستان آ رہے ہیں ۔ ممکن ہے صلح اور تعاون کا کوئی نیا راستہ نکل آئے لیکن ان دونوں حضرات کی اصل منزل تو بھارت ہے۔
امریکا نے بھارت کو بھی، مختلف محاذوں پر، پاکستان کے خلاف کھڑا کرکے دیکھ لیا ہے لیکن مقاصد پورے نہیں ہو سکے ہیں۔ افواجِ پاکستان نے جَم کر بھارتی اور امریکی سازشوں کو ناکام بنایا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکیوں کو توقع تھی کہ بھارت کے تعاون سے پاکستان کا بازو مروڑ کر اُس سے افغانستان میں پھر سے اپنے من پسند ''کام'' کروائے جا سکیں گے۔ اور یوں اُس داغِ شکست اور داغِ ندامت سے بچا جا سکے گا جو جنگجو طالبان افغانستان میں امریکی فوجوں کے ماتھے پر آئے روزسجا رہے ہیں۔ پاکستان کے خلاف ہر امریکی اور بھارتی ہتھکنڈہ ناکام اور نامراد ثابت ہُوا ہے۔ محدود وسائل رکھنے والی پاکستانی سیکورٹی فورسز اور پاکستانی انٹیلی جنس اداروں کو اِن کامیابیوں پر بجا طور پر مبارکباد دی جانی چاہیے۔
لیکن امریکا کو پاکستان سے اصل عناد ہے کیا؟ پاک، امریکا کشیدگی کا اَنت کیا ہوگا؟ اور یہ کہ پاکستان اپنے ہمسایہ (افغانستان) کو نظر انداز کرکے ترقی اور کامل امن کی منازل طے کر سکتا ہے؟راقم نے یہ استفسارات ڈاکٹر ماریہ سلطان صاحبہ کے سامنے رکھے۔ ماریہ سلطان SASSI یونیورسٹی و تھنک ٹینک کی مدارالمہام تو ہیں ہی، عالمی سیکورٹی امور بھی خوب جانتی ہیں، پاک چین اسٹریٹجک تعلقات سے بھی آگاہ ہیں اور اُن جملہ عالمی قوتوں کو بھی گہرائی سے جانتی ہیں جو پاکستان کے جوہری اثاثوں پر مَیلی نظر رکھے ہُوئے ہیں۔
سابق نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر، جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ،سے اُن کی ملاقات ختم ہُوئی تو راقم نے اپنے سوالات اُن کے سامنے رکھے تو اُنہوں نے صاف الفاظ میں کہا:''امریکا اور بھارت کو پاکستان سے اصل تکلیف اور دکھ یہ ہے کہ پاکستان سی پیک کی تکمیل کی طرف تیزی سے کیوں بڑھ رہا ہے۔''
ماریہ سلطان نے پھر میز پر رکھا ایک نقرئی لیپ ٹاپ کھولا۔ اسکرین روشن ہُوئی تو چند ہی سیکنڈوں میں وہاں سی پیک کے متنوع منصوبوں، نقشوں اور صنعتی واقتصادی زونز وغیرہ کی تفصیلات ترتیب وار نظر آنے لگیں۔ تراشیدہ لَیڈ پنسل کی نوک سے وہ ایک ایک نقشے کی مدد سے بتارہی تھیں:''پاکستان کی مطلق خوشحالی اور خود مختاری کا راز اِسی منصوبے (سی پیک) سے منسلک ہے۔ یاد رکھئے گوادر کی بندرگاہ کو ''سی پیک'' میں ایک دل کی سی حیثیت اور کیفیت حاصل ہے۔ اور گوادر کے سامنے پھیلے سمندر کی گہرائیاں اور پہنائیاں؟ یوں سمجھئے پاکستان کے سامنے سیال سونے کا سمندر بہہ رہا ہے۔''
ایک عجب رُوحانی سرشاری میں ماریہ سلطان بتا رہی تھیں:''گوادر کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو اتنے عظیم الشان تحفے سے نواز رکھا ہے کہ اگر پاکستان چینیوں کی مدد سے''سی پیک'' کی اصل رُوح کے مطابق اسے ڈویلپ کرنے اور آگے بڑھانے میں کامیاب ہو گیا تو جدہ، دبئی، چا بہار، عمان وغیرہ کی سب بندرگاہیں بہت، بہت ہی پیچھے رہ جائیں گی۔ ہمارے حریفوں کو اصل تکلیف یہ ہے۔'' ایران کی چابہار بندرگاہ، جس پر بھارت نے خاصی سرمایہ کاری کی ہے، کا ذکر ہُوا تو راقم نے ماریہ سلطان سے پوچھا:'' کیاگوادر بندرگاہ کو چا بہار کے مقابل رکھا جا سکتا ہے؟'' بولیں:'' چا بہار اورگوادر کا تقابل کیا ہی نہیں جا سکتا۔
