موزے موزے پر لکھا ہے
پاکستان میں حالات خراب ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے… ہم پر بار بار پابندیاں لگا دی جاتی ہیں...
پاکستان میں حالات خراب ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے... ہم پر بار بار پابندیاں لگا دی جاتی ہیں، یہ بھی کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن جو نیا ہے وہ یہ کہ ''لگتاہے حکومت عوام کی کھال کھینچ لے گی'' میں کچھ بدلائو آگیا ہے، حکومت عوام کی کھال تو کھینچ ہی رہی ہے، اب موزے بھی کھینچنے کی تیاری میں ہے۔
ایک مثال یہ بھی ہے کہ ہمارے حالات تو سر سے پائوں تک خراب ہیں لیکن پاکستان میں یہ مثال صرف مثال نہیں، پورا ثبوت سوسائٹی میں موجود ہے، ہمارے عوام پر سر سے پائوں تک عجیب قسم کی پابندیاں لگی ہوئی ہیں... ایسی پابندیاں جن کی مثال اور کہیں نہیں ملتی، سر سے شروع کریں تو بجلی پر پابندی، پاکستان سے باہر رہنے والے لوگ بڑے آرام سے کہہ دیتے ہیں کہ پاکستانیوں میں تو کوئی''کرٹسی'' نہیں ہے جسے دیکھو کاٹنے کو دوڑتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایک شخص کے گھر میں بجلی نہ ہو تو روز دماغ خراب ہونے کی وجہ سے آپ کو سڑک پر گزرتا دیکھ کر خوشی کے مارے کجرارے پر ناچنا شروع کردے، ایسا تو نہیں ہے۔
سر سے نیچے آئیں تو آنکھوں پر پابندی... پاکستان میں یوٹیوب پر پابندی ہے... ہم نے مانا کہ یوٹیوب پر کچھ ایسی ویڈیوز تھیں جن پر اعتراض ضروری تھا اور ان کو ہٹانے کی اپیل بھی بالکل درست تھی لیکن یو ٹیوب کو باقاعدہ حکومتی سطح پر بین کرنے سے ہمارے عوام کو فائدے سے زیادہ نقصان ہے، یوٹیوب کا نہ دیکھنے کا فیصلہ خود اپنا ہونا چاہیے۔ خان اکیڈمی کے نام سے یوٹیوب پر مفت ٹیوشنز دینے والا لڑکا جس کی ویڈیوز کو بل گیٹس تک نے سراہا ہے جس سے بل گیٹس کے اپنے بچے سمیت دنیا بھر کے لوگ فائدہ اٹھارہے ہیں، لیکن ہماری آنکھوں کے لیے یوٹیوب پر پابندی ہے۔
آنکھوں سے نیچے اتریں تو ہمارے بولنے پر پابندی... پاکستان کے بڑے شہروں میں جب کوئی بڑا دن ہوتا ہے تو فوراً موبائل فون پر پابندی لگادی جاتی ہے، تاکہ کسی مصیبت کے وقت آپ کے خوامخواہ فون سامنے ہونے پر کسی فائر، پولیس یا ایمبولینس کے ڈپارٹمنٹ کو تنگ نہ کریں... نائن الیون ہو یا کوئی سیلاب یا یوم آزادی... امریکا جیسے ملکوں میں کوئی بڑا دن یا سانحہ ہو تو موبائل فون مفت کردیے جاتے ہیں، وہ فون جن میں کریڈٹ نہ ہو وہ تک اس دن کے لیے کھول دیے جاتے ہیں لیکن پاکستان میں چاند رات ہو یا نیو ایئرز ہمارے بولنے پر پابندی۔
منہ سے نیچے اتریں تو دل کی بات پر آجائیں... دل کی صحت کے لیے ورزش ضروری ہے، ہارٹ ایسوسی ایشن تک یہ کہتی ہے کہ ہر شخص کو ہفتے میں پانچ دن تیس منٹ کم سے کم ضرور واک کرنی چاہیے لیکن پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں ڈیموکریسی ہونے کے باوجود سکیورٹی والے ایک شخص کو پارک جیسی پبلک پلیس پر موبائل چوری کے شک میں پوائنٹ بلینک گولی مار دیتے ہیں، گھائل شخص کیمرے کے سامنے دم توڑتا ہے اور سب اس شخص کے حقوق کے بارے میں میڈیا سے خبر اڑتے ہی بھول جاتے ہیں، لیکن پوائنٹ بلینک گولی سے بچنے کے لیے ہمارے پارک میں جاکر واک کرنے پر بھی پابندی۔
سنا ہے کہ آدمی کے دل کا راستہ پیٹ سے جاتا ہے لیکن آج ہم دل سے پیٹ پر جا رہے ہیں... ہمارے یہاں پیٹ بھر کر کھانا کھانے پر بھی پابندی ہے... جس ملک میں آٹا، دال، چاول کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں وہاں کتنے فیصد لوگ روز پیٹ بھر کر کھانا کھاتے ہوںگے... پاکستان میں رہنے والے 56% بچے مشکل سے روز ایک وقت کا کھانا کھا پاتے ہیں، وجہ ہمارے یہاں کسی بھی چیز کا پرائس کنٹرول نہ ہونا... امریکا میں گورے کو ایک ڈالر کی کوک خریدتے اور یہ شکایت کرتے دیکھ کر ہمیں ہنسی آتی ہے کہ ''دیکھو یہ کوک آج ایک ڈالر کا ہوگیا ہے، بیس سال پہلے یہ صرف ستر سینٹ کا تھا''... یہاں گورا کئی سال میں صرف کچھ سینٹ بڑھنے پر رو رہا ہے اور میرے پاکستان کا آنے والا کل روز بھوکا سوجاتا ہے، کیونکہ ہمارے سسٹم کی وجہ سے پیٹ بھر کر کھانے پر پابندی ہے۔
پیٹ کے بعد باری آتی ہے ہاتھ کی، لیکن افسوس! ہمارے پاکستان میں یہ ہاتھ ہمارے نہیں، طاقتور سیاست دان کی اس پر بھی پابندی ہے... پاکستان میں الیکشن ہوئے اور لوگوں نے شکایتیں کرنی شروع کردیں کہ ان کے نام کے بھی انگوٹھے لگے یعنی ووٹس دیے گئے، وہ لوگ جو جا ہی نہیں سکتے یعنی جو وفات پاچکے ہیں ان تک کے ہاتھوں کے نشان بیلٹ پیپرز پر لگائے گئے، ایک بات صاف ہوگئی... عوام جیے یا مرے ان کے ہاتھوں پر طاقتور سیاست دان کی مرضی کے ووٹ ڈالنے کی پابندی ہمیشہ رہتی ہے۔
آزاد پاکستان میں ہماری ٹانگیں جکڑی ہوئی ہیں... قائداعظم نے پاکستان اس لیے بنایا کہ یہ قوم مل کر آگے بڑھے، دوڑے لیکن ہماری ٹانگوں پر قومیت کی وہ بیڑیاں پڑی ہوئی ہیں کہ دنیا بھر میں دوڑنا تو دور کی بات ہم اپنے شہر میں رک رک کر چلتے ہیں... پٹھان، مہاجر، سندھی صوبوں میں نہیں علاقوں میں بٹ گئے ہیں، کراچی شہر میں لوگ عام کہتے نظر آتے ہیں کہ وہ تو پٹھانوں کا علاقہ ہے، مہاجر ٹیکسی ڈرائیور کبھی لیاری جانے کو تیار نہیں ہوتا، وجہ یہ نہیں کہ ہم دوسرے علاقوں میں رہنے والوں سے دل سے نفرت کرتے ہیں، وجہ یہ ہے کہ ہمارے پائوں حالات نے جکڑ کر نسلی پابندیوں کی رسی سے اتنی مضبوطی سے باندھ دیے ہیں کہ ہماری ایک قوم والی سوچ کی کمزور قینچی اسے کاٹ نہیں پاتی۔
اوپر سے نیچے تک ہم پابندیوں میں جکڑے ہوئے ہیں، لیکن ہم نے پائوں بچائے ہوئے تھے جوتوں اور جوتوں کے نیچے موزوں میں، لیکن افسوس! اب ان موزوں پر بھی پابندی لگنے والی ہے، کیئر ٹیکر فیڈرل منسٹر برائے بجلی وپانی ڈاکٹر ملک اور سہیل وجاہت نے لاہور میں کچھ عرصے پہلے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ پاور بچانے کے لیے اب تمام حکومتی اداروں میں اے سی نہیں چلیںگے، ساتھ ہی گرمی سے بچنے کے لیے لوگوں کو ہلکے رنگ جیسے سفید، آسمانی، نیلے کپڑے پہننے کی ہدایت دی جائے گی، اس کے ساتھ ہی آفس میں موزے پہننے پر پابندی ہوگی تاکہ گرمی کی وجہ سے موزوں سے بدبو نہ آئے اور یہ اصول اس وقت تک قائم رہے گا جب تک پاکستان میں بجلی پوری طرح بحال نہ ہوجائے۔
ہم امید کرتے ہیں کہ منسٹر صاحب کو کوئی یہ نہ بتادے کہ بدبو موزوں سے نہیں پائوں سے آتی ہے، ورنہ جیسے شاہ جہاں نے تاج محل بنوانے کے بعد سارے مزدوروں کے انگوٹھے کٹوادیے تھے، کہیں منسٹر صاحب گورنمنٹ ملازمین کے بدبو دار پیروں کے ساتھ ایسا نہ کریں۔ 1.2 ملین لوگ اس وقت پاکستانی حکومت کے پے رول پر ہیں، جن کے کچھ دن میں روز صبح دفتر آنے پر موزے چیک کیے جائیںگے اور جہاں کسی کے موزے پکڑے گئے تو انھیں آفس کے باہر لٹکاکر یہ لکھ دیاجائے گا کہ یہ اس غدار کے موزے ہیں جس نے ہماری قوم پر لگائی پابندیوں کی خلاف ورزی کی۔