احتیاط شرط ہے
ملک کا حقیقی عوامی حکمران (نمایندہ) وہی ہوگا جو اپنے منشور میں جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کو ترجیح دے گا۔
تمام تر صورتحال کا غیر جانبدارانہ تجزیہ بتا رہا ہے کہ یہ جوکچھ ہورہاہے وہ پاکستان کے لیے نہیں بلکہ اپنی اپنی ذات (پارٹی) کے لیے ہو رہا ہے۔ ایک متحدہ و مضبوط حزب اختلاف حکمرانوں کو ملک و قوم اور عوام کی بہتری اور خدمت کے راستے پر ڈالنے اوراس سے انحراف پرکڑے احتساب کے ذریعے من مانی سے روکنے کا فریضہ ادا کرسکتی ہے اگر حزب اختلاف محض حکمرانوں کی مخالف نہ ہو بلکہ ملک و قوم کی خیر خواہ بھی ہو۔ مگر ہمارے یہاں اور بہت کچھ کے علاوہ حزب اختلاف اپنا طرز حکمرانی بھول کر) مخالفت برائے مخالفت کا انداز اپنائے ہوئے ہے۔
( ایسا ہی ہوتا ہے موجودہ حکمران جماعت نے بھی ایسے ہی اختلاف کو رائج رکھا تھا) ہم خود نئے وزیراعظم کی سابقہ طرز سیاست یعنی محض مخالفین کو برا بھلا کہنے اور ان کے ہر عمل پر تنقید کی پالیسی کے سخت مخالف تھے مگر سابق حکمرانوں کی لوٹ مار کے حق میں بھی تو نہ تھے۔ اس مخدوش صورتحال کا تقاضا یقینا ''تبدیلی'' تھا، تبدیلی گزشتہ حکمرانوں کی جوکئی بار برسر اقتدار رہ کر بھی اپنا طرز حکمرانی بہتر نہ کرسکے بلکہ ہر بار زیادہ عوام دشمن حکومت کو مضبوط کرتے رہے۔
عوام توکیا بلکہ وطن عزیز کی خود مختاری و آزادی کو گروی رکھنے کے درپے ہوئے اور پاکستان کو لوٹ کر قرض کا بوجھ بڑھا کر اپنے خاندان کا مستقبل سنوارنے کے علاوہ کوئی اور بات ان کے ذہن میں تھی ہی نہیں۔ ایسے میں ہمارا پی ٹی آئی کے مخالف ہونے کے باوجود اس کا اقتدار میں آنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم مخالف ہیں تو لاکھوں افراد نے جو انھیں مینڈیٹ دیا ہے اس کو پس پشت ڈال کر انھیں ان کی صلاحیتوں اور امنگوں کے مطابق حکمرانی کا موقع ہی نہ دیاجائے۔ ہوسکتا ہے کہ ہم غلطی پر ہوں اور وزیر اعظم عمران خان واقعی ملک و قوم کو برسوں پرانے بحرانوں اور مسائل سے نجات دلانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
صورتحال آیندہ کیا ہوتی ہے اس کا اندازہ تو اسی وقت ہوگا جب وزیراعظم اپنے ایجنڈے کے مطابق مقررہ مدت میں کچھ کرکے دکھائیںگے۔ یہ درست ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کے اقتدارکے لیے 2018 مقررکیا تھا، مگر انھوں نے گزشتہ انتخابات میں جلد بازی کے باعث برسر اقتدار جماعت کو ہر موقعے پر ناکام بنانے کے لیے جو اقدام کیے کسی صورت بھی ان کی ستائش نہیں کی جاسکتی۔ ان کے جارحانہ انداز نے گزشتہ حکومت کو اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہونے دیا ۔ (یہ الگ بات ہے کہ ان کے اہداف تھے کیا مگر ایک مثال تو قائم ہوگئی) تو جب ہم ان کے ماضی کے اقدام کو درست نہیں گردانتے تو پھر اگر یہی طرز مخالفت موجودہ حزب اختلاف اپنائے تو اس کو کیسے سراہا جاسکتا ہے؟
