امریکی ویزا لاٹری سسٹم کا آخری سال

اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے منصوبے پر غور۔

اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے منصوبے پر غور۔ فوٹو: فائل

حضرت سلطان باہو رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا ہے کہ ''شالا مسافر کوئی نہ تھیوے، کھکھ جنہاں تیں بھاری ہو'' (اللّٰہ کسی کو ہردیسی نہ کرے، مسافر تِنکے سے بھی بے وقر ہو جاتا ہے)۔

ان کے اِس شعر کی تفہیم ہرگز غلط نہیں لیکن اِس بات سے بھی انکار نہیں کہ سفر کی مشکلات کے بعد مسافر کو جب منزلِ مقصود ملتی ہے تو وہ سفر کی ساری صعوبتیں بھول جاتا ہے۔ 1970کی دہائی میں پہلی مرتبہ وطن عزیز سے لاکھوں پاکستانیوں نے اپنے بہتر مستقبل کے لیے خلیجی ریاستوں اور دیگر عرب ممالک میں جا کر قسمت آزمائی کرنے کا جوفیصلہ کیا تھا اُس سے نہ صرف ملک میں بھاری زرمبادلہ آیا تھا بل کہ ملک کی ورکر کلاس کی سماجی اور معاشی حیثیت میں خاطر خواہ بہتری بھی آئی تھی۔

خلیجی ریاستوں میں جا کر محنت مزدوری کرنے کے بعد 80 کی دہائی میں مغربی ممالک کے علاوہ امریکا اور کینیڈا میں جا کر مستقبل سنوارنے کی لہر بھی اٹھی تو لاکھوں پاکستانیوں نے جائز اور ناجائز طریقوں سے اپنی اپنی پسند کے ممالک کے ویزے حاصل کیے اور لاکھوں نہیں تو ہزاروں کو کام یابیاں بھی ملیں۔ 90 کی دہائی کے شروع میں جب امریکا نے ''گرین کارڈ لاٹری'' سکیم کا اعلان کیا اور اس سکیم میں دیگر ممالک کے ساتھ پاکستان کو بھی شامل کر لیا تو امریکا جا کر بسنے اور ترقی کا خواب دیکھنے والوں نے دن میں خواب دیکھنے شروع کر دیے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سکیم کے تحت لاکھوں ہزاروں نہیں تو سینکڑوں پاکستانیوں کی قسمت کا ستارہ ضرور چمکا تھا۔

1991 میں ایک امریکی سینیٹر ایڈورڈ کینیڈی نے اس سکیم کا آئیڈیا پیش کیا تھا، جس کو اُس وقت کی امریکی حکومت نے منظور کر لیا تھا۔ اس سکیم کی ترویج کا مقصد ان ممالک کے شہریوں کو امریکا میں اپنے مستقبل سنوارنے کا موقع فراہم کرنا تھا، جن کا امریکا کے لیے امیگریشن کوٹہ کم تھا۔ گرین کارڈ لاٹری سکیم میں شمولیت کے لیے شروع سے لے کر اب تک امریکی حکومت نے نہایت آسان طریقۂ کار وضع کیا ہوا ہے لیکن اس سکیم کی شروعات میں ملک بھر کے اندر جعلی ویزا ایجنٹوں سمیت بہت سے خود رو اداروں اور کمپنیوں نے عوام کو بھرپور طریقے سے بے وقوف بنایا اور گرین کارڈ لاٹری سکیم کی درخواست تیار کرنے سے لے کر ارسال کرنے تک بھاری فیسیں بھی وصول کیں، جس ایجنٹ یا کمپنی کی تیارکی ہوئی درخواست کو کام یابی نصیب ہوئی اُس کی شہرت پھیل گئی اور اُس کے بعد دونوں ہاتھوں سے معصوم شہریوں کو لوٹنے کے واقعات اخباروں کی سرخیوں کی زینت بنے۔

گزشتہ 22 سال سے جاری اس اسکیم کو رواں سال امریکی حکومت نے جب بند کرنے کا عندیہ دیا تو اس سکیم کے دائرۂ کار میں شامل ممالک کے کروڑوں باشندے جن کی آنکھوں میں اب بھی امریکا جا کر زندگی سنوارنے کے دیپ روشن تھے، وہ ٹمٹماتے ہوئے نظر آئے، ان ممالک میں وطن عزیز بھی شامل ہے اور خاص طور پر وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اب بھی امریکا کو گالی دینے میں تو عار محسوس نہیں کرتے مگر امریکا جا کر رہنے کا خواب ضرور دیکھتے ہیں بل کہ امریکا جا کر مستقل رہائش کے مختلف طریقوں سے واقفیت ان کی دل چسپیوں میں ضرور شامل ہوتی ہے۔

