ووٹ کا حساب
ہر شخص کہہ رہا تھا کہ الیکشن نہیں ہوں گے، مگر سارے اندازے، سارے ستارے غلط نکلے۔
LONDON:
ہر شخص کہہ رہا تھا کہ الیکشن نہیں ہوں گے، مگر سارے اندازے، سارے ستارے غلط نکلے۔ ساری دانشوریاں دھری کی دھری رہ گئیں اور الیکشن ہوگئے۔ دل تو میرا بھی گھبراتا تھا، مگر میں اس گھبراہٹ کے باوجود الیکشن ہی میں آگے بڑھنے کا راستہ دیکھ رہا تھا۔ آج الیکشن ہوئے 16 دن ہوچکے ہیں۔ ان دنوں میں بھی بہت کچھ ہوچکا۔ ہمارے پاس وقت بہت کم ہے اور وقت بڑی تیزی سے گزرتا ہے، سو وہ گزر رہا ہے۔ مگر ہمارا الیکشن کمیشن اپنا کام وقت کی تیز رفتاری کے ساتھ کر رہا ہے۔
اٹھارہ کروڑ کے ملک میں ساڑھے آٹھ کروڑ ووٹرز والے الیکشن میں خامیوں کا رہ جانا، کوئی بڑی بات نہیں ہے اور اس بار الیکشن میں ووٹ کا حق استعمال کرنے والے بھی 60 فیصد تھے۔ الیکشن جن حالات میں ہوئے ہیں وہ بھی سب کے سامنے ہیں۔ دہشت گردی، خودکش بم دھماکے، ٹارگٹ کلنگ، حتیٰ کہ الیکشن میں کھڑے ہوئے امیدواران کی ٹارگٹ کلنگ، پورے ملک میں شدید خوف و ہراس کی فضا بنادی گئی تھی۔ اس کے باوجود حالات کے ہاتھوں بری طرح مار کھائے لوگ بوڑھے، عورتیں مرد، اپاہج، وہیل چیئر پر بیٹھے مجبور مریض بھی الیکشن والے دن پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹ ڈالنے کے لیے باہر نکلے۔ مائیں اپنے بچوں کو گودوں میں اٹھائے اور نوجوان لڑکے لڑکیاں، سبھی جان ہتھیلی پر رکھے، ووٹ ڈالنے کے لیے گھروں سے باہر نکل آئے تھے۔
اتنے بڑے الیکشن کے عمل میں بڑی کوتاہیاں نظر آئیں، اکثر پولنگ اسٹیشنوں پر سامان دیر سے پہنچا، مگر آفرین ہے کہ لوگ اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے سخت دھوپ اور گرمی میں انتظار کرتے رہے اور پھر ذرا دیر سے ہی سہی! ووٹ ڈالنے کا عمل شروع ہو ہی گیا۔
ہمارے پورے ملک کو (کیا شہر کیا گاؤں) جاگیرداری کے عفریت نے بری طرح جکڑ رکھا ہے، ہمیشہ کی طرح شہروں اور دیہاتوں میں اسی ''جاگیرداری عفریت'' نے خوب کام دکھایا اور شہری جاگیرداروں نے بھی اپنے ٹھپہ گروپوں کے ذریعے بیلٹ بکس بھر دیے۔ یہ ٹھپہ گروپ ربڑ کے بنائے ہوئے انگوٹھے بھی ساتھ لائے تھے۔ خیر الیکشن ہوگئے اور نتائج بھی ہمارے سامنے ہیں۔ یہ کم وبیش وہی نتائج ہیں جن کا اندازہ عوام پہلے سے ہی لگائے بیٹھی تھی۔ اسی لیے ان نتائج کو تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے بھی تسلیم کرلیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف ملکی سطح پر بڑی اور اہم طاقتیں بن کر سامنے آئی ہیں، حکمران جماعت پیپلز پارٹی کا انجام یہی ہونا تھا جو ہوا۔ اس جماعت نے جو بویا وہی کاٹا۔
ملک بھر میں تقریباً گیارہ یا بارہ سو قومی و صوبائی اسمبلی کی سیٹوں کے لیے انتخابات ہوئے اور ان میں سے جتنی سیٹوں کے بارے میں دھاندلی کے الزامات لگائے جارہے ہیں ان کی تعداد پورے ملک میں تقریباً ایک سو ہے۔ کہیں جعلی ووٹنگ ہوئی، کہیں گنتی غلط ہوئی، تو کہیں کچھ اور۔ ان تمام مسائل کو الیکشن کمیشن دیکھ رہا ہے۔ جہاں جہاں کوتاہیاں ہوئیں، انھیں دور کیا جارہا ہے، کہیں دوبارہ گنتی ہورہی ہے، کہیں دوبارہ پولنگ ہورہی ہے، الیکشن کمیشن اپنا کام کر رہا ہے۔ بہت سے حلقوں میں دوبارہ گنتی اور دوبارہ پولنگ کے بعد نتائج تبدیل بھی ہوئے اور یوں غلطیوں کو درست کرلیا گیا ہے۔ اس ضمن میں ابھی بہت کام باقی ہے اور ہمیں بھروسہ ہے کہ الیکشن کمیشن اپنے فرائض نہایت خوش اسلوبی سے ادا کرتا رہے گا۔
نادرا کے چیئرمین نے کہا ہے کہ ہم دس روز میں اپنی استطاعت کو بڑھالیں گے اور پھر روزانہ پانچ لاکھ انگوٹھوں کی چیکنگ کا عمل شروع ہوجائے گا۔ یہ بہت اچھی خبر ہے۔ سیکریٹری الیکشن کمیشن جناب اشتیاق احمد بھی نادرا کے چیئرمین کے ساتھ موجود تھے جب یہ خبر پوری قوم کو سنائی جارہی تھی۔ نگراں وزیر اعظم دوست محمد کھوسو نے کہا کہ نادرا کو مطلوبہ فنڈ فوری طور پر جاری کردیا جائے تاکہ جعلی انگوٹھوں کی جانچ پڑتال کے عمل میں کوئی تاخیر نہ ہونے پائے۔
عمران خان نے بھی پنجاب کی پچیس سیٹوں پر تحفظات کا اظہار کیا ہے اور ابتداء صرف چار سیٹوں پر لسٹ انکوائری کے لیے الیکشن کمیشن سے کہا ہے۔ خدا نے چاہا تو عمران خان کے خدشات دور ہوجائیں گے۔
سندھ میں فنکشنل لیگ، مسلم لیگ(ن)، پاکستان تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی اور پیپلز پارٹی کی سسی پلیجو بھی سراپا احتجاج ہیں اور میرے شہر کراچی میں بھی ہنگامہ بپا ہے۔ اس شہر میں دوبارہ الیکشن کرانے کی باتیں ہورہی ہیں۔ جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے جاری ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ بھی جوابی دھرنے دے رہی ہے۔ یہ سب اپنی جگہ مگر آگے بڑھنے کے عمل کو بھی جاری رکھنا ہے۔ خبر آئی ہے کہ 29 مئی کو سب سے بڑی صوبائی اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا گیا ہے اور یکم جون کو صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ حلف اٹھائیں گے۔ ایسی ہی مزید خبروں کی قوم منتظر ہے۔ حکومتیں اپنے فرائض سنبھالیں اور پورے ملک کو بجلی کے بحران سے نجات دلانے کے لیے دن رات ایک کردیں۔ ہمارا الیکشن کمیشن بھی اپنا کام کر تا رہے گا۔ کہاں جعلی انگوٹھے لگے ہیں، کہاں بیلٹ بکس توڑے گئے ہیں، کہاں اسلحے کے زور پر دھڑا دھڑ ٹھپے لگائے گئے ہیں؟ یہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا کیونکہ الیکشن کمشنر جناب فخرالدین جی ابراہیم نے کہہ دیا ہے ''پریزائیڈنگ افسر کو ایک ایک ووٹ کا حساب دینا ہوگا''۔