اب اگر یہی طرز حکمرانی اور طرز مخالفت رہا تو یہ سب تو ''اپنے ہی لیے'' کے مترادف ہوگا کچھ بھی ملک کے لیے نہیں تو پھر ''تبدیلی'' کیا آئی؟ یوں تو ملک کروڑوں انتخابات پر خرچ کرنے کے باوجود ہر بار مسائلستان ہی بنا رہے گا۔ چلیے کچھ دیر کے لیے مان لیتے ہیں کہ حکمران جماعت نے اپنے تمام دعوؤں کے باوجود عوامی مینڈیٹ کے علاوہ ملک کی اور طاقتوں پر بھی انحصار کیا کیونکہ وہ برسر اقتدار آنے کے لیے مزید انتظار نہیں کرسکتے تھے، مگر یہ بھی تو حقیقت ہے کہ جن اداروں نے صورتحال تبدیل کی وہ بھی ملکی حالات کا ادراک رکھتے تھے اور یہ سب کچھ انھوں نے موجودہ حکمرانوں کی محبت میں نہیں بلکہ ملکی مفاد اور حب الوطنی کے جذبے کے تحت کیا۔ حکومت مخالفین کو ایک نظر اپنے دور حکومت پر ڈالنی چاہیے کہ ملک کس راہ پر گامزن تھا۔
ہم پہلے بھی کئی بار لکھ چکے ہیں کہ ہماری سیاست قیام پاکستان کے ابتدائی چند برسوں کو چھوڑ کر ذاتیات (شخصیت) میں گم ہوگئی ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے یہ صورتحال موجودہ حکومت تو کیا کوئی بھی اس وقت تک ختم نہیں کرسکتا جب تک وہ جاگیرداروں، سرمایہ داروں کے کاندھے استعمال کرتا رہے گا۔ ملک کا حقیقی عوامی حکمران (نمایندہ) وہی ہوگا جو اپنے منشور میں جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کو ترجیح دے گا، مگر ایسا منشور پیش کرنے والا ملکی ٹھیکیداروں کے ہاتھوں قبل از کامیابی (حصول اقتدار) ہی ختم کردیا جائے گا۔
ہاں اگر وزیراعظم موجودہ اسمبلی سے جاگیردارانہ نظام کے مکمل خاتمے کا بل پاس کرواسکیں (اپنی اکثریت کی بنا پر) تو وہ تمام تر مخالفانہ باتوں کے باوجود حقیقی عوامی حکمران ثابت ہوںگے مگر انھیں تو اپنے پیش کردہ منشور اور سو روزہ پروگرام پر عمل کرکے دکھانے کی جلدی ہے۔ یہ وعدہ تو ان کے منشور میں کہیں ہے ہی نہیں۔ پھر ان کے ارد گرد بھی وہی لوگ جمع ہیں جو پورے ملک پر نادیدہ طور پر قابض ہیں۔
ایسے ہی لوگوں نے بھٹو جیسے انقلابی کو اپنے گھیرے میں لے کر متوقع انقلاب لانے میں نہ صرف ناکام کیا بلکہ ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے راستے سے ہٹاکر اپنا کاروبار جاری رکھا۔ لہٰذا وزیراعظم کو سب سے پہلے اپنے ارد گرد نگاہ ڈالنی ہوگی کہ خدا نخواستہ ان کے گرد بھی کہیں گھیرا تنگ تو نہیں کیا جارہا اور کسی بھی بہانے (سیکیورٹی رسک، یہ تو ناممکن ہے وغیرہ) ان کو تبدیلی کے ایجنڈے پر ناکام کرنے کی کوشش تو نہیں کی جارہی۔ اگر کپتان اپنے اصولوں پر سختی سے کار بند رہے اور دوسروں سے بھی اپنے اصولوں پر عمل کرانے میں کامیاب ہوگئے تو پھر ملک کے فرسودہ نظام کو تبدیل کرنے سے انھیں کوئی نہیں روک سکتا۔