16 مئی کو امریکی ذرائع ابلاغ میں خبر آئی کہ ''امریکا کی مقبول ترین ''گرین کارڈ لاٹری'' بند ہونے کا امکان ... وائس آف امریکا کے نامہ نگار برائن پیڈن اور برطانوی خبر رساں ادارے رائٹر کے مطابق اِس اسکیم کی جگہ امریکی حکومت ہر سال اتنی ہی تعداد میں، جو لاٹری کے ذریعے متعین کی گئی تھی، اُن افراد کو ویزے دینے کا سوچ رہی ہے جو سائنس، ٹیکنالوجی اور خاص طور پر ریاضی کے مضمون میں مہارت رکھتے ہوں۔

حالیہ عالمی معاشی بحران کے بعد امریکا کے پالیسی ساز مختلف تجاویز پر غور و خوض کرتے رہے کہ کس طرح امریکا کو بے روزگاری کے گرداب اور ان معاشی قرضوں سے نکالا جائے جو ہر 6 ماہ بعد ایک خاص تناسب کے ساتھ بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ دیگر متعدد منصوبوں میں اس اسکیم کی اہمیت کا بھی امریکی کانگریس نے جائزہ لیا اور یوں امریکا کے لیے اپنا وطن چھوڑنے والوں سے متعلق وضع کی گئی قانون سازی میں نئی ترامیم کی سفارش کر دی گئی۔ اگر ان ترامیم کو منظوری مل گئی تو پھر سال 2014 میں اس اسکیم کے تحت شاید آخری قرعہ اندازی ہو گی۔

امریکا میں سرکاری سطح پر اِس اسکیم کو ''ڈائیور سٹی ویزا'' سے یاد کیا جاتا ہے اور ہر قرعہ اندازی میں 50 ہزار غیر امریکیوں کو ان کے ملک میں ہی بیٹھے بٹھائے گرین کارڈ جاری کر دیے جاتے ہیں جب کہ ہر سال امریکا میں رہنے والے 10 لاکھ غیر ملکی افراد کو اس اسکیم کے تحت گرین کارڈ بھی دیے جاتے ہیں۔

امریکا میں کئی سال پہلے منعقد ہونے والے ایک سروے میں گرین کارڈ لاٹری کے ذریعے امریکا آنے والے لاکھوں افراد نے اقرار کیا تھا کہ ''وہ اپنی قسمت بدلنا اور بہتر معیار زندگی اپنانے کے خواہش مند تھے اِس لیے انہوں نے اِس لاٹری میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تھا''۔

گرین کارڈ لاٹری کی یہ اسکیم بند ہوتی ہے یا نہیں اس بارے میں ابھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن اِس کی بندش کے حوالے سے متعدد کانگریسی ارکان نے اصلاحات کے حوالے سے اعتراضات بھی اٹھائے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ''امریکا کو دیگر ممالک کے غریب اور بہتر مواقع تلاش کرنے والے افراد کی مدد کرتے رہنا چاہیے۔''

امریکا میں، پاکستانی امریکیوں کی تعداد کے حوالے سے سال 2011 میں دل چسپ اعداد و شمار سامنے آ چکے ہیں۔ سال 2000 سے 2010 تک امریکا میں اُن پاکستانیوں کی تعداد دوگنی ہو چکی ہے جن کو امریکا کا مستقل ویزا مل چکا ہے۔ اِس عرصہ میں بنگلہ دیشیوں کی تعداد 157 فی صد، پاکستانیوں کی شرح 100 فی صد اور بھارتی باشندوں کی شرح 68 فی صد کے حساب سے بڑھی ہے۔ اِس مطالعاتی جائزے کے مطابق امریکا میں پاکستانی نژاد امریکیوں کی تعداد میں اضافہ بہ دستور جاری ہے۔ امریکی آبادی میں اضافے کی رفتار کے لحاظ سے پاکستانی دوسرے نمبر پر جب کہ مجموعی طور پر وہ ساتویں بڑی ایشیائی کمیونٹی کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔

یہ مطالعاتی جائزہ امریکی تِھنک ٹینک پیور ریسرچ سنٹر واشنگٹن نے ترتیب دیا تھا، تجزیے میں نائن الیون کے واقعے سے پہلے اور بعد کی صورت حال کا بھی جائزہ لیا گیا، جس کے مطابق اِس واقعہ سے قبل امیگریشن کی رفتار بہت زیادہ تھی لیکن نائن الیون کے بعد امریکا میں مسلمانوں کی اور بالخصوص پاکستانیوں کی آمد جہاں کم ہوئی اور ان پر مختلف نوعیت کے شدید دبائو محسوس کیے گئے اس کے باوجود سال 2010 کے آخر تک پاکستانیوں کی امریکا میں تعداد 5 لاکھ سے تجاوز کر چکی تھی۔ سال 2007 سے سال 2009 کے دوران ایک لاکھ 20 ہزار سے زیادہ پاکستانی امریکا کی شہریت حاصل کرنے میں کام یاب ہوئے جب کہ 50 ہزار پاکستانی امریکی شہریت حاصل کرنے کے اہل ہو چکے تھے۔


امریکا میں مقیم مستقل شہریوں میں سے 65 فی صد شہری امریکا میں پیدا نہیں ہوئے تھے۔ سال 2010 تک صرف 16 فی صد پاکستانی کاروباری اداروں کی ملازمتوں کے باعث جب کہ 84 فی صد اپنے قریبی رشتہ داروں کی اسپانسر شپ حاصل کرنے کے بعدگرین کارڈ کے حق دار قرار پائے تھے۔ گرین کارڈ ملنے کے بعد امریکی شہریت حاصل کرنے کے لیے مزید 5 سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے اور اس دوران کارڈ ہولڈر کو اپنے روّیے اور قول و فعل سے یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ پرامن اور ذمہ دار شہری ہے اور امریکا کا سچے دل سے وفادار بھی۔

گرین کارڈ لاٹری اسکیم کے علاوہ امریکی شہریت حاصل کرنے کی درجن بھر دوسری اسکیموں میں ''گرین کارڈ برائے سرمایہ کاری'' بھی شامل ہے۔ یہ اسکیم عالمی اقتصادی بحران سے امریکا کو باہر نکالنے، طویل عرصہ کی بے روزگاری ختم کرنے اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو مراعات کے ساتھ زندگی فراہم کرتی ہے۔ اس اسکیم میں ابھی تک سب سے زیادہ جس قوم نے دل چسپی ظاہر کی، وہ چینی ہیں۔

رواں سال بھی گرین کارڈ لاٹری اسکیم کے ذریعے کروڑوں امیدواروں کے ناموں میں سے ایک لاکھ خوش قسمت لوگوں کے نام منتخب ہونے والے ہیں لیکن دنیا بھر میں توقع یہ ہی کی جا رہی ہے کہ یہ اس اسکیم کی شاید آخری لاٹری ہو لیکن ایک بات طے ہے کہ گزشتہ کئی سال سے جاری اس اسکیم میں شرکت کرنے والوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہی ہوا ہے، کمی واقع نہیں ہوئی، جو اِس اسکیم کی مقبولیت کا منہ بولا ثبوت ہے اور اِس کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں اس بات کا اعلان بھی، کہ تمام تر نفرتوں کے باوجود لوگ امریکا میں جا کر زندگی گزارنے کا خواب اپنی آنکھوں سے ابھی تک نکال نہیں پائے۔

دوسری جانب امریکی قانون ساز اس بات پر بضد ہیں کہ اس لاٹری اسکیم کی شہرت اپنی جگہ لیکن اس سے امریکی معیشت کو کیا فائدہ ہوا...؟ اس ایک سوال کی بناء پر اس کو بند کرنے اور اس کی جگہ پڑھے لکھے لوگوں کو امریکا لانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں، جس کے لیے امریکی کانگریس میں قانون دان اور پالیسیاں بنانے والے سرجوڑ کر بیٹھ چکے ہیں۔ رواں سال گرمیوں کے بعد اس ضمن میں حتمی فیصلہ سامنے آنے والا ہے، اگر تو فیصلہ ہو گیا تو سال 2014 میں یہ اسکیم اپنی تمام تر مقبولیت کے باوجود بند ہو جائے گی۔

رواں سال کے لیے دنیا بھر سے اس اسکیم کے تحت 7.9 ملین افراد نے اپنے بیوی بچوں سمیت درخواستیں دی ہوئی ہیں۔ پہلے مرحلے میں ایک لاکھ درخواستیں منتخب ہوں گی اور ان میں سے 50 ہزار افراد کو حتمی طور پر امریکی ویزے کا حق دار قرار دیا جائے گا۔



امریکا میں مستقل سکونت اختیار کرنا آسان ہے یا مشکل ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ امریکا آنا جتنا مشکل ہے، یہاں مستقل سکونت اختیار کرنا اِس سے بھی زیادہ مشکل کام ہے۔ آپ چاہے دنیا کے کسی خطے سے امریکا آئیں، سب کے لیے مسائل ایک ہی جیسے ہوتے ہیں۔ 11 ستمبر کے واقعہ کے بعد تو یہ مسائل شدید ترین ہو چکے ہیں۔

امریکا میں آمد کے کئی طریقے ہیں لیکن امریکا میں مستقل سکونت کے مروجہ قوانین کے مراحل سے گزرنے کے لیے ایک لمبا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ قانونی سطح پر امریکا میں مستقل سکونت کے لیے امریکن گرین کارڈ ہی وہ واحد قانونی شناخت ہے جس کا حامل قانونی طور پر امریکا میں رہنے، کام یا کاروبار کرنے کا حق دار کہلاتا ہے، علاوہ ازیں گرین کارڈ ہولڈر کو ہی امریکی شہریت ایک مقررہ عرصہ کے بعد حکومت کی طرف سے فراہم کی جاتی ہے۔

گرین کارڈ جس کو 1940 میں Registration aline ایکٹ کی حیثیت سے امریکی کانگریس نے منظور کیا تھا تاکہ امریکا میں مقیم غیر ملکی افراد کا سرکاری طور پر اندراج کیا جا سکے۔ پہلے پہل یہ کام امریکا کے ڈاک خانوں سے شروع ہوا، ڈاک خانہ ہر فرد کے کوائف کا اندراج کرتا اور پھر یہ کوائف امریکی امیگریشن کو روانہ کر دیے جاتے، اِس ادارے کا نام ''آئی این ایس'' تھا، جو اب ''یو ایس سی آئی ایس'' بن چکا ہے، یہ ہی ادارہ اب گرین کارڈ جاری کرتا ہے۔

امریکا بنیادی طور پر ملٹی کلچر لینڈ آف ایمی گرینٹس کہا جاتا ہے، جس کی مروجہ کرنسی ڈالر کہلاتی ہے، عالمی معیشت میں ڈالر کی قدر وقیمت نے ساری دنیا کو اس کے حصول کالالچی بنادیا ہے۔ جس طرح امریکی ڈالر دنیا بھر میں مشہور ہوا اسی طرح گرین کارڈ بھی پہچانا جاتا ہے بل کہ امریکا نے گرین کارڈ کے حصول کو ڈالر کی کنجی کے طور پر دنیا بھر میں متعارف کروادیا ہے چنانچہ دنیا بھر سے ہر امیر، غریب اور متوسط طبقے نے جائز وناجائز ہر طریقے سے گرین کارڈ حاصل کرنا شروع کر دیا۔ اس کا سیدھا سادہ ایک مطلب یہ بھی تھا کہ زیادہ سے زیادہ ڈالر کمائے جائیں اور یوں امریکا میں آمد کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا۔

تین سو چھ ملین سے زیادہ آبادی کے اس ملک میں بارہ ملین غیر قانونی سکونت پذیر آج بھی گرین گارڈ یعنی ڈالر کی کنجی کے منتظر بیٹھے ہیں۔ اگر ہم گرین کارڈ کے حصول کے مختلف طریقوں کا جائزہ لیں تو گرین کارڈ بہ ذریعہ ا سپانسر یعنی کسی کاروباری ادارے کی جانب سے اسپانسر کر نے پر حاصل ہوتا ہے یا عزیز واقارب جو کہ امریکی شہریت کے حامل ہونے پر اپنے کسی خونی رشتہ والے عزیز کو اسپانسر کر سکتے ہیں یا امریکی شہریت کی حامل خاتون یا مرد سے شادی کرنے کے بعد حاصل کیا جا سکتا ہے جب کہ سیاسی پناہ کے ذریعے بھی ڈالر کی کنجی حاصل کی جا سکتی ہے۔

ان تین نمایاں طریقوں کے علاوہ بعض ممالک کے لیے ویزا لاٹری کا کوٹا بھی مقرر ہے جب کہ امیگریشن کی جانب سے کاروبار کے ذریعے بھی گرین گارڈ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس امر کے لیے انویسٹمنٹ کی مطلوبہ رقم کا تعین امیگریشن کے قوانین میں موجود ہے۔ گرین کارڈ کے حصول کا تیز تر طریقہ شادی ہی ہے جب کہ دیگر طریقوں میں اسپانسر میں بھی قدرے کم عرصہ لگتا ہے۔ امیگریشن قوانین کے مروجہ قانون میں کاروباری انویسٹمنٹ میں مطلوبہ سرمایہ لگانے سے بھی قدرے جلد ی گرین کارڈ حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن دیگر قوانین کے تحت گرین کارڈ کے حصول میں کافی لمباعرصہ لگ جاتا ہے۔
Load Next Story