چابہار تو گوادر کے مقابلے میں عشرِ عشیر بھی نہیں ۔ ہماری گوادر مستقبل میں زبردست اسٹریٹجک کردار ادا کرنے والی ہے۔ اگر امریکا اور چین کا ساؤتھ چائنہ سمندر میں یُدھ پڑا تو ایسے کریٹیکل دَور میں دنیا بھر کی تجارت کی ترسیل میں گوادر کا سب سے بڑا کردار ہو گا۔ اس کی اجازت کے بغیر تیل کے ایک بہت بڑے حصے کی ترسیل بھی ناممکن تصور ہو گی۔''ماریہ نے زور سے مسکراتے ہُوئے کہا:''اِس پس منظر کو سامنے رکھئے تو سمجھ آتی ہے کہ امریکا اور بھارت کو ''سی پیک'' اور بالخصوص گوادر کی بندرگاہ سے دشمنی کیوں ہے؟ کیوں ہمارے بعض ہم مذہب ممالک بھی اس کے حسد میں مبتلا ہیں؟
عالمی تجارت کے فروغ اور عالمی حساس اسٹریٹجک معاملات میں گوادر بندرگاہ جو بالادست کردار ادا کرنے والی ہے۔ اسے روکنے کے لیے امریکا اور بھارت بلوچستان میں فساد کروانے پر تُلے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ اگر بلوچستان میں مستقل بدامنی اور شورشیں پیدا کی جاتی رہیں تو پاکستان اور چین کبھی گوادر سے حاصل کردہ عالمی مفادات نہیں سمیٹ سکیں گے، لیکن جوہری پاکستان نے بھلا ہاتھوں میں چوڑیاں پہن رکھی ہیں؟''اور افغانستان سے پاکستان کے تعلقات؟ماریہ سلطان بولیں:'' ارے ہاں، اگر مجھ سے کوئی گوادر بندرگاہ اور افغانستان سے تعلقات استوار کرنے بارے کسی ایک کا انتخاب کرنے کا کہے تو مَیں بغیر کسی تردد اور تامّل کے صرف گوادر بندرگاہ کا انتخاب کروں گی۔''
تھنک ٹینک ''ساسی'' کی سربراہ اگلے ماہ قاہرہ میں ''سی پیک'' کے حوالے سے منعقد ہونے والی ایک اہم ترین کانفرنس میں ماہرین کے ساتھ شریک ہو رہی ہیں، یہ جائزہ لینے اور تجاویز دینے کے لیے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری پر انڈسٹریل زونز کے قیام سے پاکستان کی خوشحالی میں اضافہ کیسے اور کیونکر ممکن ہے۔مذکورہ کانفرنس میں اس بات کا بھی جائزہ لیا جائے گا کہ مصر نے نہر سویز اور باب المندب کے دونوں اطراف میں بسنے والے ممالک نے کس طرح مفادات سمیٹے ہیں۔ ان تجربات کوگوادر کی بندرگاہ میں بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ اس کانفرنس کی حساسیت اپنی جگہ ہے۔ ہو سکتا ہے بعد ازاں اسے متحدہ عرب امارات اور چین تک وسعت دی جا سکے۔
ماریہ سلطان فزکس اور مَیتھ کی دنیا کی باسی ہیں جہاں صرف ہندسوں اور اعداد کا غلبہ رہتا ہے۔ وہ عالمی شطرنج کے کھلاڑیوں کی شیطانیوں سے واقف ہیں جن کے سینے میں دل کی جگہ مفادات کا پتھر دھڑکتا ہے۔ کچھ معاملات مگر رُوح اور دل کے بھی ہوتے ہیں۔ اِسی لیے تو پاکستان بار بار، افغانستان سے چوٹ کھانے کے باوجود، افغانستان کو امن کے پیغامات اور سندیسے بھیجتا ہے۔
