اسلام کی ترو یج و اشاعت میں زبانوں کی اہمیت و افادیت

’’ اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اپنی قوم کی زبان بولتا تھا  تاکہ انہیں (اللہ کے احکام) کھول کھول کر بتا دے۔‘‘


راحیل گوہر August 31, 2018
’’ اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اپنی قوم کی زبان بولتا تھا  تاکہ انہیں (اللہ کے احکام) کھول کھول کر بتا دے۔‘‘ فوٹو: فائل

اقوام عالم کے مزاج میں جو سب سے زیادہ حسّاس عنصر ہے وہ ان کے معاشروں میں بولی جانے والی زبان ہے۔ ہر معاشرے کی اپنی زبان ہوتی ہے جو اس کو پہچان دیتی اور اس کی ترجمانی کر تی ہے۔

ہر زبان میں ایک طرح کی چاشنی اور حلاوت پائی جاتی ہے، جس کی کیفیت کو اس زبان کے بولنے والے ہی پوری طرح محسوس کرسکتے ہیں۔ ہم زبان ہونا لوگوں کے مابین انس و یگانگت کا ذریعہ بنتا ہے۔ بعض اوقات یہ زبان ہی ہے جو تعصب کو بھی جنم دیتی اور لسانی بنیادوں پر شر و فساد کا باعث بن جاتی ہے۔ جس سے آپس میں نفرت و بے زاری کا ماحول پیدا ہوجاتا ہے۔ دنیا میں زیادہ تر خون خرابہ نسلی اور لسانی تفاخر کا ہی شاخسانہ ہے۔

مگر زبان کا ایک اور مثبت پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ اگر دیگر قوم یا علاقے کا کوئی فرد یا جماعت کسی مقامی زبان میں گفت و شنید کرے تو ملک، شہر اور جغرافیائی حد بندیوں کے باوجود آپس میں اجنبیت اور مغائرت کا احساس کسی حد تک کم ہوجاتا ہے۔ اور ان دو مختلف زبانیں بولنے والوں کے درمیان محبت و اخوت اور دوستی کا رشتہ استوار ہوجاتا ہے۔ ماہرین عمرانیات کہتے ہیں کہ سماجی تعلقات اور معاشرتی روابط زبان کے ذریعے سے ہی مضبوط ہوتے ہیں۔ کسی بھی قوم کی ثقافت کے پھیلاؤ میں بھی زبان کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ثقافت کی ترویج و اشاعت جن میں عقاید و نظریات اور تہذیب و تمدن کا عکس گہرا ہو، اس میں زبان کا اہم کردار ہوتا ہے۔ ہر ملک اور معاشرے کی ثقافت اور اس کی زبان لازم و ملزوم ہوتے ہیں۔

سیرت النبی ﷺ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کے لیے دوسری اقوام کی زبانیں سیکھنے کی کوشش کرنا سنت کے درجے میں ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے علم کے حصول کی بہت تاکید کی ہے۔ آپؐ نے حضرت زید بن ثابتؓ کو سریانی زبان میں مہارت حاصل کرنے کا حکم دیا۔ زید بن ثابتؓ کا بیان ہے کہ میں نے اللہ کے رسولؐ کے حکم کے مطابق سریانی زبان میں یہودیوں سے خط و خطابت کرنا سیکھا۔ آپ ؐ نے کسی خدشے کے پیش نظر ارشاد فرمایا: '' بخدا یہودیوں کے سلسلے میں، میں مطمین نہیں ہوں کہ وہ میرے خط کی صحیح املا کریں گے۔''

اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ اگر کسی زبان کا ہمیں علم نہ ہو تو وہ ہمارے الفاظ اور ہمارے بیانات کو توڑ مروڑ کر اور دوسرے معنی پہنا کر لوگوں کے سامنے پیش کرسکتا ہے۔ جس قوم سے ہمارا واسطہ ہے اس کی زبان، محاورے وغیرہ کو ہم سمجھتے ہوں گے تو کسی بھی قسم کی غلط فہمی کا خطر ہ نہیں ہوگا۔ چناں چہ زید بن ثابت ؓ کہتے ہیں کہ پورا مہینا بھی نہیں گزرا تھا کہ میں نے سریانی زبان میں مہارت حاصل کرلی۔ پھر یہودیوں کی طرف آپ ؐ کی جانب سے خط لکھا کر تا اور ان کی طرف سے آئے ہوئے خطوط کا آپ ؐ کی جانب سے جواب دیا کرتا۔ ( رواہ البخاری)

اسلام دنیا کے تمام مذاہب پر غالب رہنے کے لیے آیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے، مفہوم:

'' وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق سے ساتھ بھیجا ہے کہ اس کو

پوری جنس دین پر غالب کر دے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔''

اس آیت کی روشنی کے حوالے سے بھی اقوام عالم کی زبانوں کو سیکھنا اسلام کی اہم ضرورت ہے۔ ان کی زبان میں اگر دین کا پیغام پہنچایا جائے تو زیادہ سود مند اور نتیجہ خیز ثابت ہوسکتا ہے۔ ایک زبان پر تمام انسانوں کا متفق ہونا تو امر محال ہے۔ زبان کا فرق اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ عربی زبان کی اہمیت و افادیت اپنی جگہ ہے تاہم اسلام کی تعلیم اور اس کا پیغام دیگر زبانوں میں بھی پیش کیا جائے جنہیں دیگر قوموں کے لوگ بولتے اور سمجھتے ہیں۔

اللہ تعالی نے زبان کی اہمیت کو واضح کر تے ہوئے ارشاد فرمایا، مفہوم: '' اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اپنی قوم کی زبان بولتا تھا تاکہ انہیں (اللہ کے احکام) کھول کھول کر بتا دے۔'' ( ابراہیم )

