دنیاوی مصائب و آلام
اللہ تعالیٰ کی حکیم و خبیر ذات ہے، کبھی وہ خوشیاں دے کر آزماتے ہیں کہ کون اسے میرا احسان سمجھ کر شکر ادا کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا پھر اس کو بسانے کے لیے اس جہان کا انتخاب فرمایا اور اس کے لیے اس دنیا کو امتحان اور آزمائش کی جگہ قرار دیا ہے۔
اس کے کام یاب ہونے کے لیے انبیاء و رسلؑ مبعوث فرمائے اور کتب و صحائف نازل فرمائے تاکہ انسان ان پر ایمان لائے اور ان کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزار کر کام یابی حاصل کرسکے۔ اس کے ساتھ آزمائش کے طور پر ابلیس کو بھی پیدا کیا، لیکن ساتھ ہی کرم کا معاملہ فرماتے ہوئے یہ اعلان بھی کر دیا کہ یہ تمہارا کھلم کھلا دشمن ہے اس کے فریب میں مت آنا، یہ تمہیں ورغلائے گا اس کے متبعین اور چیلے چانٹے تمہیں بہکائیں گے، یہ تمہارے سامنے ان کو چیزوں کو خوب مزّین کرکے پیش کرے گا جو تمہیں میری جنت سے دور کر دیں گی۔
اگر تم نے خود کو اس کے مکر و فریب، سازشوں اور وساوس سے نہ بچایا تو انجام کار تمہارا ٹھکانا جہنم ہوگا اور یہ میں نے اپنے نافرمانوں کے لیے بہ طور سزا کے تیار کر رکھی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے خالق و مالک کی فرماں برداری کرے اور اپنے دشمن شیطان کی فریب کاریوں سے خود کو بچائے۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے چند اور چیزیں بھی بہ طور امتحان اور آزمائش کے بنائی ہیں۔ جن کا تذکرہ قرآن کریم میں ان الفاظ کے ساتھ فرمایا ہے۔
مفہوم : '' اور ہم تمہیں ضرور آزمائیں گے تھوڑا سا خوف دے کر، تھوڑی سی بھوک دے کر، مال، جان اور پھلوں میں تھوڑا سا نقصان دے کر۔ اس آزمائش میں کام یابی انہیں ملے گی جو صبر کریں گے۔'' ( سورۃ البقرۃ آیت نمبر 155)
اللہ تعالیٰ کی حکیم و خبیر ذات ہے، کبھی وہ خوشیاں دے کر آزماتے ہیں کہ کون اسے میرا احسان سمجھ کر شکر ادا کرتا ہے اور کبھی غموں میں مبتلا کرکے آزماتے ہیں کہ کون میری طرف رجوع کرکے صبر کرتا ہے۔ خوف اور امن، بھوک و خوش حالی، رزق کی تنگی اور فراوانی یہ سب کچھ آزمائش کے لیے ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کام یابی صبر کرنے والوں کے نصیب میں آتی ہے۔ اس آیت مبارکہ میں جن امور کو باعث آزمائش قرار دیا گیا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
خوف: خواہ وہ دشمن کا خوف ہو، مصائب اور مشکلات میں گھِر جانے کا یا آنے والے زمانے کا خوف۔ انسان کو کبھی تو دشمن کی شرانگیزیوں کا خوف دامن گیر ہوتا ہے کہ کہیں وہ میری عزت و آبرو یا جان و مال آل و اولاد کو نقصان نہ پہنچا دے۔ مصیبتیں اور مشکلات بھی خائف رکھتی ہیں اور کبھی انسان کو آنے والا مستقبل خوف زدہ رکھتا ہے کہ نامعلوم آنے والے حالات کیسے ہوں گے اور میرا کیا بنے گا ؟ بالخصوص بڑھاپے میں دوسروں کی محتاجی کا خوف ہر وقت انسان کو پریشان کیے رکھتا ہے۔ اس کے ذریعے انسان کو اللہ تعالیٰ آزماتے ہیں۔
جوع :بھوک کو کہتے ہیں یعنی قحط سالی، افلاس، فقر اور تنگ دستی کے ذریعے بھی اللہ کریم انسان کو آزماتے ہیں کہ ان پریشان کن مراحل میں وہ کیا کرتا ہے میری طرف رجوع کرکے صبر کرتا ہے یا مجھ سے منہ موڑ کر میری ناشکری کرتا ہے؟
