لوٹی دولت کی واپسی سپریم کورٹ کی قائم کردہ کمیٹی کے ٹی او آرز منظور

ٹاسک فورس متعلقہ اداروں کے ماہرین پر مشتمل ہوگی،ہر ماہ کے آخر تک سپریم کورٹ کو ماہانہ بنیاد پررپورٹ دی جائے گی۔

دبئی اوربرطانیہ میں خفیہ اثاثے رکھنے والے پاکستانیوں کی معلومات لی جائیں گی، ٹھوس شواہدملنے پر انکوائری شروع ہوگی۔ فوٹو:فائل

بیرون ملک سے لوٹی گئی قومی دولت واپس لانے اور بیرون ممالک خفیہ اثاثے ودولت رکھنے والے پاکستانیوں کے خلاف کارروائی کیلیے سپریم کورٹ کی جانب سے قائم کردہ خصوصی کمیٹی نے ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آرز) کی منظوری دے دی۔

سپریم کورٹ کی جانب سے قائم کردہ خصوصی کمیٹی کا اجلاس گزشتہ روز اسٹیٹ بینک اسلام آباد آفس میں ہوا جس میں گورنر اسٹیٹ بینک، سیکریٹری خزانہ، سیکریٹری داخلہ، چیئرمین ایف بی آر، ڈپٹی چیئرمین قومی احتساب بیورو، ڈائریکٹرجنرل ایف آئی اے، چیئرمین ایس ای سی پی کے علاوہ وزارت خارجہ اور انٹیلی جنس بیورو کے نمائندے شریک ہوئے۔

ذرائع کے مطابق اجلاس میں خصوصی کمیٹی کے ٹی او آرزکے مسودے پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا اور جامع بریفنگ و تبادلہ خیال کے بعد ٹی اوآرزکی منظوری دی گئی جس کے تحت خصوصی کمیٹی کو بیرون ملک سے لوٹی ہوئی قومی دولت واپس لانے اور بیرون مالک خفیہ اثاثے ودولت رکھنے والے پاکستانیوں کے خلاف کارروائی کیلیے مشترکہ ٹاسک فورس قائم کرنے کے اختیارات دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

یہ مشترکہ ٹاسک فورس نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر سمیت دیگر متعلقہ اداروں کے ماہرین پر مشتمل ہوگی جبکہ خصوصی کمیٹی آئندہ ماہ (ستمبر) سے ہر ماہ کے آخر تک سپریم کورٹ کو ماہانہ بنیادوں پر اپ ڈیٹ کرنے کیلیے رپورٹ فراہم کرے گی۔


ذرائع کا کہناہے کہ مشترکہ ٹاسک فورس سپریم کورٹ کی قائم کردہ خصوصی کمیٹی کی نشاندہی پر کسی بھی شخص کو بلاسکے گی اور جو شخص کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے انکار کرے گا یا تاخیری حربے اختیار کرے گا تو اس شخص کا نام سپریم کورٹ کے سامنے پیش کیا جائے گا جبکہ مشترکہ ٹاسک فورس کے سامنے پیش ہونے والے شخص سے پوچھا جائے گا کہ وہ اپنے یا اپنے زیرکفالت بچوں کے بیرون ملک اثاثہ جات تصدیق کرتا ہے یا انکار کرتا ہے اور انکار کی صورت میں بیان حلفی دینا ہوگا کہ جن رپورٹ کردہ غیرملکی اثاثوں کے بارے میں پوچھا جارہا ہے وہ اس کی ملکیت نہیں ہیں اور جس شخص کی جانب سے رپورٹ کردہ غیر ملکی اثاثوں سے لاتعلقی کا بیان حلفی دیا جائے گا وہ ایف آئی اے یا کسی بھی دوسرے متعلقہ ادارے کو بھجوایا جائے گا اور انھیں درخواست کی جائے گی کہ انسداد منی لانڈرنگ قوانین کے تحت ان اثاثوں کی واپسی کیلیے کارروائی کی جائے یا بے نامی ٹرانزیکشن ایکٹ 2017 اور دیگر متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ شخص کے خلاف کارروائی کیلیے ایف آئی اے کو قابل قبول شواہد فراہم کیے جائیں۔

ذرائع کا کہناہے کہ جو لوگ مشترکہ ٹاسک فورس کے سامنے رپورٹ شدہ غیرملکی اثاثوں کی ملکیت کا اعتراف کریں گے۔ ان سے ان اثاثوں کے متعلق ذرائع آمدن پوچھے جائیںگے کہ یہ اثاثے انھوں نے کیسے بنائے اور کیا انھوں نے یہ اپنی ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں ظاہر کیے ہیں یا نہیں اور جن اثاثوں کے ذرائع آمدن درست ثابت ہوںگے لیکن ان پر ٹیکس ادا نہیں کیا ہوگا یا ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں ظاہر نہیں کیے گئے ہوںگے تو ان اثاثوں کی ملکیت پرایف بی آر کو ٹیکس عائد کرکے متعلقہ شخص سے ریکور کرنے کی ہدایات جاری کی جائیں گی اور جن رپورٹ شدہ غیرملکی اثاثوں کے ذرائع آمدن کے بارے میں وضاحت نہیں کی جاسکے گی تو مشترکہ ٹاسک فورس نیب، ایف آئی ایف اور اے این ایف سمیت متعلقہ اداروںکو ان لوگوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرنے کی درخواست کرے گی اور متعلقہ ادارے یہ غیر قانونی اثاثے ضبط کرنے سمیت کرمنل کارروائی کرسکے گی۔

کمیٹی کیلیے منظور کردہ 8 نکاتی ٹی او آرزکے مطابق کمیٹی دبئی میں اثاثے رکھنے والے پاکستانی شہریوں کے اثاثوں سے متعلق معلومات حاصل کرے گی اور ان معلومات کی بنیاد پر دبئی میں اثاثے رکھنے والے پاکستانی شہریوںکی شناخت اور اثاثوںکا سراغ لگائے گی اور معقول معلومات و شواہد ملنے پر ان کے خلاف باقاعدہ انکوائری شروع کی جائے گی۔

دستاویز میں مزید بتایاگیاکہ یہ کمیٹی برطانیہ میں اثاثے رکھنے والے پاکستانیوں کے بارے میں ایف بی آر کے پاس موجود معلومات کا بھی جائزہ لے گی۔ اس کے علاوہ کمیٹی نیب اور ایف آئی اے کو مشترکہ ٹاسک فورس کی جانب سے بھجوائے جانے والے کیسوں کی پیروی اور تحقیقات کیلیے ماہر افسران کی ٹیم تعینات کرے گی۔ کمیٹی مشترکہ ٹاسک فورس، ایف آئی اے، نیب اور ایف بی آر کی جانب سے کیسوں پر ہونے والی پیش رفت سے آگاہ رہنے کیلیے خصوصی میکانزم متعارف کرائے گی۔
Load Next Story