ہر شخص کہہ رہا تھا کہ الیکشن نہیں ہوں گے، مگر سارے اندازے، سارے ستارے غلط نکلے۔ ساری دانشوریاں دھری کی دھری رہ گئیں اور الیکشن ہوگئے۔ دل تو میرا بھی گھبراتا تھا، مگر میں اس گھبراہٹ کے باوجود الیکشن ہی میں آگے بڑھنے کا راستہ دیکھ رہا تھا۔ آج الیکشن ہوئے 16 دن ہوچکے ہیں۔ ان دنوں میں بھی بہت کچھ ہوچکا۔ ہمارے پاس وقت بہت کم ہے اور وقت بڑی تیزی سے گزرتا ہے، سو وہ گزر رہا ہے۔ مگر ہمارا الیکشن کمیشن اپنا کام وقت کی تیز رفتاری کے ساتھ کر رہا ہے۔
اٹھارہ کروڑ کے ملک میں ساڑھے آٹھ کروڑ ووٹرز والے الیکشن میں خامیوں کا رہ جانا، کوئی بڑی بات نہیں ہے اور اس بار الیکشن میں ووٹ کا حق استعمال کرنے والے بھی 60 فیصد تھے۔ الیکشن جن حالات میں ہوئے ہیں وہ بھی سب کے سامنے ہیں۔ دہشت گردی، خودکش بم دھماکے، ٹارگٹ کلنگ، حتیٰ کہ الیکشن میں کھڑے ہوئے امیدواران کی ٹارگٹ کلنگ، پورے ملک میں شدید خوف و ہراس کی فضا بنادی گئی تھی۔ اس کے باوجود حالات کے ہاتھوں بری طرح مار کھائے لوگ بوڑھے، عورتیں مرد، اپاہج، وہیل چیئر پر بیٹھے مجبور مریض بھی الیکشن والے دن پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹ ڈالنے کے لیے باہر نکلے۔ مائیں اپنے بچوں کو گودوں میں اٹھائے اور نوجوان لڑکے لڑکیاں، سبھی جان ہتھیلی پر رکھے، ووٹ ڈالنے کے لیے گھروں سے باہر نکل آئے تھے۔
اتنے بڑے الیکشن کے عمل میں بڑی کوتاہیاں نظر آئیں، اکثر پولنگ اسٹیشنوں پر سامان دیر سے پہنچا، مگر آفرین ہے کہ لوگ اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے سخت دھوپ اور گرمی میں انتظار کرتے رہے اور پھر ذرا دیر سے ہی سہی! ووٹ ڈالنے کا عمل شروع ہو ہی گیا۔
ہمارے پورے ملک کو (کیا شہر کیا گاؤں) جاگیرداری کے عفریت نے بری طرح جکڑ رکھا ہے، ہمیشہ کی طرح شہروں اور دیہاتوں میں اسی ''جاگیرداری عفریت'' نے خوب کام دکھایا اور شہری جاگیرداروں نے بھی اپنے ٹھپہ گروپوں کے ذریعے بیلٹ بکس بھر دیے۔ یہ ٹھپہ گروپ ربڑ کے بنائے ہوئے انگوٹھے بھی ساتھ لائے تھے۔ خیر الیکشن ہوگئے اور نتائج بھی ہمارے سامنے ہیں۔ یہ کم وبیش وہی نتائج ہیں جن کا اندازہ عوام پہلے سے ہی لگائے بیٹھی تھی۔ اسی لیے ان نتائج کو تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے بھی تسلیم کرلیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف ملکی سطح پر بڑی اور اہم طاقتیں بن کر سامنے آئی ہیں، حکمران جماعت پیپلز پارٹی کا انجام یہی ہونا تھا جو ہوا۔ اس جماعت نے جو بویا وہی کاٹا۔
ملک بھر میں تقریباً گیارہ یا بارہ سو قومی و صوبائی اسمبلی کی سیٹوں کے لیے انتخابات ہوئے اور ان میں سے جتنی سیٹوں کے بارے میں دھاندلی کے الزامات لگائے جارہے ہیں ان کی تعداد پورے ملک میں تقریباً ایک سو ہے۔ کہیں جعلی ووٹنگ ہوئی، کہیں گنتی غلط ہوئی، تو کہیں کچھ اور۔ ان تمام مسائل کو الیکشن کمیشن دیکھ رہا ہے۔ جہاں جہاں کوتاہیاں ہوئیں، انھیں دور کیا جارہا ہے، کہیں دوبارہ گنتی ہورہی ہے، کہیں دوبارہ پولنگ ہورہی ہے، الیکشن کمیشن اپنا کام کر رہا ہے۔ بہت سے حلقوں میں دوبارہ گنتی اور دوبارہ پولنگ کے بعد نتائج تبدیل بھی ہوئے اور یوں غلطیوں کو درست کرلیا گیا ہے۔ اس ضمن میں ابھی بہت کام باقی ہے اور ہمیں بھروسہ ہے کہ الیکشن کمیشن اپنے فرائض نہایت خوش اسلوبی سے ادا کرتا رہے گا۔
نادرا کے چیئرمین نے کہا ہے کہ ہم دس روز میں اپنی استطاعت کو بڑھالیں گے اور پھر روزانہ پانچ لاکھ انگوٹھوں کی چیکنگ کا عمل شروع ہوجائے گا۔ یہ بہت اچھی خبر ہے۔ سیکریٹری الیکشن کمیشن جناب اشتیاق احمد بھی نادرا کے چیئرمین کے ساتھ موجود تھے جب یہ خبر پوری قوم کو سنائی جارہی تھی۔ نگراں وزیر اعظم دوست محمد کھوسو نے کہا کہ نادرا کو مطلوبہ فنڈ فوری طور پر جاری کردیا جائے تاکہ جعلی انگوٹھوں کی جانچ پڑتال کے عمل میں کوئی تاخیر نہ ہونے پائے۔
عمران خان نے بھی پنجاب کی پچیس سیٹوں پر تحفظات کا اظہار کیا ہے اور ابتداء صرف چار سیٹوں پر لسٹ انکوائری کے لیے الیکشن کمیشن سے کہا ہے۔ خدا نے چاہا تو عمران خان کے خدشات دور ہوجائیں گے۔
سندھ میں فنکشنل لیگ، مسلم لیگ(ن)، پاکستان تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی اور پیپلز پارٹی کی سسی پلیجو بھی سراپا احتجاج ہیں اور میرے شہر کراچی میں بھی ہنگامہ بپا ہے۔ اس شہر میں دوبارہ الیکشن کرانے کی باتیں ہورہی ہیں۔ جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے جاری ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ بھی جوابی دھرنے دے رہی ہے۔ یہ سب اپنی جگہ مگر آگے بڑھنے کے عمل کو بھی جاری رکھنا ہے۔ خبر آئی ہے کہ 29 مئی کو سب سے بڑی صوبائی اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا گیا ہے اور یکم جون کو صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ حلف اٹھائیں گے۔ ایسی ہی مزید خبروں کی قوم منتظر ہے۔ حکومتیں اپنے فرائض سنبھالیں اور پورے ملک کو بجلی کے بحران سے نجات دلانے کے لیے دن رات ایک کردیں۔ ہمارا الیکشن کمیشن بھی اپنا کام کر تا رہے گا۔ کہاں جعلی انگوٹھے لگے ہیں، کہاں بیلٹ بکس توڑے گئے ہیں، کہاں اسلحے کے زور پر دھڑا دھڑ ٹھپے لگائے گئے ہیں؟ یہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا کیونکہ الیکشن کمشنر جناب فخرالدین جی ابراہیم نے کہہ دیا ہے ''پریزائیڈنگ افسر کو ایک ایک ووٹ کا حساب دینا ہوگا''۔