مغل انگریز اور ہندوستان
تاج محل،اردواور غالب۔ سر سید، ریلوے اور پارلیمانی نظام جمہوریت
معروف ادیب تنقیدنگار رشید احمد صدیقی کا تاریخی جملہ ہے کہ مغلیہ دور نے ہندوستان کو تین چیزیں دیں، تاج محل، اردواور غالب، میں ناچیز یہاں انگریزی عہد کے حوالے سے کہوں گا کہ انگریزوں نے ہندوستان کو تین چیزیں دیں، سر سید احمد خان، ریلوے اور پارلیمانی جمہوریت۔ پہلے مغلیہ عہد کو لیتے ہیں۔
ظہیر الدین بابر ہندوستان کا پہلا مغل بادشاہ تھا جس نے 1526 ء میں ابراہیم لودھی کو شکست دیکر ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی۔ 1530 ء میں اس کا بیٹا ہمایوں تخت نشین ہوا،1539 ء میں شیر شاہ سوری نے اسے شکست دی اور وہ ایران فرار ہو گیا، 1555ء میں ہمایوں نے دوبارہ تحت حاصل کیا۔ 1556 ء میں بارہ سال کی عمر میں جلال الدین اکبر بادشاہ بنا، ہندوستان میں اشوک اعظم کے بعد دوسرا اعظم کہلا یا۔ اُس نے1605ء تک حکومت کی اور نہ صرف دفاعی طور پر ہندوستان کو مضبو ط کیا بلکہ خزانے کو لبا لب بھر دیا۔
اس وقت ہندوستان پوری دنیا کے ملکوں میں سب سے امیر ملک تھا۔ اکبر نے اتنا خزانہ جمع کیا کہ 1605 ء میں جب اس کا بیٹا سلیم الدین جہانگیر بادشاہ بنا اور1628 ء تک 23 سال عیاشی کی زندگی گزاری تو پھر بھی اتنا خزانہ تھا کہ اس کا بیٹا شاہجہاں جو انجینئر بادشاہ کہلایا وہ 1628 سے1659 ء یعنی 31 سال تک خرچ کرتا رہا۔ اس نے شالامار باغ ، مقبرہ جہانگیر اور دوسری عمارتوں کے علاوہ دنیا کی خوبصورت ترین عمارت تاج محل بنوائی۔
1659 ء میں اورنگ زیب عالمگیر بادشاہ بنا اور 1707 ء تک چھیالیس سال حکو مت کی اور پھر دہلی میں مرکز ی اور برائے نام مغلیہ حکومت 1707 سے شاہ عالم اول سے1857 میں بہادر شاہ ظفر تک قائم رہی مگر 1757 ء میں بنگال میں نواب سراج الدولہ کو اس کے غدار وزیر، میر جعفر کی غداری سے لارڈ کلائیو نے پلاسی کے میدان میں شکست دے کر یہاں مستحکم انگریز حکومت قائم کردی۔
تاریخ یہاں انگریزوں کی فتح اور ہماری شکست کے مفہو م سے ہمیں آگاہ کرتی ہے لیکن افسوس یہ تاریخ ہمارے نصاب میں نہیں پڑھائی جاتی، ہمارے چوتھے گورنر جنرل اور 1956 ء کے آئین کے نفاذ کے بعد پہلے صدر اسکندر مرزا تھے اور ان کے بیٹے ہمایوں مرزا جو عالمی سطح کے ایک بنک کے اعلیٰ عہدے سے چند برس قبل ریٹائرہوئے تو اس پر انہوں نے کتاب، فرام پلاسی ٹو پاکستان ،کے عنوان سے لکھی جس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ ان کے پڑ دادا میرجعفر تھے اور بد قسمتی سے مورخین نے ان کے کردار کو مسخ کر کے بیان کیا ہے ورنہ انہوں نے بنگال کے مسلمانوں کی بہت خدمت کی، بہر حال یہ ہمایوں مرزا کا اپنا موقف ہے مگر تاریخ، تاریخ ہے۔
اب جہاں تک تعلق ہندوستان کے پہلے انگریز فاتح، بنگال کے حکمران لارڈ کلائیو کا ہے تو یہ جنگِ پلاسی کا ہیرو تھا ۔ مگر تھوڑے عرصے بعد اس کے خلاف یہاں سے رپورٹیں لندن پہنچیں اور اُسے کرپشن کے الزامات کی بنیاد پر لندن بلوایا گیا اور مقدمہ چلا اور اُسے یہ معلوم ہو گیا کہ الزامات ثابت ہو جائیں گے ، جس کی سزا یہ ہو سکتی تھی کہ اس نے یہاں امرا سے جو بڑے بڑے تحائف لئے تھے وہ واپس کرنے پڑتے اور کچھ جرمانہ ہو تا، لیکن قوم کے سامنے شرمندگی کے احساس کی وجہ سے لارڈ کلائیونے خود کشی کر لی۔ یہ تھی وہ وجوہات جن کے سبب انگریز کامیاب ہوا۔ لیکن بات مغل بادشاہ شاہجہاں اورتاج محل کی ہو رہی تھی، تاج محل کو محبت کی نشانی اور دنیا کی خوبصورت عمارت کہا جاتا ہے، تاج محل دریا ئے جمنا کے جنوبی کنارے پر واقع ہے اس کا رقبہ 42 ایکڑ ہے اس کی تعمیر 1632 میں شروع ہوئی اور بنیادی طور
پر1643 میں مکمل ہوئی اور پھر اس پر مزید دس سال اس کی آرائش پر لگے اس طویل عرصے میں 20000 کاریگر،انجینئروں کے ایک بورڈ کی نگرانی میں کام کرتے رہے، اس زمانے میںاس کی تعمیر پر 3 کروڑ 20 لاکھ روپے لاگت آئی تھی جو آج کے 52 ارب 80 کروڑ بھارتی روپے اور 827 ملین ڈالر بنتے ہیں۔ 1983ء میں یونیسکوUNESCO نے اسے عالمی اثاثہ قرار دیا۔ تاج محل شاہجہان نے اپنی سب سے پیاری بیوی ممتاز محل کے لیے بنوایا تھا۔ ملکہ ممتاز محل سے شاہجہان کے 14 بچے پید ہوئے اور چودھویں بچے کی پیدائش کے دوران 1639میں 39 برس کی عمر میں وہ انتقال کر گئی۔
اس خوبصورت عمارت کو سالانہ 80 لاکھ سے زیادہ افراد دیکھنے آتے ہیں۔ تاج محل کو اب تک دنیا کی ہزاروں شخصیات دیکھ چکی ہیںاور بہت سوں نے اپنے تاثرات اور خیالات کا اظہار کیا ہے۔ معروف شاعر ساحر لدھیانوی کی ایک نظم تاج محل کے عنوان سے ہے جس کا مشہور شعر ہے
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لیکر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
اس کے مقابلہ میں شکیل بدایونی نے یہ شعر کہا
اک شہنشا ہ نے بنوا کے حسیں تا ج محل
ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی
کسی اور شاعر کا شعر ہے کہ
یہ الگ بات کہ شر مندہ ِ تعبیر نہ ہو
ورنہ ہر ذہن میں کچھ تاج محل ہوتے ہیں
ایران کی سابق ملکہ ثریا نے جب یہ تاج محل دیکھا تو بے اختیار بول اٹھیں ''اگر کوئی مجھ کو یہ کہے کہ تمارے مرنے کے بعد ایسا مقبرہ بنواؤں گا تو میں ابھی مرنے کو تیار ہوں۔ ملکہ برطانیہ کے حوالے سے مشہور ہے کہ اس نے کہا '' کاش یہ دریائے ٹیمز کے کنارے ہوتا''۔ ایک امریکی شخصیت نے تاج محل کو دیکھ کر کہا کہ مجھے حیرت ہے کہ یہ بغیر امریکی امداد کے کیسے تعمیر ہوا؟ سابق سوویت یونین کے صدر خرو شف نے اسے دیکھ کر کہا کہ مجھے اس محل کی دیواروں سے خون کی بوآتی ہے۔
چین کے سابق وزیر اعظم چواین لائی نے کہا کہ اگر اس محل کی جگہ کوئی درس گاہ، یونیورسٹی ہوتی تو اس سے ملک کو کتنا فائدہ پہنچتا۔ سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے کہا'' یہ شائد دنیا کی سب سے خوبصورت عمارت ہے''۔ تاج محل کے حوالے سے دنیا میں دو طرح کے لوگ ہیں ایک وہ جنہوں نے اسے دیکھا اور اس سے پیار کرتے ہیں اور دوسرے وہ جنہوں نے اس محل کو نہیں دیکھا اور اس سے پیار کرتے ہیں۔ تاج محل دیکھنے کے اعتبار سے ایک حقیقی لطیفہ یوں ہے کہ کوئی صحافی تاج محل پر رپورٹ بنا رہا تھا اس نے یہاں آنے والے درجنوں افراد سے انٹرویو لیئے آخر واپسی میں تاج محل کے باہر بیٹھے ہوئے ایک بوڑھے فقیر سے پوچھا آپ یہاں کتنے عرصے سے بیٹھتے ہیں، بھکاری بولا کو ئی چالیس سال ہو گئے ہیں، تو صحافی نے دوسرا سوال کیا، تاج محل دیکھا ؟ گداگر بولا یہی تو ہے کسی دن دیکھ لیں گے۔
تاج محل برصغیر کی وہ تاریخی عمارت ہے جو ایک زندہ گواہ کی حیثیت سے بتا رہی ہے کہ ہندوستان مغلوں کے اس دور میں دنیا کا سب سے امیر اور خوشحال خطہ تھا لیکن اس دورکے مغل حکمران لاپرواہ اور بے شعور تھے، جس زمانے میں تاج محل کی تعمیر جاری تھی اس زمانے ہی میں برطانیہ سمیت یورپ کے کئی ملکوں میں یونیورسٹیاں قائم ہو چکی تھیں۔
اسپین میں مسلمانوں کی شکست کے بعد یہاں ایک مسلمان بھی نہیں رہا تھا اور اسپین کا کو لمبس امریکہ دریافت کر چکا تھا۔شاہجہان ہی کے زمانے میں جب دارالحکومت آگر ہ سے دہلی منتقل کیا گیا تو یہاں سے ہی دنیا میں بولی اور سمجھی جانے والی دوسری بڑی زبان اردو نے جنم لیا اور زبان کی پیدائش یوں ہوئی کہ یہاں جو فوجی چھاونی قائم کی گئی تھی اسے ترک زبان کے مطابق اردو کی نسبت دی گئی یعنی لشکر گاہ اور یہاں جو فوجی تھے۔
ان میں مغلوں،افغانوں، ترکوں، ایرانیوں کے علاوہ بلوچوں، سندھیوں ،پنجا بیوں، راجپو توں، بنگالیوں، تاملوں، مرہٹوں کے علاوہ ہندووں اور ہندوستانیوں کی کئی دیگر قومیں شامل تھیں جو آپس میں بات چیت کے لیے اپنی اپنی زبانوں کے الفاظ استعمال کرتی تھیں اور یوں اردو زبان وجود میں آئی اور اردو اس لیے کہلائی کہ ایک تو یہ دارالحکومت دہلی میں ہندوستان کی سب سے بڑی اور مرکزی چھاونی ''لشکر گاہ'' میں پیدا ہوئی تھی اور دوئم یہ چونکہ بہت سی دوسری زبانوں کے الفاظ اس میں شامل تھے اور اس وقت اس زبان میں شائد اس کا اپنا کوئی بھی لفظ شامل نہیں تھا۔
اس لیے یہ زبان اردو کہلائی لیکن اسی دور میں اردوکوریختہ، ہندوستانی اور بھاشا بھی کہا گیا، اس وقت ہندوستان میں سرکاری زبان فارسی تھی اس لیے اردو کا رسم الخط بھی عربی اور فارسی ٹھہرا۔ یہ تاریخی اعتبار سے عرب ممالک، سنٹرل ایشیا، ایران اور افغانستان کا ہندوستان کے ساتھ علمی ادبی، ثقافتی، تہذیبی، تمدنی اور لسانی ملاپ تھا۔ یہ بالکل ایسا ہی تھا جیسے آپ کسی بڑے تھال میں پانی بھر کر اس کے چاروں اطراف سے مختلف رنگ ڈالیں تو یہ تمام رنگ جب آکر آپس میں ملیں تو ایک نیا رنگ بنائیں گے۔
جس میں ان تمام رنگوں کی جھلک واضح دکھائی دے گی چونکہ یہ ملاپ یہاں کی مقامی زبانوں اور خصوصاً بڑی زبانوں یعنی ہندی اور سنسکر ت سے بھی تھا اور دوسری جانب عربی اور فارسی جیسی بڑی زبانوں سے اسے ادبی اعتبار سے ادبی اصناف سمیت علمی اور فکری لحاظ سے بڑا اثاثہ ملا تھا اس لیے بہت ہی کم عرصے میں اور اس وقت جب مغلیہ حکومت زوال پذیر تھی دنیا کی اس بڑی زبان نے تیزی سے ترقی کی۔ اس زبان میں نظم کے نظیر اکبرآبادی جیسے شاعر کے علاوہ غزل کے شاعر میر درد، میر تقی میر ،آتش، مومن، ابراہیم ذوق، شیفتہ، اور پھر ہندوستان کا دماغ غالب پیدا ہوئے اور دوسری جانب مرثیہ میں انیس اور دبیر پیدا ہوئے۔ اردو جس کے مزاج میں اپنائیت اور جدت شامل ہے اس زبان نے انگریز کی آمد پر سب سے پہلے اور سب سے زیادہ انگریزی کے الفاظ بالکل انگریزی کی شکل میں یا اس میں مقامی لہجہ شامل کر کے قبول کئے۔
انگریز نے ہندوستان میں آنے کے بعد یہاں ضلعی سطح تک بہت محنت سے سماجی تحقیق کی اور ابتدا میں یہ فیصلہ کیا کہ وہ اردو ہی کو سرکاری طور پر نافذ کریں کیو نکہ یہ ہندوستان جیسے وسیع ملک اور کثیر السان خطے کی سب سے بڑی زبان تھی تو ساتھ ساتھ اس کا پھیلاؤ سنٹرل ایشیا، ایران، افغانستان اور عرب دنیا تک تھا، اس لیے انگریزوں نے شروع میں فورٹ ولیم کالج کلکتہ اور دہلی کالج کھولے، فورٹ ولیم کالج میں تو انگریزی سے اردو میں اور اردو سے انگریزی تراجم کا کافی کام بھی ہوا، اسی کالج سے غالب کو بطور پروفیسر ملازمت کی پیشکش بھی ہو ئی تھی۔
شائد انگریز اگر ہندوستان سے علامتی مغل باد شاہت کے خاتمے کا اعلان نہ کرتے تو علامتی سماجی تہذیبی حسن اور شائستگی کے ساتھ تاج محل،اردو اور غالب کا عالمی سطح کا حسین امتزاج نہ ٹوٹتا اور آج کے The Clash of Civilizations and Remaking of World Order تہذیبوں کا تصادم لکھنے والا Samuel P Huntington تہذیبوں کی ہم آہنگی اور ان کے تسلسل کے عنوان سے لکھ رہا ہوتا ۔ مئی 1857 وہ دور ہے جب برصغیر کی متنوع اور ہم آہنگ تہذیب میں دراڑیں پڑ گئیں۔ جنگ آزادی جس کو انگریز نے غدر کا نام دیا تھا اس میں اگر چہ غالب زندہ تھا مگر اس کی اور اس کے ہندوستان کی زندگی اس کے خطوط کے آنسووں میں جھلکتی ہے۔
اگر چہ اس دور میں اردو نے زبردست ترقی کی، اس دور میں سر سید احمد خان، ان کے رفقائے کار میں شبلی، حالی، نذیر احمد،آزاد، نواب وقار الملک بھی شامل تھے تو دوسری طرف غالب اپنے عہد کے شعرا کے ساتھ ان سے وقت کے ذرا فاصلے پر داغ دہلوی تھے اور اس عہد میں اردو نے مغربی ادبی اصناف کو بھی اپنایا اور اتنے معیا ری انداز سے اپنایا کہ اردو ادب انگریزی ادب کے سامنے جرات سے کھڑا ہوگیا، اور یہیں سے ہندوستان کے ہندووں کی اردو سے دشمنی شروع ہو گئی۔
اب اردو ہندی تنازعہ شروع ہوا اور بعد کے دنوںمیں پنڈت موتی لال نہرو پھر ان کے فرزند جواہر لال نہرو اور موہن داس گاندھی سب ہی اردو کے خلاف ہوئے اور ہندی رسم الخط نے وہ تمام رشتے کاٹ ڈالے جو ہندوستان کو سنٹرل ایشیا، عرب ممالک، مشرق وسطیٰ، ایران اور افغانستان سے ملاتے تھے۔ آج سعودی عرب دبئی اور بہت سے ملکوں میں اردو عام بولی جاتی ہے لیکن وہاں کے عربی بولنے والوںکے لیے یہ حیرت کی بات ہے کہ جب پاکستانی اور بھارتی آپس میں بات چیت جس زبان میں کرتے ہیں جب اسی زبان کو الگ الگ رسم الخط میں لکھتے ہیں تو ایک دوسرے کی زبان کو پڑھ نہیں سکتے۔
البتہ یہ ضرور ہے کہ جب بھارتی کسی عرب سے ہندی بولتا ہے تو عربی کو سمجھنے میں دشواری ہوتی ہے کیونکہ بھارت نے آزادی کے بعد عربی، ایرانی، افغانی یا سنٹرل ایشیا سے تعلق رکھنے والی زبانوں کے مقابلے میں ہندی کے الفاظ جان بوجھ کر شامل کئے ہیں اس نکتے کو سمجھتے ہوئے بھارتی فلم انڈسٹری کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ فلم میں بولی جانے والی اردو ہی کو بنیا د بنائے تاکہ اس انڈ سٹری کو نقصا ن ہو، لیکن ابھی اردو کے ایک بار پھر ابھر نے کے روشن امکانات ہیں اور وہ یہ ہیںکہ جب سی پیک منصوبے پر، پُرامن انداز میں بھارت گفتگو کو سمجھ جائے گا تو اردو کی ایک بار پھر ضروت ہوگی۔
سی پیک پاکستان سے ہوتا ہوا سینٹرل ایشیا، افغانستان، ایران، مشرق وسطیٰ تک جائے گا۔ بد قسمتی سے پاکستان میں بھی بعض لو گوں نے اردو زبان کی مخالفت کی حالانکہ یہ زبان ہندوستان کے کسی نسلی قومی گروپ یا کسی قوم کی زبان نہیں۔ شاہجہان کے دور کو ساڑھے تین سو سال سے کچھ زیادہ عرصہ گزرا ہے اس سے پہلے ہندوستان کے کسی علاقے اور کسی قوم یا قومیت کی زبان اردو نہیں تھی جب کہ ہمارے ہاں بلوچی، پشتو اور سندھی زبانیں قومیتوں کی بنیاد پر تقریباً پانچ ہزار سال سے بلوچی، سندھی اور پشتو زبانوں کے طور پر موجود ہیں۔
بہر حال رشید احمد صدیقی کا یہ شاہکار جملہ کہ مغلیہ دور نے ہندوستان کو تاج محل،اردو اور غالب دیا بہت وسعت رکھتا ہے جس کی تشریح میں کتابیں کی کتابیں لکھی جاتی رہیںگی۔ انگریزوں کے عہد کے اعتبار سے میرا موقف ہے کہ انگر یز نے ہندوستان کو سر سید احمد خان ،ریلوے اور پارلیمانی نظام دیا۔ 1857ء میں انگریز کی حکومت دہلی سمیت برصغیر کے خاصے وسیع رقبے پر مشتمل تھی جہاں تک مغلیہ بادشاہت کا تعلق تھا تووہ عرصے سے برائے نام یا علامتی طور پر لال قلعہ میں موجود تھی اور مرہٹوں کے دور کے بعد عرصے سے انگریز سر کار کے وظیفے پر چل رہی تھی۔
انگر یز کی وجہ سے جنگ ہوئی اور اس کے بعد جب سر سید احمد خان نے محسوس کیا کہ اب انگریز اور انگریزی زبان سے مفاہمت کے بغیر کوئی چارہ نہیں کیونکہ انگریزی زبان ہی جدید علوم اور اس کے نتیجے میں ہو نے والی صنعتی،اقتصادی، سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کی کنجی تھی، یوں سرسید احمد خان اگرچہ ہمارے قومی رہنما ہیں مگر وہ یہاں انگریز ردعمل کے نتیجے میں ہی سامنے آئے، انگریز کی آمد سے پہلے ہندوستان میں زندگی کا ہر شعبہ روایتی انداز سے چل رہا تھا نہ یہاں جدید کارخانے تھے نہ مرکزی بنکنگ سسٹم تھا نہ اسٹاک ایکسچینج تھا نہ ہی بحری، بری اور بعد میں فضائی افواج اور ان کے مختلف اور مخصوس شعبوں کا کوئی تصور تھا۔
انگریز نے اگر چہ آتے ہی یہاں کے جاگیردارنہ نظام کو استعمال کیا مگر ساتھ ہی چونکہ وہ تجارتی مقاصد لے کر یہاں آیا تھا اس لیے جلد ہی اس نے کلکتہ، بمبئی،کراچی کے علاوہ کئی چھوٹے بڑے شہروں کی بنیاد رکھی اور دہلی،لاہور،آگرہ اور ایسے اہم اور پرانے شہروںکو بھی صنعتی و تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہو ئے کشادہ کیا۔ 1825 میںجارج اسٹیفن نے برطانیہ میںاسٹاکن سے ڈرلنگٹن تک 38 میل ریلوے لائن پر 90 ٹن وزنی اسٹیم انجن سے21 ویگنوں اور ایک کوچ کی ٹرین چلانے کا کامیاب مظاہرہ کیا تھا۔ اس کے بعد 1830ء میں برطانیہ میں لیورپول سے مانچسٹر تک باقاعدہ ریلوے سروس شروع ہو گئی تھی۔ امریکہ کی خانہ جنگی ہوئی تو امریکہ اور فرانس نے بھی جنگ میں ریلو ے کی اہمیت کو سمجھ لیا تھا۔
1861 تک آج کے پاکستانی علاقے میں بھی کراچی تا کوٹری ٹرین چلادی گئی تھی اور اس کے چند سال بعد ریلو ے کا جال پو رے برصغیر میں بچھا دیا گیا۔ آج ذرا تصور کریں جب یہاں ریلوے نہیں تھی تو یہاں لوگ یا تو اونٹوں اور گھوڑوں کے ساتھ قافلوں میں سفر کرتے تھے یا دریاؤں سے کشتیوں کے ذریعے سفر کرتے تھے انگریزوں نے یہاں ریلوے کو متعارف کروا کر اس سماج میں ایک انقلابی تبدیلی پیدا کی۔ سفر کی اس سہو لت اور جدت سے ہندوستان کے لوگوں نے خود اپنی زندگی میں پورا ہندستان دیکھنے کا خواب پورا کیا۔ چین کی طرح ہندوستان بھی رقبے اور آبادی کے اعتبار سے ایک بڑ ا ملک رہا ہے۔ ان دونوں ملکوں میں قدر مشترک یہ بھی رہی ہے کہ ان دونوں ملکوں سے کو ئی فاتح دنیا کے دوسرے ملکوں کو فتح کرنے نہیں نکلا ۔