ابھی چند دن پہلے اسلام آباد میں پاکستان نے افغانستان سے مل کر ورکنگ گروپس کا جو اجلاس منعقد کیا ہے، اِس کا مقصد فقط یہی تھا کہ افغانستان کو مستقل امن سے ہمکنار کیا جائے۔ اِسی غرض سے پاکستان نے اپنی سیکریٹری خارجہ، تہمینہ جنجوعہ، اور افغانستان کے نائب وزیر خارجہ، حکمت کرزئی، کے تعاون سے پاکستان اور افغانستان کے 28 وفود پر مشتمل ''فائیو ورکنگ گروپس'' کی مفصّل میٹنگ کروائی ہے۔ اِسے ''افغانستان، پاکستان ایکشن برائے امن و یکجہتی'' (APAPPS) کا نام دیا گیا ہے۔
امریکا بھی جان چکا ہے کہ پاکستان کے بنیادی کردار اور تعاون کے بغیر افغانستان میں کامل امن کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔اور یہ بھی کہ افغانستان میں بھارتی وجود معاملات کے بگاڑ کا باعث بن رہا ہے۔ ہمارے نَومنتخب وزیر اعظم عمران خان بھی افغانستان میں کامل امن کے داعی اور متمنی ہیں۔ ستمبر کے پہلے ہفتے امریکی وزیر خارجہ اور امریکی جرنیل افغانستان کے حوالے ہی سے اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔ اب شاہ محمود قریشی کو ان سے مکالمہ کرتے ہُوئے پاکستانی مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔
یہ بہتان کتنے سنگین اوربے بنیاد ہیں، اِن کی ایک ہلکی سی جھلک ہمیں اُس انٹرویو میں بھی نظر آتی ہے جو اِس دریدہ دہن نے حال ہی میں برطانیہ کے ایک مشہور اینکر پرسن (مہدی حسن) کو ''الجزیرہ'' ٹی وی پر دیا ہے۔ امریکا بھی بھارتی خوشنودی کے لیے، پاکستان کو ٹَف ٹائم دے رہا ہے۔ امریکا کو پاکستان سے جو تازہ عناد ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان نے امریکا کے لیے ''ڈُو مور'' کرنے سے صاف انکار کر رکھا ہے۔
اس انکار نے پاکستان کو مالی اور معاشی طور پر سخت پریشانی میں بھی مبتلا کیا ہے ۔ امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے پاکستان جتنی جنگیں لڑ سکتا تھا، لڑ چکا۔ اب مزید نہیں ۔ امریکا کو پاکستان کی طرف سے'' نو ڈُو مور'' کا ٹھینگا دکھایا گیا تو امریکیوں کے پیٹ میں بہت مروڑ اُٹھے۔ ردِ عمل میں اُنہوں نے بھی پاکستان پر متنوع مالی اور دفاعی پابندیاں عائد کردیں۔ پاک ، امریکا تعلقات ہنوز کشیدہ ہیں۔ اگلے ماہ امریکی وزیر خارجہ، مائیک پومپیؤ،اور امریکی افواج کے سربراہ، جنرل جوزف ڈنفورڈ، پاکستان آ رہے ہیں ۔ ممکن ہے صلح اور تعاون کا کوئی نیا راستہ نکل آئے لیکن ان دونوں حضرات کی اصل منزل تو بھارت ہے۔
امریکا نے بھارت کو بھی، مختلف محاذوں پر، پاکستان کے خلاف کھڑا کرکے دیکھ لیا ہے لیکن مقاصد پورے نہیں ہو سکے ہیں۔ افواجِ پاکستان نے جَم کر بھارتی اور امریکی سازشوں کو ناکام بنایا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکیوں کو توقع تھی کہ بھارت کے تعاون سے پاکستان کا بازو مروڑ کر اُس سے افغانستان میں پھر سے اپنے من پسند ''کام'' کروائے جا سکیں گے۔ اور یوں اُس داغِ شکست اور داغِ ندامت سے بچا جا سکے گا جو جنگجو طالبان افغانستان میں امریکی فوجوں کے ماتھے پر آئے روزسجا رہے ہیں۔ پاکستان کے خلاف ہر امریکی اور بھارتی ہتھکنڈہ ناکام اور نامراد ثابت ہُوا ہے۔ محدود وسائل رکھنے والی پاکستانی سیکورٹی فورسز اور پاکستانی انٹیلی جنس اداروں کو اِن کامیابیوں پر بجا طور پر مبارکباد دی جانی چاہیے۔
