کراچی کی دوسری بشریٰ زیدی
یہ 15 اپریل 1985 کی ایک روشن صبح تھی، 8 بجنے والے تھے، اس دن کراچی کی سیاسی قسمت کا فیصلہ ہونا تھا...
یہ 15 اپریل 1985 کی ایک روشن صبح تھی، 8 بجنے والے تھے، اس دن کراچی کی سیاسی قسمت کا فیصلہ ہونا تھا، دو بہنیں نجمہ زیدی اور بشریٰ زیدی، نواب صدیق علی خان روڈ عبورکرکے سرسید کالج کی جانب جارہی تھیں، یہ دونوں بے خبر تھیں کہ موت ان کے تعاقب میں آرہی ہے، اسی روڈ پر لیاقت آباد ڈاکخانے کی جانب سے این ون روٹ کی دو منی بسیں ریس لگاتی ہوئی آرہی تھیں اور پھر ان منی بسوں نے سگنل توڑتے ہوئے بشریٰ اور نجمہ کو ایک ساتھی طالبہ کے ساتھ کچل دیا، 20 سالہ بشریٰ زیدی تو موقع پر ہی جاں بحق ہوگئی، بشریٰ کی بہن نجمہ اور ساتھی طالبہ شدید زخمی ہوگئیں، اس حادثے سے ایک دن پہلے ہی یہاں ٹریفک سگنل نصب کیے گئے تھے، حادثے کا شکار ہونے والی طالبات کو قریبی واقع عباسی شہید اسپتال پہنچا دیا گیا، یہ واقعہ بظاہر ایک ٹریفک حادثہ ہے مگر اس حادثے نے کراچی کو بدل دیا۔
جیسے ہی اس حادثے کی خبر سرسید کالج پہنچی، وہاں کی طالبات احتجاج کے لیے روڈ پر آگئیں، قریبی واقع عثمانیہ کالج کے طلبہ بھی احتجاج کے لیے جمع ہوگئے، بس نذرآتش کردی گئی۔ مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ بس ڈرائیورکو سزا دی جائے، اس وقت شدید اشتعال تھا، پولیس کی حکمت عملی شاید درست نہیں تھی، پولیس نے طلبہ کو منتشرکرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل فائر کردیے، 80 سے زائد طلبا اسپتال پہنچ گئے اور پھر کراچی میں ہنگاموں کا ایک نا ختم ہونے والاسلسلہ شروع ہوگیا۔ حالات پر قابو پانے کے لیے فوج طلب کرلی گئی، اس وقت کے وزیراعلیٰ غوث علی شاہ تھے۔ متاثرہ علاقوں میں شام 4 بجے کرفیو لگادیا گیا۔
اگلے دن جب بشریٰ زیدی کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے کچھ طلبا بذریعہ بس اورنگی ٹاؤن سے آرہے تھے تو بنارس چورنگی کے قریب مبینہ طور پر ان کی بس پر حملہ کردیا گیا، اس واقعے نے بشریٰ زیدی کے حادثے میں مزید اشتعال کا رنگ بھردیا اور پھر پورے کراچی میں جگہ جگہ احتجاج شروع ہوگیا، یہ احتجاج بظاہر تو بس ڈرائیورکی گرفتاری کے لیے تھا تاہم اس کو لسانی رنگ دے دیا گیا، بس ڈرائیور پختون تھا، کراچی میں پختون مہاجر فسادات کا آغاز ہوگیا۔ بشریٰ زیدی کی ہلاکت کے بعد ایک ہفتے تک تو یہ حال تھا کہ ہر 10 منٹ بعد کراچی میں ایک زخمی یا مقتول اسپتال پہنچایا جارہا تھا۔ بشریٰ زیدی واقعے کے ردعمل میں ہونے والے مختلف واقعات کے نتیجے میں 200 افراد جاں بحق ہوگئے، تعلیمی ادارے بندکردیے گئے۔
بشریٰ زیدی کے والد عمان میں ملازمت کرتے تھے، وہ اپنی بیٹی کی ہلاکت پر کراچی واپس لوٹے، انھوں نے فسادات کرنے والوں سے پرامن رہنے کی بھی اپیل کی، ان کی کسی سیاسی جماعت سے وابستگی نہیں تھی، انھوں نے اس بس ڈرائیورکے لیے معافی کا بھی اعلان کیا مگر لوگوں کے جذبات اب کوئی اور رخ اختیار کرچکے تھے، معاملہ بڑھتا جارہا تھا، ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد، لیاقت آباد اور اورنگی ٹاؤن میدان جنگ بن گئے۔ لسانی نفرتوں کو ہوا دیتے نامعلوم افراد کی جانب سے شایع ہونے والے پمفلٹس شہر میں گردش کرنے لگے۔ ان دنوں پہلی دفعہ نوجوانوں کے ہاتھ میں اسلحہ دیکھا گیا تھا، یہ اسلحہ ان کے ہاتھ میں کیسے آیا، آج تک اس کا پتہ نہیں چل سکا۔ 1990 کے بعد سے بشریٰ زیدی کی فیملی کا بھی کچھ پتہ نہ چلا، وہ لوگ شاید کراچی چھوڑ گئے مگر کراچی اس حادثے کے بعد آج تک نہیں بدلا، بشریٰ زیدی کے حادثے کے اثرات کراچی پر اب بھی باقی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ جس ڈرائیور کو پختون کہہ کر لسانی فسادات کا آغاز کیا گیا، وہ دراصل آزاد کشمیر کا رہنے والا تھا، اس کی قومیت کی تصدیق کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی، 10 سال جیل میں رہنے کے بعد وہ ڈرائیور بھی رہا ہوگیا۔ ان ہی دنوں کراچی میں آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اپنی سیاسی شناخت کے ساتھ مہاجر قومی موومنٹ کے روپ میں سامنے آئی تھی، بشریٰ زیدی کے واقعے کے بعد مہاجر قومی موومنٹ کی مقبولیت آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگی، اس ایک واقعے نے کراچی کے لوگوں کی سیاست کو بدل کر رکھ دیا، مہاجر قومی موومنٹ کراچی کے لوگوں کی مقبول ترین جماعت بن گئی۔ یہ 1985 کی بات ہے، اس حادثے کو 28 سال گزر چکے ہیں، ان 28 برسوں میں کراچی میں ایک دن کے لیے بھی امن قائم نہ ہوسکا مگر 28 سال بعد ایک اور واقعہ ہوا۔
کراچی میں 18 مئی 2013 کو زہرہ شاہد حسین کو گولیاں ماردی گئیں، پی ٹی آئی کی مرکزی رہنما 59 سالہ پروفیسر زہرہ شاہد حسین کو ان کے گھر کے باہر گولیاں ماری گئیں، اگرچہ ان کے قتل کا ردعمل لسانی، فرقہ وارانہ یا کسی بھی قسم کے ہنگامہ خیز ردعمل کے طور پر سامنے نہیں آیا، تاہم یہ قتل کراچی کے لوگوں میں سیاسی تبدیلی کا محرک بن گیا ہے۔ تحریک انصاف کراچی میں ایک اہم جماعت بن کر ابھری ہے، کراچی میں سندھ اسمبلی کی تین اور قومی اسمبلی کی ایک نشست پر کامیاب ہونے والی یہ جماعت کل تک ملک کی ون سیٹ پارٹی تھی، تحریک انصاف کی مرکزی رہنما فوزیہ قصوری نے 30 اکتوبر کو لاہور میں ہونے والے جلسے کے دوران زہرہ شاہد حسین کی ایک انگریزی نظم سنائی تھی۔
زہرہ شاہد نے جس آرزوکا اظہارکیا، اس کی تکمیل کی خاطر خود ہی قربانی دینی پڑی۔ شاید آرزو اپنی تکمیل کے لیے قربانی مانگتی ہے اور زہرہ شاہد نے ایک بہت بڑی خواہش کا بیڑا اٹھایا تھا، اس خواہش کی تکمیل میں انھیں اپنی جان ہی قربان کرنی پڑی۔زہرہ شاہد کراچی کی ممتاز اہل دانش خانوادے سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان کے یورپین اسٹڈیز کے کئی طلبا اور طالبات کو ان کی ہلاکت کا غم سہنا پڑا ۔وہ شفیق استاد تھیں ۔ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان ان کی بے پناہ عزت کرتے تھے۔یہ شہر بے اماں ہزاروں ہلاکتوں کے بعد شاید زہرہ شاہد کے الم ناک قتل میں ملوث عناصر کو بھی قانون کی گرفت میں نہیں لاسکے گا۔
بشریٰ زیدی اور زہرہ شاہد کراچی کے دو ایسے واقعات ہیں، جن کے بعد کراچی کے لوگوں کی سیاسی سوچ میں تبدیلی واقع ہوئی ہے، بشریٰ زیدی حادثے کے بعد ایم کیو ایم کو عروج ملا، زہرہ شاہد کے قتل کے بعد کراچی میں تحریک انصاف کی ہمدردی کی ایک زبردست لہر پیدا ہوئی ہے، اگرچہ زہرہ شاہد کے قتل کے بعد وہ حالات رونما نہیں ہوئے، جن کو فسادات سے تعبیر کیا جاسکے تاہم شعوری سطح پر زہرہ شاہد کا قتل اسی تبدیلی کی شکل میں سامنے آیا ہے، جو بشری زیدی کے بعد پیدا ہوئی تھی۔خوںریزی کے خلاف عوامی سوچ کی تبدیلی ایک اہم انقلابی واقعہ ہے۔
کراچی کی سیاست اس شہرکے موسم کی طرح ہے، کچھ بعید نہیں کہ کراچی کے حالات جلد ہی آج سے 28 سال پہلے والے اپریل کا لبادہ اوڑھ لیں، کراچی کے نبض شناسوں کو بدلتے موسم کے تیور نظر آرہے ہیں، انھیں زہرہ شاہد کی صورت میں ایک اور بشری ٰ زیدی نظر آرہی ہے۔ نئی حکومتکو کراچی میں عظیم تر امن مشن کی تکمیل کے لیے سیاسی اتفاق رائے اور مشترکہ قومی مفادات کی روشنی میں شہر کراچی کا امن ایک بڑا چیلنج ہے۔