تعلیم اور ہماری نئی نسل

اس وقت ملک میں سوا دو کروڑ بچے ایسے ہیں جو تعلیم حاصل نہیں کررہے۔

اس وقت ملک میں سوا دو کروڑ بچے ایسے ہیں جو تعلیم حاصل نہیں کررہے۔ فوٹو : فائل

اس حقیقت سے ہم سب بخوبی آگاہ ہیں اور ہر موقعے پر جہاں ضرورت ہوتی ہے، اس کا اظہار بھی کسی تکلف اور تأمل کے بغیر کرتے رہتے ہیں- یہ کہ کسی بھی قوم کی ترقی، خوش حالی، استحکام اور بقا کا انحصار بہت حد تک اُس کی نسلِ نو پر ہوتا ہے۔

اب کہنے کو تو یہ بات ہم ضرور کہہ دیتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ہم اُس بات کی معنویت اور حقیقت سے بھی باخبر ہیں جو ہم اکثر اپنی زبان سے ادا کرتے رہتے ہیں؟ ممکن ہے کہ یہ سوال کچھ لوگوں کو ناگوار گزرے۔ اس لیے کہ یہ اس رائے کو جس کا اظہار ہم سبھی اکثر پورے یقین سے کرتے رہتے ہیں، شک کی نگاہ سے دیکھنے کی ضرورت پیدا کررہا ہے۔ تو چلیے کوئی مضائقہ نہیں، سرِدست ہم ذرا اسی مسئلے کو دیکھ لیتے ہیں۔ امید ہے، اس کے بعد کی گفتگو قدرے واضح اور سہل ہوجائے گی۔

افراد ہوں یا اقوام، ان کے زندہ ہونے کا ایک ثبوت ہمیں اس بات سے بھی ملتا ہے کہ وہ خود احتسابی کے عمل سے باربار گزرتے ہیں۔ خاص طور پر اُن معاملات میں یہ صورتِ حال زیادہ سامنے آتی ہے جو اُن کی بقا، استحکام اور ترقی سے تعلق رکھتے ہیں۔ یعنی وہ شعبے، ادارے، مناصب اور ان پر فائز افراد مسلسل ان نظروں کی زد میں رہتے ہیں جو نگرانی، نکتہ چینی یا چھان پھٹک کے لیے ان پر ٹھہری ہوئی ہوتی ہیں، یا اس مقصد کے لیے رہ رہ کر ان کی طرف لوٹتی ہیں۔ اس لیے سمجھ لینا چاہیے کہ خوداحتسابی دراصل بقا اور ارتقا کے ضمن میں لازمی اور اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ کام رُک جائے تو فرد یا قوم کے انحطاط کا عمل شروع ہوجاتا ہے جو اُس کے مکمل طور پر زوال کا شکار ہونے کی راہ تیزی سے ہموار کرتا چلا جاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ خوداحتسابی کا عمل آخر رکتا کس وجہ سے ہے؟ دیکھا گیا ہے کہ یہ عمل عام طور سے اُس وقت رُک جاتا ہے جب فرد، ادارہ، معاشرہ یا قوم یہ سمجھنے لگتی ہے کہ وہ ترقی اور کامیابی کے اس مرحلے پر ہے کہ اس سے آگے سر کرنے کے لیے اُس کے لیے اب اور کوئی منزل ہی نہیں ہے یا پھر اُس وقت جب وہ اپنے انحطاط کو محسوس تو کرے، لیکن اس کا خیال ہو کہ اب اس عمل کو روکنا ممکن نہیں ہے۔ گویا بلندی اور عظمت کی خوش فہمی اور زوال آمادگی کی پیدا کردہ مایوسی، دونوں ہی صورتیں خوداحتسابی کی راہ میں حائل ہوتی ہیں۔ چناںچہ ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ ان دونوں مواقع پر زیادہ خود آگہی کا ثبوت دیا جائے اور خوداحتسابی کے عمل کو حرکت آشنا رکھا جائے۔

عمران خان نے بحیثیت وزیراعظم قوم سے اپنے پہلے خطاب میں جن معاملات پر توجہ دی اور جن مسائل کی بطور خاص نشان دہی کی اُن میں ایک مسئلہ نئی نسل کی تعلیم کا بھی ہے۔ وزیرِاعظم نے کہا کہ اس وقت ملک میں سوا دو کروڑ بچے ایسے ہیں جو تعلیم حاصل نہیں کررہے۔ انھوں نے ملک و قوم کے سب نونہالوں کی تعلیم کے بندوبست کی خواہش کا اظہار کیا۔ یقیناً یہ بیان اور یہ ارادہ خوش آئند ہے۔ وجوہات کچھ اور بھی ہوں گی، لیکن یہ سوا دو کروڑ بچے عام طور سے اس لیے تعلیم حاصل نہیں کررہے کہ اُن وسائل سے محروم ہیں جو تعلیم کے حصول کے لیے درکار ہیں۔ گویا کم و بیش یا سب بچے اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ ان کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام ہی آسان نہیں ہے، سو تعلیم جیسی ''آسائش'' کا بھلا کیا سوال۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ان بچوں کی تعلیم کے انتظام سے پہلے ضروری ہے کہ ان کے لیے کھانے کا بندوبست کیا جائے۔ اس لیے کہ ان میں سے اکثر بچے چھے سات برس کی عمر سے ہی گھر کی روٹی کے لیے ماں باپ کا ہاتھ بٹانے لگتے ہیں۔ گلی محلے کے چائے خانوں، ٹھیلے پر سامان بیچنے والوں، سبزی فروشوں، میکینک کی ورکشاپ اور گھروں میں چھوٹے موٹے کاموں اور ایسی ہی دوسری مصروفیات کے ذریعے آپ ''روزگار'' میں لگے ہوئے ایسے کتنے ہی بچوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ معمولی سا جو معاوضہ لے کر وہ اپنے گھر جاتے ہیں، وہ دنیا کی نظر میں چاہے کچھ نہ ہو، لیکن ان کے اہلِ خانہ کے نزدیک پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے بہرحال ایک اہمیت رکھتا ہے۔

خیر یہ تو خود ایک ایسا موضوع ہے کہ جس پر غور کرنے اور اس کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے، کیوںکہ بات معمولی سی اجرت، اور استعداد سے بڑھ کر مشقت ہی کی نہیں، بلکہ جن حالات میں یہ بچے کام کرتے ہیں، استحصال کے جن تجربات سے گزرتے ہیں اور جس طرح کے حالات اور لوگوں کا سامنا کرتے ہیں وہ سب کچھ ان کے کردار پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے اور ان کی شخصیت کے کیسے رویوں کی تشکیل کا ذریعہ بنتا ہے، یہ سب باتیں اس لیے بھی توجہ طلب ہیں کہ پھر آگے چل کر یہی رویے اور مزاج معاشرے میں ان کے کردار کی صورت میں سامنے آتا ہے اور اجتماعی سطح پر اچھے برے نتائج کا ذریعہ بنتا ہے۔

چناںچہ اب اگر اس مسئلے پر توجہ دی جارہی ہے اور اس کے حل کے لیے حکومت ایک حکمتِ عملی وضع کررہی ہے اور اپنے وسائل کو بروے کار لانا چاہتی ہے تو بہتر یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے مسائل کے اس پورے سلسلے کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اس کے لیے اقدامات کا تعین کرے اور اس کام کا آغاز وہاں سے اور اس انداز سے کیا جائے کہ اُس کی کوششیں یقینی طور پر مفید اور نتیجہ خیز ثابت ہوں۔ اس لیے کہ نئی نسل کی تعلیم کا مسئلہ ہمارے یہاں ایک ایسا گمبھیر معاملہ ہے جس کے متعدد پہلو ہیں اور ان پر بیک وقت اور ہمہ جہت کارروائی کی ضرورت ہے ورنہ خاطر خواہ نتائج حاصل کرنا ممکن نہیں۔

یہ بات یقیناً خوشی کا باعث ہے کہ اعلیٰ حکومتی سطح پر اس مسئلے کو قابلِ توجہ سمجھا گیا اور نومنتخب وزیرِاعظم نے اسے اپنے حکومتی ایجنڈے میں وہ اہمیت دی جس کا یہ بجا طور پر مستحق ہے، لیکن ہمارے یہاں نئی نسل کی تعلیم کا مسئلہ صرف ان بچوں تک محدود نہیں ہے جو تعلیم حاصل نہیں کررہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نئی نسل کی تعلیم کا مسئلہ ہمارے یہاں دونوں سطحوں پر دیکھنے، سمجھنے اور اقدامات کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔

ایک سطح وہ ہے جس کا ذکر وزیراعظم نے کیا، یعنی اُن بچوں کا مسئلہ جو تعلیم کے حصول سے محروم ہیں اور دوسری سطح پر یہ مسئلہ اُن بچوں کے حوالے سے بھی توجہ طلب ہے جو ویسے تو تعلیم حاصل کررہے ہیں، یعنی اسکول اور کالج جاتے ہیں، لیکن کیا واقعی وہ تعلیم حاصل کررہے ہیں؟ تعلیم جو کردار کی تعمیر اور شخصیت کی تشکیل کرتی ہے، کیا واقعی وہ اِس عمل سے گزر رہے ہیں؟ اُن کی تعلیم کا معیار کیا ہے؟ تعلیم حاصل کرنے کے بعد کیا وہ اپنے معاشرے میں ذمے دارانہ کردار ادا کرنے کے قابل ہوجائیں گے؟ کیا یہ تعلیم ان کی اپنی زندگی کو بہتر سطح پر لانے میں معاون ہوگی؟ نئی نسل کے جو بچے اس وقت تعلیم حاصل کررہے ہیں، اُن کے حوالے سے یہ اور ایسے ہی کچھ اور دوسرے سوالات بھی اہمیت رکھتے ہیں اور ضروری ہے کہ اُن کا عملی طور پر نہایت ذمے داری سے جائزہ لیا جائے۔

وہ بچے جو سرے ہی سے تعلیم حاصل نہیں کررہے، ان کا مسئلہ تو ایک طرح سے واضح ہے، یعنی وہ اسباب جو بچوں کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں، ان کا تعین کیا جائے اور مسائل کے حل کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

یہ بات ٹھیک ہے کہ سوا دو کروڑ بچوں کی تعلیم کے لیے راہ ہموار کرنا اور وسائل فراہم کرنا کوئی ایسا کام تو نہیں ہے کہ جس کے لیے چٹکی بجا دینا کافی ہو، ہرگز نہیں۔ پہلی بات تو وسائل کی فراہمی ہے، خاص طور پر پاکستان جیسے ملک میں اور وہ بھی موجودہ حالات میں۔ اس وقت جب کہ ملک کی معیشت اور حکومتی کاروبار آئی ایم ایف کے قرضوں کے رحم و کرم پر ہے، اس وقت اتنی بڑی تعداد میں بچوں کی تعلیم کا کام اتنا ہی دشوار اور حوصلہ آزما ہے جتنا امریکا کے لیے یہ فیصلہ کہ وہ اپنی ساری آبادی کو چاند پر منتقل کردے۔ شاید ہمارے لیے یہ کام اُس سے بھی زیادہ بڑا ہو- لیکن پھر بھی اس کام کا حوصلہ کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے کہ اس میں بنیادی ضرورت وسائل کی ہے۔ دوسری کوئی خاص پیچیدگیاں اس راہ میں حائل نہیں ہیں۔


اس کے برعکس ملک میں رائج نظامِ تعلیم کے منظرنامے پر نگاہ ڈالی جائے تو اس کے مسائل پیچ در پیچ سامنے آتے ہیں۔ ملک کے محروم اور پس ماندہ طبقات کے بچوں کی تعلیم کے لیے حکومت کب اور کیا اقدامات کرتی ہے، اس کے لیے ہمیں حکومت کو پورا وقت دینا چاہیے اور اطمینان سے اسے اپنا لائحۂ عمل ترتیب دینے اور بروے کار لانے کا موقع بھی دینا چاہیے۔

البتہ اس وقت تعلیم کی جو صورتِ حال ملک میں چل رہی ہے، اس کا غائرنگاہ سے جائزہ لینے اور اُس کے گوناگوں مسائل کو سمجھنے کی فوری طور پر ضرورت ہے۔ اس لیے کہ وہ کام جو اس وقت جاری ہے اُس کے لیے وسائل استعمال ہورہے ہیں۔ چناںچہ دیکھنا چاہیے کہ جس کام پر وسائل صرف ہورہے ہیں، وہ مطلوبہ ہدف بھی حاصل کررہا ہے کہ نہیں۔ یہ موضوع ذرا وضاحت طلب ہے، اس لیے گفتگو میں اُس کے تمام تر پہلوؤں کو پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے۔

