دینی جماعتوں کا 55 لاکھ ووٹ
اب یہ نہیں پتا کہ انھیں یہ ووٹ ملا ہے یا ملک کی ساری دینی جماعتوں نے یہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔
متحدہ مجلس عمل کے جنرل سیکریٹری اور جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ 25 جولائی کے عام انتخابات میں دینی جماعتوں کو ملک بھر سے 55 لاکھ ووٹ ملے ہیں، اب یہ نہیں پتا کہ انھیں یہ ووٹ ملا ہے یا ملک کی ساری دینی جماعتوں نے یہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔
سات دینی جماعتوں کے اتحاد ایم ایم اے نے 2002 کے جنرل پرویزکے کرائے گئے انتخابات میں ملک بھر میں نمایاں کامیابی حاصل کرکے اس وقت کے صوبہ سرحد میں حکومت بنائی تھی جو پانچ سال چلی مگر آخری دنوں میں جماعت اسلامی ،ایم ایم اے سے اختلافات کے باعث الگ ہوگئی تھی اور صوبہ سرحد کا اقتدار اے این پی کو ملا تھا۔
جے یو آئی (ف) متحدہ مجلس عمل کی سب سے بڑی پارٹی ہے جس میں بھی تین گروپ جے یو آئی س، جے یو آئی نظریاتی اور جے یو آئی ف ہے جن میں بڑا گروپ مولانا فضل الرحمن کا ہے جو بعد میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت میں بھی شامل رہا جب کہ جماعت اسلامی جو ایم ایم اے کی دوسری بڑی پارٹی ہے ، نے 2013 میں اپنے نشان ترازو پر الیکشن لڑا تھا اور کے پی کے میں محدود کامیابی حاصل کرکے پی ٹی آئی سے اتحاد کرکے ان کی صوبائی حکومت میں شمولیت اختیار کی تھی جو تقریباً پونے پانچ سال چلی اور مجلس عمل بحال ہونے کے بعد جماعت اسلامی خوش اسلوبی سے حکومت سے علیحدہ ہوگئی تھی جو ایک خوش آیند باہمی فیصلہ تھا۔ جماعت اسلامی کے درویش صفت امیر سراج الحق مجلس عمل کی حکومت میں صوبائی وزیر تھے اور سادگی سے زندگی گزارتے تھے جو 2013 میں پہلے رکن صوبائی اسمبلی اور بعد میں پی ٹی آئی کی مدد سے سینیٹر منتخب ہوئے تھے۔
جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن 2013 میں اپنی ڈی آئی خان کی نشست ہارگئے تھے اور بنوں سے کامیاب ہوئے تھے۔ مولانا فضل الرحمن پی پی اور (ن) لیگی حکومت میں کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ضرور رہے مگر مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں کوئی بھی کردار ادا نہ کرسکے جس پر عمران خان اور دیگر ان پر تنقید کرتے رہے اور عمران خان نے ان پر کرپشن کے بھی الزامات لگائے۔
2018 کے انتخابات سے قبل ہی مولانا فضل الرحمن، سینیٹر سراج الحق کی مدد سے متحدہ مجلس عمل کو بحال کرانے میں ضرور کامیاب ہوئے جس میں جے یو پی نورانی اور مختلف مسلکوں کی چار دیگر جماعتیں بھی شامل تھیں اور ایم ایم اے کے تمام مرکزی رہنماؤں کے ساتھ مل کر انتخابی مہم چلائی اور چند بڑے شہروں میں انھوں نے بڑے مشترکہ جلسے بھی کیے۔
