ایم کیو ایم کی سیاسی مشکلات…
سیاست میں ہر چیز ممکن ہوتی ہے لیکن کبھی کبھی وہ ممکن چیز اتنی مشکل ہوتی ہے کہ اس کا کرنا یا نہ کرنا ناممکن نظر آتا ہے۔
سیاست میں ہر چیز ممکن ہوتی ہے لیکن کبھی کبھی وہ ممکن چیز اتنی مشکل ہوتی ہے کہ اس کا کرنا یا نہ کرنا ناممکن نظر آتا ہے۔ ایم کیو ایم تقریباً تمام حکومتوں کا حصہ رہی ہے، نہ چاہتے ہوئے بھی اسے حکومت کا حصہ بننا پڑتا ہے، اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایم کیو ایم کی ابتدائی کہانی پر نظر ڈالی جائے تو اس کی ابتدا تشدد سے ہوئی۔ مہاجروں کے ساتھ جو امتیازی سلوک کیا گیا اس نے ایم کیو ایم کے بننے میں اہم کردار ادا کیا۔ چند طالب علموں نے جس طرح کی ایک تحریک برپا کی اس نے کئی لوگوں کو متاثر کیا اور وہ اردو بولنے والے جن کا خیال تھا کہ انھیں ان کے حقوق نہیں دیے جارہے انھوں نے ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم سے اپنے حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد شروع کردی۔ اس جدوجہد میں کئی جانیں گئیں اور ساتھ ساتھ وہ رہنما جو اس تحریک کا سربراہ تھا اسے یہ ملک چھوڑنا پڑا۔
الطاف حسین کو پاکستان سے گئے ہوئے بیس سال کا عرصہ ہوگیا ہے، ان بیس برسوں میں کئی زمینی حقائق تبدیل ہوچکے ہیں۔ اب اس ملک میں جرنیلوں کی حکمرانی کا دور ختم ہوچکا ہے، اب جو ہوگا آئین و قانون، سیاست دان اور عوام کریں گے۔ 2008 کے انتخابات میں مشرف کی بنائی ہوئی پارٹی کو خلق خدا نے رد کردیا اور 2013 میں بھٹو کے نعرے لگا کر عوام سے ووٹ لینے والے بھی ایوان اقتدار سے فارغ ہوگئے ہیں۔ اب جو ہوگا ووٹ سے ہوگا۔ اب نہ نعرے کام کریں گے، نہ گولی، نہ بوری اور نہ کوئی شہادت، اب پرفارم کرنا ہوگا، بہترین حکمرانی دینی ہوگی ورنہ یہاں سیاست کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
2008 کے انتخابات میں ایم کیو ایم کو ووٹ پڑا، وہ ووٹ اس کی کارکردگی کا تھا۔ 2009 میں جب مقامی حکومتوں کے نظام کو ختم کیا گیا اس سے پہلے ایم کیو ایم کے رہنما مصطفیٰ کمال نے جو کارکردگی دکھائی نہ صرف اسے کراچی کے لوگوں نے ووٹ دے کر اپنے اعتماد کا اظہار کیا بلکہ پوری دنیا سے ایم کیو ایم اور اس کے ناظم کے لیے تعریفیں ہوئیں۔ لیکن پھر کیا ہوا؟ 2008 کے انتخابات کے بعد ایم کیوایم سندھ اور مرکزی حکومت کا حصہ بنی تو کراچی کے لوگوں میں وہی امید تھی کہ یہاں ترقی کا وہ سفر جاری رہے گا لیکن حالات اور خراب ہوگئے، ہر گھر سے جنازے اٹھنے لگے، سیاسی جماعتوں نے آپس کے اختلافات اتنے بڑھا دیے کہ جان کی قیمت صرف ایک گولی رہ گئی۔
کراچی میں عدم برداشت کا جو مظاہرہ پچھلے پانچ سال میں نظر آیا شاید وہ پاکستان کی تاریخ میں نہ ملے۔ سپریم کورٹ نے بھی ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی، اے این پی اور دوسری سیاسی جماعتوں پر عدم اعتماد کا اظہار کیا اور فیصلہ دیا کہ یہ تینوں جماعتیں جو کراچی کی حکمران ہیں یہاں امن قائم کرنے میں ناکام ہوچکی ہیں۔ جب ان جماعتوں سے پوچھا جاتا کہ آپ یہاں امن قائم کرنے میں کیوں ناکام ہیں تو وہ دوسروں پر الزام لگاتے۔ اے این پی، ایم کیو ایم پر، ایم کیو ایم پیپلزپارٹی پر اور پیپلز پارٹی اے این پی اور ایم کیو ایم پر۔ ان تمام تر حالات کے ساتھ پچھلے پانچ سال مکمل ہوچکے ہیں اور اب دوبارہ کراچی کے لوگوں نے ایم کیو ایم کو ووٹ دیے ہیں۔ لیکن شاید اس بار ایم کیو ایم کو کئی مشکل فیصلے کرنے ہوں گے۔
پچھلے پانچ سال مرکز اور صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی، اس لیے ایم کیو ایم کے لیے آسان تھا کہ وہ اپنی شرائط پر حکومت کا حصہ بنے، اس کے پاس زیادہ طاقت تھی کہ وہ اپنے مطالبات منظور کروا سکے لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکی۔ کراچی کے لوگ جنھوں نے ایم کیو ایم کو ووٹ دیے تھے ان کا خیال تھا کہ ایم کیو ایم ناظمین کا نظام بحال کروانے میں کامیاب ہوگی لیکن ایسا نہ ہوا۔ اب ایم کیو ایم مرکز میں وہ طاقت نہیں رکھتی اور شاید کراچی کے فیصلے مرکز میں کم اور وزیراعلیٰ ہاؤس سندھ میں زیادہ ہوں گے کیونکہ مسلم لیگ نواز سندھ میں اپوزیشن ہے اور یہاں کے فیصلے پیپلز پارٹی نے کرنے ہیں۔ کیا ایم کیو ایم جو پچھلی حکومت میں مرکز اور صوبے میں پیپلز پارٹی کا حصہ رہی وہ کراچی کی بہتری کے لیے اپنے مطالبات منوا سکے گی؟ کیا پیپلز پارٹی جس نے پچھلی حکومت کے آخری دنوں میں اندرون سندھ آنے والے ردعمل کے خوف سے جس طرح مقامی حکومتوں کے نظام کو ختم کیا وہ اسے دوبارہ بحال کرے گی؟ اگر ایسا نہ ہوسکا تو یہ ایم کیو ایم کی سیاسی ناکامی ہوگی۔
ایک اور مشکل جو ایم کیو ایم کو درپیش ہے وہ کراچی کے نوجوانوں کی بدلتی سوچ ہے۔ یہاں پڑھے لکھے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ہے جن کے پاس ڈگریاں تو ہیں لیکن نوکریاں نہیں۔ پچھلے پانچ سال میں ایسے نوجوانوں میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ وہ نوجوان یہاں تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں، انھیں اس سے غرض نہیں کہ یہ تبدیلی کون لاتا ہے، جو یہاں تبدیلی لائے گا وہ نوجوان اس کے ہو جائیں گے۔ اسی لیے شاید 2013 کے انتخابات میں تحریک انصاف کو کراچی سے لاکھوں میں ووٹ پڑے۔ تحریک انصاف جس کا کراچی میں کوئی وجود تک نہ تھا، اس کی کوئی پرفارمنس نہ تھی، اسے آخر لوگوں نے کیوں ووٹ دیے؟ اس کی وجہ صاف ہے کہ لوگ یہاں جینا چاہتے ہیں، وہ یہاں امن دیکھنا چاہتے ہیں اور اگر ایم کیو ایم یہاں امن قائم کرنے میں ناکام ہوئی تو شاید یہ لاکھوں ووٹ کروڑوں میں تبدیل ہوجائیں۔ اس لیے ایم کیو ایم کو سیاسی طور پر مشکل فیصلہ کرنا ہوگا اور اپنی ترجیحات واضح کرنا ہوں گی۔ انھیں مصطفیٰ کمال جیسے لوگوں کو آگے لانا ہوگا، کراچی کو پھر سے روشنیوں کا شہر بنانا ہوگا اور وہ عناصر جو یہاں دہشت پھیلا رہے ہیں ان کا خاتمہ کرنا ہوگا۔
ایک اور چیلنج جو ایم کیو ایم کو درپیش ہے وہ پیپلز پارٹی کے امن کمیٹی کے ساتھ تعلقات ہیں۔ اب اس تنظیم کے نمایندے سندھ اور مرکزی اسمبلی میں آچکے ہیں اس کا مقابلہ کس طرح کرنا ہے یہ بھی متحدہ کے لیے بڑا چیلنج ہے۔
ان تمام تر سیاسی چیلنجز کے ساتھ متحدہ کی اندرونی کہانیاں جو اخبارات میں آرہی ہیں وہ بھی ایک بڑا امتحان ہیں۔ متحدہ بطور سیاسی جماعت ایک مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ اسے پارٹی کی سطح پر اور سیاسی سطح پر کئی اہم فیصلے کرنے ہیں اور یہ وقت بتائے گا کہ وہ اس میں کامیاب ہوتی ہے کہ نہیں۔
الطاف حسین کو پاکستان سے گئے ہوئے بیس سال کا عرصہ ہوگیا ہے، ان بیس برسوں میں کئی زمینی حقائق تبدیل ہوچکے ہیں۔ اب اس ملک میں جرنیلوں کی حکمرانی کا دور ختم ہوچکا ہے، اب جو ہوگا آئین و قانون، سیاست دان اور عوام کریں گے۔ 2008 کے انتخابات میں مشرف کی بنائی ہوئی پارٹی کو خلق خدا نے رد کردیا اور 2013 میں بھٹو کے نعرے لگا کر عوام سے ووٹ لینے والے بھی ایوان اقتدار سے فارغ ہوگئے ہیں۔ اب جو ہوگا ووٹ سے ہوگا۔ اب نہ نعرے کام کریں گے، نہ گولی، نہ بوری اور نہ کوئی شہادت، اب پرفارم کرنا ہوگا، بہترین حکمرانی دینی ہوگی ورنہ یہاں سیاست کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
2008 کے انتخابات میں ایم کیو ایم کو ووٹ پڑا، وہ ووٹ اس کی کارکردگی کا تھا۔ 2009 میں جب مقامی حکومتوں کے نظام کو ختم کیا گیا اس سے پہلے ایم کیو ایم کے رہنما مصطفیٰ کمال نے جو کارکردگی دکھائی نہ صرف اسے کراچی کے لوگوں نے ووٹ دے کر اپنے اعتماد کا اظہار کیا بلکہ پوری دنیا سے ایم کیو ایم اور اس کے ناظم کے لیے تعریفیں ہوئیں۔ لیکن پھر کیا ہوا؟ 2008 کے انتخابات کے بعد ایم کیوایم سندھ اور مرکزی حکومت کا حصہ بنی تو کراچی کے لوگوں میں وہی امید تھی کہ یہاں ترقی کا وہ سفر جاری رہے گا لیکن حالات اور خراب ہوگئے، ہر گھر سے جنازے اٹھنے لگے، سیاسی جماعتوں نے آپس کے اختلافات اتنے بڑھا دیے کہ جان کی قیمت صرف ایک گولی رہ گئی۔
کراچی میں عدم برداشت کا جو مظاہرہ پچھلے پانچ سال میں نظر آیا شاید وہ پاکستان کی تاریخ میں نہ ملے۔ سپریم کورٹ نے بھی ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی، اے این پی اور دوسری سیاسی جماعتوں پر عدم اعتماد کا اظہار کیا اور فیصلہ دیا کہ یہ تینوں جماعتیں جو کراچی کی حکمران ہیں یہاں امن قائم کرنے میں ناکام ہوچکی ہیں۔ جب ان جماعتوں سے پوچھا جاتا کہ آپ یہاں امن قائم کرنے میں کیوں ناکام ہیں تو وہ دوسروں پر الزام لگاتے۔ اے این پی، ایم کیو ایم پر، ایم کیو ایم پیپلزپارٹی پر اور پیپلز پارٹی اے این پی اور ایم کیو ایم پر۔ ان تمام تر حالات کے ساتھ پچھلے پانچ سال مکمل ہوچکے ہیں اور اب دوبارہ کراچی کے لوگوں نے ایم کیو ایم کو ووٹ دیے ہیں۔ لیکن شاید اس بار ایم کیو ایم کو کئی مشکل فیصلے کرنے ہوں گے۔
پچھلے پانچ سال مرکز اور صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی، اس لیے ایم کیو ایم کے لیے آسان تھا کہ وہ اپنی شرائط پر حکومت کا حصہ بنے، اس کے پاس زیادہ طاقت تھی کہ وہ اپنے مطالبات منظور کروا سکے لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکی۔ کراچی کے لوگ جنھوں نے ایم کیو ایم کو ووٹ دیے تھے ان کا خیال تھا کہ ایم کیو ایم ناظمین کا نظام بحال کروانے میں کامیاب ہوگی لیکن ایسا نہ ہوا۔ اب ایم کیو ایم مرکز میں وہ طاقت نہیں رکھتی اور شاید کراچی کے فیصلے مرکز میں کم اور وزیراعلیٰ ہاؤس سندھ میں زیادہ ہوں گے کیونکہ مسلم لیگ نواز سندھ میں اپوزیشن ہے اور یہاں کے فیصلے پیپلز پارٹی نے کرنے ہیں۔ کیا ایم کیو ایم جو پچھلی حکومت میں مرکز اور صوبے میں پیپلز پارٹی کا حصہ رہی وہ کراچی کی بہتری کے لیے اپنے مطالبات منوا سکے گی؟ کیا پیپلز پارٹی جس نے پچھلی حکومت کے آخری دنوں میں اندرون سندھ آنے والے ردعمل کے خوف سے جس طرح مقامی حکومتوں کے نظام کو ختم کیا وہ اسے دوبارہ بحال کرے گی؟ اگر ایسا نہ ہوسکا تو یہ ایم کیو ایم کی سیاسی ناکامی ہوگی۔
ایک اور مشکل جو ایم کیو ایم کو درپیش ہے وہ کراچی کے نوجوانوں کی بدلتی سوچ ہے۔ یہاں پڑھے لکھے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ہے جن کے پاس ڈگریاں تو ہیں لیکن نوکریاں نہیں۔ پچھلے پانچ سال میں ایسے نوجوانوں میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ وہ نوجوان یہاں تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں، انھیں اس سے غرض نہیں کہ یہ تبدیلی کون لاتا ہے، جو یہاں تبدیلی لائے گا وہ نوجوان اس کے ہو جائیں گے۔ اسی لیے شاید 2013 کے انتخابات میں تحریک انصاف کو کراچی سے لاکھوں میں ووٹ پڑے۔ تحریک انصاف جس کا کراچی میں کوئی وجود تک نہ تھا، اس کی کوئی پرفارمنس نہ تھی، اسے آخر لوگوں نے کیوں ووٹ دیے؟ اس کی وجہ صاف ہے کہ لوگ یہاں جینا چاہتے ہیں، وہ یہاں امن دیکھنا چاہتے ہیں اور اگر ایم کیو ایم یہاں امن قائم کرنے میں ناکام ہوئی تو شاید یہ لاکھوں ووٹ کروڑوں میں تبدیل ہوجائیں۔ اس لیے ایم کیو ایم کو سیاسی طور پر مشکل فیصلہ کرنا ہوگا اور اپنی ترجیحات واضح کرنا ہوں گی۔ انھیں مصطفیٰ کمال جیسے لوگوں کو آگے لانا ہوگا، کراچی کو پھر سے روشنیوں کا شہر بنانا ہوگا اور وہ عناصر جو یہاں دہشت پھیلا رہے ہیں ان کا خاتمہ کرنا ہوگا۔
ایک اور چیلنج جو ایم کیو ایم کو درپیش ہے وہ پیپلز پارٹی کے امن کمیٹی کے ساتھ تعلقات ہیں۔ اب اس تنظیم کے نمایندے سندھ اور مرکزی اسمبلی میں آچکے ہیں اس کا مقابلہ کس طرح کرنا ہے یہ بھی متحدہ کے لیے بڑا چیلنج ہے۔
ان تمام تر سیاسی چیلنجز کے ساتھ متحدہ کی اندرونی کہانیاں جو اخبارات میں آرہی ہیں وہ بھی ایک بڑا امتحان ہیں۔ متحدہ بطور سیاسی جماعت ایک مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ اسے پارٹی کی سطح پر اور سیاسی سطح پر کئی اہم فیصلے کرنے ہیں اور یہ وقت بتائے گا کہ وہ اس میں کامیاب ہوتی ہے کہ نہیں۔