رسول مکرم ﷺ اگر چہ عربی النسل تھے، مگر آپؐ نے اطراف و جوانب میں اللہ کا پیغام دے کر جو اپنے نمائندے بھیجے انہوں نے ان قوموں کی زبانوں میں ترجمہ کیا اور انہیں کی زبان میں انھیں اللہ کی طرف بلایا۔ بعثت رسولؐ کے وقت لوگ ذہنی اور قلبی طور پر عربی سے زیادہ قریب تر تھے اسی لیے قرآن عربی زبان میں نازل کیا گیا۔

سورۃ یوسف میں فرمان الٰہی ہے، مفہوم: ''ہم نے اس قرآن کو عربی میں نازل کیا ہے تاکہ تم سمجھ سکو۔''

اس اہم نکتے کو پیش نظر رکھنے سے قرآن حکیم میں کسی بھی قسم کی تحریف اور رد و بدل کا امکان ہی ختم ہوگیا۔ زبان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے ملک میں ایک سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں جو مختلف شہروں میں رہنے والے بھی تھوڑی سے کوشش کر کے اسے آسانی سے سمجھ اور بول لیتے ہیں۔ چناں چہ مسلمانوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ دیگر قوموں کی زبانوں کو بھی سیکھنے کی پوری کوشش کریں تاکہ وہ جس ملک ، خطے اور علا قے میں بھی ہوں اللہ کے دین کا پیغام احسن طریقے سے پہنچا سکیں۔ زبانوں کا فہم انسان کے دل میں ایک دوسرے کے لیے نرم گوشہ پیدا کر تا ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ علم کا کوئی وطن اور کوئی خاص علاقہ متعین نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ کیو ں کہا جاتا کہ '' علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے۔'' اس جملے میں یہ اشارہ پوشیدہ ہے کہ اگر تمھیں علم کے حصول کے لیے چین جیسے دور دراز ملک بھی جانا پڑے تو جاؤ، صرف اپنے وطن پر ہی تکیہ کر کے نہ بیٹھ رہو۔ ہمارے اسلاف نے کوسوں کا سفر طے کرکے علم کی دولت سے خود کو مالا مال کیا۔ ایسے وقت میں جب کے ذرائع و وسائل بھی مہیا نہ تھے، سفر انتہائی تکلیف دہ ہوتے تھے۔

رسول مکرم ﷺ نے فرمایا : '' جو شخص علم کی طلب میں نکلا وہ اللہ کے راستے میں ہے جب تک وہ لوٹ نہ آئے۔'' ( رواہ الترمذی)

ہمارے اسلاف نے دور دراز ملکوں اور شہروں کے سفر دین اسلام کی ترویج و اشاعت کے لیے کیے۔ علم کا سیکھنا اور سکھانا انسان کا اصل جوہر حیات ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ پر پہلی وحی کا آغاز ہی لفظ '' اقراء'' (پڑھ) سے ہوتا ہے۔

رسول مکرم ؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر دین کے بنیادی ارکان بتانے کے بعد فرمایا:

'' جو لوگ اس وقت موجود ہیں وہ ان کو سنا دیں جو موجود نہیں۔''

( صحیح بخاری باب الخطبہ ایام منیٰ )

اب اتنی بڑی دنیا میں جہاں اربوں انسان بستے ہوں، اللہ کے رسول ؐ کا یہ پیغام پہنچانا کیسے ممکن ہوگا جب تک دنیا میں بولی جانے والی زبانوں کا فہم حاصل نہ ہو، یقینا پوری دنیا کی زبانوں کو سمجھنا اور بولنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، مگر انسان اللہ کی دی ہوئی استعداد سے شعوری طور پر فائدہ اٹھا تے ہوئے، اللہ کے رسول ؐ کے اس پیغام کو پہنچا کر امتّی کی ذمے داری کا حق خواہ کسی درجے میں بھی ہو وہ ادا کرسکتا ہے۔

رسول مکرم ﷺ نے یہ بات اپنی مادری زبان عربی میں ارشاد فرمائی، لیکن اب اس پیغام کو ایشیا میں رہنے والا اپنی زبان میں، یورپ و امریکا میں بسنے والا وہاں کی زبان میں، اسی طرح ہر خطے، ملک اور شہروں میں بسنے والا انسان وہاں کی علاقائی زبانوں میں ہی اللہ کے رسول ؐ کا یہ پیغام اور دین اسلام کی تمام جزئیات و کلیات کو آسان پیرائے میں بیان کرسکتا ہے۔ اس لیے بھی زبانوں کی اہمیت اور افادیت سے قطعی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔

اللہ تعالی نے کسی انسان کو اس کی ہمت و استعداد سے زیادہ کا مکلف نہیں بنایا، جتنا بھی اس کے دائرۂ اختیار میں ہو اس پر عمل کرنے سے پہلو تہی نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ کی طرف سے قوت گویائی جیسی عظیم نعمت عطا ہی اس لیے ہوئی ہے کہ وہ جب اور جہاں چاہے اپنا ما فی الضمیر بیان کر سکے۔ ہمارے دین نے انسان کی زندگی کے دو ہی مقصد بیان فرمائے ہیں۔ یا تو وہ طالب علم ہو، ہمیشہ وہ رشد و ہدایت کا طلب گار رہے یا وہ عالم ہو مگر علم کی طلب اس حال میں بھی جاری رہے۔ رسول مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:

'' عالم و متعلم دونوں خیر میں شریک ہیں اور بقیہ لوگوں میں خیر کا کوئی پہلو نہیں۔'' ( رواہ ابن ماجہ)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |