پیغمبرانہ صحافت
سیاست صحافت کے بغیر نہیں چل سکتی اور صحافت کو بھی سیاستدان چاہئیں۔
امام غزالی ایک سایہ دار گھنے درخت کے نیچے آرام کر رہے تھے کہ ان کی نگاہ درخت کی ہوا میں جھومتی ہوئی شاخوں کی طرف اٹھ گئی۔ یہ شاعر مزاج صوفی اور فلسفی درخت کی ماہیت میں گم ہو گیا ۔ انھیں یوں لگا جیسے یہ درخت ان سے کچھ کہہ رہا ہے ۔ فلسفی کے تصور نے اس درخت کو باتیں کرتے ہوئے محسوس کیا ۔
یہ درخت ان سے کہنے لگا کہ اے غزالی تم میرے جیسے ہو جاؤ پھر خود ہی جواب میں کہنے لگے میں کیوں تمہارے جیسا بن جاؤں میں تو اشرف المخلوقات ہوں، آدم کی نسل جس کو فرشتوں نے سجدہ کیا ، میں فرشتوں کا ایک مسجود کیوں تمہارے جیسا ہو جاؤں ۔ درخت خاموش نہ رہا اس نے اس فلسفی سے بحث کرتے ہوئے کہا کہ تم بھی ٹھیک ہو مگر میرے اندر جو خوبیاں ہیں تمہار ے اندر وہ کہاں ۔ میرا پھل لوگ کھاتے ہیں اور بھوک مٹاتے ہیں ۔ میرے سائے میں تمہارے جیسے لوگ آرام کرتے ہیں ، میرے پتے چوپائیوں کی خوراک بنتے ہیں اور میری لکڑی کی بنی ہوئی چھت کے نیچے لوگ پناہ لیتے ہیں ۔
مختصراً میں بچے کے جھولے سے لے کر میت کے تابوت تک انسان کا ساتھ دیتا ہوں ، اللہ کی مخلوق مجھ سے اتنے فائدے حاصل کرتی ہے کہ میرے بغیر اس کی زندگی مکمل نہیں ہوتی، میرے جیسا کون۔ امام نے جواب میں درخت کے فائدوں کا اعتراف کیا مگر کہا کہ تمہارے اندر ایک خرابی ایسی ہے جو تمہاری تمام خوبیوں کو برباد کر دیتی ہے اور وہ یہ کہ جدھر کی ہوا چلتی ہے تم ادھر جھک جاتے ہو۔
یہ تصوراتی حکائت میرے ایک دیرینہ قلمی دوست نے بہت پہلے مجھے لکھ بھیجی تھی ۔ یہ حکائت انھوں نے مجھے اور دوسرے اخبار نویسوں کو سامنے رکھ کر لکھی ہے۔ درخت کی طرح ہوا کے ساتھ جھک جانے کا انھوںنے اخبار نویسوں کے ضمن میں حوالہ دیا ہے، بے شک کسی اخبار نویس کو بالعموم ایک عام آدمی سے زیادہ خبر ہوتی ہے لیکن ایسی بات نہیں کہ اسے سب کچھ معلوم ہوتا ہے۔
اس پر بھی رازوں کا افشاء کسی دوسری حکومت کے آنے پر ہوتا ہے کیونکہ یہ راز سرکاری فائلوں میں دبے اور چھپے ہوتے ہیں اور کوئی نئی حکومت جب اپنی مخالف حکومت کی ان پراسرار فائلوں تک پہنچتی ہے تو وہ جس حد تک مناسب سمجھتی ہے اپنے مفاد میں ان رازوں کو کھولنا شروع کردیتی ہے اور اخبار نویسوں کو بھی تب پتہ چلتا ہے کہ ان کی بے خبری میں ایوان اقتدار کی دیواروں کے پیچھے کیا ہوتا رہا ہے پھر جب اخباروں میں راز شایع ہوتے ہیں اور آج کل تو اخبارات سے پہلے یہ راز ٹی وی کی زینت بنتے ہیں تو عوام یہ سوچتے ہیں کہ کل جب یہ حکمران اقتدار میں تھے تو اخبار نویس کیوںخاموش تھے اور آج اس لیے بول رہے ہیں کہ پرانے جا چکے ہیں اور نئے آگئے ہیں۔
پھر کتنے ہی رازوں کی کچھ بھنک کانوں میں پڑتی تو ہے مگر یہ معلومات نامکمل اور بے ثبوت ہوتی ہیں جن کو لکھا نہیں جا سکتا پھر آپ یہ نہ بھولیں کہ ہماری حکومتیں حضرت عمرؓکی حکومتیں نہیں ہوتیں کہ سچ بولنے والے کو تحفظ ملے اور سچ چھپانے والے مجرم اور گناہگار گردانے جائیں اور کئی راز تو ایسے پکے ہوتے ہیں کہ حکومتوں کو بھی ان کو کھولنے کے لیے سرکاری اور وعدہ معاف گواہوں کی ضرورت پڑتی ہے اس کے باوجود کئی راز پھر بھی سربستہ رہ جاتے ہیں۔ اس لیے اخبارنویسوں پر اتنا بوجھ ڈالیں جتنا وہ اٹھا سکیں اور یاد رہے کہ ہر اخبار کا ایک مالک بھی ہوتا ہے اور اخبار نویس اس کا ملازم اور اس کی پالیسی کا پابند ہوتا ہے۔
میں اس وقت ایک بار پھر اپنے نئے اخبار نویس بھائیوں کی خدمت میں ایک پرانی بات دہرانا چاہتا ہوں کہ وہ کسی چور ڈاکو بلکہ کسی طوائف کے وفا کے دعوے پر اعتبار کر لیں لیکن کسی سیاستدان سے کسی نیکی اور خیر خواہی کی توقع نہ رکھیں ۔ سیاستدانوں سے برا طوطا چشم اور خود غرض اور خود پرست حیوان کوئی دوسرا نہیں ہوتا۔پرانی وضع کے سیاستدانوں میں شائد کوئی ایک آدھ دانہ حلال کا بھی نکل آئے لیکن ہمارے دور جدید کے سیاستدانوں کے خمیر جس مٹی سے بنے ہیں اس میں تو انسانیت کے عام اوصاف بھی تلاش کرنا پڑتے ہیں ۔
خصوصاً جب سے کاروباری لوگ براہ راست سیاست میں آئے ہیں تب سے تو سیاست صرف مک مکا اور نفع نقصان کی بنیاد پر چل رہی ہے اور یہ براہ راست میں نے اس لیے عرض کیا ہے کہ بڑے تاجروں اور صنعتکاروں نے ہمیشہ کسی کامیاب سیاستدان کی سر پرستی کی ہے اور کئی بڑے سیاستدان کسی نہ کسی کاروباری ادارے کے تعلق سے پہچانے جاتے، یہ سرپرستی بالواسطہ ہوا کرتی اور سر پرست پس منظر میں رہتا تھا لیکن نئے سیاسی طبقے کا سیاست کی پرانی وضع دارانہ روایات اور آداب سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ ایک دیہاڑی دار مزدور کی طرح کام کرتے ہیں اور سیاست میں بھی بازار کی کاروباری روایات کی پابندی کرتے ہیں ۔
یہ روایات ان کی آزمودہ ہیں اور کامیاب بھی اس لیے اگر یہ صنعت و تجارت جیسے مشکل شعبوں میں کامیاب ہیں تو سیاست تو ایک آسان پیشہ اور کاروبار ہے اس میں وضع داری کی کوئی گنجائش نہیںہے کیونکہ منڈیوں کے بھاؤ اور اسٹاک ایکسچینج کے اتار چڑھاؤ میں تعلقات کام نہیں کر رہے ہوتے۔
میں عرض کر رہا ہوں کہ میں یہ تحریر اخبار نویس ساتھیوں کے لیے لکھ رہا ہوں کیونکہ صحافی کتنے ہی چالاک اور ہوشیار کیوں نہ بنیں سیاستدانوں سے آگے نہیں بڑھ سکتے اور ان کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔
مشکل یہ ہے کہ سیاست اور صحافت دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے سیاست صحافت کے بغیر نہیں چل سکتی اور صحافت کو بھی سیاستدان چاہئیں، آخر میڈیا والے صرف بھوکے چوروں اور ڈاکوؤں پر تو گزارہ نہیں کر سکتے اور کاروبار مملکت بھی چونکہ اکثر وبیشتر سیاستدان ہی چلاتے ہیں اس لیے میڈیا ان کی خبروں کی ضرورت محسوس کرتا ہے ۔ یہی دو طرفہ ضرورت صحافیوں کو سیاستدانوں کے جال میں پھنسا دیتی ہے اور وہ ان کے ہاتھوں میں کھیلنے یا ان کے استعمال میں آ جاتے ہیں ۔
اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ میں اس ملک کے قابل ذکر سیاستدانوں کو براہ راست یا بالواسطہ جانتا ہوں اور مجھے افسوس ہے کہ میرا ووٹ کسی کے حق میں نہیں ہے۔ صرف اس بد قسمت ملک کا مفاد مجبور کرتا ہے کہ کسی لیڈر کے ہاتھ سے زہر کا پیالہ پی لیا جائے۔ صحافت میں آئیڈیل تو بہت ہو سکتے ہیں لیکن ایک صحافی کے لیے ملکی مفاد اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ وہ اپنے سیاسی آئیڈیل سے ہٹ کر قوم کی حمائت کرے کیونکہ صحافی عوام کا نمایندہ ہے عوام اس کی جانب دیکھ رہے ہوتے ہیں اور اس کو پرکھ رہے ہوتے ہیں کہ وہ ان کے حق کی بات کر رہا ہے یا نہیں ۔
(جاری ہے)