مال کی کمی : یعنی یا تو انسان کا مال ضایع ہو جاتا ہے، مال تجارت میں خسارہ آجاتا ہے، دولت ڈوب جاتی ہے، کوئی لوٹ لیتا ہے، آسمانی آفات زلزلے، سیلاب وغیرہ سے مال کم ہو جاتا ہے یا پھر انسان کا مال کسی ظالم کے ہاتھ لگ جاتا ہے وہ ظلم کے طریقے سے اس کے مال میں برابر کمی کرتا رہتا ہے، یا کسی جابر حکم ران اس کے مالی حقوق کو غصب کر لیتے ہیں۔ یاد رکھیں یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے بہ طور آزمائش کے ہوتا ہے۔
جان کا نقصان : اس کی بھی کئی صورتیں ہیں۔ آل اولاد ، عزیز و اقارب اور دوست احباب اس کا ساتھ کسی بھی وجہ سے چھوڑ جاتے ہیں یا اس کو امراض گھیر لیتے ہیں، یا اس کے جسم کا کوئی عضو خراب یا زخمی ہو جاتا ہے۔ یہ باعث آزمائش امور میں سے ہے۔
پھلوں کی کمی : سخت سردی یا شدید گرمی کی وجہ سے پھلوں میں کمی آجاتی ہے یا کبھی آفت سماوی کی وجہ سے پھل خراب ہو جاتا ہے یا پھر اس میں کیڑے وغیرہ پڑجاتے ہیں یا پھلوں میں رس نہیں رہتا اور کبھی کبھار پھلوں کا حجم کم ہو جاتا ہے۔ اس کے ذریعے بھی انسان پر آزمائش آتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ان تمام یا ان میں سے بعض امور کے ساتھ انسانوں کو ضرور آزماتے ہیں۔ اس آزمائش کے وقت انسان دو حصوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ پہلی قسم ان انسانوں کی ہوتی ہے جو اس موقع پر آہ و بکا اور شکوے شکایتیں کرتے ہیں، ایسے انسان دو طرح کا خسارہ اٹھاتے ہیں ایک تو آزمائش کے وقت ان کے پاس وہ چیز کم پڑجاتی ہے یا ختم ہو جاتی ہے دوسرے اللہ تعالی کے حکم صبر کو بجا لانے کا اجر بھی ضایع کر بیٹھتے ہیں۔ صبر و رضا اور شکر جیسی نعمتوں سے بھی خود کو محروم کر لیتے ہیں اور یہ انتہائی خسارے کی بات ہے۔
دوسری قسم ان خوش نصیب انسانوں کی ہوتی ہے جو اس وقت صبر کرتے ہیں اور اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی ناشکری سے روکتے ہیں۔ وہ اس حقیقت کو صدق دل سے تسلیم کرتے ہیں کہ ان امور پر صبر کا اجر ان مصیبتوں سے زیادہ بڑا ہے۔ اس لیے یہ مصائب بھی ان کے حق میں نعمت بن جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان صابرین کو خوش خبری دی ہے۔
اس سے اگلی آیت میں صابرین کی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ مصیبت کے وقت اناللہ وانا الیہ راجعون کہتے ہیں۔ جس کا مختصر اور آسان ترین مطلب یہ ہے کہ ہم سب اللہ کے مملوک اور غلام ہیں وہ ہمارا مالک اور آقا ہے۔
چوں کہ درحقیقت ہماری جان اور ہمارا مال ہماری مِلک میں نہیں بل کہ اللہ کا مملوک ہے اس لیے وہ ذات ہماری جان و مال کو جیسے چاہے آزمائے۔ اس کا حق ہے ہمیں اس ذات پر اعتراض کرنے کا یا اس کی ناشکری کا حق نہیں پہنچتا۔ ہم اسی کی عبادت کے لیے اس جہان میں آئے تھے بالآخر ہم نے اسی ذات کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ جہاں وہ ہمارے اعمال کی جزا و سزا دے گا۔ صبر پر اجر اور ثواب دے گا اور بے صبری اور ناشکری پر عذاب دے گا۔ اس سے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کی تعریف فرماتے ہیں، ان پر اپنی رحمت نازل فرماتے ہیں اور انہی کو ہدایت یافتہ قرار دیتے ہیں۔