ملک و قوم کی بقا اور ترقی کا دارومدار اُس کے نوجوانوں پر ہوتا ہے۔ یہ ایک لازمانی صداقت ہے۔ اس کی تصدیق کسی بھی دور اور خطے کی اقوام اور ممالک کے ذریعے کی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زندہ معاشرے اپنی نئی نسل سے کبھی غافل نہیں ہوتے، اس کی صورتِ حال، اس کو درپیش مسائل اور اُس کے آئندہ کے امکانات، اجتماعی رجحانات اور وقت کے تقاضوں اور چیلنجز پر ہمیشہ نگاہ رکھتے ہیں۔

اس میں کبھی غفلت اور کوتاہی کے مرتکب نہیں ہوتے۔ اب اگر ہم یہ جانتے ہیں کہ ہماری نئی نسل ہماری قومی بقا اور ترقی کی ضامن ہے تو ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ نسلِ نو صرف اسی صورت میں یہ ذمے داری اٹھانے کی اہل ہوسکتی ہے جب وہ تعلیم و تربیت کے اس مرحلے سے گزری ہو جو اجتماعی احساس اور قومی شعور پیدا کرتا ہے اور یہ احساس دلاتا ہے کہ ایک سماج میں اُس کے ہر فرد کی اجتماعی ذمے داریاں کیا ہوتی ہیں اور کیسے ادا کی جاتی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا ہم اپنی نئی نسل کی تعلیم و تربیت اسی انداز سے کررہے ہیں کہ جو اُس کے افراد میں یہ اہلیت پیدا کرسکے کہ وہ اپنی اجتماعی اور قومی ذمے داریوں کو سمجھیں اور پورا کرسکیں؟

جہاں تک تعلیم کا تعلق ہے تو یہ بات ہمیں واضح طور پر سمجھ لینی چاہیے کہ ہمارے موجودہ تعلیمی نظام میں ایسے جھول اور وہ خامیاں ہیں کہ جو نئی نسل کو مطلوبہ اہلیت کا حامل بننے ہی نہیں دیں گی۔ پہلی بات تو یہ کہ ہمارے یہاں اس وقت کوئی ایک نہیں، بلکہ پورے چار نظام ہائے تعلیم ملک میں رائج ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ چار نظام ہائے تعلیم دراصل ملک میں پائے جانے والے طبقات کی نشان دہی کرتے ہیں۔

یہ ٹھیک ہے کہ وطنِ عزیز میں ذات پات کی کوئی تقسیم نہیں ہے اور عوام کے ہر فرد کو وہی حقوق حاصل ہیں جو کسی بھی دوسرے شخص کو میسر ہیں۔ یہ بات مذہبی اور آئینی طور پر تو بالکل درست ہے، لیکن سماجی حقیقت سے اس کا قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے کہ سماج میں جو تقسیم پائی جاتی ہے اُس کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ یہ تقسیم معاشی وسائل کی پیدا کردہ ہے، اور اس کے اثرات واضح طور پر معاشرے میں دائرہ در دائرہ دیکھے جاسکتے ہیں۔ ملک میں رائج مختلف نظام ہائے تعلیم دراصل اسی تقسیم کی عکاسی کرتے ہیں۔

آپ ملک کے طول و عرض میں رائج ان چار نظام ہائے تعلیم کے توسط سے دیکھ سکتے ہیں کہ یہ چار دائرے کیسے ہیں اور کس طرح کام کرتے ہیں۔ ان میں پہلا نظام ہے سرکاری تعلیمی ادارے، دوسرا وہ تعلیمی ادارے جو پرائیویٹ ہیں اور جن میں ہمارے معاشرے کے اوسط معاشی حیثیت رکھنے والے افراد کے بچے پڑھ رہے ہیں، تیسرا وہ جہاں اعلیٰ طبقے کی اولاد تعلیم پاتی ہے اور چوتھا ہے مدرسوں کا نظامِ تعلیم۔ آخرالذکر کے بھی دو درجے ہیں، ایک تو وہی پرانا کہ جہاں صرف دینی تعلیم دی جاتی ہے اور دوسرا وہ جہاں وقت کے تقاضوں کو تسلیم کرتے ہوئے دنیاوی تعلیم کی طرف بھی توجہ دی گئی ہے۔