البتہ یہ ضرور ہے کہ ان دونوں ملکوں کو فاتحین نے فتح کیا اور دونوں ملکوں میں مغل یا منگول بھی فا تح ہو ئے اور ان کے بعد انگریز بھی یہاں حکمران ہو ئے لیکن چین ہندوستان سے یوں مختلف رہا کہ اس کے ماضی میں اس کے اپنے حکمرانوں نے علم و تحقیق میں کمال حاصل کیا اور دنیا کو کاغذ اور ریشم کی ایجاد اور دریافت کے علاوہ اعلیٰ بیورو کریسی سسٹم، بارود کا استعمال اور بہت کچھ دیا۔ برطانیہ کی وسیع رقبے پر پھیلی نو آبادیات میں غالباً چین ہی ایک ایسا ملک ہے جس نے مسلح جدوجہد کی اور انقلاب کے بعد آزادی حاصل کی اور چونکہ اس کے ماضی کی تابناک روایت موجود تھی۔
جس میں ان کی مستقل مزاجی کو بنیادی اہمیت حاصل تھی جس کی مثال ان کے پاس دیوار چین کی صورت میں مو جود تھی اور پھر دوسری مثال موزے تنگ نے لانگ مارچ کی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کردی، لیکن اس کے مقابلے میں ہندوستان میں بھی انگریز وں کے مقابلے میں مقامی آبادی کئی سو گنا زیادہ تھی۔ یہ برطانیہ سے لڑ کر آزادی حاصل نہ کر سکے۔ 1857 کی کوشش خود ہندوستان کی انگریزی فوج کے مقامی سپاہیوں نے اپنے ہم وطنوں پر گولیاں چلا کر ناکام بنا دی۔
اس کے بعد ہندوستان سے بھر تی ہو نے والی انگریزی فوج جس کے لیے انگریز کے وفادار جاگیردار اپنے علاقوں سے فوجی بھرتی کرواتے تھے یہ لاکھوں کی تعداد کی ہندوستانی فوج ہی افغانستان کے خلاف 1839 کی پہلی برٹش افغان جنگ 1878 کی دوسری برٹش افغان جنگ اور1919 کی تیسری برٹش افغان جنگ میں بھی افغانستان کے خلاف لڑتی رہی تو اس کے ساتھ برطانوی ہندوستان میں جہاں کہیں انگریز سرکار کے خلاف بغاوت ہوئی یا انگریز نے کسی ریاست کو فتح کیا اس میں ہندوستانی فوج کی تعداد انگریزوں کے مقابلے میں 95% تک رہی۔ اور یہ بڑی تلخ حقیقت ہے کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں ہندوستان ہی سے سب سے بڑی تعداد میں انگریز کو مقامی فوج میسر تھی۔
یہی وجہ تھی کہ انگریزوں نے پہلی جنگ عظیم سے پہلے ہی نہ صرف پورے ہندوستان میں بہت بڑی بڑی فوجی چھاؤنیاں، جنگی فضائی اڈے، اور ساحلوں پر بہترین نیوی افواج کا انتظام کر رکھا تھا اور ان میں سپاہیوں کی سطح پر سو فیصد مقامی ہندوستانی تھے۔ یہاں پر مقامی آبادی خصوصاً جاگیردارانہ نظام پر اسے اتنا اعتماد تھا کہ انگریز نے شہری علاقوں میں فوجی افسران کی تربیت کے اعلیٰ اور معیاری کالج قائم کئے تھے اور اسی طرح برطانیہ سے باہر ہندوستان ہی وہ ملک تھا جہاں انگریز نے بڑی بڑی اسلحہ ساز فیکٹریاں قائم کی تھیں، اگر چہ انگر یز کو پورے ہندوستان میں وفادار جاگیرداروں پر پورا پورا اعتماد تھا مگر انگریز دنیا کی وہ قوم ہے جو اپنی پالیسیاں اور منصوبے آئندہ سو سال کے لیے بناتے ہیں، وہ منصوبہ بندی جذباتیت سے ہٹ کر مکمل حقیقت پسندی کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ امریکہ کی آزادی پر برطانیہ نے جارحیت اختیار نہیں کی بلکہ خوبصورت انداز میں مفاہمت کو اپنایا جس کا بے پناہ فائد ہ اسے آج تک حاصل ہے۔
برصغیر سے جب انگریز نے جانے کا فیصلہ کیا تو اس وقت ہندوستان میں مرد اور جوان انگریزوں کی کل تعداد ایک لاکھ تھی جب کہ غیر تقسیم شدہ ہندوستان کی کل آبادی چالیس کروڑ سے زیادہ ہو چکی تھی ۔
مگر انگریز نے برصغیر میں آتے ہی ایک جانب اپنی حکومت کو مستحکم کرنے اور اقتدار کی مدت میں اضافہ کرنے کی حقیقت پسندانہ حکمت عملی اور منصوبہ بند ی کر لی تھی، دوسری جانب جاگیر داوروں کا تعاون بلکہ پورری وفاداری ان کو حاصل تھی مگر تجارت کی غرض سے آنے والے انگریز نے صنعت و تجارت کے استحکام اور تسلسل کو جاری رکھنے کے لیے یہاں سماجی سطح پر مقامی آبادی کو جہاں سرکاری ملازمتوں کے ذریعے انتظامی طور پر نچلے اور بعض جگہوں پر درمیانے درجے پر شامل کیا وہاں آغاز میں سیاسی طور پر اور بنیادی جمہوری انداز سے ہندوستان کے پنچایتی نظام کو بتدریج بلدیاتی نظام میں ڈھالنا شروع کیا۔
اس کے ابتدائی مراحل میںکچھ اراکین نامزد ہوا کرتے تھے اور کچھ کا انتخاب مقامی کمیونٹی کی سطح پر ہوتا تھا،اس کے بعد جب ہندوستان میں انگریزی تعلیم کا رواج عام ہوا اور یہاں سے اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھنے والے برطانیہ جا کر تعلیم حاصل کرنے لگے اور وہاں کی جمہوریت، آئین اور عدالتی نظام سے واقف ہو گئے تو یہاں بھی برطانوی طرز کا نظام نافذالعمل ہو گیا۔
جنگ عظیم اول سے قبل انگریز نے یہاں لیجسلیٹو کونسل قائم کردی تھی ا ور اس میں یہاں پر ایک خاص تناسب سے انگریز سرکار کی جانب سے اراکین نامزد کئے جاتے تھے اور باقی کا انتخاب ہوتا تھا۔ جنگ عظیم اول سے قبل قائداعظم سمیت بہت سے ایسے تھے جو آئین و قانون اور ا ن کے تحت جمہوری حکومت اور پارلیمانی امور کو بہت بہتر طور پر سمجھتے تھے، بلکہ انگریزوں سے زیادہ اچھے طریقے سے یوں سمجھتے تھے کہ وہ ہندوستان کے سماج کی پیداوار تھے اور اس سماج کو زیادہ اچھی طرح سمجھتے اور جانتے تھے، پہلی جنگ ِ عظیم دنیا کی ایک بڑی تبد یلی تھی، اس میں روس جیسے دنیا کے سب سے وسیع رقبے کے ملک میںجنگ سے ایک سال پہلے اشتراکی انقلاب کے بعد زار شاہی بادشاہت ختم ہو گئی۔
ترکی کی سلطنت عثمانیہ بھی جنگ کے اختتام پر بکھر گئی اور اگرچہ برطانیہ کی نوآبادیا ت کا رقبہ دنیا کے کل رقبے کا 24% اور دنیا کی آبادی کا 25% ہو گیا مگر اب برطانیہ دنیا کی سپر پاور نہیں رہا اور اس کی جگہ یہ پو زیشن امریکہ نے لے لی۔ یہاں ہندوستان میں اس جنگ سے دو سال قبل 1916ء میں کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان میثاق لکھنو کے عنوان سے ایک معاہدہ ہوا جس میں کانگریس نے جداگانہ طریقہ انتخابات، مسلمانوں سے متعلق قانون سازی اور مسلمانوں کی آبادی کے تنا سب سے سرکاری ملا زمتوں کے کو ٹے جیسے امور طے کر لئے تھے، یہ معاہدہ میثاق لکھنو کہلایا تھا، یہ ایک ایسا فارمولہ تھا ۔
جس کے تحت ہندوستان میں مسلمان جو دوسری بڑی اکثریت تھے ان کو ان کے تناسب کے اعتبار سے حقوق مل جاتے تھے اور آنے والے دنوں میں جب انگریز نے ہندوستان میں پارلیمانی جمہوریت کے تحت اختیارات مرحلہ وار مقامی طور پر دینے تھے یعنی پارلیمانی نظام کو بتدریج آگے بڑھاتے ہوئے اس میں مقامی آبادی کو شامل کرکے اختیارات اور حکمرانی کا جمہوری حق یا حقوق دینے کے عملی مراحل شروع ہو رہے تھے تو کانگریس نے میثاق لکھنو سے بغیر کسی بات چیت یا دلائل کے انکار کردیا۔ 1928ء میں جب برصغیر میں مرحلہ وار پارلیمانی جمہوریت کو یہاں نافذکرنے کے لیے ایک باقائدہ قانون ''آئین ،، کی تشکیل کے لیے برطانوی پارلیمنٹ میں کام شروع ہو چکا تھا اور انگریز پارلیمنٹیرین ہندوستان کے سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کے اہم لیڈروں سے رابطے کر رہے تھے،کہ پنڈت موتی لال نہرو نے اپنی مشہور زمانہ نہرو رپورٹ جاری کردی، اس رپورٹ سے میثاق لکھنو میں تسلیم شدہ وہ تمام نکات جو ہندوستان کے مسلمانوں کے آئینی تحفظ کے تھے وہ یک جنبشِ قلم ختم ہو گئے۔
مسلمان ہندوستان کی اقلیت نہیں بلکہ اس بڑے ملک کی بڑی آبادی کی دوسری اکثریت تھے۔ قائداعظم جیسے زیرک سیاستدان نے1916 کے میثاق لکھنو میں مشترکہ ہندوستان کی آزادی کو جلد اور یقینی بنادیا تھا، اور اس کے ساتھ ساتھ ہندو مسلم اتحاد کو حقیقی اور فطری تقاضوں کے عین مطابق کردیا تھا۔ یہ مشترکہ ہندوستان میں پارلیمانی جمہوریت کا میگناکارٹا تھا، اور اس میں مسلمانوں کے حقوق اور تشخص کی ضمانت کی بنیادی پر ہمیشہ کے لیے ہندو مسلم تنازعات کوطے کرلیا گیا تھا، 1929ء میں قائد اعظم نے اپنے مشہور چودہ نکات میں ایک مرتبہ پھر ہندواکثریت کو یہ سمجھانے کی کو شش کی کہ برطانیہ اور ہندوستان میں سماجی، تہذیبی، تمدنی، مذہبی، تاریخی ، نسلی، لسانی، اعتبار سے بہت فرق ہے یہاں معاشرے کے ہر شعبے میں تنوع ہے۔
اس تنوع کو معاشرتی حسن دینے کے لیے ضروری ہے تضاد کی کاٹ اور تصادم کے امکانات کو رابطے اور اتحاد کی مفاہمت دے دی جائے۔ قائد اعظم جہاں مغربی جمہوریت،آئین اور قانون کی گہرائیوں سے واقف تھے وہاں بطور ایک ماہر سوشیالوجسٹ یعنی ماہر سماجی علوم ہندوستا ن کے سماجی مسائل کو پارلیمانی جمہوریت سے متوازن اور ہم آہنگ کرتے ہوئے ان کو حل کرنے کا فکری اور عملی ہنر جانتے تھے۔
