طالبان سے بامقصد مذاکرات
قیام امن کے لیے طالبان سے مذاکرات نہایت اہم ہیں۔ یہ بات خوش آیند ہے کہ ملک کے متوقع نئے وزیراعظم میاں نوازشریف نے...
قیام امن کے لیے طالبان سے مذاکرات نہایت اہم ہیں۔ یہ بات خوش آیند ہے کہ ملک کے متوقع نئے وزیراعظم میاں نوازشریف نے طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے پیش رفت کا آغاز کردیا ہے۔ گزشتہ چند ماہ قبل بھی جمیعت علمائے اسلام (ف) کے زیر اہتمام آل پارٹیز کانفرنس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ حکومت طالبان کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کا مثبت جواب دے۔ اس آل پارٹیز کانفرنس کے اختتام پر جو پانچ نکاتی ایجنڈا جاری کیا گیا تھا اس میں کہا گیا تھا کہ ایک گرینڈ جرگہ قائم کیا جائے جو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تمام فریقین سے بات چیت کے لیے بااختیار ہو۔ اس سے قبل اے این پی بھی ایک ایسی ہی کانفرنس منعقد کرچکی ہے مگر جمیعت علمائے اسلام (ف) کی جانب سے منعقدہ کانفرنس کی خوش آیند بات یہ تھی کہ اس میں وہ ساری سیاسی جماعتیں جو کبھی کسی بھی سیاسی میدان میں ایک ساتھ کھڑے ہونے کے لیے تیار نہیں ہوئیں وہ سب کی سب اس مقصد کے لیے ایک جگہ جمع ہوئیں، کیونکہ اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ دہشت گردی کسی ایک مخصوص طبقہ فکر کا نہیں بلکہ پورے ملک کا مشترکہ مسئلہ ہے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ طالبان کے ساتھ پچھلے کئی برسوں سے لے کر تاحال جو آویزش کی کیفیت جاری ہے اس سے پاکستان کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ مذاکرات کو بامقصد اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے ضروری ہے کہ طالبان قیادت سے اس امر کی ضمانت لی جائے کہ مذاکرات کے مثبت نتائج پر عملدرآمد کو بھی یقینی بنایا جائے گا اور ہر قسم کی دہشت گردی کی کارروائیوں سے بھی اجتناب برتا جائے گا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ مذاکرات کا آغاز کیسے ہو؟ اطلاعات ہیں کہ میاں صاحب نے طالبان سے مذاکرات کے لیے مولانا سمیع الحق سے مدد مانگ لی ہے اور آیندہ دنوں میں مذاکرات کا باقاعدہ آغاز ہوجائے گا۔ اس منظر نامے میں، جب کہ دہشت گردی نے وطن عزیز کی بنیادوں کو بری طرح ہلا کر رکھ دیا ہے، مذاکرات کی اولین شرط یہ ہونی چاہیے کہ خون خرابہ فوری طور پر بند کیا جائے اور ساتھ ہی اس بات کی بھی ٹھوس ضمانت دی جائے کہ کسی بھی فریق کی جانب سے نئے ہونے والے امن معاہدے کو توڑا نہیں جائے گا۔
اور جو فریق معاہدے کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو اسے بھاری جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ ماضی میں بھی دیکھا گیا کہ دونوں فریقوں کے درمیان مختلف شعبہ ہائے زندگی میں طے پانے والے معاہدوں کی دھجیاں بکھیری جاتی رہی ہیں۔ دونوں ہی فریق ان خلاف ورزیوں کا ذمے دار ایک دوسرے کو قرار دیتے رہے ہیں۔ اب ماضی کے ان تلخ تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ حکومت تمام ریاستی اداروں سے وسیع تر مشاورت کا اہتمام کرے۔ خاص طور پر عسکری قیادت سے مشاورت کے بغیر کوئی فیصلہ نہ کیا جائے کیونکہ پاکستان کی عسکری قیادت نے دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے سیکڑوں افسران اور اہلکاروں کی قربانیاں پیش کی ہیں۔ اس مسئلے کا تعلق چونکہ ملک کی سلامتی، آزادی اور خود مختاری سے ہے لہٰذا تمام سیاسی ادارے مل بیٹھ کر ایک سنجیدہ موقف اختیار کریں پھر اس کی روشنی میں معاہدے کی شرائط طے کی جائیں۔ مکمل اتفاق رائے سے طے شدہ شرائط کے بعد ہی طالبان سے مذاکرات کا آغاز کیا جائے۔ مذاکرات میں جن سیاسی قوتوں کو شامل کیا جائے انھیں بھی یہ بات پیش نظر رکھنی ہوگی کہ ماضی کی طرح کوئی ایسا مبہم اور غیر واضح موقف اختیار نہ کیا جائے جو عوام کی توقعات سے جدا ہو۔ عوام کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اس معاہدے کی رو سے انھیں جان و مال کا کس طرح کا تحفظ فراہم کیا جارہا ہے۔
ملک میں جاری دہشت گردی کی کارروائیوں کے حوالے سے یہ بات خاص طور پر محسوس کی گئی ہے کہ دہشت گردوں کا خاص ہدف حفاظتی چوکیاں، اہم سیاسی و مذہبی رہنما اور سیکیورٹی فورسز کے قافلے بنتے چلے آرہے ہیں۔ بعد ازاں حساس اداروں اور حفاظتی ایجنسیوں کی اہم عمارات پر بھی حملے کیے گئے جب کہ مساجد اور کھلے بازاروں میں بھی آگ و خون کا کھیل کھیلا جاتا رہا ہے۔ بظاہر دہشت گردوں کی اس شدت پسندی کی کوشش یہ نظر آئی کہ ایک طرف تو زیادہ سے زیادہ جانی نقصان کے ذریعے عوام میں عدم تحفظ کی کیفیت پیدا کی جائے تو دوسری جانب ملکی سلامتی سے تعلق رکھنے والے معاملات کو بھی الجھا کر رکھا جائے۔ تعلیمی اداروں اور تربیتی مراکز کی تباہی، دوست ممالک سے تعلقات میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے ان کے ماہرین کے اغوا و قتل کے واقعات بھی اسی جانب اشارہ کرتے ہیںکہ دہشت گردوں کا مقصد ملک کو انتشار کی صورتحال سے دوچار کرنا ہے۔
شدت پسند عناصر کی سرگرمیوں کا ایک پہلو کرکٹ میچز جیسی بین الاقوامی دلچسپی کی سرگرمیوں کے لیے ناسازگار حالات پیدا کرکے ملک کو رسوا کرنے کی صورت میں بھی سامنے آیا۔ یہی نہیں بلکہ چند برس قبل تک تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ملکی معیشت کو قرار واقعی نقصان پہنچا کر عالمی مالیاتی اداروں کے دروازے تک پہنچانے کے حالات جس طرح پیدا کیے گئے، اسے بھی دہشت گردی اور امن و امان کو نقصان پہنچانے والے واقعات سے الگ دیکھنا ممکن نہیں۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ امریکی ڈرون حملوں کی موجودگی، طالبان اور حکومتی مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ کا کام کرے گی۔ امریکی ڈرون حملوں میں بے گناہ افراد بھی شہید ہوتے ہیں جس کی وجہ سے قبائلی عوام میں شدید ردعمل پایا جاتا ہے اور آخرکار یہی ردعمل انھیں جذبہ انتقام کے تحت دہشت گردوں کی صف میں لاکر کھڑا کردیتا ہے۔ اس حوالے سے میاں صاحب کا بیان امید افزا ہے جس میں وہ ڈرون حملوں کی بابت امریکا کو قائل کرلینے کا عندیہ دے چکے ہیں۔
ویسے بھی کسی بیرونی طاقت کو من مانے طور پر ملکی حدود کی خلاف ورزی کی چھوٹ نہیں دی جاسکتی کیونکہ یہ قومی غیرت و حمیعت اور ملکی خود مختاری کے تقاضوں کے منافی ہے۔ طالبان کی طرف سے تسلسل کے ساتھ ڈرون حملوں کی شدید مذمت کی جارہی ہے، اس لیے طالبان اور حکومتی مذاکرات کو کامیاب اور نتیجہ خیز بنانے، مسئلے کا پائیدار حل نکالنے کے لیے ان حملوں کا روکنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ ان حملوں میں چند دہشت گرد ضرور ہلاک ہوتے ہیں مگر معصوم عوام کی خاصی بڑی تعداد اس سے نہ صرف متاثر ہوتی ہے بلکہ براہ راست ان حملوں کا نشانہ بھی بنتی ہے۔ کتنے ہی معصوم بچے ان حملوں میں عمر بھر کی معذوری کا شکار ہوچکے ہیں۔ اس وقت بدامنی، لاقانونیت اور قتل و غارت کی نئی لہر کو روکنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ ان وارداتوں میں اپنے اپنے مقاصد کے لیے سرگرم کئی طرح کے گروہ ملوث ہیں جب کہ ان میں سے تحریک طالبان پاکستان کا ایجنڈا واضح ہے۔
طالبان کی طرف سے کی جانے والی مذاکرات کی پیشکش کو ہمارے ریاستی اداروں نے کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ ان کے خیال میں، ماضی میں مذاکرات کے ذریعے جتنے بھی امن معاہدے ہوئے دہشت گردوں نے انھیں اپنی منتشر ہوتی ہوئی قوت کو دوبارہ منظم کرنے اور اپنی طاقت بڑھانے کے لیے مزید وقت حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا۔ یہ سوچ اپنی جگہ درست سہی مگر قومی سلامتی کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے مسئلے کا معقول اور قابل قبول حل نکالنے کے لیے گفت و شنید کا دروازہ کھلا رکھنا ہی بہتر ہے۔ طالبان اس وقت ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں اور ان کا وجود افغانستان میں ہونے والی غیر ملکی مداخلت اور جنگی کارروائیوں سے جڑا ہوا ہے۔ اگر دلائل و براہین سے انھیں قائل کرکے امن و سلامتی کی طرف لایا جائے تو ملک میں سر اٹھانے والے بہت سے دوسرے فتنے فرو کرنے میں بھی خاصی مدد مل سکتی ہے۔ جمہوری حکومت، سیاسی جماعتیں اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ معاملے کے اس پہلو پر غور ضرور کرے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ملک بدترین دہشت گردی کا شکار ہے اور تمام تر کوششوں کے باوجود اس میں کمی کے بجائے اضافہ ہورہا ہے۔ ہر روز کوئی نہ کوئی اندوہناک واقعہ رونما ہوجاتا ہے اور ہم اسے روک نہیں پاتے۔ کیا ہم اتنے بے بس ہیں کہ ان واقعات کو روک نہیں سکتے یا اس معاملے میں ہم سیاسی عزم سے عاری ہیں؟ اور اگر سیاسی عزم موجود ہے تو کیا ہم اسے موثر طور پر بروئے کار نہیں لارہے؟ مقتدر قوتوں کو ان سوالات کا جواب تلاش کرنا چاہیے اور جہاں کوئی کمی ہے اسے دور کرنے میں غفلت نہیں برتنی چاہیے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ طالبان کے ساتھ پچھلے کئی برسوں سے لے کر تاحال جو آویزش کی کیفیت جاری ہے اس سے پاکستان کو سخت نقصان پہنچا ہے۔ مذاکرات کو بامقصد اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے ضروری ہے کہ طالبان قیادت سے اس امر کی ضمانت لی جائے کہ مذاکرات کے مثبت نتائج پر عملدرآمد کو بھی یقینی بنایا جائے گا اور ہر قسم کی دہشت گردی کی کارروائیوں سے بھی اجتناب برتا جائے گا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ مذاکرات کا آغاز کیسے ہو؟ اطلاعات ہیں کہ میاں صاحب نے طالبان سے مذاکرات کے لیے مولانا سمیع الحق سے مدد مانگ لی ہے اور آیندہ دنوں میں مذاکرات کا باقاعدہ آغاز ہوجائے گا۔ اس منظر نامے میں، جب کہ دہشت گردی نے وطن عزیز کی بنیادوں کو بری طرح ہلا کر رکھ دیا ہے، مذاکرات کی اولین شرط یہ ہونی چاہیے کہ خون خرابہ فوری طور پر بند کیا جائے اور ساتھ ہی اس بات کی بھی ٹھوس ضمانت دی جائے کہ کسی بھی فریق کی جانب سے نئے ہونے والے امن معاہدے کو توڑا نہیں جائے گا۔
اور جو فریق معاہدے کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو اسے بھاری جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ ماضی میں بھی دیکھا گیا کہ دونوں فریقوں کے درمیان مختلف شعبہ ہائے زندگی میں طے پانے والے معاہدوں کی دھجیاں بکھیری جاتی رہی ہیں۔ دونوں ہی فریق ان خلاف ورزیوں کا ذمے دار ایک دوسرے کو قرار دیتے رہے ہیں۔ اب ماضی کے ان تلخ تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ حکومت تمام ریاستی اداروں سے وسیع تر مشاورت کا اہتمام کرے۔ خاص طور پر عسکری قیادت سے مشاورت کے بغیر کوئی فیصلہ نہ کیا جائے کیونکہ پاکستان کی عسکری قیادت نے دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے سیکڑوں افسران اور اہلکاروں کی قربانیاں پیش کی ہیں۔ اس مسئلے کا تعلق چونکہ ملک کی سلامتی، آزادی اور خود مختاری سے ہے لہٰذا تمام سیاسی ادارے مل بیٹھ کر ایک سنجیدہ موقف اختیار کریں پھر اس کی روشنی میں معاہدے کی شرائط طے کی جائیں۔ مکمل اتفاق رائے سے طے شدہ شرائط کے بعد ہی طالبان سے مذاکرات کا آغاز کیا جائے۔ مذاکرات میں جن سیاسی قوتوں کو شامل کیا جائے انھیں بھی یہ بات پیش نظر رکھنی ہوگی کہ ماضی کی طرح کوئی ایسا مبہم اور غیر واضح موقف اختیار نہ کیا جائے جو عوام کی توقعات سے جدا ہو۔ عوام کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اس معاہدے کی رو سے انھیں جان و مال کا کس طرح کا تحفظ فراہم کیا جارہا ہے۔
ملک میں جاری دہشت گردی کی کارروائیوں کے حوالے سے یہ بات خاص طور پر محسوس کی گئی ہے کہ دہشت گردوں کا خاص ہدف حفاظتی چوکیاں، اہم سیاسی و مذہبی رہنما اور سیکیورٹی فورسز کے قافلے بنتے چلے آرہے ہیں۔ بعد ازاں حساس اداروں اور حفاظتی ایجنسیوں کی اہم عمارات پر بھی حملے کیے گئے جب کہ مساجد اور کھلے بازاروں میں بھی آگ و خون کا کھیل کھیلا جاتا رہا ہے۔ بظاہر دہشت گردوں کی اس شدت پسندی کی کوشش یہ نظر آئی کہ ایک طرف تو زیادہ سے زیادہ جانی نقصان کے ذریعے عوام میں عدم تحفظ کی کیفیت پیدا کی جائے تو دوسری جانب ملکی سلامتی سے تعلق رکھنے والے معاملات کو بھی الجھا کر رکھا جائے۔ تعلیمی اداروں اور تربیتی مراکز کی تباہی، دوست ممالک سے تعلقات میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے ان کے ماہرین کے اغوا و قتل کے واقعات بھی اسی جانب اشارہ کرتے ہیںکہ دہشت گردوں کا مقصد ملک کو انتشار کی صورتحال سے دوچار کرنا ہے۔
شدت پسند عناصر کی سرگرمیوں کا ایک پہلو کرکٹ میچز جیسی بین الاقوامی دلچسپی کی سرگرمیوں کے لیے ناسازگار حالات پیدا کرکے ملک کو رسوا کرنے کی صورت میں بھی سامنے آیا۔ یہی نہیں بلکہ چند برس قبل تک تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ملکی معیشت کو قرار واقعی نقصان پہنچا کر عالمی مالیاتی اداروں کے دروازے تک پہنچانے کے حالات جس طرح پیدا کیے گئے، اسے بھی دہشت گردی اور امن و امان کو نقصان پہنچانے والے واقعات سے الگ دیکھنا ممکن نہیں۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ امریکی ڈرون حملوں کی موجودگی، طالبان اور حکومتی مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ کا کام کرے گی۔ امریکی ڈرون حملوں میں بے گناہ افراد بھی شہید ہوتے ہیں جس کی وجہ سے قبائلی عوام میں شدید ردعمل پایا جاتا ہے اور آخرکار یہی ردعمل انھیں جذبہ انتقام کے تحت دہشت گردوں کی صف میں لاکر کھڑا کردیتا ہے۔ اس حوالے سے میاں صاحب کا بیان امید افزا ہے جس میں وہ ڈرون حملوں کی بابت امریکا کو قائل کرلینے کا عندیہ دے چکے ہیں۔