وزیراعظم کو خیال رکھنا چاہیے کہ کچھ لوگ اپنے بن کر ہمدرد ہوکر کسی کو بھی برسر اقتدار لاکر حق حکمرانی اپنے پاس رکھنے کے عادی ہیں۔ بغل میں چھری منہ پہ رام رام ایسے ہی موقعے پرکہا جاتا ہے۔ اس لیے خدا آپ کو آپ کے ارادوں میں کامیاب کرے۔ احتیاط شرط ہے۔
الحمدﷲ موجودہ حکومت ملک کے ہر شعبے میں کرپشن کے خاتمے اور ملک کے قدیمی طرز حکمرانی میں تبدیلی لانے کے لیے پر عزم ہے۔ یوں تو ہر شعبہ، ہر ادارہ، بد عنوان افراد سے بھرا ہوا ہے مگر اس کام کا آغاز اگر محکمہ پولیس سے کیا جائے تو اور کئی مسائل از خود ہی حل ہوجائیںگے۔ پولیس کی تطہیر سے نتائج فوراً ہی سامنے آجائیںگے۔ پولیس نہ صرف بلا جواز شہریوں کو مختلف ہتھکنڈوں سے پریشان کرتی ہے، رشوت طلب کرنا توگویا ان کا محکمہ جاتی اختیار ہے، اس کے علاوہ جعلی پولیس مقابلے رواں ماہ ایک بچی سمیت تقریباً تین بے گناہ افراد ان مقابلوں کی زد میں آکر ہلاک ہوچکے ہیں۔
تھانوں میں شرفا کو بلا کسی جرم کے بند کرکے ان کے لواحقین سے رقم کا مطالبہ کرنا راہ چلتے نوجوانوں کو جو اپنے کام یا تعلیمی اداروں میں بروقت پہنچنے کی جلدی میں ہوتے ہیں کو روک کر کوئی بھی الزام عاید کرنا اور بالآخر کچھ رقم کی وصولی کے بعد انھیں جانے دینا بالکل عام سی بات ہے۔ یہ میرا آنکھوں دیکھا حال ہے اور روزنامہ ایکسپریس میں ایسے ہی موقعے کی تین کالمی تصویر بھی دو ڈھائی برس قبل شایع ہوچکی ہے جس میں پولیس کو موٹر سائیکل سوار لڑکوں سے رقم وصول کرتے دکھایا گیا تھا۔ بہر حال تفصیلات تو بہت ہیں عرض یہ کرنا ہے کہ اس طرف توجہ کی بے حد ضرورت ہے۔
( ایسا ہی ہوتا ہے موجودہ حکمران جماعت نے بھی ایسے ہی اختلاف کو رائج رکھا تھا) ہم خود نئے وزیراعظم کی سابقہ طرز سیاست یعنی محض مخالفین کو برا بھلا کہنے اور ان کے ہر عمل پر تنقید کی پالیسی کے سخت مخالف تھے مگر سابق حکمرانوں کی لوٹ مار کے حق میں بھی تو نہ تھے۔ اس مخدوش صورتحال کا تقاضا یقینا ''تبدیلی'' تھا، تبدیلی گزشتہ حکمرانوں کی جوکئی بار برسر اقتدار رہ کر بھی اپنا طرز حکمرانی بہتر نہ کرسکے بلکہ ہر بار زیادہ عوام دشمن حکومت کو مضبوط کرتے رہے۔
عوام توکیا بلکہ وطن عزیز کی خود مختاری و آزادی کو گروی رکھنے کے درپے ہوئے اور پاکستان کو لوٹ کر قرض کا بوجھ بڑھا کر اپنے خاندان کا مستقبل سنوارنے کے علاوہ کوئی اور بات ان کے ذہن میں تھی ہی نہیں۔ ایسے میں ہمارا پی ٹی آئی کے مخالف ہونے کے باوجود اس کا اقتدار میں آنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم مخالف ہیں تو لاکھوں افراد نے جو انھیں مینڈیٹ دیا ہے اس کو پس پشت ڈال کر انھیں ان کی صلاحیتوں اور امنگوں کے مطابق حکمرانی کا موقع ہی نہ دیاجائے۔ ہوسکتا ہے کہ ہم غلطی پر ہوں اور وزیر اعظم عمران خان واقعی ملک و قوم کو برسوں پرانے بحرانوں اور مسائل سے نجات دلانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
صورتحال آیندہ کیا ہوتی ہے اس کا اندازہ تو اسی وقت ہوگا جب وزیراعظم اپنے ایجنڈے کے مطابق مقررہ مدت میں کچھ کرکے دکھائیںگے۔ یہ درست ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کے اقتدارکے لیے 2018 مقررکیا تھا، مگر انھوں نے گزشتہ انتخابات میں جلد بازی کے باعث برسر اقتدار جماعت کو ہر موقعے پر ناکام بنانے کے لیے جو اقدام کیے کسی صورت بھی ان کی ستائش نہیں کی جاسکتی۔ ان کے جارحانہ انداز نے گزشتہ حکومت کو اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہونے دیا ۔ (یہ الگ بات ہے کہ ان کے اہداف تھے کیا مگر ایک مثال تو قائم ہوگئی) تو جب ہم ان کے ماضی کے اقدام کو درست نہیں گردانتے تو پھر اگر یہی طرز مخالفت موجودہ حزب اختلاف اپنائے تو اس کو کیسے سراہا جاسکتا ہے؟
اب اگر یہی طرز حکمرانی اور طرز مخالفت رہا تو یہ سب تو ''اپنے ہی لیے'' کے مترادف ہوگا کچھ بھی ملک کے لیے نہیں تو پھر ''تبدیلی'' کیا آئی؟ یوں تو ملک کروڑوں انتخابات پر خرچ کرنے کے باوجود ہر بار مسائلستان ہی بنا رہے گا۔ چلیے کچھ دیر کے لیے مان لیتے ہیں کہ حکمران جماعت نے اپنے تمام دعوؤں کے باوجود عوامی مینڈیٹ کے علاوہ ملک کی اور طاقتوں پر بھی انحصار کیا کیونکہ وہ برسر اقتدار آنے کے لیے مزید انتظار نہیں کرسکتے تھے، مگر یہ بھی تو حقیقت ہے کہ جن اداروں نے صورتحال تبدیل کی وہ بھی ملکی حالات کا ادراک رکھتے تھے اور یہ سب کچھ انھوں نے موجودہ حکمرانوں کی محبت میں نہیں بلکہ ملکی مفاد اور حب الوطنی کے جذبے کے تحت کیا۔ حکومت مخالفین کو ایک نظر اپنے دور حکومت پر ڈالنی چاہیے کہ ملک کس راہ پر گامزن تھا۔
ہم پہلے بھی کئی بار لکھ چکے ہیں کہ ہماری سیاست قیام پاکستان کے ابتدائی چند برسوں کو چھوڑ کر ذاتیات (شخصیت) میں گم ہوگئی ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے یہ صورتحال موجودہ حکومت تو کیا کوئی بھی اس وقت تک ختم نہیں کرسکتا جب تک وہ جاگیرداروں، سرمایہ داروں کے کاندھے استعمال کرتا رہے گا۔ ملک کا حقیقی عوامی حکمران (نمایندہ) وہی ہوگا جو اپنے منشور میں جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کو ترجیح دے گا، مگر ایسا منشور پیش کرنے والا ملکی ٹھیکیداروں کے ہاتھوں قبل از کامیابی (حصول اقتدار) ہی ختم کردیا جائے گا۔
