شام کا بحران فلسطینی مزاحمت کے لیے خطرہ
انبیاء علیہم السلام کی سر زمین فلسطین گزشتہ پینسٹھ برس سے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے تسلط میں ہے...
انبیاء علیہم السلام کی سر زمین فلسطین گزشتہ پینسٹھ برس سے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے تسلط میں ہے، غاصب اسرائیل جو کہ 15مئی 1948ء کو برطانوی سامراج کی سازشوں کے نتیجے میں وجود میں آیا۔اسرائیل اپنے غاصبانہ وجود کے پہلے روز سے اب تک فلسطینیوں پر ظلم وستم کی ہزاروں داستانیں رقم کر چکا ہے۔دوسری جانب فلسطین اور فلسطین کے باسیوں نے بھی یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کریں گے، یہی وجہ ہے کہ خطے میں موجود چند عرب ممالک بھی فلسطینیوں کی مدد و نصرت میں پیش پیش ہیں۔البتہ اوائل میں یہ بات ہمیشہ ان عرب ممالک کو واضح رہی ہے کہ تنہا اسرائیل جیسے دشمن سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا ہے،تاہم دور حاضر میں ہم دیکھتے ہیں فلسطینی مجاہدوں سمیت سرحدوں پر موجود کچھ عرب ممالک میں موجود مجاہدین کی مزاحمت رنگ لائی ہے اور اب اسرائیل جیسی خطر ناک طاقت شکست کا سامنا کر رہی ہے۔
آج فلسطین پر اسرائیلی غاصبانہ تسلط کے پینسٹھ سال مکمل ہونے کے باوجود بھی فلسطینیوں کو کئی ایک مسائل اور معاملات کا سامنا ہے۔
خلیجی ریاستوں کی تنگ نظری ایک بڑا مسئلہ:
ناہید حتار جو کہ اردن میں مقیم ہیں اور معروف تجزیہ نگار ہیں کہتے ہیں کہ پوری فلسطینی قوم اور عربوں کی جدوجہد کا محور و مرکز صرف اور صرف یہ ہے کہ اسرائیل خطے میں ان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔حتار کے مطابق فلسطینی جد وجہد آزاد ی اور اسرائیل کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں تمیزکرنا ضروری ہے۔کیونکہ مجاہدین جو قدم اٹھا رہے ہیں وہ ان کا بنیادی حق ہے جب کہ اسرائیل ایک غاصب ریاست ہے جو غیر قانونی طور پر قابض ہے اور اس کا وجود بھی غیر قانونی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ کچھ عرب ریاستیں اس بات پر معتقد ہیں کہ فلسطین اور اسرائیل کے مابین گفت و شنید کا عمل ہونا چاہیے اور اس مسئلے کو حل کیا جائے جب کہ فلسطینیوں کی خواہشات اس کے بر عکس ہیں کیونکہ فلسطینی ایک غاصب صیہونی ریاست کے زیر تسلط ہیں جسے وہ کسی صورت تسلیم کرنے سے قاصر ہیں۔دوسری جانب عرب ریاستیں جو خطے میں طاقت رکھتی ہیںلیکن ان کی طرف سے فلسطین کی جدوجہد آزادی میں کسی قسم کی کوئی مدد سامنے نہیں آ تی جو کہ خود ایک سوالیہ نشان ہے۔
جب ہم فلسطینیوں کی غاصب اسرائیل کے مقابلے میں جدو جہد کی بات کرتے ہیں تو ہم صرف مسئلہ فلسطین کو فلسطینیوں تک محدود نہیں کرتے بلکہ یہ پورے خطے میں رہنے والے تمام عربوں اور عرب ریاستو ں کے لیے ہے۔فلسطینی کاز صرف فلسطینیوں تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے اس لیے ہم کہتے ہیں کہ یہ تمام عربوں کے لیے اہمیت کا حامل ہے جو اس خطے میں موجود ہیں۔