ویسے بھی کسی بیرونی طاقت کو من مانے طور پر ملکی حدود کی خلاف ورزی کی چھوٹ نہیں دی جاسکتی کیونکہ یہ قومی غیرت و حمیعت اور ملکی خود مختاری کے تقاضوں کے منافی ہے۔ طالبان کی طرف سے تسلسل کے ساتھ ڈرون حملوں کی شدید مذمت کی جارہی ہے، اس لیے طالبان اور حکومتی مذاکرات کو کامیاب اور نتیجہ خیز بنانے، مسئلے کا پائیدار حل نکالنے کے لیے ان حملوں کا روکنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ ان حملوں میں چند دہشت گرد ضرور ہلاک ہوتے ہیں مگر معصوم عوام کی خاصی بڑی تعداد اس سے نہ صرف متاثر ہوتی ہے بلکہ براہ راست ان حملوں کا نشانہ بھی بنتی ہے۔ کتنے ہی معصوم بچے ان حملوں میں عمر بھر کی معذوری کا شکار ہوچکے ہیں۔ اس وقت بدامنی، لاقانونیت اور قتل و غارت کی نئی لہر کو روکنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ ان وارداتوں میں اپنے اپنے مقاصد کے لیے سرگرم کئی طرح کے گروہ ملوث ہیں جب کہ ان میں سے تحریک طالبان پاکستان کا ایجنڈا واضح ہے۔
طالبان کی طرف سے کی جانے والی مذاکرات کی پیشکش کو ہمارے ریاستی اداروں نے کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ ان کے خیال میں، ماضی میں مذاکرات کے ذریعے جتنے بھی امن معاہدے ہوئے دہشت گردوں نے انھیں اپنی منتشر ہوتی ہوئی قوت کو دوبارہ منظم کرنے اور اپنی طاقت بڑھانے کے لیے مزید وقت حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا۔ یہ سوچ اپنی جگہ درست سہی مگر قومی سلامتی کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے مسئلے کا معقول اور قابل قبول حل نکالنے کے لیے گفت و شنید کا دروازہ کھلا رکھنا ہی بہتر ہے۔ طالبان اس وقت ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں اور ان کا وجود افغانستان میں ہونے والی غیر ملکی مداخلت اور جنگی کارروائیوں سے جڑا ہوا ہے۔ اگر دلائل و براہین سے انھیں قائل کرکے امن و سلامتی کی طرف لایا جائے تو ملک میں سر اٹھانے والے بہت سے دوسرے فتنے فرو کرنے میں بھی خاصی مدد مل سکتی ہے۔ جمہوری حکومت، سیاسی جماعتیں اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ معاملے کے اس پہلو پر غور ضرور کرے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ملک بدترین دہشت گردی کا شکار ہے اور تمام تر کوششوں کے باوجود اس میں کمی کے بجائے اضافہ ہورہا ہے۔ ہر روز کوئی نہ کوئی اندوہناک واقعہ رونما ہوجاتا ہے اور ہم اسے روک نہیں پاتے۔ کیا ہم اتنے بے بس ہیں کہ ان واقعات کو روک نہیں سکتے یا اس معاملے میں ہم سیاسی عزم سے عاری ہیں؟ اور اگر سیاسی عزم موجود ہے تو کیا ہم اسے موثر طور پر بروئے کار نہیں لارہے؟ مقتدر قوتوں کو ان سوالات کا جواب تلاش کرنا چاہیے اور جہاں کوئی کمی ہے اسے دور کرنے میں غفلت نہیں برتنی چاہیے۔