ہاں اگر وزیراعظم موجودہ اسمبلی سے جاگیردارانہ نظام کے مکمل خاتمے کا بل پاس کرواسکیں (اپنی اکثریت کی بنا پر) تو وہ تمام تر مخالفانہ باتوں کے باوجود حقیقی عوامی حکمران ثابت ہوںگے مگر انھیں تو اپنے پیش کردہ منشور اور سو روزہ پروگرام پر عمل کرکے دکھانے کی جلدی ہے۔ یہ وعدہ تو ان کے منشور میں کہیں ہے ہی نہیں۔ پھر ان کے ارد گرد بھی وہی لوگ جمع ہیں جو پورے ملک پر نادیدہ طور پر قابض ہیں۔
ایسے ہی لوگوں نے بھٹو جیسے انقلابی کو اپنے گھیرے میں لے کر متوقع انقلاب لانے میں نہ صرف ناکام کیا بلکہ ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے راستے سے ہٹاکر اپنا کاروبار جاری رکھا۔ لہٰذا وزیراعظم کو سب سے پہلے اپنے ارد گرد نگاہ ڈالنی ہوگی کہ خدا نخواستہ ان کے گرد بھی کہیں گھیرا تنگ تو نہیں کیا جارہا اور کسی بھی بہانے (سیکیورٹی رسک، یہ تو ناممکن ہے وغیرہ) ان کو تبدیلی کے ایجنڈے پر ناکام کرنے کی کوشش تو نہیں کی جارہی۔ اگر کپتان اپنے اصولوں پر سختی سے کار بند رہے اور دوسروں سے بھی اپنے اصولوں پر عمل کرانے میں کامیاب ہوگئے تو پھر ملک کے فرسودہ نظام کو تبدیل کرنے سے انھیں کوئی نہیں روک سکتا۔
وزیراعظم کو خیال رکھنا چاہیے کہ کچھ لوگ اپنے بن کر ہمدرد ہوکر کسی کو بھی برسر اقتدار لاکر حق حکمرانی اپنے پاس رکھنے کے عادی ہیں۔ بغل میں چھری منہ پہ رام رام ایسے ہی موقعے پرکہا جاتا ہے۔ اس لیے خدا آپ کو آپ کے ارادوں میں کامیاب کرے۔ احتیاط شرط ہے۔
الحمدﷲ موجودہ حکومت ملک کے ہر شعبے میں کرپشن کے خاتمے اور ملک کے قدیمی طرز حکمرانی میں تبدیلی لانے کے لیے پر عزم ہے۔ یوں تو ہر شعبہ، ہر ادارہ، بد عنوان افراد سے بھرا ہوا ہے مگر اس کام کا آغاز اگر محکمہ پولیس سے کیا جائے تو اور کئی مسائل از خود ہی حل ہوجائیںگے۔ پولیس کی تطہیر سے نتائج فوراً ہی سامنے آجائیںگے۔ پولیس نہ صرف بلا جواز شہریوں کو مختلف ہتھکنڈوں سے پریشان کرتی ہے، رشوت طلب کرنا توگویا ان کا محکمہ جاتی اختیار ہے، اس کے علاوہ جعلی پولیس مقابلے رواں ماہ ایک بچی سمیت تقریباً تین بے گناہ افراد ان مقابلوں کی زد میں آکر ہلاک ہوچکے ہیں۔
تھانوں میں شرفا کو بلا کسی جرم کے بند کرکے ان کے لواحقین سے رقم کا مطالبہ کرنا راہ چلتے نوجوانوں کو جو اپنے کام یا تعلیمی اداروں میں بروقت پہنچنے کی جلدی میں ہوتے ہیں کو روک کر کوئی بھی الزام عاید کرنا اور بالآخر کچھ رقم کی وصولی کے بعد انھیں جانے دینا بالکل عام سی بات ہے۔ یہ میرا آنکھوں دیکھا حال ہے اور روزنامہ ایکسپریس میں ایسے ہی موقعے کی تین کالمی تصویر بھی دو ڈھائی برس قبل شایع ہوچکی ہے جس میں پولیس کو موٹر سائیکل سوار لڑکوں سے رقم وصول کرتے دکھایا گیا تھا۔ بہر حال تفصیلات تو بہت ہیں عرض یہ کرنا ہے کہ اس طرف توجہ کی بے حد ضرورت ہے۔