برطانیہ میں 95% ایک قوم، ایک نسل اور مذہب اور فرقہ کے لوگ ہیں اس لیے وہاں اکثریت کی بنیاد پر تمام مسائل پر قانون سازی بہترین جمہوری عمل ہے لیکن وہاں جمہوریت میں اتنی بالغ النظری ہے کہ وہ اقلیتی تارکین وطن کے مذہبی اور ثقافتی حقوق کی ضمانت دیتے ہیں، ہندوستان اُس وقت چالیس کروڑ آبادی کا بڑا ملک تھا جس میں تقریبا37% یعنی دوسری بڑی اکثریت مسلمان ہے لیکن یہاں قانونی اور آئینی طور پر پہلی بڑی اکثریت ہندو برطانیہ کی جیسی جمہوریت سے برسراقتدار آجاتی ہے تو مستقبل میں تسلسل کے ساتھ اس کے ہو لناک نتائج سامنے آئیں گے۔
اور یہ قائد اعظم کے چودہ نکات کی بڑی حد تک کامیابی تھی کہ جب 1935 کا قانونِ ہند آیا تو اس میں خیبر پختونخوا میں سیاسی اصلاحات اور سندھ کو بمبئی سے الگ کرکے صوبہ بنادیا گیا اور جداگانہ طریقہ انتخاب کو بھی رائج کیا گیا۔ اگرچہ اس قانون یا آئین کے تحت جب پہلی مرتبہ ہندوستان کے گیا رہ صوبوں میں انتخابات کروائے گئے تو مسلم لیگ کو بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا،انتخابات میں کامیابی پر کانگریس نے 9 صوبوں میں خود حکومت بنائی اور 2 صوبوں مسلم کی بجائے وہاں کی مقامی جماعتوں کے ساتھ مخلوط حکومتیں تشکیل دی گئیں۔
یہ طویل ترین مدت کے بعد ہندوستان میں ہندو حکومت کا تجربہ تھا اور اگر چہ اس کی بنیاد پارلیمانی جمہوریت تھی مگر کانگریس کی صوبائی حکومتوں نے ایسے اینٹی مسلم اقدامات کئے کہ جن مسلمانوں کی اکثریت نے ان کو ووٹ دیئے تھے اب ان کے پاس پچھتاوے کے علاوہ کچھ نہ تھا اور جب 1937 کے انتخابات کے بعد بننے والی کانگریس کی وزارتوں نے 1939ء میں دوسری جنگ عظیم کے شروع ہونے پر انگریز وں پر دباؤ ڈالا کہ انگریز کانگریس سے یہ وعدہ کرے کہ جنگ کے بعد ہندوستان کو وہ کانگریس کے حوالے کر کے رخصت ہو جائے گا۔
ایسا نہ کرنے پر کانگریس نے دباؤ کی شدت میں اضافہ کرتے ہو ئے صوبائی حکومتوں سے استعفے دے دیئے، پارلیمانی جمہوریت کا یہ تجربہ ہندوستان میں اگرچہ صوبائی سطح کا تھا لیکن اس سے مسلمانوں نے بہت کچھ سیکھا۔دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد 1945-46 کے موسم سرما میںاسی قانون ہند 1935 کے تحت مشترکہ ہندوستان کے آخری انتخابات ہوئے اور اس میںجدا گانہ طریقہ انتخاب کی بنیاد پر مسلم لیگ نے مرکزی اسمبلی کی مسلم نشستوں پر 100% اور صوبوں میں مسلم نشستوں پر 90% کامیابی حاصل کی اور پھر انہی نتائج کی بنیادوں پر پاکستان قائم ہوا۔
یوں جنگِ آزادی 1857سے یوم آزادی 14 اگست1947 تک 90 سال کا سفر اور اب اگست 2018 تک آزادی کی منزل کے حصول کے بعد استحکام کی جانب ہم 71 برس سے گامزن ہیں، جہاں تک تعلق مغلیہ عہد کے تاج محل، غالب اور اردو کا ہے تو تاج محل ایک عالمی شہرت کی خوبصورت عمارت ہے جو اپنی بے پناہ خوبصورتی کے ساتھ اُس وقت کے مغلیہ عہد کے سماجی سیاسی شعور کا رونا بھی روتی دکھائی دیتی ہے اور ماضی کے ہندو ستان کی خو شحالی کی عکاس بھی ہے۔ غالب ہندوستان کا دماغ ہے، اردو اور فارسی شاعری کے ذریعے آج بھی دنیا بھر میں اپنی کرنیں بکھیر رہا ہے، اب جہاں تک اردو کا ہے تو اس کو بارہا قتل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ہر بار زخمی ہوئی اور کراہتی رہی ہے ۔ بد قسمتی سے آج جب میڈیا نے ملک میں آزادی کے ساتھ خاصی ترقی کی ہے تو اس کے زخم زیادہ تا زہ اور گہرے نظر آتے ہیں۔
اب انگریزوں کے عہد کی طرف آتے ہیں جس نے ہندوستان کو ریلوے، سرسید احمد خان اور جمہوری پارلیمانی نظام دیا، پہلے ریلوے کی جانب آتے ہیں تو 1961-62 میں جب ہمارے ہاں ریلوے کو سو سال مکمل ہو چکے تھے تو ہم نے لاہور سے خانیوال تک الیکٹرک ٹرینیں چلا دی تھیں اور اس وقت ایران میں زاہدان تک پاکستان ریلوے تھی اور اندرون ایران ریلو ے نیٹ ورک نہیں تھا۔
آج پاکستا ن کی سرحد سے ترکی کی سرحد تک بہترین معیار کا ایرانی ریلوے نیٹ ورک موجود ہے ، افغانستان جہاں ریلوے کا کوئی تصور نہیں تھا اب اس ملک میں تقریبا 2500 کلومیٹر معیاری ریلوے ٹریک امن وامان کی انتہائی خراب صورتحال کے باوجود تعمیر ہو چکا ہے اور اس پر ریلوے سروس بھی شروع ہو چکی ہے، بھارت میں اس وقت دنیا کا چوتھا بڑا نیٹ ورک مو جود ہے یہاں ریلوے لائنوں کی مجموعی لمبائی 115000 کلومیٹر ہے، آسٹریلیا کی پوری آبادی سے زیادہ یعنی روزانہ 2 کروڑ 30 لاکھ افراد سفر کرتے ہیں، 7172 اسٹیشن ہیں، 12617 ٹرینیں چلتی ہیں۔
7421 روٹ ہیں، 30 ملین ٹن سامان یو میہ ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچا یا جاتا ہے، گذشتہ 62 برسوں میں بھارت نے اپنے ہاں ریلوے لائنوں کی لمبائی میں 11004 کلو میٹر کا اضافہ کیا ہے، یہاں مختصراً عرض ہے کہ ہمارے ہاں 1962 کے مقابلے میں آج ریلوے لائنوں کی مجموعی لمبائی، ٹرینوں اور ریلوے اسٹیشنوں کی تعداد میں اضافے کی بجائے کمی واقع ہو ئی ہے اور اسی طرح سروس کا معیار بھی پست ہوا ہے۔
سر سید احمد خان کی علمی تعلیمی تحریک کے اعتبار سے دیکھیں جو انگریز اور ہندو اتحاد کے ردعمل کے نتیجے میں سامنے آئی تھی اور قیام پاکستان کے فورا بعد ملک میں تعلیمی ترقی کی جانب تو جہ بھی دی گئی تھی، آج صورتحال یہ ہے کہ پاکستان جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک اور ایٹمی قوت ہونے کے اعتبار سے دنیا کی ساتویں طاقت ہے، دنیا میں معیار کے اعتبار سے 500 یونیورسٹیو ں میں اس کی کوئی ایک یو نیورسٹی شامل نہیں، ڈاکٹر عبدالسلام کے بعد کسی پاکستانی نے اعلیٰ تعلیم وتحقیق میں کو ئی نوبل انعام حاصل نہیں کیا، ملک کی 22 کروڑ کی آبادی میں سے 8کروڑ 30 لاکھ افراد ان پڑھ ہیں اور تقریبا ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔
اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ سرسید احمد خان ہمارے نصاب میں تو شامل ہیں مگر ہماری قومی تعلیمی پالیسیوں اور منصوبہ بندیوں میں سر سید احمد خان کی علمی و تعلیمی تحریک کی روح نہیں۔ جہاں تک تعلق پارلیمانی جمہوریت کا ہے تو قائد اعظم نے جس انداز سے اس جمہوریت کو برصغیر کی سماجی ساخت سے مطابقت دے کر نہایت کامیاب فارمولہ دینے کر کوشش کی تھی کہ ہندوستان متحد رہے، جس کو کانگریس نے منفی سیاست سے مسترد کردیا تھا، اس کے بعد 18 جولائی 1947 کے قانون آزادیِ ہند کی ان شقوں جن کو پنڈت جواہر لال نہرو نے نہ صرف تسلیم کیا تھا بلکہ لارڈ ماوئنٹ بیٹن ہی کو بھارت کا پہلا گورنر جنرل بنایا، ان شقوں کو 1935 کے قانون میں شامل کیا گیا تھا۔
ان شقوں میں آزادی کے بعد پہلے سال دونوں ملکوں بھارت اور پاکستان کی حیثیت نوآبادیات کی تھی اور ضرورت کے لیے اگرکوئی ترمیم کرنی ہوئی تو وہ گورنر جنرل ہی کرے گا۔ دونوں ملکوں کی پارلیمنٹ کو ترمیم کا حق نہیں تھا۔ ہمارے ہاں اگرچہ ہمارے گورنرجنرل قائد اعظم اور لیاقت علی وزیر اعظم تھے مگر ہمارا آرمی چیف انگریز تھا اور اس کا نتیجہ کشمیر جنگ پر انکاراور فوجی اثاثوں کی غیر منصفانہ تقسیم پر مفاہمت جیسے اقدامات تھے، پھر قائد اعظم آزادی کے بعد ایک سال انتیس دن زندہ رہے اس کے بعد لیاقت علی خان کی شہادت تک بھی ملک میں جمہوریت کی بقا رہی، اس کے بعد جب جمہوریت کی بحالی ہوئی تو 1971 میں ملک دو لخت ہو گیا اور بد قسمتی سے پارلیمانی جمہوریت ہمارے ہاںمستحکم نہ ہو سکی۔
اس کی بنیادی وجہ ہمارے معاشرے میں سماجی شعور کی کمی متوسط طبقے کا حجم یا سائز کا تناسب کم ہونا ہے، دیہی آبادی کا زیادہ تنا سب اور جاگیردارانہ نظام ، شہروں میںسرمایہ دارانہ گرفت کا مضبوط ہونا، جمہوری تسلسل کا جاری نہ رہنا اور وقفے وقفے سے مارشل لاء یا فوجی حکومتوں کا آتے رہنا ہے، اور آج جب 25 جولائی2018 کے عام انتخابات کے بعد ایک نئی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف بر سر اقتدار آئی ہے اور عمران خان وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں تو مغلیہ عہد کا تاج محل تو ہمارے پاس نہیں ہے مگر عبرت اور سبق سیکھنے کے لیے سیاست سے وابستہ امرا و اشرافیہ کی بہت سی عمارتیں اور نقصان کے حامل کئی منصوبے موجود ہیں، اردو جو ہمیں جو ڑنے کی لسانی،تہذیبی ، ثقافتی اور ادبی قوت رکھتی ہےْ
اب باوجود سپریم کورٹ کے حکم نامے کے انتظامیہ کی جانب سے اب تک اپنا حق حاصل کرنے سے قاصر ہے،اور یہ سب کچھ ہم اس وقت حاصل کرسکتے ہیں جب پارلیمنٹ اور اس میں بیٹھنے والے مضبوط اور ملک وقوم کے خیر خواہ ہوں۔
ظہیر الدین بابر ہندوستان کا پہلا مغل بادشاہ تھا جس نے 1526 ء میں ابراہیم لودھی کو شکست دیکر ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی۔ 1530 ء میں اس کا بیٹا ہمایوں تخت نشین ہوا،1539 ء میں شیر شاہ سوری نے اسے شکست دی اور وہ ایران فرار ہو گیا، 1555ء میں ہمایوں نے دوبارہ تحت حاصل کیا۔ 1556 ء میں بارہ سال کی عمر میں جلال الدین اکبر بادشاہ بنا، ہندوستان میں اشوک اعظم کے بعد دوسرا اعظم کہلا یا۔ اُس نے1605ء تک حکومت کی اور نہ صرف دفاعی طور پر ہندوستان کو مضبو ط کیا بلکہ خزانے کو لبا لب بھر دیا۔
اس وقت ہندوستان پوری دنیا کے ملکوں میں سب سے امیر ملک تھا۔ اکبر نے اتنا خزانہ جمع کیا کہ 1605 ء میں جب اس کا بیٹا سلیم الدین جہانگیر بادشاہ بنا اور1628 ء تک 23 سال عیاشی کی زندگی گزاری تو پھر بھی اتنا خزانہ تھا کہ اس کا بیٹا شاہجہاں جو انجینئر بادشاہ کہلایا وہ 1628 سے1659 ء یعنی 31 سال تک خرچ کرتا رہا۔ اس نے شالامار باغ ، مقبرہ جہانگیر اور دوسری عمارتوں کے علاوہ دنیا کی خوبصورت ترین عمارت تاج محل بنوائی۔
1659 ء میں اورنگ زیب عالمگیر بادشاہ بنا اور 1707 ء تک چھیالیس سال حکو مت کی اور پھر دہلی میں مرکز ی اور برائے نام مغلیہ حکومت 1707 سے شاہ عالم اول سے1857 میں بہادر شاہ ظفر تک قائم رہی مگر 1757 ء میں بنگال میں نواب سراج الدولہ کو اس کے غدار وزیر، میر جعفر کی غداری سے لارڈ کلائیو نے پلاسی کے میدان میں شکست دے کر یہاں مستحکم انگریز حکومت قائم کردی۔
تاریخ یہاں انگریزوں کی فتح اور ہماری شکست کے مفہو م سے ہمیں آگاہ کرتی ہے لیکن افسوس یہ تاریخ ہمارے نصاب میں نہیں پڑھائی جاتی، ہمارے چوتھے گورنر جنرل اور 1956 ء کے آئین کے نفاذ کے بعد پہلے صدر اسکندر مرزا تھے اور ان کے بیٹے ہمایوں مرزا جو عالمی سطح کے ایک بنک کے اعلیٰ عہدے سے چند برس قبل ریٹائرہوئے تو اس پر انہوں نے کتاب، فرام پلاسی ٹو پاکستان ،کے عنوان سے لکھی جس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ ان کے پڑ دادا میرجعفر تھے اور بد قسمتی سے مورخین نے ان کے کردار کو مسخ کر کے بیان کیا ہے ورنہ انہوں نے بنگال کے مسلمانوں کی بہت خدمت کی، بہر حال یہ ہمایوں مرزا کا اپنا موقف ہے مگر تاریخ، تاریخ ہے۔
اب جہاں تک تعلق ہندوستان کے پہلے انگریز فاتح، بنگال کے حکمران لارڈ کلائیو کا ہے تو یہ جنگِ پلاسی کا ہیرو تھا ۔ مگر تھوڑے عرصے بعد اس کے خلاف یہاں سے رپورٹیں لندن پہنچیں اور اُسے کرپشن کے الزامات کی بنیاد پر لندن بلوایا گیا اور مقدمہ چلا اور اُسے یہ معلوم ہو گیا کہ الزامات ثابت ہو جائیں گے ، جس کی سزا یہ ہو سکتی تھی کہ اس نے یہاں امرا سے جو بڑے بڑے تحائف لئے تھے وہ واپس کرنے پڑتے اور کچھ جرمانہ ہو تا، لیکن قوم کے سامنے شرمندگی کے احساس کی وجہ سے لارڈ کلائیونے خود کشی کر لی۔ یہ تھی وہ وجوہات جن کے سبب انگریز کامیاب ہوا۔ لیکن بات مغل بادشاہ شاہجہاں اورتاج محل کی ہو رہی تھی، تاج محل کو محبت کی نشانی اور دنیا کی خوبصورت عمارت کہا جاتا ہے، تاج محل دریا ئے جمنا کے جنوبی کنارے پر واقع ہے اس کا رقبہ 42 ایکڑ ہے اس کی تعمیر 1632 میں شروع ہوئی اور بنیادی طور
پر1643 میں مکمل ہوئی اور پھر اس پر مزید دس سال اس کی آرائش پر لگے اس طویل عرصے میں 20000 کاریگر،انجینئروں کے ایک بورڈ کی نگرانی میں کام کرتے رہے، اس زمانے میںاس کی تعمیر پر 3 کروڑ 20 لاکھ روپے لاگت آئی تھی جو آج کے 52 ارب 80 کروڑ بھارتی روپے اور 827 ملین ڈالر بنتے ہیں۔ 1983ء میں یونیسکوUNESCO نے اسے عالمی اثاثہ قرار دیا۔ تاج محل شاہجہان نے اپنی سب سے پیاری بیوی ممتاز محل کے لیے بنوایا تھا۔ ملکہ ممتاز محل سے شاہجہان کے 14 بچے پید ہوئے اور چودھویں بچے کی پیدائش کے دوران 1639میں 39 برس کی عمر میں وہ انتقال کر گئی۔
اس خوبصورت عمارت کو سالانہ 80 لاکھ سے زیادہ افراد دیکھنے آتے ہیں۔ تاج محل کو اب تک دنیا کی ہزاروں شخصیات دیکھ چکی ہیںاور بہت سوں نے اپنے تاثرات اور خیالات کا اظہار کیا ہے۔ معروف شاعر ساحر لدھیانوی کی ایک نظم تاج محل کے عنوان سے ہے جس کا مشہور شعر ہے
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لیکر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
اس کے مقابلہ میں شکیل بدایونی نے یہ شعر کہا
اک شہنشا ہ نے بنوا کے حسیں تا ج محل
ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی
کسی اور شاعر کا شعر ہے کہ
یہ الگ بات کہ شر مندہ ِ تعبیر نہ ہو
ورنہ ہر ذہن میں کچھ تاج محل ہوتے ہیں
ایران کی سابق ملکہ ثریا نے جب یہ تاج محل دیکھا تو بے اختیار بول اٹھیں ''اگر کوئی مجھ کو یہ کہے کہ تمارے مرنے کے بعد ایسا مقبرہ بنواؤں گا تو میں ابھی مرنے کو تیار ہوں۔ ملکہ برطانیہ کے حوالے سے مشہور ہے کہ اس نے کہا '' کاش یہ دریائے ٹیمز کے کنارے ہوتا''۔ ایک امریکی شخصیت نے تاج محل کو دیکھ کر کہا کہ مجھے حیرت ہے کہ یہ بغیر امریکی امداد کے کیسے تعمیر ہوا؟ سابق سوویت یونین کے صدر خرو شف نے اسے دیکھ کر کہا کہ مجھے اس محل کی دیواروں سے خون کی بوآتی ہے۔
چین کے سابق وزیر اعظم چواین لائی نے کہا کہ اگر اس محل کی جگہ کوئی درس گاہ، یونیورسٹی ہوتی تو اس سے ملک کو کتنا فائدہ پہنچتا۔ سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے کہا'' یہ شائد دنیا کی سب سے خوبصورت عمارت ہے''۔ تاج محل کے حوالے سے دنیا میں دو طرح کے لوگ ہیں ایک وہ جنہوں نے اسے دیکھا اور اس سے پیار کرتے ہیں اور دوسرے وہ جنہوں نے اس محل کو نہیں دیکھا اور اس سے پیار کرتے ہیں۔ تاج محل دیکھنے کے اعتبار سے ایک حقیقی لطیفہ یوں ہے کہ کوئی صحافی تاج محل پر رپورٹ بنا رہا تھا اس نے یہاں آنے والے درجنوں افراد سے انٹرویو لیئے آخر واپسی میں تاج محل کے باہر بیٹھے ہوئے ایک بوڑھے فقیر سے پوچھا آپ یہاں کتنے عرصے سے بیٹھتے ہیں، بھکاری بولا کو ئی چالیس سال ہو گئے ہیں، تو صحافی نے دوسرا سوال کیا، تاج محل دیکھا ؟ گداگر بولا یہی تو ہے کسی دن دیکھ لیں گے۔
تاج محل برصغیر کی وہ تاریخی عمارت ہے جو ایک زندہ گواہ کی حیثیت سے بتا رہی ہے کہ ہندوستان مغلوں کے اس دور میں دنیا کا سب سے امیر اور خوشحال خطہ تھا لیکن اس دورکے مغل حکمران لاپرواہ اور بے شعور تھے، جس زمانے میں تاج محل کی تعمیر جاری تھی اس زمانے ہی میں برطانیہ سمیت یورپ کے کئی ملکوں میں یونیورسٹیاں قائم ہو چکی تھیں۔
اسپین میں مسلمانوں کی شکست کے بعد یہاں ایک مسلمان بھی نہیں رہا تھا اور اسپین کا کو لمبس امریکہ دریافت کر چکا تھا۔شاہجہان ہی کے زمانے میں جب دارالحکومت آگر ہ سے دہلی منتقل کیا گیا تو یہاں سے ہی دنیا میں بولی اور سمجھی جانے والی دوسری بڑی زبان اردو نے جنم لیا اور زبان کی پیدائش یوں ہوئی کہ یہاں جو فوجی چھاونی قائم کی گئی تھی اسے ترک زبان کے مطابق اردو کی نسبت دی گئی یعنی لشکر گاہ اور یہاں جو فوجی تھے۔
ان میں مغلوں،افغانوں، ترکوں، ایرانیوں کے علاوہ بلوچوں، سندھیوں ،پنجا بیوں، راجپو توں، بنگالیوں، تاملوں، مرہٹوں کے علاوہ ہندووں اور ہندوستانیوں کی کئی دیگر قومیں شامل تھیں جو آپس میں بات چیت کے لیے اپنی اپنی زبانوں کے الفاظ استعمال کرتی تھیں اور یوں اردو زبان وجود میں آئی اور اردو اس لیے کہلائی کہ ایک تو یہ دارالحکومت دہلی میں ہندوستان کی سب سے بڑی اور مرکزی چھاونی ''لشکر گاہ'' میں پیدا ہوئی تھی اور دوئم یہ چونکہ بہت سی دوسری زبانوں کے الفاظ اس میں شامل تھے اور اس وقت اس زبان میں شائد اس کا اپنا کوئی بھی لفظ شامل نہیں تھا۔
اس لیے یہ زبان اردو کہلائی لیکن اسی دور میں اردوکوریختہ، ہندوستانی اور بھاشا بھی کہا گیا، اس وقت ہندوستان میں سرکاری زبان فارسی تھی اس لیے اردو کا رسم الخط بھی عربی اور فارسی ٹھہرا۔ یہ تاریخی اعتبار سے عرب ممالک، سنٹرل ایشیا، ایران اور افغانستان کا ہندوستان کے ساتھ علمی ادبی، ثقافتی، تہذیبی، تمدنی اور لسانی ملاپ تھا۔ یہ بالکل ایسا ہی تھا جیسے آپ کسی بڑے تھال میں پانی بھر کر اس کے چاروں اطراف سے مختلف رنگ ڈالیں تو یہ تمام رنگ جب آکر آپس میں ملیں تو ایک نیا رنگ بنائیں گے۔