بہرحال اردن کے معروف تجزیہ نگار ناہید حتار اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ غاصب اسرائیلی دشمن کے ساتھ مزاحمت کی زبان میں بات کی جائے ،دوسری جانب در پیش مسائل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے حتار کہتے ہیں کہ خلیجی ریاستوں کا سب سے بڑا مسئلہ ان کی تنگ نظری اور خلیجی ممالک میں فرقہ واریت کو فروغ دینا ہے۔جب کہ حقیقت اس کے بر عکس ہے،کیونکہ یہاں فرقہ واریت کو کبھی زیادہ مستحکم نہیں کیا گیا لیکن اب ایک منصوبہ بندی کے تحت فرقہ واریت کو ہوا دی جا رہی ہے جو کہ آزادیٔ فلسطین اور جدوجہد فلسطین کے لیے شدید خطرناک ہے۔ناہید حتار خلیجی ممالک میں فرقہ واریت کو سب سے بڑا مسئلہ اور بنیادی مسئلہ قرار دیتے ہیں۔
یہ سعودی عرب جیسی مسلم ریاست کی تنگ نظری ہی تھی کہ جس نے 1976ء کی جنگ میں مصر کے خلاف اسرائیل کا ساتھ دیا اور اسرائیل جیسے خطرناک دشمن کو مالی تعاون جاری رکھا۔اسی طرح مسئلہ فلسطین کو سبوتاژ کرنے کے لیے اوسلو جیسے معاہدے بھی کیے گئے جو دراصل فلسطینی کاز اور فلسطینیوں سے خیانت کے مترادف ہے۔
آج کل بعض عرب ممالک نے شام میں جنگ چھیڑ رکھی ہے اور اس جنگ کی وجہ سے فلسطینیوں کی مزاحمت براہ راست اسرائیل کے خلاف کمزور پڑنے کے خطرات موجود ہیں۔حتار کہتے ہیں کہ ان دونوں بعض عرب ریاستوں نے دسیوں ہزار دہشت گردوں کو شام میں لڑائی کے لیے بھرتی کیا ہے جو شام میں لڑائی میں مصروف ہیں اور بے گناہوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگین کر رہے ہیں۔
یہاں سب سے بڑا اور سنگین مسئلہ یہ ہے کہ خلیجی ریاستو ں کے پاس بیش بہا دولت موجود ہے جسے وہ فلسطینیوں کی آزادی کے لیے ہونے والی مزاحمت کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔اسی طرح مزاحمت کے لیے دوسری بڑی دھمکی اور مسئلہ امریکا اور اسرائیل خود ہیں۔یہ دونوں قوتیں فلسطین کی آزادی کی جد وجہد کرنے والے مزاحمتی گروہوں کے خلاف خطر ناک ترین اسلحوں کا استعمال کرتی ہیں اور اس کوشش میں ہیں کہ کسی طرح مزاحمت کو ختم کیا جائے۔
اردن کے تجزیہ نگار حتار کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے خلاف ہونے والی جدوجہد میں مزاحمت کی طاقت کے کئی ایک محور ہیں جن میں سے پہلا اور بنیادی محور حزب اللہ لبنان ہے جو دن دگنی ترقی کر رہی ہے اور مضبوط ہو رہی ہے۔اسی طرح شام مزاحمت کی طاقت کا دوسرا عنصر ہے،حالانہ دمشق آج کل حالت جنگ میں ہے لیکن اس کے باوجود کافی مضبوط ہے۔شام کی موجودہ صورتحال کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے حتار کہتا ہے کہ شام ایک طرف دہشت گردوں سے نبرد آزما ہے تو دوسری طرف شام فلسطینی مزاحمت کو بھرپور مدد فراہم کر رہا ہے جب کہ شام نے گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کے ساتھ بھی محاذ کھول رکھا ہے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ شام فلسطینی مزاحمت کا حامی اور مدد گار ہے ، یہی وجہ ہے کہ امریکا اور اسرائیل چاہتے ہیں کہ شام کو کمزور کیا جائے تا کہ فلسطینی مزاحمت کا راستہ روکا جائے۔
مزاحمت کی طاقت کا تیسرا بڑا عنصر ایک عالمی اتحاد جو کہ ایران،روس،چین سمیت BRICSممالک پر مشتمل ہے۔
مسجد القدس کے پیش امام شیخ مہر حمود نے گزشتہ برسوں میں کئی ایک حقیقتوں پر گفتگو کی ہے ،شیخ حمود کہتے ہیں کہ امریکا اسرائیل اور خلیجی ممالک کی تمام تر منصوبہ بندیاں ناکام ہو چکی ہیں اور فلسطینی مزاحمت اپنے راستے پر گامزن ہے ۔اس حوالے سے شیخ مہر حمود کاکہنا ہے کہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کرنا یا کسی قسم کی سودے بازی کرنا قطعاً جائز نہیں اور یہ درست راستہ نہیں ہے۔شیخ حمود کاکہنا ہے کہ مزاحمت ہی صرف واحد درست راستہ ہے جو اسرائیل جیسے دشمن کے ساتھ روا رکھا جا نا چاہیے۔شیخ حمود نے فلسطین کو درپیش کئی ایک مسائل کی طرف روشنی ڈالی ہے۔شیخ حمود کے مطابق فلسطین کی جدوجہد اور مزاحمت کو جو بڑے خطرات لاحق ہیں ان میں بنیادی خطرہ فرقہ واریت اور شام میں جاری بحران ہے جس کا مقصد فلسطین مزاحمت کو کمزور کرنا ہے۔ان کاکہنا ہے کہ فرقہ واریت ایک زہر قاتل ہے جب کہ فلسطینی مزاحمت متحد اور وحدت کے ساتھ سر گرم عمل ہے۔
شیخ حمود کاکہنا ہے کہ عربوں کا دبائو ہے کہ فلسطین کسی طرح مفاہمت کی پالیسی پر عمل پیرا ہو جائے اور اسرائیل جیسے غاصب دشمن کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے معاملات کا حل نکالے۔معروف عالم دین شیخ احمد نے شام میں جاری بحران اور شام کے خلاف ہونے والی سازشوں کو فلسطینی کاز کے لیے شدید خطرہ قرار دیا ہے۔شیخ کہتے ہیں کہ جب ہم شام کے بحران کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ اس کے اسٹراٹیجیکل پہلو اور مقاصد پر غور کریں۔ہمیں دمشق کی وہ تمام مدد اور حمایت نہیں بھولنی چاہیے جو آج تک فلسطینی مزاحمت کے لیے جاری ہے۔
دوسری طرف جماعۃ السلامیہ کے سیاسی شعبے کے سربراہ اعظم الایوبی کہتے ہیں کہ فلسطین آزادی کے قریب ہے اور فلسطینی کاز پہلے سے زیادہ اہمیت کا حامل ہو چکا ہے جب کہ عرب ممالک اپنے مقامی مسائل میں ہی الجھے ہوئے ہیں۔ایوبی کہتے ہیں کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ فلسطینی کاز آزادی کے بہت ہی قریب پہنچ چکا ہے،ہمیں یقین ہے کہ اسرائیل اپنی نابودی کے ایام میں داخل ہو چکا ہے اور خطے کے عوام بہت جلد اس خوش خبری سے آگاہ ہوں گے۔خطے کی موجودہ صورتحال اور فلسطین مزاحمت کی راہ میں درپیش مسائل کے بارے میں ایوبی کاکہنا ہے کہ یقینا خطے میں کئی ایک ایسے مسائل ہیں جو براہ راست فلسطین کی آزادی کی راہ میں رکاوٹوں کے مترادف ہیں اور انھی مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ شام میں پیدا ہونے والا بحران ہے جو چند عرب ریاستوں کی ایماء پر پیدا کیا گیا ہے ۔یہ بات بھی درست ہے کہ خطے کے ممالک کے لوکل اور سطحی مسائل در اصل فلسطین کی آزادی میں بڑی رکاوٹ کا باعث ہیں تاہم عرب ممالک کو چاہیے کہ اس قسم کے معاملات سے صرف نظر کریں اور فلسطین کی آزادی کے لیے مسائل پیدا نہ کریں۔ایوبی کہتے ہیں کہ میں انتہائی یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ اگر عرب ریاستیں اپنے اندرونی اختلافات کو ختم کر لیں تو فلسطین کی آزادی انتہائی قریب ہے۔