لہٰذا وہاں دین کے ساتھ یا مذہبی تدریس کے ایک خاص درجے کے بعد جدید تعلیم کا بھی ایک حد تک اہتمام کیا جاتا ہے۔ ان چاروں نظام ہائے درس و تدریس کے اپنے اپنے کچھ مسائل ہیں جو ان کے تحت تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کے مزاج اور شخصیت کے رجحانات میں ظاہر ہوتے ہیں۔

سرکاری تعلیمی اداروں کی صورتِ حال کس درجہ ابتر ہے، اس حقیقت سے اب ہم سب خوب واقف ہیں۔ گزشتہ برسوں میں صرف ایک صوبہ خیبر پختونخواہ میں کچھ بہتری کی صورت سنا ہے کہ دیکھنے میں آئی ہے، باقی سب صوبے بڑی حد تک یکساں طور پر زوال اور تباہی کا افسردہ کرنے والا ہول ناک نقشہ پیش کرتے ہیں۔

کم، بہت ہی کم سرکاری ادارے ایسے ہوں گے جہاں تعلیم کی صورتِ حال تھوڑی بہت بھی قابلِ لحاظ نظر آتی ہو۔ ایسا اگر کہیں ہے تو وہ صرف اور صرف بعض اساتذہ یا دوسرے افراد کی ذاتی کوششوں کا نتیجہ ہے، ورنہ ان اداروں میں تعلیم کا سلسلہ ختم ہوچکا یا اس درجہ خراب ہے کہ اُس سے کسی طرح کے اچھے نتائج کی توقع ہی بے سود ہوگی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ صورتِ حال پرائمری، مڈل یا ہائی اسکول کی سطح تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ خرابی اسکول سے لے کر اعلیٰ ترین تعلیمی مراحل تک سب ہی جگہ ملتی جلتی سطح پر دیکھی جاسکتی ہے۔ اس کا مطلب سوا اس کے اور کیا ہوسکتا ہے کہ ہمارے تعلیمی نظام کا سرکاری ڈھانچا کھڑا ہوا تو بے شک نظر آرہا ہے، لیکن اندر سے وہ پوری طرح کھوکھلا ہوچکا ہے، اور کسی بھی طرح قابلِ اعتبار نہیں ہے۔

اس حقیقت کا ثبوت ہمیں قدم قدم پر مل سکتا ہے۔ حال ہی میں ایک ادبی رسالے میں ممتاز ادیب، شاعر، مترجم اور ماہرِلغات محمد سلیم الرحمن کا ایک مختصر نوٹ شائع ہوا ہے۔ اس کے ساتھ انھوں نے اعلیٰ تعلیمی سطح (یعنی ایم اے) کے طلبہ و طالبات کے امتحانی کاپی میں لکھے گئے جوابات سے کچھ اقتباسات درج کیے ہیں۔ تحریروں کے یہ نمونے بالکل چکرا دینے والے ہیں۔

انھیں پڑھ کر یقین ہی نہیں آتا کہ یہ اعلیٰ درجے کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات کے قلم سے سرزد ہوئے ہیں۔ املا کی اغلاط سے لے کر تاریخ، ثقافت اور عقل و فہم کی سطح تک جن مسائل سے یہ جوابات اٹے ہوئے ہیں، وہ پوری طرح یہ باور کرا دیتے ہیں کہ سرکاری سطح پر تو ہمارے تعلیمی نظام کا جنازہ واقعی نکل چکا ہے۔ اعلیٰ تعلیمی سطح تک پہنچنے والے یہ طلبہ و طالبات کس طرح ابتدائی جماعتوں سے نکل کر میٹرک، انٹر اور گریجویشن کے مراحل سے کامیاب و کامران گزرے ہیں، یہ سوچ کر دل ڈوب جاتا ہے۔ کیا کسی درجے میں ان نوجوانوں کو کوئی ایک بھی ایسا استاد نہیں ملا جو ان کی ذہنی اور عقلی استعداد کا اندازہ لگاتا اور کسی مرحلے پر انھیں روک کر حقیقت میں ان کی تعلیم کے لیے فکرمند ہوتا۔ افسوس، صد افسوس۔ حیف، صد حیف۔

(جاری ہے۔)
Load Next Story