جس میں ان تمام رنگوں کی جھلک واضح دکھائی دے گی چونکہ یہ ملاپ یہاں کی مقامی زبانوں اور خصوصاً بڑی زبانوں یعنی ہندی اور سنسکر ت سے بھی تھا اور دوسری جانب عربی اور فارسی جیسی بڑی زبانوں سے اسے ادبی اعتبار سے ادبی اصناف سمیت علمی اور فکری لحاظ سے بڑا اثاثہ ملا تھا اس لیے بہت ہی کم عرصے میں اور اس وقت جب مغلیہ حکومت زوال پذیر تھی دنیا کی اس بڑی زبان نے تیزی سے ترقی کی۔ اس زبان میں نظم کے نظیر اکبرآبادی جیسے شاعر کے علاوہ غزل کے شاعر میر درد، میر تقی میر ،آتش، مومن، ابراہیم ذوق، شیفتہ، اور پھر ہندوستان کا دماغ غالب پیدا ہوئے اور دوسری جانب مرثیہ میں انیس اور دبیر پیدا ہوئے۔ اردو جس کے مزاج میں اپنائیت اور جدت شامل ہے اس زبان نے انگریز کی آمد پر سب سے پہلے اور سب سے زیادہ انگریزی کے الفاظ بالکل انگریزی کی شکل میں یا اس میں مقامی لہجہ شامل کر کے قبول کئے۔
انگریز نے ہندوستان میں آنے کے بعد یہاں ضلعی سطح تک بہت محنت سے سماجی تحقیق کی اور ابتدا میں یہ فیصلہ کیا کہ وہ اردو ہی کو سرکاری طور پر نافذ کریں کیو نکہ یہ ہندوستان جیسے وسیع ملک اور کثیر السان خطے کی سب سے بڑی زبان تھی تو ساتھ ساتھ اس کا پھیلاؤ سنٹرل ایشیا، ایران، افغانستان اور عرب دنیا تک تھا، اس لیے انگریزوں نے شروع میں فورٹ ولیم کالج کلکتہ اور دہلی کالج کھولے، فورٹ ولیم کالج میں تو انگریزی سے اردو میں اور اردو سے انگریزی تراجم کا کافی کام بھی ہوا، اسی کالج سے غالب کو بطور پروفیسر ملازمت کی پیشکش بھی ہو ئی تھی۔
شائد انگریز اگر ہندوستان سے علامتی مغل باد شاہت کے خاتمے کا اعلان نہ کرتے تو علامتی سماجی تہذیبی حسن اور شائستگی کے ساتھ تاج محل،اردو اور غالب کا عالمی سطح کا حسین امتزاج نہ ٹوٹتا اور آج کے The Clash of Civilizations and Remaking of World Order تہذیبوں کا تصادم لکھنے والا Samuel P Huntington تہذیبوں کی ہم آہنگی اور ان کے تسلسل کے عنوان سے لکھ رہا ہوتا ۔ مئی 1857 وہ دور ہے جب برصغیر کی متنوع اور ہم آہنگ تہذیب میں دراڑیں پڑ گئیں۔ جنگ آزادی جس کو انگریز نے غدر کا نام دیا تھا اس میں اگر چہ غالب زندہ تھا مگر اس کی اور اس کے ہندوستان کی زندگی اس کے خطوط کے آنسووں میں جھلکتی ہے۔
اگر چہ اس دور میں اردو نے زبردست ترقی کی، اس دور میں سر سید احمد خان، ان کے رفقائے کار میں شبلی، حالی، نذیر احمد،آزاد، نواب وقار الملک بھی شامل تھے تو دوسری طرف غالب اپنے عہد کے شعرا کے ساتھ ان سے وقت کے ذرا فاصلے پر داغ دہلوی تھے اور اس عہد میں اردو نے مغربی ادبی اصناف کو بھی اپنایا اور اتنے معیا ری انداز سے اپنایا کہ اردو ادب انگریزی ادب کے سامنے جرات سے کھڑا ہوگیا، اور یہیں سے ہندوستان کے ہندووں کی اردو سے دشمنی شروع ہو گئی۔
اب اردو ہندی تنازعہ شروع ہوا اور بعد کے دنوںمیں پنڈت موتی لال نہرو پھر ان کے فرزند جواہر لال نہرو اور موہن داس گاندھی سب ہی اردو کے خلاف ہوئے اور ہندی رسم الخط نے وہ تمام رشتے کاٹ ڈالے جو ہندوستان کو سنٹرل ایشیا، عرب ممالک، مشرق وسطیٰ، ایران اور افغانستان سے ملاتے تھے۔ آج سعودی عرب دبئی اور بہت سے ملکوں میں اردو عام بولی جاتی ہے لیکن وہاں کے عربی بولنے والوںکے لیے یہ حیرت کی بات ہے کہ جب پاکستانی اور بھارتی آپس میں بات چیت جس زبان میں کرتے ہیں جب اسی زبان کو الگ الگ رسم الخط میں لکھتے ہیں تو ایک دوسرے کی زبان کو پڑھ نہیں سکتے۔
البتہ یہ ضرور ہے کہ جب بھارتی کسی عرب سے ہندی بولتا ہے تو عربی کو سمجھنے میں دشواری ہوتی ہے کیونکہ بھارت نے آزادی کے بعد عربی، ایرانی، افغانی یا سنٹرل ایشیا سے تعلق رکھنے والی زبانوں کے مقابلے میں ہندی کے الفاظ جان بوجھ کر شامل کئے ہیں اس نکتے کو سمجھتے ہوئے بھارتی فلم انڈسٹری کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ فلم میں بولی جانے والی اردو ہی کو بنیا د بنائے تاکہ اس انڈ سٹری کو نقصا ن ہو، لیکن ابھی اردو کے ایک بار پھر ابھر نے کے روشن امکانات ہیں اور وہ یہ ہیںکہ جب سی پیک منصوبے پر، پُرامن انداز میں بھارت گفتگو کو سمجھ جائے گا تو اردو کی ایک بار پھر ضروت ہوگی۔
سی پیک پاکستان سے ہوتا ہوا سینٹرل ایشیا، افغانستان، ایران، مشرق وسطیٰ تک جائے گا۔ بد قسمتی سے پاکستان میں بھی بعض لو گوں نے اردو زبان کی مخالفت کی حالانکہ یہ زبان ہندوستان کے کسی نسلی قومی گروپ یا کسی قوم کی زبان نہیں۔ شاہجہان کے دور کو ساڑھے تین سو سال سے کچھ زیادہ عرصہ گزرا ہے اس سے پہلے ہندوستان کے کسی علاقے اور کسی قوم یا قومیت کی زبان اردو نہیں تھی جب کہ ہمارے ہاں بلوچی، پشتو اور سندھی زبانیں قومیتوں کی بنیاد پر تقریباً پانچ ہزار سال سے بلوچی، سندھی اور پشتو زبانوں کے طور پر موجود ہیں۔
بہر حال رشید احمد صدیقی کا یہ شاہکار جملہ کہ مغلیہ دور نے ہندوستان کو تاج محل،اردو اور غالب دیا بہت وسعت رکھتا ہے جس کی تشریح میں کتابیں کی کتابیں لکھی جاتی رہیںگی۔ انگریزوں کے عہد کے اعتبار سے میرا موقف ہے کہ انگر یز نے ہندوستان کو سر سید احمد خان ،ریلوے اور پارلیمانی نظام دیا۔ 1857ء میں انگریز کی حکومت دہلی سمیت برصغیر کے خاصے وسیع رقبے پر مشتمل تھی جہاں تک مغلیہ بادشاہت کا تعلق تھا تووہ عرصے سے برائے نام یا علامتی طور پر لال قلعہ میں موجود تھی اور مرہٹوں کے دور کے بعد عرصے سے انگریز سر کار کے وظیفے پر چل رہی تھی۔
انگر یز کی وجہ سے جنگ ہوئی اور اس کے بعد جب سر سید احمد خان نے محسوس کیا کہ اب انگریز اور انگریزی زبان سے مفاہمت کے بغیر کوئی چارہ نہیں کیونکہ انگریزی زبان ہی جدید علوم اور اس کے نتیجے میں ہو نے والی صنعتی،اقتصادی، سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کی کنجی تھی، یوں سرسید احمد خان اگرچہ ہمارے قومی رہنما ہیں مگر وہ یہاں انگریز ردعمل کے نتیجے میں ہی سامنے آئے، انگریز کی آمد سے پہلے ہندوستان میں زندگی کا ہر شعبہ روایتی انداز سے چل رہا تھا نہ یہاں جدید کارخانے تھے نہ مرکزی بنکنگ سسٹم تھا نہ اسٹاک ایکسچینج تھا نہ ہی بحری، بری اور بعد میں فضائی افواج اور ان کے مختلف اور مخصوس شعبوں کا کوئی تصور تھا۔
انگریز نے اگر چہ آتے ہی یہاں کے جاگیردارنہ نظام کو استعمال کیا مگر ساتھ ہی چونکہ وہ تجارتی مقاصد لے کر یہاں آیا تھا اس لیے جلد ہی اس نے کلکتہ، بمبئی،کراچی کے علاوہ کئی چھوٹے بڑے شہروں کی بنیاد رکھی اور دہلی،لاہور،آگرہ اور ایسے اہم اور پرانے شہروںکو بھی صنعتی و تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہو ئے کشادہ کیا۔ 1825 میںجارج اسٹیفن نے برطانیہ میںاسٹاکن سے ڈرلنگٹن تک 38 میل ریلوے لائن پر 90 ٹن وزنی اسٹیم انجن سے21 ویگنوں اور ایک کوچ کی ٹرین چلانے کا کامیاب مظاہرہ کیا تھا۔ اس کے بعد 1830ء میں برطانیہ میں لیورپول سے مانچسٹر تک باقاعدہ ریلوے سروس شروع ہو گئی تھی۔ امریکہ کی خانہ جنگی ہوئی تو امریکہ اور فرانس نے بھی جنگ میں ریلو ے کی اہمیت کو سمجھ لیا تھا۔
1861 تک آج کے پاکستانی علاقے میں بھی کراچی تا کوٹری ٹرین چلادی گئی تھی اور اس کے چند سال بعد ریلو ے کا جال پو رے برصغیر میں بچھا دیا گیا۔ آج ذرا تصور کریں جب یہاں ریلوے نہیں تھی تو یہاں لوگ یا تو اونٹوں اور گھوڑوں کے ساتھ قافلوں میں سفر کرتے تھے یا دریاؤں سے کشتیوں کے ذریعے سفر کرتے تھے انگریزوں نے یہاں ریلوے کو متعارف کروا کر اس سماج میں ایک انقلابی تبدیلی پیدا کی۔ سفر کی اس سہو لت اور جدت سے ہندوستان کے لوگوں نے خود اپنی زندگی میں پورا ہندستان دیکھنے کا خواب پورا کیا۔ چین کی طرح ہندوستان بھی رقبے اور آبادی کے اعتبار سے ایک بڑ ا ملک رہا ہے۔ ان دونوں ملکوں میں قدر مشترک یہ بھی رہی ہے کہ ان دونوں ملکوں سے کو ئی فاتح دنیا کے دوسرے ملکوں کو فتح کرنے نہیں نکلا ۔
