چوروں کو تحفظ نہ دیا جائے تو معیشت ٹھیک ہوجائے گی
کسی بھی ملک کی ترقی میں معیشت کا کردار ناگزیر ہے، معاشی صورتحال بہتر ہو تو بہت سے مسائل خودبخود حل ہوتے نظر آتے ہیں۔
ایکسپریس کے زیراہتمام قومی معیشت، بجٹ اور اس میں کیے جانے والے متوقع اقدامات، تاجربرداری کی تجاویز، بزنس کمیونٹی کی امن و امان کی صورتحال پر رائے کے حوالے سے ''پری بجٹ فورم '' کا انعقاد کیا گیا جس میں نگراں صوبائی وزیر انفارمیشن میاں زاہد حسین،عقیل کریم ڈھیڈی، اسٹاک ممبر، صدر سمٹ بینک حسین لوائی، چیئرمین پاکستان ٹاولز ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن مہتاب چاولہ، صدر کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) ہارون اگر اورآل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے پیٹرن انچیف عبدالواحد نے اظہار خیا ل کیا جو قارئین کیلیے پیش خدمت ہے۔
میاں زاہد حسین
( نگراں صوبائی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی)
میں نگراں حکومت کا حصہ ہوں لیکن میری رائے میں نگراں حکومت کی جانب سے منی بجٹ لانے کا فیصلہ درست نہیں، عوام بھی اس بات کو پسند نہیں کررہے۔ ٹیکس لگانا اور دیگر بڑے فیصلے نگراں حکومت کا مینڈیٹ نہیں، اب تو ویسے بھی آئندہ ماہ کے وسط تک نیا وفاقی بجٹ آجائے گا۔ نئی حکومت کو ان فیصلوں کا موقع دینا چاہیے ورنہ اس وقت کیے گئے فیصلوں کی وجہ سے آئندہ حکومت کو بھی مشکلات کا سامنا ہوگا اور نیا پنڈورہ بکس بھی کھل جائے گا۔ ملکی معیشت کو بہت سے مسائل کا سامنا ضرور ہے جن میں ٹیکس وصولی بہت بڑا مسئلہ ہے، ہمارے ملک میں لوگ ٹیکس دینا چاہتے ہیں لیکن موثر سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے ٹیکس نیٹ میں اضافہ نہیں ہوپارہا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ٹیکس نظام کی ری اسٹرکچرنگ کی جائے، اس کیلیے سب سے پہلے ہمیں ٹیکس ریٹ کم کرنا ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ ہر سال بجٹ سازی کے موقع پر تاجر برادری حکومت وقت کو تجاویز دیتی ہے لیکن ہماری تجاویز میں سے چند ایک ہی مانی جاتی ہیں، ہماری رائے میں ملک بھر میں ٹیکس وصولی یکساں ہونی چاہیے۔ بزنس کمیونٹی میں ٹیکس ریفارمزکے حوالے سے کوئی اختلافات نہیں کیونکہ تاجر برادری سمجھتی ہے کہ ملک ٹیکس کے بغیر نہیں چل سکتا۔ انھوں نے کہا کہ 200 ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے اور اتنی ہی لائن لاسز کی صورت میں ضائع ہوجاتی ہے، اس صورتحال پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ملک بھر میں 16,16 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے، صورت حال پر قابو پانے کیلیے 20 ارب روپے درکار ہیں ۔ اس کے علاوہ اگر سیلز ٹیکس لگایا گیا تو اس کے بھی منفی اثرات ہوں گے، عوام کو ویسے ہی بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ میاں زاہد کا کہنا تھا کہ توانائی کا بحران ایک بہت اہم اور بڑا مسئلہ ہے، اس کے لیے قلیل مدتی (short term) اقدامات نہ کیے جائیں تو بہتر ہوگا۔
آئی ایم ایف والے باربار پوچھتے ہیں کہ اگر پیسے لیں گے تو واپس کیسے دیں گے؟، معاشی بحران کی وجہ ٹیکس کی وصولی میں موجود سقم بھی ہیں۔ ٹیکس نظام کی ری اسٹرکچرنگ ضروری ہے تاکہ ادارے نقصان میں نہ جائیں۔ ٹیکس پر ٹیکس لگانے سے اس وقت تک فائدہ نہیں ہوگا جب تک آپ ٹیکس کے نظام کو صحیح نہیں کریں گے۔ بزنس کمیونٹی چاہتی ہے کہ ٹیکس ریٹ کم ہو، سیلز ٹیکس بھی کم کیا جائے اور سب اداروں سے وصولی کی جائے۔ گیس کے مسائل بھی ہیں، اس وقت بحران میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ہم اس وقت جتنی گیس پیدا کررہے ہیں، اس سے زیادہ کی جاسکتی یہ لیکن ایسا نہیں ہورہا۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ 2 ہزار ارب روپے ٹیکس نیٹ میں ہیں لیکن سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے وہ ٹیکس نیٹ میں مکمل طور پر نہیں آرہے۔ ہمارے اداروں میں بہتری کی استعداد ہے تاہم گورننس نہ ہونے کی وجہ سے مسائل بڑھ رہے ہیں، اگر نظام اپ گریڈ ہوجائے تو 2 ہزار ارب روپے سسٹم میں پوری طرح آسکتے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ملک بھر میں ٹیکس وصولی یکساں ہونی چاہیے، حکومت اور بیوروکریسی چاہتی ہے کہ مکمل ڈاکیومینٹیشن ہو، ہمیں اس سے بھی اختلاف نہیں لیکن شرح خواندگی میں کمی کی وجہ سے ہر کوئی اپنے کاروبار کی صحیح طرح ڈاکیومینٹیشن نہیں کرسکتا۔ ہماری معیشت کے کئی درجات ہیں جیسے کارپوریٹ لیول، پھر میڈیم، اسمال اور مائیکرو، اگر ان سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکیں تو صورتحال میں بہتری نہیں آئے گی۔ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ملک میں ٹیکس ہے اور لوگ ٹیکس دینا بھی چاہتے ہیں تاہم ٹیکس لینے والا سسٹم اتنا موثر نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر نظام کو بہتر کیا جائے۔مجموعی قومی پیداوار(جی ڈی پی) پر ٹیکس کی شرح ہمارے پاکستان میں 9 یا ساڑھے 9 ہے جو شاید دنیا بھر میں سب سے کم ہے۔ امن و امان ، تعلیم اور صحت کے شعبوں کے مسائل بڑھ رہے ہیں، ہمیں بجلی اور گیس کی قلت کی وجہ سے جس بحران کا سامنا ہے، اس کا بڑا سبب بھی یہی ہے کہ انفرااسٹرکچر ٹھیک نہیں۔
اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کی جیبوں سے ٹیکس نکل رہا ہے مگر حکومت تک نہیں پہنچ پارہا، اس مسئلے کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ میاں نوازشریف نے یہ نہیں کہا کہ ہم پیسے لٹانے شروع کردیں گے، میرا خیال ہے کہ وہاں بھی کوئی طریقہ کار اپنا جائے گا۔ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ نوجوانوں کو خودکفیل اور باروزگار کیے بغیر ملک کی ترقی ممکن نہیں، مختلف ووکیشنل پروگراموں کے ذریعے نوجوانوں میں آگاہی پیدا کی جائے۔ ہارے انفارمیشن ڈپارٹمنٹ سندھ نے ایک پروگرام ترتیب دیا ہے کہ مختلف ورکشاپس، سیمینارز اور پروگراموںکے تحت نوجوانوںکو تربیت دی جائے کہ وہ موبائل فون کی Apps (ایپلی کیشنز) بنائیں کیونکہ یہ تمام سافٹ ویئر نوجوان ہی بنارہے ہیں۔ جب ہمارے نوجوان بھی یہ ایپلی کیشنز بناکر نیٹ پر ڈالیں گے اور لوگ انھیں خریدیں گے تو ہر نوجوان ڈالرکماسکتا ہے۔ ہمیں ووکیشنل ٹریننگ کے مراکز بنانا ہونگے، یہ ایک بہت زبردست آئیڈیا ہے جس کیلیے ہمیں جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔ ہم نے اس سلسلے میں انٹیل (intel) ، گوگل (google) اور دیگر اداروں کے کنٹری چیفس سے بھی بات کی ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہمارے نوجوان سافٹ ویئرز بنالیتے ہیں لیکن انھیں یہ علم نہیں کہ ان پروگراموںکو کہاں بیچنا ہے۔
عقیل کریم ڈھیڈی
(اسٹاک ممبر)
منی بجٹ لانے کی کچھ نہ کچھ وجوہات ہیں جنھیں نظر اندا ز نہیں کیا جاسکتا۔ شارٹ فال کا سامنا ہے، بجٹ خسارہ ڈبل ہوچکا ہے، اگر یہی کیفیت رہی تو معیشت پر شدید منفی اثرات مرتب ہونگے۔ ہمیں معیشت کو کھڑا کرنے کیلیے فوری طور پر 200 سے 300 ارب روپے لانا ہیں، اگر ایسا ہوجاتا ہے تو خسارہ کم ہوجائے گا۔ نئی حکومت چند دنوں میں آجائے گی اور اسے بھی آتے ہی ایک چھوٹا بجٹ دینا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ ملک میں گیس اور بجلی کا بحران بہت زیادہ ہے، ہماری تجویز ہے کہ گیس کسی کو نہ دو سب کی بجلی بنادو مگر ریٹ سب کیلیے یکساں کرنا ضروری ہے۔ ہماری معیشت اتنی بری نہیں ہے جتنا شور مچایا جارہا ہے، توانائی کا بحران بھی زیادہ سنگین نہیں بس چند موثر اقدامات اٹھالیے جائیں تو صورتحال بہتر ہوجائے گی۔