لیکن امریکا کو پاکستان سے اصل عناد ہے کیا؟ پاک، امریکا کشیدگی کا اَنت کیا ہوگا؟ اور یہ کہ پاکستان اپنے ہمسایہ (افغانستان) کو نظر انداز کرکے ترقی اور کامل امن کی منازل طے کر سکتا ہے؟راقم نے یہ استفسارات ڈاکٹر ماریہ سلطان صاحبہ کے سامنے رکھے۔ ماریہ سلطان SASSI یونیورسٹی و تھنک ٹینک کی مدارالمہام تو ہیں ہی، عالمی سیکورٹی امور بھی خوب جانتی ہیں، پاک چین اسٹریٹجک تعلقات سے بھی آگاہ ہیں اور اُن جملہ عالمی قوتوں کو بھی گہرائی سے جانتی ہیں جو پاکستان کے جوہری اثاثوں پر مَیلی نظر رکھے ہُوئے ہیں۔
سابق نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر، جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ،سے اُن کی ملاقات ختم ہُوئی تو راقم نے اپنے سوالات اُن کے سامنے رکھے تو اُنہوں نے صاف الفاظ میں کہا:''امریکا اور بھارت کو پاکستان سے اصل تکلیف اور دکھ یہ ہے کہ پاکستان سی پیک کی تکمیل کی طرف تیزی سے کیوں بڑھ رہا ہے۔''
ماریہ سلطان نے پھر میز پر رکھا ایک نقرئی لیپ ٹاپ کھولا۔ اسکرین روشن ہُوئی تو چند ہی سیکنڈوں میں وہاں سی پیک کے متنوع منصوبوں، نقشوں اور صنعتی واقتصادی زونز وغیرہ کی تفصیلات ترتیب وار نظر آنے لگیں۔ تراشیدہ لَیڈ پنسل کی نوک سے وہ ایک ایک نقشے کی مدد سے بتارہی تھیں:''پاکستان کی مطلق خوشحالی اور خود مختاری کا راز اِسی منصوبے (سی پیک) سے منسلک ہے۔ یاد رکھئے گوادر کی بندرگاہ کو ''سی پیک'' میں ایک دل کی سی حیثیت اور کیفیت حاصل ہے۔ اور گوادر کے سامنے پھیلے سمندر کی گہرائیاں اور پہنائیاں؟ یوں سمجھئے پاکستان کے سامنے سیال سونے کا سمندر بہہ رہا ہے۔''
ایک عجب رُوحانی سرشاری میں ماریہ سلطان بتا رہی تھیں:''گوادر کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو اتنے عظیم الشان تحفے سے نواز رکھا ہے کہ اگر پاکستان چینیوں کی مدد سے''سی پیک'' کی اصل رُوح کے مطابق اسے ڈویلپ کرنے اور آگے بڑھانے میں کامیاب ہو گیا تو جدہ، دبئی، چا بہار، عمان وغیرہ کی سب بندرگاہیں بہت، بہت ہی پیچھے رہ جائیں گی۔ ہمارے حریفوں کو اصل تکلیف یہ ہے۔'' ایران کی چابہار بندرگاہ، جس پر بھارت نے خاصی سرمایہ کاری کی ہے، کا ذکر ہُوا تو راقم نے ماریہ سلطان سے پوچھا:'' کیاگوادر بندرگاہ کو چا بہار کے مقابل رکھا جا سکتا ہے؟'' بولیں:'' چا بہار اورگوادر کا تقابل کیا ہی نہیں جا سکتا۔
چابہار تو گوادر کے مقابلے میں عشرِ عشیر بھی نہیں ۔ ہماری گوادر مستقبل میں زبردست اسٹریٹجک کردار ادا کرنے والی ہے۔ اگر امریکا اور چین کا ساؤتھ چائنہ سمندر میں یُدھ پڑا تو ایسے کریٹیکل دَور میں دنیا بھر کی تجارت کی ترسیل میں گوادر کا سب سے بڑا کردار ہو گا۔ اس کی اجازت کے بغیر تیل کے ایک بہت بڑے حصے کی ترسیل بھی ناممکن تصور ہو گی۔''ماریہ نے زور سے مسکراتے ہُوئے کہا:''اِس پس منظر کو سامنے رکھئے تو سمجھ آتی ہے کہ امریکا اور بھارت کو ''سی پیک'' اور بالخصوص گوادر کی بندرگاہ سے دشمنی کیوں ہے؟ کیوں ہمارے بعض ہم مذہب ممالک بھی اس کے حسد میں مبتلا ہیں؟