بعد میں ایم ایم اے کے رہنما اپنے طور پر انتخابی مہم بھی چلاتے اور بڑے دعوے کرتے رہے اور 25 جولائی کو ان کے دعوؤں کا پول کھل گیا اور مرکزی رہنما مولانا فضل الرحمن، سراج الحق، صاحبزادہ ابو زبیر سمیت تمام بڑے رہنما ہار گئے اور کراچی جہاں سے 2002 میں ایم ایم اے کو کچھ نشستیں ملی تھیں اس بار ناکام رہی اور صرف ایک صوبائی نشست حاصل کرسکی جب کہ انتخابات سے چند ماہ قبل قائم ہونے والی دینی جماعت تحریک لبیک نے حیرت انگیز طور پر کراچی سے نمایاں ووٹ لیے اور تین صوبائی نشستیں حاصل کیں۔
جے یو آئی اور جماعت اسلامی دیوبند مسلک کی جماعتیں ہیں جب کہ جے یو پی نورانی بریلوی مسلک کی جماعت ہے جس کے سربراہ مولانا شاہ احمد نورانی ایم ایم اے کے سربراہ بھی تھے ۔ 1970 میں جے یو پی بریلوی مسلک کی سب سے بڑی جماعت تھی مگر بعد میں وہ گروپنگ کے باعث محدود ہوکر رہ گئی ہے اور بریلوی مسلک کی متعدد جماعتیں جن میں علامہ طاہر القادری کی عوامی تحریک بھی شامل ہے نے الیکشن میں حصہ لیا اور اس کے کارکنوں نے مرضی سے ووٹ کاسٹ کیے۔
اہل تشیع کی ایک بڑی جماعت تحریک نفاذ فقہ جعفریہ بھی پہلے مجلس عمل میں تھی اور اب بھی ہے اور اس کے مقابلے میں مجلس وحدت المسلمین بنی اور بلوچستان میں اس نے گزشتہ بار ایک صوبائی نشست جیتی تھی جو شیعہ پارٹی تھی اور اہل تشیع ملک کی مختلف پارٹیوں میں بھی موجود ہیں۔ اہل حدیث مسلک کے بھی متعدد گروپ ہیں اور ایک گروپ ایم ایم اے میں بھی شامل ہے۔ دینی رجحان رکھنے والے مذہبی جماعتوں کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں میں بھی شامل ہیں۔
مذہبی جماعتوں میں تحریک لبیک پاکستان اور ملی مسلم لیگ نے بھی حالیہ انتخابات میں حصہ لیا۔ بریلوی مسلک کی تحریک لبیک اور اہل حدیث مسلک کی ملی مسلم لیگ نے بھی لاکھوں ووٹ لیے جب کہ مختلف مسلکوں کی پارٹیوں نے بھی مسلک اور مذہب کے نام پر ہزاروں ووٹ لیے مگر کامیاب نہ ہوئے۔ اس میں شک نہیں کہ ملک میں مختلف مذہبی ووٹ مختلف پارٹیوں کو ملا اور مجلس عمل کو 55 لاکھ ووٹ ملا ہے جو سب جمع ہوکر ایک کروڑ کے لگ بھگ یا زیادہ ہوگا جب کہ پی ٹی آئی نے ایک کروڑ 68 لاکھ، مسلم لیگ (ن) نے ایک کروڑ 28 لاکھ اور پیپلز پارٹی نے بھی ساٹھ لاکھ کے قریب ووٹ لیا اور چوتھا مذہبی بڑا اتحاد صرف 55 لاکھ ووٹ ہی لے سکا جو مجلس عمل کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق کو سپریم کورٹ کے ایک سینئر جج نے صادق و امین قرار دے کر اگلے دن اپنے ریمارکس واپس لے لیے تھے اور بعد میں غیر مذہبی سیاسی رہنما عمران خان صادق و امین قرار پائے تھے۔ کسی بھی مذہبی مسئلے پر یا نبی کریم کی شان میں غیر ملکی گستاخی پر مذہبی ذہن رکھنے والے جذبات میں ملک بھر میں لاکھوں کی تعداد میں احتجاج کے لیے باہر آجاتے ہیں اور اپنے مذہب یا نبی کی توہین برداشت نہیں کرتے۔
ملک میں مذہبی ووٹ ہے تو بڑی تعداد میں مگر منتشر ہے جو اپنی طاقت نہیں دکھا پاتا کیونکہ ہر مذہبی پارٹی اسلام کا نام تو لیتی ہے مگر باہمی اختلاف برقرار رکھتی ہیں جو سب متحد ہوجائیں تو اسلامی نظام کا نفاذ ممکن ہے ورنہ یہ خواب ہی رہے گا۔