البتہ یہ ضرور ہے کہ ان دونوں ملکوں کو فاتحین نے فتح کیا اور دونوں ملکوں میں مغل یا منگول بھی فا تح ہو ئے اور ان کے بعد انگریز بھی یہاں حکمران ہو ئے لیکن چین ہندوستان سے یوں مختلف رہا کہ اس کے ماضی میں اس کے اپنے حکمرانوں نے علم و تحقیق میں کمال حاصل کیا اور دنیا کو کاغذ اور ریشم کی ایجاد اور دریافت کے علاوہ اعلیٰ بیورو کریسی سسٹم، بارود کا استعمال اور بہت کچھ دیا۔ برطانیہ کی وسیع رقبے پر پھیلی نو آبادیات میں غالباً چین ہی ایک ایسا ملک ہے جس نے مسلح جدوجہد کی اور انقلاب کے بعد آزادی حاصل کی اور چونکہ اس کے ماضی کی تابناک روایت موجود تھی۔
جس میں ان کی مستقل مزاجی کو بنیادی اہمیت حاصل تھی جس کی مثال ان کے پاس دیوار چین کی صورت میں مو جود تھی اور پھر دوسری مثال موزے تنگ نے لانگ مارچ کی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کردی، لیکن اس کے مقابلے میں ہندوستان میں بھی انگریز وں کے مقابلے میں مقامی آبادی کئی سو گنا زیادہ تھی۔ یہ برطانیہ سے لڑ کر آزادی حاصل نہ کر سکے۔ 1857 کی کوشش خود ہندوستان کی انگریزی فوج کے مقامی سپاہیوں نے اپنے ہم وطنوں پر گولیاں چلا کر ناکام بنا دی۔
اس کے بعد ہندوستان سے بھر تی ہو نے والی انگریزی فوج جس کے لیے انگریز کے وفادار جاگیردار اپنے علاقوں سے فوجی بھرتی کرواتے تھے یہ لاکھوں کی تعداد کی ہندوستانی فوج ہی افغانستان کے خلاف 1839 کی پہلی برٹش افغان جنگ 1878 کی دوسری برٹش افغان جنگ اور1919 کی تیسری برٹش افغان جنگ میں بھی افغانستان کے خلاف لڑتی رہی تو اس کے ساتھ برطانوی ہندوستان میں جہاں کہیں انگریز سرکار کے خلاف بغاوت ہوئی یا انگریز نے کسی ریاست کو فتح کیا اس میں ہندوستانی فوج کی تعداد انگریزوں کے مقابلے میں 95% تک رہی۔ اور یہ بڑی تلخ حقیقت ہے کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں ہندوستان ہی سے سب سے بڑی تعداد میں انگریز کو مقامی فوج میسر تھی۔
یہی وجہ تھی کہ انگریزوں نے پہلی جنگ عظیم سے پہلے ہی نہ صرف پورے ہندوستان میں بہت بڑی بڑی فوجی چھاؤنیاں، جنگی فضائی اڈے، اور ساحلوں پر بہترین نیوی افواج کا انتظام کر رکھا تھا اور ان میں سپاہیوں کی سطح پر سو فیصد مقامی ہندوستانی تھے۔ یہاں پر مقامی آبادی خصوصاً جاگیردارانہ نظام پر اسے اتنا اعتماد تھا کہ انگریز نے شہری علاقوں میں فوجی افسران کی تربیت کے اعلیٰ اور معیاری کالج قائم کئے تھے اور اسی طرح برطانیہ سے باہر ہندوستان ہی وہ ملک تھا جہاں انگریز نے بڑی بڑی اسلحہ ساز فیکٹریاں قائم کی تھیں، اگر چہ انگر یز کو پورے ہندوستان میں وفادار جاگیرداروں پر پورا پورا اعتماد تھا مگر انگریز دنیا کی وہ قوم ہے جو اپنی پالیسیاں اور منصوبے آئندہ سو سال کے لیے بناتے ہیں، وہ منصوبہ بندی جذباتیت سے ہٹ کر مکمل حقیقت پسندی کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ امریکہ کی آزادی پر برطانیہ نے جارحیت اختیار نہیں کی بلکہ خوبصورت انداز میں مفاہمت کو اپنایا جس کا بے پناہ فائد ہ اسے آج تک حاصل ہے۔
برصغیر سے جب انگریز نے جانے کا فیصلہ کیا تو اس وقت ہندوستان میں مرد اور جوان انگریزوں کی کل تعداد ایک لاکھ تھی جب کہ غیر تقسیم شدہ ہندوستان کی کل آبادی چالیس کروڑ سے زیادہ ہو چکی تھی ۔
مگر انگریز نے برصغیر میں آتے ہی ایک جانب اپنی حکومت کو مستحکم کرنے اور اقتدار کی مدت میں اضافہ کرنے کی حقیقت پسندانہ حکمت عملی اور منصوبہ بند ی کر لی تھی، دوسری جانب جاگیر داوروں کا تعاون بلکہ پورری وفاداری ان کو حاصل تھی مگر تجارت کی غرض سے آنے والے انگریز نے صنعت و تجارت کے استحکام اور تسلسل کو جاری رکھنے کے لیے یہاں سماجی سطح پر مقامی آبادی کو جہاں سرکاری ملازمتوں کے ذریعے انتظامی طور پر نچلے اور بعض جگہوں پر درمیانے درجے پر شامل کیا وہاں آغاز میں سیاسی طور پر اور بنیادی جمہوری انداز سے ہندوستان کے پنچایتی نظام کو بتدریج بلدیاتی نظام میں ڈھالنا شروع کیا۔
اس کے ابتدائی مراحل میںکچھ اراکین نامزد ہوا کرتے تھے اور کچھ کا انتخاب مقامی کمیونٹی کی سطح پر ہوتا تھا،اس کے بعد جب ہندوستان میں انگریزی تعلیم کا رواج عام ہوا اور یہاں سے اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھنے والے برطانیہ جا کر تعلیم حاصل کرنے لگے اور وہاں کی جمہوریت، آئین اور عدالتی نظام سے واقف ہو گئے تو یہاں بھی برطانوی طرز کا نظام نافذالعمل ہو گیا۔
جنگ عظیم اول سے قبل انگریز نے یہاں لیجسلیٹو کونسل قائم کردی تھی ا ور اس میں یہاں پر ایک خاص تناسب سے انگریز سرکار کی جانب سے اراکین نامزد کئے جاتے تھے اور باقی کا انتخاب ہوتا تھا۔ جنگ عظیم اول سے قبل قائداعظم سمیت بہت سے ایسے تھے جو آئین و قانون اور ا ن کے تحت جمہوری حکومت اور پارلیمانی امور کو بہت بہتر طور پر سمجھتے تھے، بلکہ انگریزوں سے زیادہ اچھے طریقے سے یوں سمجھتے تھے کہ وہ ہندوستان کے سماج کی پیداوار تھے اور اس سماج کو زیادہ اچھی طرح سمجھتے اور جانتے تھے، پہلی جنگ ِ عظیم دنیا کی ایک بڑی تبد یلی تھی، اس میں روس جیسے دنیا کے سب سے وسیع رقبے کے ملک میںجنگ سے ایک سال پہلے اشتراکی انقلاب کے بعد زار شاہی بادشاہت ختم ہو گئی۔
ترکی کی سلطنت عثمانیہ بھی جنگ کے اختتام پر بکھر گئی اور اگرچہ برطانیہ کی نوآبادیا ت کا رقبہ دنیا کے کل رقبے کا 24% اور دنیا کی آبادی کا 25% ہو گیا مگر اب برطانیہ دنیا کی سپر پاور نہیں رہا اور اس کی جگہ یہ پو زیشن امریکہ نے لے لی۔ یہاں ہندوستان میں اس جنگ سے دو سال قبل 1916ء میں کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان میثاق لکھنو کے عنوان سے ایک معاہدہ ہوا جس میں کانگریس نے جداگانہ طریقہ انتخابات، مسلمانوں سے متعلق قانون سازی اور مسلمانوں کی آبادی کے تنا سب سے سرکاری ملا زمتوں کے کو ٹے جیسے امور طے کر لئے تھے، یہ معاہدہ میثاق لکھنو کہلایا تھا، یہ ایک ایسا فارمولہ تھا ۔
جس کے تحت ہندوستان میں مسلمان جو دوسری بڑی اکثریت تھے ان کو ان کے تناسب کے اعتبار سے حقوق مل جاتے تھے اور آنے والے دنوں میں جب انگریز نے ہندوستان میں پارلیمانی جمہوریت کے تحت اختیارات مرحلہ وار مقامی طور پر دینے تھے یعنی پارلیمانی نظام کو بتدریج آگے بڑھاتے ہوئے اس میں مقامی آبادی کو شامل کرکے اختیارات اور حکمرانی کا جمہوری حق یا حقوق دینے کے عملی مراحل شروع ہو رہے تھے تو کانگریس نے میثاق لکھنو سے بغیر کسی بات چیت یا دلائل کے انکار کردیا۔ 1928ء میں جب برصغیر میں مرحلہ وار پارلیمانی جمہوریت کو یہاں نافذکرنے کے لیے ایک باقائدہ قانون ''آئین ،، کی تشکیل کے لیے برطانوی پارلیمنٹ میں کام شروع ہو چکا تھا اور انگریز پارلیمنٹیرین ہندوستان کے سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کے اہم لیڈروں سے رابطے کر رہے تھے،کہ پنڈت موتی لال نہرو نے اپنی مشہور زمانہ نہرو رپورٹ جاری کردی، اس رپورٹ سے میثاق لکھنو میں تسلیم شدہ وہ تمام نکات جو ہندوستان کے مسلمانوں کے آئینی تحفظ کے تھے وہ یک جنبشِ قلم ختم ہو گئے۔
مسلمان ہندوستان کی اقلیت نہیں بلکہ اس بڑے ملک کی بڑی آبادی کی دوسری اکثریت تھے۔ قائداعظم جیسے زیرک سیاستدان نے1916 کے میثاق لکھنو میں مشترکہ ہندوستان کی آزادی کو جلد اور یقینی بنادیا تھا، اور اس کے ساتھ ساتھ ہندو مسلم اتحاد کو حقیقی اور فطری تقاضوں کے عین مطابق کردیا تھا۔ یہ مشترکہ ہندوستان میں پارلیمانی جمہوریت کا میگناکارٹا تھا، اور اس میں مسلمانوں کے حقوق اور تشخص کی ضمانت کی بنیادی پر ہمیشہ کے لیے ہندو مسلم تنازعات کوطے کرلیا گیا تھا، 1929ء میں قائد اعظم نے اپنے مشہور چودہ نکات میں ایک مرتبہ پھر ہندواکثریت کو یہ سمجھانے کی کو شش کی کہ برطانیہ اور ہندوستان میں سماجی، تہذیبی، تمدنی، مذہبی، تاریخی ، نسلی، لسانی، اعتبار سے بہت فرق ہے یہاں معاشرے کے ہر شعبے میں تنوع ہے۔
اس تنوع کو معاشرتی حسن دینے کے لیے ضروری ہے تضاد کی کاٹ اور تصادم کے امکانات کو رابطے اور اتحاد کی مفاہمت دے دی جائے۔ قائد اعظم جہاں مغربی جمہوریت،آئین اور قانون کی گہرائیوں سے واقف تھے وہاں بطور ایک ماہر سوشیالوجسٹ یعنی ماہر سماجی علوم ہندوستا ن کے سماجی مسائل کو پارلیمانی جمہوریت سے متوازن اور ہم آہنگ کرتے ہوئے ان کو حل کرنے کا فکری اور عملی ہنر جانتے تھے۔
برطانیہ میں 95% ایک قوم، ایک نسل اور مذہب اور فرقہ کے لوگ ہیں اس لیے وہاں اکثریت کی بنیاد پر تمام مسائل پر قانون سازی بہترین جمہوری عمل ہے لیکن وہاں جمہوریت میں اتنی بالغ النظری ہے کہ وہ اقلیتی تارکین وطن کے مذہبی اور ثقافتی حقوق کی ضمانت دیتے ہیں، ہندوستان اُس وقت چالیس کروڑ آبادی کا بڑا ملک تھا جس میں تقریبا37% یعنی دوسری بڑی اکثریت مسلمان ہے لیکن یہاں قانونی اور آئینی طور پر پہلی بڑی اکثریت ہندو برطانیہ کی جیسی جمہوریت سے برسراقتدار آجاتی ہے تو مستقبل میں تسلسل کے ساتھ اس کے ہو لناک نتائج سامنے آئیں گے۔
اور یہ قائد اعظم کے چودہ نکات کی بڑی حد تک کامیابی تھی کہ جب 1935 کا قانونِ ہند آیا تو اس میں خیبر پختونخوا میں سیاسی اصلاحات اور سندھ کو بمبئی سے الگ کرکے صوبہ بنادیا گیا اور جداگانہ طریقہ انتخاب کو بھی رائج کیا گیا۔ اگرچہ اس قانون یا آئین کے تحت جب پہلی مرتبہ ہندوستان کے گیا رہ صوبوں میں انتخابات کروائے گئے تو مسلم لیگ کو بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا،انتخابات میں کامیابی پر کانگریس نے 9 صوبوں میں خود حکومت بنائی اور 2 صوبوں مسلم کی بجائے وہاں کی مقامی جماعتوں کے ساتھ مخلوط حکومتیں تشکیل دی گئیں۔
یہ طویل ترین مدت کے بعد ہندوستان میں ہندو حکومت کا تجربہ تھا اور اگر چہ اس کی بنیاد پارلیمانی جمہوریت تھی مگر کانگریس کی صوبائی حکومتوں نے ایسے اینٹی مسلم اقدامات کئے کہ جن مسلمانوں کی اکثریت نے ان کو ووٹ دیئے تھے اب ان کے پاس پچھتاوے کے علاوہ کچھ نہ تھا اور جب 1937 کے انتخابات کے بعد بننے والی کانگریس کی وزارتوں نے 1939ء میں دوسری جنگ عظیم کے شروع ہونے پر انگریز وں پر دباؤ ڈالا کہ انگریز کانگریس سے یہ وعدہ کرے کہ جنگ کے بعد ہندوستان کو وہ کانگریس کے حوالے کر کے رخصت ہو جائے گا۔
ایسا نہ کرنے پر کانگریس نے دباؤ کی شدت میں اضافہ کرتے ہو ئے صوبائی حکومتوں سے استعفے دے دیئے، پارلیمانی جمہوریت کا یہ تجربہ ہندوستان میں اگرچہ صوبائی سطح کا تھا لیکن اس سے مسلمانوں نے بہت کچھ سیکھا۔دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد 1945-46 کے موسم سرما میںاسی قانون ہند 1935 کے تحت مشترکہ ہندوستان کے آخری انتخابات ہوئے اور اس میںجدا گانہ طریقہ انتخاب کی بنیاد پر مسلم لیگ نے مرکزی اسمبلی کی مسلم نشستوں پر 100% اور صوبوں میں مسلم نشستوں پر 90% کامیابی حاصل کی اور پھر انہی نتائج کی بنیادوں پر پاکستان قائم ہوا۔
یوں جنگِ آزادی 1857سے یوم آزادی 14 اگست1947 تک 90 سال کا سفر اور اب اگست 2018 تک آزادی کی منزل کے حصول کے بعد استحکام کی جانب ہم 71 برس سے گامزن ہیں، جہاں تک تعلق مغلیہ عہد کے تاج محل، غالب اور اردو کا ہے تو تاج محل ایک عالمی شہرت کی خوبصورت عمارت ہے جو اپنی بے پناہ خوبصورتی کے ساتھ اُس وقت کے مغلیہ عہد کے سماجی سیاسی شعور کا رونا بھی روتی دکھائی دیتی ہے اور ماضی کے ہندو ستان کی خو شحالی کی عکاس بھی ہے۔ غالب ہندوستان کا دماغ ہے، اردو اور فارسی شاعری کے ذریعے آج بھی دنیا بھر میں اپنی کرنیں بکھیر رہا ہے، اب جہاں تک اردو کا ہے تو اس کو بارہا قتل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ہر بار زخمی ہوئی اور کراہتی رہی ہے ۔ بد قسمتی سے آج جب میڈیا نے ملک میں آزادی کے ساتھ خاصی ترقی کی ہے تو اس کے زخم زیادہ تا زہ اور گہرے نظر آتے ہیں۔
اب انگریزوں کے عہد کی طرف آتے ہیں جس نے ہندوستان کو ریلوے، سرسید احمد خان اور جمہوری پارلیمانی نظام دیا، پہلے ریلوے کی جانب آتے ہیں تو 1961-62 میں جب ہمارے ہاں ریلوے کو سو سال مکمل ہو چکے تھے تو ہم نے لاہور سے خانیوال تک الیکٹرک ٹرینیں چلا دی تھیں اور اس وقت ایران میں زاہدان تک پاکستان ریلوے تھی اور اندرون ایران ریلو ے نیٹ ورک نہیں تھا۔
آج پاکستا ن کی سرحد سے ترکی کی سرحد تک بہترین معیار کا ایرانی ریلوے نیٹ ورک موجود ہے ، افغانستان جہاں ریلوے کا کوئی تصور نہیں تھا اب اس ملک میں تقریبا 2500 کلومیٹر معیاری ریلوے ٹریک امن وامان کی انتہائی خراب صورتحال کے باوجود تعمیر ہو چکا ہے اور اس پر ریلوے سروس بھی شروع ہو چکی ہے، بھارت میں اس وقت دنیا کا چوتھا بڑا نیٹ ورک مو جود ہے یہاں ریلوے لائنوں کی مجموعی لمبائی 115000 کلومیٹر ہے، آسٹریلیا کی پوری آبادی سے زیادہ یعنی روزانہ 2 کروڑ 30 لاکھ افراد سفر کرتے ہیں، 7172 اسٹیشن ہیں، 12617 ٹرینیں چلتی ہیں۔
7421 روٹ ہیں، 30 ملین ٹن سامان یو میہ ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچا یا جاتا ہے، گذشتہ 62 برسوں میں بھارت نے اپنے ہاں ریلوے لائنوں کی لمبائی میں 11004 کلو میٹر کا اضافہ کیا ہے، یہاں مختصراً عرض ہے کہ ہمارے ہاں 1962 کے مقابلے میں آج ریلوے لائنوں کی مجموعی لمبائی، ٹرینوں اور ریلوے اسٹیشنوں کی تعداد میں اضافے کی بجائے کمی واقع ہو ئی ہے اور اسی طرح سروس کا معیار بھی پست ہوا ہے۔
سر سید احمد خان کی علمی تعلیمی تحریک کے اعتبار سے دیکھیں جو انگریز اور ہندو اتحاد کے ردعمل کے نتیجے میں سامنے آئی تھی اور قیام پاکستان کے فورا بعد ملک میں تعلیمی ترقی کی جانب تو جہ بھی دی گئی تھی، آج صورتحال یہ ہے کہ پاکستان جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک اور ایٹمی قوت ہونے کے اعتبار سے دنیا کی ساتویں طاقت ہے، دنیا میں معیار کے اعتبار سے 500 یونیورسٹیو ں میں اس کی کوئی ایک یو نیورسٹی شامل نہیں، ڈاکٹر عبدالسلام کے بعد کسی پاکستانی نے اعلیٰ تعلیم وتحقیق میں کو ئی نوبل انعام حاصل نہیں کیا، ملک کی 22 کروڑ کی آبادی میں سے 8کروڑ 30 لاکھ افراد ان پڑھ ہیں اور تقریبا ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔
اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ سرسید احمد خان ہمارے نصاب میں تو شامل ہیں مگر ہماری قومی تعلیمی پالیسیوں اور منصوبہ بندیوں میں سر سید احمد خان کی علمی و تعلیمی تحریک کی روح نہیں۔ جہاں تک تعلق پارلیمانی جمہوریت کا ہے تو قائد اعظم نے جس انداز سے اس جمہوریت کو برصغیر کی سماجی ساخت سے مطابقت دے کر نہایت کامیاب فارمولہ دینے کر کوشش کی تھی کہ ہندوستان متحد رہے، جس کو کانگریس نے منفی سیاست سے مسترد کردیا تھا، اس کے بعد 18 جولائی 1947 کے قانون آزادیِ ہند کی ان شقوں جن کو پنڈت جواہر لال نہرو نے نہ صرف تسلیم کیا تھا بلکہ لارڈ ماوئنٹ بیٹن ہی کو بھارت کا پہلا گورنر جنرل بنایا، ان شقوں کو 1935 کے قانون میں شامل کیا گیا تھا۔
ان شقوں میں آزادی کے بعد پہلے سال دونوں ملکوں بھارت اور پاکستان کی حیثیت نوآبادیات کی تھی اور ضرورت کے لیے اگرکوئی ترمیم کرنی ہوئی تو وہ گورنر جنرل ہی کرے گا۔ دونوں ملکوں کی پارلیمنٹ کو ترمیم کا حق نہیں تھا۔ ہمارے ہاں اگرچہ ہمارے گورنرجنرل قائد اعظم اور لیاقت علی وزیر اعظم تھے مگر ہمارا آرمی چیف انگریز تھا اور اس کا نتیجہ کشمیر جنگ پر انکاراور فوجی اثاثوں کی غیر منصفانہ تقسیم پر مفاہمت جیسے اقدامات تھے، پھر قائد اعظم آزادی کے بعد ایک سال انتیس دن زندہ رہے اس کے بعد لیاقت علی خان کی شہادت تک بھی ملک میں جمہوریت کی بقا رہی، اس کے بعد جب جمہوریت کی بحالی ہوئی تو 1971 میں ملک دو لخت ہو گیا اور بد قسمتی سے پارلیمانی جمہوریت ہمارے ہاںمستحکم نہ ہو سکی۔
اس کی بنیادی وجہ ہمارے معاشرے میں سماجی شعور کی کمی متوسط طبقے کا حجم یا سائز کا تناسب کم ہونا ہے، دیہی آبادی کا زیادہ تنا سب اور جاگیردارانہ نظام ، شہروں میںسرمایہ دارانہ گرفت کا مضبوط ہونا، جمہوری تسلسل کا جاری نہ رہنا اور وقفے وقفے سے مارشل لاء یا فوجی حکومتوں کا آتے رہنا ہے، اور آج جب 25 جولائی2018 کے عام انتخابات کے بعد ایک نئی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف بر سر اقتدار آئی ہے اور عمران خان وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں تو مغلیہ عہد کا تاج محل تو ہمارے پاس نہیں ہے مگر عبرت اور سبق سیکھنے کے لیے سیاست سے وابستہ امرا و اشرافیہ کی بہت سی عمارتیں اور نقصان کے حامل کئی منصوبے موجود ہیں، اردو جو ہمیں جو ڑنے کی لسانی،تہذیبی ، ثقافتی اور ادبی قوت رکھتی ہےْ
اب باوجود سپریم کورٹ کے حکم نامے کے انتظامیہ کی جانب سے اب تک اپنا حق حاصل کرنے سے قاصر ہے،اور یہ سب کچھ ہم اس وقت حاصل کرسکتے ہیں جب پارلیمنٹ اور اس میں بیٹھنے والے مضبوط اور ملک وقوم کے خیر خواہ ہوں۔