عالمی تجارت کے فروغ اور عالمی حساس اسٹریٹجک معاملات میں گوادر بندرگاہ جو بالادست کردار ادا کرنے والی ہے۔ اسے روکنے کے لیے امریکا اور بھارت بلوچستان میں فساد کروانے پر تُلے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ اگر بلوچستان میں مستقل بدامنی اور شورشیں پیدا کی جاتی رہیں تو پاکستان اور چین کبھی گوادر سے حاصل کردہ عالمی مفادات نہیں سمیٹ سکیں گے، لیکن جوہری پاکستان نے بھلا ہاتھوں میں چوڑیاں پہن رکھی ہیں؟''اور افغانستان سے پاکستان کے تعلقات؟ماریہ سلطان بولیں:'' ارے ہاں، اگر مجھ سے کوئی گوادر بندرگاہ اور افغانستان سے تعلقات استوار کرنے بارے کسی ایک کا انتخاب کرنے کا کہے تو مَیں بغیر کسی تردد اور تامّل کے صرف گوادر بندرگاہ کا انتخاب کروں گی۔''
تھنک ٹینک ''ساسی'' کی سربراہ اگلے ماہ قاہرہ میں ''سی پیک'' کے حوالے سے منعقد ہونے والی ایک اہم ترین کانفرنس میں ماہرین کے ساتھ شریک ہو رہی ہیں، یہ جائزہ لینے اور تجاویز دینے کے لیے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری پر انڈسٹریل زونز کے قیام سے پاکستان کی خوشحالی میں اضافہ کیسے اور کیونکر ممکن ہے۔مذکورہ کانفرنس میں اس بات کا بھی جائزہ لیا جائے گا کہ مصر نے نہر سویز اور باب المندب کے دونوں اطراف میں بسنے والے ممالک نے کس طرح مفادات سمیٹے ہیں۔ ان تجربات کوگوادر کی بندرگاہ میں بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ اس کانفرنس کی حساسیت اپنی جگہ ہے۔ ہو سکتا ہے بعد ازاں اسے متحدہ عرب امارات اور چین تک وسعت دی جا سکے۔
ماریہ سلطان فزکس اور مَیتھ کی دنیا کی باسی ہیں جہاں صرف ہندسوں اور اعداد کا غلبہ رہتا ہے۔ وہ عالمی شطرنج کے کھلاڑیوں کی شیطانیوں سے واقف ہیں جن کے سینے میں دل کی جگہ مفادات کا پتھر دھڑکتا ہے۔ کچھ معاملات مگر رُوح اور دل کے بھی ہوتے ہیں۔ اِسی لیے تو پاکستان بار بار، افغانستان سے چوٹ کھانے کے باوجود، افغانستان کو امن کے پیغامات اور سندیسے بھیجتا ہے۔
ابھی چند دن پہلے اسلام آباد میں پاکستان نے افغانستان سے مل کر ورکنگ گروپس کا جو اجلاس منعقد کیا ہے، اِس کا مقصد فقط یہی تھا کہ افغانستان کو مستقل امن سے ہمکنار کیا جائے۔ اِسی غرض سے پاکستان نے اپنی سیکریٹری خارجہ، تہمینہ جنجوعہ، اور افغانستان کے نائب وزیر خارجہ، حکمت کرزئی، کے تعاون سے پاکستان اور افغانستان کے 28 وفود پر مشتمل ''فائیو ورکنگ گروپس'' کی مفصّل میٹنگ کروائی ہے۔ اِسے ''افغانستان، پاکستان ایکشن برائے امن و یکجہتی'' (APAPPS) کا نام دیا گیا ہے۔
امریکا بھی جان چکا ہے کہ پاکستان کے بنیادی کردار اور تعاون کے بغیر افغانستان میں کامل امن کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔اور یہ بھی کہ افغانستان میں بھارتی وجود معاملات کے بگاڑ کا باعث بن رہا ہے۔ ہمارے نَومنتخب وزیر اعظم عمران خان بھی افغانستان میں کامل امن کے داعی اور متمنی ہیں۔ ستمبر کے پہلے ہفتے امریکی وزیر خارجہ اور امریکی جرنیل افغانستان کے حوالے ہی سے اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔ اب شاہ محمود قریشی کو ان سے مکالمہ کرتے ہُوئے پاکستانی مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