اس لیے دنیاوی آزمائشوں پر شکوہ شکایت اور ناشکری کے بہ جائے صبر کرنا چاہیے کیوں کہ یہی دنیاوی اور عارضی آزمائشیں اخروی اور ابدی کام یابیوں کا پہلا زینہ ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین
اس کے کام یاب ہونے کے لیے انبیاء و رسلؑ مبعوث فرمائے اور کتب و صحائف نازل فرمائے تاکہ انسان ان پر ایمان لائے اور ان کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزار کر کام یابی حاصل کرسکے۔ اس کے ساتھ آزمائش کے طور پر ابلیس کو بھی پیدا کیا، لیکن ساتھ ہی کرم کا معاملہ فرماتے ہوئے یہ اعلان بھی کر دیا کہ یہ تمہارا کھلم کھلا دشمن ہے اس کے فریب میں مت آنا، یہ تمہیں ورغلائے گا اس کے متبعین اور چیلے چانٹے تمہیں بہکائیں گے، یہ تمہارے سامنے ان کو چیزوں کو خوب مزّین کرکے پیش کرے گا جو تمہیں میری جنت سے دور کر دیں گی۔
اگر تم نے خود کو اس کے مکر و فریب، سازشوں اور وساوس سے نہ بچایا تو انجام کار تمہارا ٹھکانا جہنم ہوگا اور یہ میں نے اپنے نافرمانوں کے لیے بہ طور سزا کے تیار کر رکھی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے خالق و مالک کی فرماں برداری کرے اور اپنے دشمن شیطان کی فریب کاریوں سے خود کو بچائے۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے چند اور چیزیں بھی بہ طور امتحان اور آزمائش کے بنائی ہیں۔ جن کا تذکرہ قرآن کریم میں ان الفاظ کے ساتھ فرمایا ہے۔
مفہوم : '' اور ہم تمہیں ضرور آزمائیں گے تھوڑا سا خوف دے کر، تھوڑی سی بھوک دے کر، مال، جان اور پھلوں میں تھوڑا سا نقصان دے کر۔ اس آزمائش میں کام یابی انہیں ملے گی جو صبر کریں گے۔'' ( سورۃ البقرۃ آیت نمبر 155)
اللہ تعالیٰ کی حکیم و خبیر ذات ہے، کبھی وہ خوشیاں دے کر آزماتے ہیں کہ کون اسے میرا احسان سمجھ کر شکر ادا کرتا ہے اور کبھی غموں میں مبتلا کرکے آزماتے ہیں کہ کون میری طرف رجوع کرکے صبر کرتا ہے۔ خوف اور امن، بھوک و خوش حالی، رزق کی تنگی اور فراوانی یہ سب کچھ آزمائش کے لیے ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کام یابی صبر کرنے والوں کے نصیب میں آتی ہے۔ اس آیت مبارکہ میں جن امور کو باعث آزمائش قرار دیا گیا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
خوف: خواہ وہ دشمن کا خوف ہو، مصائب اور مشکلات میں گھِر جانے کا یا آنے والے زمانے کا خوف۔ انسان کو کبھی تو دشمن کی شرانگیزیوں کا خوف دامن گیر ہوتا ہے کہ کہیں وہ میری عزت و آبرو یا جان و مال آل و اولاد کو نقصان نہ پہنچا دے۔ مصیبتیں اور مشکلات بھی خائف رکھتی ہیں اور کبھی انسان کو آنے والا مستقبل خوف زدہ رکھتا ہے کہ نامعلوم آنے والے حالات کیسے ہوں گے اور میرا کیا بنے گا ؟ بالخصوص بڑھاپے میں دوسروں کی محتاجی کا خوف ہر وقت انسان کو پریشان کیے رکھتا ہے۔ اس کے ذریعے انسان کو اللہ تعالیٰ آزماتے ہیں۔
جوع :بھوک کو کہتے ہیں یعنی قحط سالی، افلاس، فقر اور تنگ دستی کے ذریعے بھی اللہ کریم انسان کو آزماتے ہیں کہ ان پریشان کن مراحل میں وہ کیا کرتا ہے میری طرف رجوع کرکے صبر کرتا ہے یا مجھ سے منہ موڑ کر میری ناشکری کرتا ہے؟
