اصلاحِ احوال کا ایک سنہری موقع

تمام شکوک و شبہات ، وسوسوں اور خدشات کے برعکس اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہمارے وطنِ عزیز میں ایک کامیاب...


Dr Mansoor Norani May 26, 2013
[email protected]

تمام شکوک و شبہات ، وسوسوں اور خدشات کے برعکس اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہمارے وطنِ عزیز میں ایک کامیاب اور پُر امن الیکشن اختتام پذیر ہوئے، اور ایک بہتر حکومت کے قیام کی شروعات ہوگئی۔ ملک کے اندر جس خونریزی، ہنگامہ آرائی اور افراتفری کا احتمال اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا خدا کا شکر ہے ایسے خوفناک حالات پیدا نہیں ہوئے اور ایک پُر امن الیکشن کے نتیجے میں عوام ایک مرحلے سے باہر نکل کر ترقی و خوشحالی کی آس و اُمید لگائے دوسرے مرحلے کی جانب بڑھ چکے ہیں۔

اِن انتخابات کے نتائج اِس لحاظ سے بھی بہت حوصلہ افزا رہے ہیں کہ جس معلقHUNG) )پارلیمنٹ کے وجود میں آنے کا خوف اور خطرہ محسوس کیا جارہا تھا وہ بھی بہرحال ٹل گیا اور ایک بھرپور مینڈیٹ کے ساتھ پاکستان مسلم لیگ (ن) مرکز اور تقریباً دو صوبوں میں حکومت بنانے جارہی ہے۔خدا نخواستہ اگر ایک معلق پارلیمنٹ یا ایک کمزور حکومت قائم ہو جاتی جسے ہر وقت دوسری جماعتوں کی مدد اور حمایت کی ضرورت باقی رہتی اور اُس کی ساری توجہ اپنے آپ کو قائم اوردائم رکھنے پر ہی مرکوز رہتی تو عوامی خوشحالی اور بہتری کی ایک بار پھر کوئی اُمید باقی نہ رہتی۔ قوم کے اگلے پانچ سال پھر ضایع ہو جاتے اور لوگوں کے مسائل جوں کے توں رہتے۔

حالیہ الیکشن کے نتائج کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو ہمیں یقینا یہ معلوم ہوگا کہ اِس قوم نے جس طرح سابقہ حکومت کے کرتا دھرتا اور حواریوں کو مسترد و نامراد کرکے اُن کامکمل صفایا کردیا ہے وہ ہمارے اجتماعی قومی شعور اوردانش کی ایک روشن مثال ہے۔ قوم نے کرپشن اور لوٹ مار کرنے والوں کو شکست فاش دیکر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اب اپنی ذاتی پسند اور ناپسند کے برعکس ملکی و قوم کے اجتماعی فائدے اور مفادات کے لیے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کریں گے اور ایسی حکومت کی تشکیل کے لیے اپنا تعاون پیش کرینگے جو اُن کے احساسات و جذبات کی مکمل ترجمانی کرسکے اور اُن کے مصائب و مشکلات کا کوئی دیرپا حل تلاش کر سکے۔میاں برادران سے قوم یہ بجا طور پر توقع رکھتی ہے کہ وہی اُنہیں اِس مصیبت اور گرداب سے باہر نکالنے کی صلاحیت اوراہلیت رکھتے ہیں ۔ لوگوں نے سابقہ دور میں اُنہیں کام کرتے دیکھا ہے اور اُنکے خلوصِ نیت اور عزم و حوصلہ کو وہ بخوبی جانتے ہیں ۔

اُن کے وعدوں اور دعوؤں میں کتنی صداقت اور سچائی ہے اُس کا اُنہیں پورا یقین اور ادراک ہے۔ لہذا عوام کی اکثریت نے اُن پر اپنے بھر پور اعتماد کااظہار کرکے اُنہیں ایک بار پھر ایک نئے مینڈیٹ کے ساتھ حکومت کرنے کا اختیار دے دیا ہے۔ یہ بات یقینا بہت خوش آیند ہے کہ اِس الیکشن کے بعد ساری قوم کے اندر ایک خوشگوار تاثر اور احساس لوگوں میں یہ پیدا ہوا ہے کہ اب ہمارے وطنِ عزیز کے حالات ممکنہ طور پر ضرور بدل جائیں گے۔ اِس قوم نے گزشتہ دورِ حکومت میں مایوسیوں اور ناکامیوں کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔مصائب و مشکلات سے گھری اِس قوم کو پانچ سال تک بہت لوٹا گیا۔ اُس کے تمام سرکاری ادارے مالیاتی طور پردیوالیہ کردیے گئے۔ہر طرف کرپشن کا بول بالا تھا۔ قومی خزانے کو دل کھول کر لوٹا گیا۔

کرپشن کی بیخ کنی تو کجا اُس کی سرکاری طور پر حوصلہ افزائی کی جاتی رہی۔ ملک کی اعلیٰ عدلیہ جن افراد کو بد عنوان اور کرپٹ قرار دیکر اُنہیں معطل کرنے کا حکم صادر کرتی اُنہیں ایک نیا عہدہ دیکرخوب نوازا جاتا۔قوم اندھیروں میں بھٹکتی رہی اور حکمراں عیاشی کرتے رہے۔ اہلِ اقتدار کو اپنی حرکات و سکنات پرذرا بھی احساسِ ندامت نہ تھی۔ لٹیروں اور چوروں کو مکمل تحفظ اور آشیر باد حاصل تھی وہ بلاخوف وخطر اپنا کام سر انجام دیتے رہے۔ اِس پورے دور میں قوم کی بھلائی اور بہتری کا کوئی کام نہ ہوا۔ سیاسی مفاہمت کے نام پر صرف ذاتی مفادات کا کھیل کھیلا جاتا رہا ۔ دنیا تیزی کے ساتھ ترقی وخوشحالی کی منازل طے کرتی جا رہی تھی اور ہمارا ملک تباہی و بربادی سے دوچار تھا۔اطراف اور پڑوس کے ممالک معاشی و اقتصادی ٹائیگر بنتے جارہے تھے اور ہم مسلسل انحطاط پذیری کی جانب دھکیلے جا رہے تھے۔خدا کا شکر ہے کہ تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان ووٹوں کی تقسیم کی نتیجے میں پھر سابقہ حکمرانوں کو کامیابی عطا نہ ہوئی ورنہ اِس مفلوکِ الحال قوم کے اگلے پانچ سال مزید برباد ہوجاتے۔

2013ء کا الیکشن ہماری تاریخ میں ایک منفرد اور اچھی روایات قائم کر گیاجہاں لوگوں نے سب کو سنا اور اپنا وقت دیا۔ سب کے دعوے اور وعدے دیکھے ۔ سب کی باتیں اور بلند بانگ شیخیاں دیکھیں لیکن فیصلہ اپنی دانش اور بصیرت سے کیا۔ ملکی مفاد میں جو عزیز تھا اپنا ووٹ اُسی کے حصول کے لیے استعمال کیا۔اب یہ نئے حکمرانوں پر منحصر ہے کہ وہ عوام کے اِس جذبہ نیک نیتی کو کس طرح خیالِ خاطر میں لاتے ہیں اور لوگوں کے خلوص و محبت کا وہ کس انداز میں جواب دیتے ہیں۔ قوم نے اُن سے بہت توقعات وابستہ کی ہوئیں ہیں ۔ہمارا ملک مزید تباہی اور کرپشن کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اصلاحِ احوال کا یہ ایک سنہری موقع ہے۔ میاں برادران کے کاندھوں پر ایک بہت بڑی ذمے داری آن پڑی ہے۔ وہ اِس ذمے داری سے کِس طرح اور کس خوش اسلوبی سے عہدہ برآ ہوتے ہیں یہ صرف اُنہی پر منحصر ہے۔

ایک عرصے سے جاری دہشت گردی اور امن و امان سے لے کر بلوچستان کے پیچیدہ مسئلہ تک بے شمار مسائل اُن کے فولادی عزم اور ارادوں کاامتحان لینے کے لیے تیار بیٹھے ہیں ۔ ملک تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے گذر رہا ہے۔ ایک طرف ملک کے اندر طویل لوڈ شیڈنگ اور اُس کے عوام پر انتہائی بُرے اثرات ہیں تو دوسری جانب غربت اور مہنگائی سے بیزار لاکھوں لوگ اپنے حالات میں تبدیلی کی آس و اُمید لگائے بیٹھے ہیں۔ اِس بار یہ اقتدار پھولوں کی نہیں بلکہ کانٹوں سے بھری ایک اذیت ناک سیج ہے۔ جس پر براجمان ہونے والے کو بہت سوچ سمجھ کر ہر فیصلہ کرنا ہوگا۔ صرف جذبات کی بہکتی لہروں اور نعروں کی رنگینی سے کام نہیں چلے گا۔ ہر دن ہر گھڑی ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے وقف کردینا ہوگا۔ ولولہ ، ہوشمندی اور جانفشانی دکھانا ہوگی تب جاکر ملک کسی بہتری اور روشن مستقبل کے راستوں پر گامزن ہو پائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں