این آراوکیساٹارنی جنرل کی لارجربنچ تشکیل دینےکی استدعامسترد
اٹارنی جنرل کا کہتا تھا کہ نظر ثانی درخواست وہی بینچ سنتا ہے، جس...
سپریم کورٹ میں سوئس حکام کوخط لکھنےکےفیصلہ کیخلاف نظرثانی درخواست کی سماعت،اٹارنی جنرل کی لارجربنچ تشکیل دینےکی استدعامسترد، ایکسپریس نیوز کے مطابق
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نےاین آر او نظر ثانی کیس کی سماعت کی ، جسٹس سرمد جلال عثمانی ، جسٹس اعجاز افضل ، جسٹس گلزار احمد ، جسٹس اطہر سعید بھی اس بینچ میں شامل تھے۔
درخواست پر دلائل دیتے ہوئے اٹارنی جنرل کا کہتا تھا کہ نظر ثانی درخواست وہی بینچ سنتا ہے، جس نے فیصلہ دیا ہو، اس بینچ میں ایک جج کو بدلہ گیا ہے ، وہ جج عید کے بعد میسر ہونگے ، لہذا عدالت عید کے بعد تک فیصلہ موخر کردے، عید کے بعد جب وہ معزز جج میسر ہوں گے ، اس وقت یہ معاملہ دوبارہ سنا جائے ، جسٹس عاصف سعید کھوسہ نے انسے اتفاق نہیں کیا ، انکا کہنا تھا کہ پانچ میں چار ججز میسر ہیں ، آج بینچ یہ کس سن سکتا ہے ۔
اٹارنی جنرل کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ توہین عدالت قانون کالعدم کرنے کیخلاف بھی درخواست دی ہے ، فیصلے کا اس کیس پر اثر پڑے گا اور لہذا یہ معاملہ اس سے انٹر کنکڈڈ ہے ، اس معاملے کو اکٹھا کرکے ایک لارجر بینچ تشکیل دیں دیں ،جسٹس عاصف کھوسہ کا کہنا تھاکہ توہین عدالت کیس کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں، ،عدالت نےاٹارنی جنرل کی لارجربنچ تشکیل دینےکی استدعامسترد کردی۔
اٹارنی جنرل کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ عدالت نے ازخود کیسے یقین کرلیا کہ وزی اعظم خط لکھیں گے ، جو بات وزیر اعظم کے اختیار میں نہیں عدالت اسکا حکم کیسے دے سکتی ہے ، عدالت وزیراعظم کو پابند بنا سکتی ہے نہ انتظامی امور میں مداخلت کرسکتی ہے ، آئین کے تحت وزیراعظم وزرائے اعلی عدالت کو جواب دہ نہیں، عدالت کے حکم پر عمل آئین کی خلاف ورزی ہوگا۔
گزشتہ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے اشرف کو ہدایت کی تھی کہ سوئس حکام کو صدر زرداری کے خلاف کرپشن مقدمات دوبارہ کھولنے کے لئے خط لکھیں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نےاین آر او نظر ثانی کیس کی سماعت کی ، جسٹس سرمد جلال عثمانی ، جسٹس اعجاز افضل ، جسٹس گلزار احمد ، جسٹس اطہر سعید بھی اس بینچ میں شامل تھے۔
درخواست پر دلائل دیتے ہوئے اٹارنی جنرل کا کہتا تھا کہ نظر ثانی درخواست وہی بینچ سنتا ہے، جس نے فیصلہ دیا ہو، اس بینچ میں ایک جج کو بدلہ گیا ہے ، وہ جج عید کے بعد میسر ہونگے ، لہذا عدالت عید کے بعد تک فیصلہ موخر کردے، عید کے بعد جب وہ معزز جج میسر ہوں گے ، اس وقت یہ معاملہ دوبارہ سنا جائے ، جسٹس عاصف سعید کھوسہ نے انسے اتفاق نہیں کیا ، انکا کہنا تھا کہ پانچ میں چار ججز میسر ہیں ، آج بینچ یہ کس سن سکتا ہے ۔
اٹارنی جنرل کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ توہین عدالت قانون کالعدم کرنے کیخلاف بھی درخواست دی ہے ، فیصلے کا اس کیس پر اثر پڑے گا اور لہذا یہ معاملہ اس سے انٹر کنکڈڈ ہے ، اس معاملے کو اکٹھا کرکے ایک لارجر بینچ تشکیل دیں دیں ،جسٹس عاصف کھوسہ کا کہنا تھاکہ توہین عدالت کیس کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں، ،عدالت نےاٹارنی جنرل کی لارجربنچ تشکیل دینےکی استدعامسترد کردی۔
اٹارنی جنرل کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ عدالت نے ازخود کیسے یقین کرلیا کہ وزی اعظم خط لکھیں گے ، جو بات وزیر اعظم کے اختیار میں نہیں عدالت اسکا حکم کیسے دے سکتی ہے ، عدالت وزیراعظم کو پابند بنا سکتی ہے نہ انتظامی امور میں مداخلت کرسکتی ہے ، آئین کے تحت وزیراعظم وزرائے اعلی عدالت کو جواب دہ نہیں، عدالت کے حکم پر عمل آئین کی خلاف ورزی ہوگا۔
گزشتہ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے اشرف کو ہدایت کی تھی کہ سوئس حکام کو صدر زرداری کے خلاف کرپشن مقدمات دوبارہ کھولنے کے لئے خط لکھیں۔