مال کی کمی : یعنی یا تو انسان کا مال ضایع ہو جاتا ہے، مال تجارت میں خسارہ آجاتا ہے، دولت ڈوب جاتی ہے، کوئی لوٹ لیتا ہے، آسمانی آفات زلزلے، سیلاب وغیرہ سے مال کم ہو جاتا ہے یا پھر انسان کا مال کسی ظالم کے ہاتھ لگ جاتا ہے وہ ظلم کے طریقے سے اس کے مال میں برابر کمی کرتا رہتا ہے، یا کسی جابر حکم ران اس کے مالی حقوق کو غصب کر لیتے ہیں۔ یاد رکھیں یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے بہ طور آزمائش کے ہوتا ہے۔
جان کا نقصان : اس کی بھی کئی صورتیں ہیں۔ آل اولاد ، عزیز و اقارب اور دوست احباب اس کا ساتھ کسی بھی وجہ سے چھوڑ جاتے ہیں یا اس کو امراض گھیر لیتے ہیں، یا اس کے جسم کا کوئی عضو خراب یا زخمی ہو جاتا ہے۔ یہ باعث آزمائش امور میں سے ہے۔
پھلوں کی کمی : سخت سردی یا شدید گرمی کی وجہ سے پھلوں میں کمی آجاتی ہے یا کبھی آفت سماوی کی وجہ سے پھل خراب ہو جاتا ہے یا پھر اس میں کیڑے وغیرہ پڑجاتے ہیں یا پھلوں میں رس نہیں رہتا اور کبھی کبھار پھلوں کا حجم کم ہو جاتا ہے۔ اس کے ذریعے بھی انسان پر آزمائش آتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ان تمام یا ان میں سے بعض امور کے ساتھ انسانوں کو ضرور آزماتے ہیں۔ اس آزمائش کے وقت انسان دو حصوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ پہلی قسم ان انسانوں کی ہوتی ہے جو اس موقع پر آہ و بکا اور شکوے شکایتیں کرتے ہیں، ایسے انسان دو طرح کا خسارہ اٹھاتے ہیں ایک تو آزمائش کے وقت ان کے پاس وہ چیز کم پڑجاتی ہے یا ختم ہو جاتی ہے دوسرے اللہ تعالی کے حکم صبر کو بجا لانے کا اجر بھی ضایع کر بیٹھتے ہیں۔ صبر و رضا اور شکر جیسی نعمتوں سے بھی خود کو محروم کر لیتے ہیں اور یہ انتہائی خسارے کی بات ہے۔
دوسری قسم ان خوش نصیب انسانوں کی ہوتی ہے جو اس وقت صبر کرتے ہیں اور اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی ناشکری سے روکتے ہیں۔ وہ اس حقیقت کو صدق دل سے تسلیم کرتے ہیں کہ ان امور پر صبر کا اجر ان مصیبتوں سے زیادہ بڑا ہے۔ اس لیے یہ مصائب بھی ان کے حق میں نعمت بن جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان صابرین کو خوش خبری دی ہے۔
اس سے اگلی آیت میں صابرین کی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ مصیبت کے وقت اناللہ وانا الیہ راجعون کہتے ہیں۔ جس کا مختصر اور آسان ترین مطلب یہ ہے کہ ہم سب اللہ کے مملوک اور غلام ہیں وہ ہمارا مالک اور آقا ہے۔
چوں کہ درحقیقت ہماری جان اور ہمارا مال ہماری مِلک میں نہیں بل کہ اللہ کا مملوک ہے اس لیے وہ ذات ہماری جان و مال کو جیسے چاہے آزمائے۔ اس کا حق ہے ہمیں اس ذات پر اعتراض کرنے کا یا اس کی ناشکری کا حق نہیں پہنچتا۔ ہم اسی کی عبادت کے لیے اس جہان میں آئے تھے بالآخر ہم نے اسی ذات کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ جہاں وہ ہمارے اعمال کی جزا و سزا دے گا۔ صبر پر اجر اور ثواب دے گا اور بے صبری اور ناشکری پر عذاب دے گا۔ اس سے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کی تعریف فرماتے ہیں، ان پر اپنی رحمت نازل فرماتے ہیں اور انہی کو ہدایت یافتہ قرار دیتے ہیں۔
اس لیے دنیاوی آزمائشوں پر شکوہ شکایت اور ناشکری کے بہ جائے صبر کرنا چاہیے کیوں کہ یہی دنیاوی اور عارضی آزمائشیں اخروی اور ابدی کام یابیوں کا پہلا زینہ ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین