60 فیصد ٹرینیں اور انجن عمر پوری کر چکے 20 ہزار سے زائد اسامیاں خالی
9823مال بردار بوگیاں خراب،1822مسافر کوچزمیں سے606 میعاد پوری کرچکیں، 11ہزار پل 100سال پرانے ہیں، کمیٹی کو بریفنگ
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ریلوے کے اجلاس میں سیکریٹری ریلوے جاوید انور نے بتایا ہے کہ 60 فیصد ٹرینیں اور انجن عمر پوری کر چکے جب کہ 20 ہزار سے زائد اسامیاں خالی ہیں۔
قائمہ کمیٹی برائے ریلوے کے اجلاس میں سیکریٹری ریلوے جاوید انور نے بریفنگ دیتے ہوئے کہاہے کہ وزارت ریلوے کے ماتحت 4 مختلف پرائیوٹ کمپنیاں بھی کام کررہی ہیں جن کا کنٹرول ریلوے کے ادارے کے پاس ہے۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ سامان کی ترسیل کی مد میں حاصل ہونیوالی آمدن مسافر ٹرینوں کی بہتری کیلیے صرف کی جاتی ہے۔
اسد علی جونیجو کی زیر صدارت اجلاس میں کمیٹی کو ریل کاراور پاک ریلوے سامان برداری کے معاملات بارے تفصیلی بریفنگ دی گئی، اراکین کمیٹی کے سوال پر بتایا گیا کہ کبھی ٹرانسپورٹ پالیسی نہیں بنائی گئی،گزشتہ حکومت کی آخری کابینہ کی کمیٹی میں ایک پالیسی کی منظوری دی گئی تھی جس پراب کام شروع کیا جائیگا۔
چیئرمین کمیٹی نے ہدایت کی کہ وزارت اس حوالے سے تجاویزمرتب کرے تاکہ اسے عملی جامہ پہناکر نہ صرف ریلوے کاخسارہ پورا کیا جاسکے بلکہ عوام کو سفر کی بہتر سہولتیں فراہم کی جاسکیں اور اس حوالے سے قائمہ کمیٹی وزارت ریلوے کو ہر طرح کاتعاون فراہم کریگی۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ ایشیائی ترقیاتی بینک کے تعاون سے ریلوے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کیلیے 20 سالہ پلان ترتیب دیدیا جسے بورڈ نے منظورکر لیااور اب یہ کیبنٹ میں منظوری کیلیے بھیجا جائیگا۔ یہ 20 سالہ منصوبہ 3 مراحل میں ترتیب دیا گیا۔ 60 فیصدریل اور انجن کااسٹاک اپنی عمر پوری کرچکا ہے اب مرمت بھی نہیں ہو سکتی۔
کمیٹی کو بتایاگیاکہ 16159 سامان بردار بوگیوں میں سے 9823 خراب ہو چکی ہیں، 1822 مسافر کوچز میں سے 606 اپنی میعاد پوری کر چکیں اور 2995 ریلوے ٹریک میں سے 55 فیصد لاہور، کراچی ، پشاور ٹریک اپنی مدت پوری کرچکا ہے۔ ایم ایل 2-3 ٹریک 80 فیصد اپنی عمر پوری کر چکاہے۔
اجلاس میں یہ بھی انکشاف کیاگیاکہ 13900 پلوںمیں سے 11000 پل 100 سال پرانے ہیں،کمیٹی کو بتایاگیاکہ ادارے کی آمدن کا بڑا حصہ رٹائرڈ ملازمین کی پنشن کی مد میں صرف ہو جاتاہے جو ادارے کے خسارے کی بڑی وجہ ہے۔ کمیٹی کوبتایاگیاکہ مالی سال2017-18 میں30.96 ارب کی پنشن اداکرنی ہے جوگزشتہ سال 28.73 ارب کی تھی۔ ادارے کی منظور شدہ اسامیوں کی تعداد 96765 جس میں20689 اسامیاں خالی ہیںجبکہ10 ہزار ٹیکنیکل ملازمین کی بھی کمی ہے۔
علاوہ ازیں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کم ترقی یافتہ علاقہ جات کو بریفنگ دیتے ہوئے وازرت داخلہ کے حکام نے بتایاکہ ملک بھر میں 22,853,785 نئے شناختی کارڈز کااجرا کیا گیا جن میں پختونخوا کے 3,025,568 فاٹا 789,390پنجاب 12,558,295سندھ 4,257,570 بلوچستان 1,021,369 اسلام آباد 195,388 گلگت و بلتستان 119,976آزاد کشمیر 4312,720 بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کو 454,509 شہری شامل ہیں جبکہ سینیٹ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات نے نئے سرکاری چینلز شروع کرنے مکمل پلان طلب کر لیاجبکہ پاکستان الیکٹرونک میڈیاریگولیٹری اتھارٹی (ترمیمی ) آرڈیننس کو کمیٹی کے اگلے اجلاس کے ایجنڈے پر رکھ لیا۔
فیصل جاوید کی زیر صدارت اجلاس میں طاہر بزنجو نے پوچھاکہ وفاقی وزیر ا فواد چوہدری نے بیان دیاہے کہ پیمرا اور پریس کونسل کو ختم کرکے میڈیاریگولیٹری اتھارٹی بنائی جارہی ہے اسکی تفصیلات کیاہیں؟ اس پر وفاقی سیکریٹری نے کہا کہ اس بارے میں بہتر انداز میں وفاقی وزیر ہی بتاسکتے ہیں البتہ میرے خیال میں نئی حکومت آئی اور بہت سے نئے آئیڈیاز بھی ہیں جن پر رائے لینے کیلیے وفاقی وزیر نے یہ بیان دیا ہے، اگر ہم نے میڈیاانڈسٹری میں مزید بہتری چاہتے ہیں تو متعلقہ اداروں کو ٹھیک کرناہو گا۔
قائمہ کمیٹی برائے ریلوے کے اجلاس میں سیکریٹری ریلوے جاوید انور نے بریفنگ دیتے ہوئے کہاہے کہ وزارت ریلوے کے ماتحت 4 مختلف پرائیوٹ کمپنیاں بھی کام کررہی ہیں جن کا کنٹرول ریلوے کے ادارے کے پاس ہے۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ سامان کی ترسیل کی مد میں حاصل ہونیوالی آمدن مسافر ٹرینوں کی بہتری کیلیے صرف کی جاتی ہے۔
اسد علی جونیجو کی زیر صدارت اجلاس میں کمیٹی کو ریل کاراور پاک ریلوے سامان برداری کے معاملات بارے تفصیلی بریفنگ دی گئی، اراکین کمیٹی کے سوال پر بتایا گیا کہ کبھی ٹرانسپورٹ پالیسی نہیں بنائی گئی،گزشتہ حکومت کی آخری کابینہ کی کمیٹی میں ایک پالیسی کی منظوری دی گئی تھی جس پراب کام شروع کیا جائیگا۔
چیئرمین کمیٹی نے ہدایت کی کہ وزارت اس حوالے سے تجاویزمرتب کرے تاکہ اسے عملی جامہ پہناکر نہ صرف ریلوے کاخسارہ پورا کیا جاسکے بلکہ عوام کو سفر کی بہتر سہولتیں فراہم کی جاسکیں اور اس حوالے سے قائمہ کمیٹی وزارت ریلوے کو ہر طرح کاتعاون فراہم کریگی۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ ایشیائی ترقیاتی بینک کے تعاون سے ریلوے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کیلیے 20 سالہ پلان ترتیب دیدیا جسے بورڈ نے منظورکر لیااور اب یہ کیبنٹ میں منظوری کیلیے بھیجا جائیگا۔ یہ 20 سالہ منصوبہ 3 مراحل میں ترتیب دیا گیا۔ 60 فیصدریل اور انجن کااسٹاک اپنی عمر پوری کرچکا ہے اب مرمت بھی نہیں ہو سکتی۔
کمیٹی کو بتایاگیاکہ 16159 سامان بردار بوگیوں میں سے 9823 خراب ہو چکی ہیں، 1822 مسافر کوچز میں سے 606 اپنی میعاد پوری کر چکیں اور 2995 ریلوے ٹریک میں سے 55 فیصد لاہور، کراچی ، پشاور ٹریک اپنی مدت پوری کرچکا ہے۔ ایم ایل 2-3 ٹریک 80 فیصد اپنی عمر پوری کر چکاہے۔
اجلاس میں یہ بھی انکشاف کیاگیاکہ 13900 پلوںمیں سے 11000 پل 100 سال پرانے ہیں،کمیٹی کو بتایاگیاکہ ادارے کی آمدن کا بڑا حصہ رٹائرڈ ملازمین کی پنشن کی مد میں صرف ہو جاتاہے جو ادارے کے خسارے کی بڑی وجہ ہے۔ کمیٹی کوبتایاگیاکہ مالی سال2017-18 میں30.96 ارب کی پنشن اداکرنی ہے جوگزشتہ سال 28.73 ارب کی تھی۔ ادارے کی منظور شدہ اسامیوں کی تعداد 96765 جس میں20689 اسامیاں خالی ہیںجبکہ10 ہزار ٹیکنیکل ملازمین کی بھی کمی ہے۔
علاوہ ازیں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کم ترقی یافتہ علاقہ جات کو بریفنگ دیتے ہوئے وازرت داخلہ کے حکام نے بتایاکہ ملک بھر میں 22,853,785 نئے شناختی کارڈز کااجرا کیا گیا جن میں پختونخوا کے 3,025,568 فاٹا 789,390پنجاب 12,558,295سندھ 4,257,570 بلوچستان 1,021,369 اسلام آباد 195,388 گلگت و بلتستان 119,976آزاد کشمیر 4312,720 بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کو 454,509 شہری شامل ہیں جبکہ سینیٹ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات نے نئے سرکاری چینلز شروع کرنے مکمل پلان طلب کر لیاجبکہ پاکستان الیکٹرونک میڈیاریگولیٹری اتھارٹی (ترمیمی ) آرڈیننس کو کمیٹی کے اگلے اجلاس کے ایجنڈے پر رکھ لیا۔
فیصل جاوید کی زیر صدارت اجلاس میں طاہر بزنجو نے پوچھاکہ وفاقی وزیر ا فواد چوہدری نے بیان دیاہے کہ پیمرا اور پریس کونسل کو ختم کرکے میڈیاریگولیٹری اتھارٹی بنائی جارہی ہے اسکی تفصیلات کیاہیں؟ اس پر وفاقی سیکریٹری نے کہا کہ اس بارے میں بہتر انداز میں وفاقی وزیر ہی بتاسکتے ہیں البتہ میرے خیال میں نئی حکومت آئی اور بہت سے نئے آئیڈیاز بھی ہیں جن پر رائے لینے کیلیے وفاقی وزیر نے یہ بیان دیا ہے، اگر ہم نے میڈیاانڈسٹری میں مزید بہتری چاہتے ہیں تو متعلقہ اداروں کو ٹھیک کرناہو گا۔