پارلیمنٹ کو یہ سخت فیصلہ کرنا ہوگا کہ جو بل نہیں دے گا اسے بجلی اور گیس نہیں ملے گی، ہم سمجھتے ہیں کہ چوروں کو تحفظ دینے سے روزگار نہیں بڑھتا، چوروں کو تحفظ دینا بند کردیا جائے تو معاشی مسائل منٹوں میں حل ہوجائیں گے۔ معاشی صورت حال کی خرابی کا شور زیادہ مچایا جاتا ہے،اصل میں حالات ایسے نہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہر سال گیس کی پیداوار بڑھ رہی ہے، مزید گیس کے ذخائر بھی دریافت ہورہے ہیں تو صورتحال بہتری کی جانب جارہی ہے بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارا سسٹم ٹھیک انداز میں کام کرے۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ فرنس آئل سے 4ہزارمیگاواٹ سے زائد بجلی نہیں بن سکتی، آپ دوسرے ذرائع سے پیدا کی جانے والی بجلی کے نرخوں کا موازنہ فرنس آئل سے کریں تو بہت زیادہ فرق نظر نہیں آئے گا، ہمیں فرنس آئل سے بجلی بنانا ہوگی۔ 100روپے کے ڈالر کے بعد اب مزید de valuation نہیں ہونی چاہیے۔
ملک کے چند سیکٹر ایسے ہیں جہاں ٹیکس لگائے بغیر صرف چند موثر فیصلے کرکے ملکی معیشت میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ ہر شعبے میں ریٹس بڑھ رہے ہیں، سیمنٹ، فرٹیلائزر اوردیگر شعبوں کو جس ریٹ میں گیس دی جارہی ہے، وہ زیادتی ہے۔اس صورتحال میں ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ایسی پالیسیوں یا فیصلوں سے کس کے مفادات کا تحفظ کیا جارہا ہے۔ایک دو اچھے اقدامات سے صورتحال بہتر ہوجائے گی، بجٹ خسارہ بھی 3 فیصد سے زیادہ نہیں ہوگا۔ جن کے مفادات ہیں، ان سے ہی اگر بجٹ بنانے کا کہا جائے گا تو مسئلہ حل نہیںہوسکے گا۔ معاملات کو بہتر کرنے سے بہت سے طریقے ہیں، آئی پی پیز کو جرمانہ بھی کیا جاسکتا ہے، اس وقت تو یہ ہورہا ہے کہ آئی پی پیز ڈیفالٹ بھی کرتے ہیں لیکن بجلی نہیں دیتے۔ ہر سال مقامی سطح پر گیس کی پیداوار بڑھ رہی ہے، نئے ذخائر بھی دریافت ہورہے ہیں۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ اس وقت بجٹ خسارے کے باوجود معاشی صورتحال بہت بہتر ہے۔ ایکسپورٹ اور امپورٹ کے اعدادوشمار بہت بہتر ہیں، اب ہمیں ٹیکس ریونیو میں اضافے کی کوششیں کرنا چاہئیں۔
حسین لوائی
(صدر سمٹ بینک)
میں نے دنیا کے مختلف براعظموں میں کام کیا ہے اور میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ جتنے وسائل ہمارے ملک میں ہیں اور کہیں نہیں ہیں۔اگر اتنے زیادہ وسائل کے باوجود ہم مسائل کی جانب بڑھ رہے ہیں تو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ بہت ضروری ہے کہ ملک کو معاشی مسائل سے نکالنے کیلیے فوری طور پر اقتصادی پلان بنایا جائے جس میں تمام سیاسی جماعتوں، تاجر برادری، فوج، پروفیشنلز اور دیگر تمام طبقات کی تجاویز شامل ہوں، پھر اس روڈ میپ کے تحت چلاجائے اور اس سے نہ ہٹاجائے تو صورتحال بہت بہتر ہوسکتی ہے۔ اس کے ساتھ سسٹم کو کمپیوٹرائزڈ بھی کرنا ہوگا لیکن اس میں سب سے بڑی رکاوٹ بیوروکریسی ہوگی کیونکہ وہ ایسا نہیں چاہتی۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ قرضے اگر عوامی فلاح کے منسوبوں کیلیے لیے جائیں تو ان میں کوئی برائی نہیں تاہم قرض لیکر نئے کپڑے یا نئی گاڑی خریدنا غلط ہے۔ بزنس کمیونٹی کو عالمی مقابلے کیلیے تیار کرنا ہے تو ڈسکائونٹ ریٹ کو 7 فیصد پر لانا ہوگا۔
آئندہ حکومت کے پاس اچھا موقع ہے کہ وہ معاشی ترقی کیلیے ٹھوس اور جراتمندانہ فیصلے کرے۔ بینکنگ سیکٹر کا مستقبل بہت روشن ہ اور یہ شعبہ تیزی سے ترقی کررہا ہے، دنیا بھر میں سنگین اقتصادی بحرانوں کی وجہ سے بڑے بڑے بینک دیوالیہ ہوگئے لیکن ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہوا، بینکنگ سیکتر مزید ترقی کررہا ہے اور اس کا کریڈٹ مرکزی بینک کو بھی جاتا ہے۔ میں نے ن لیگ کا یہ اعلان نہیں سنا کہ نوجوانوں کو 50 ہزار سے 5 لاکھ تک کے قرضے دیے جائیں گے۔ میری تجویز تو یہ ہے کہ نوجوانوں کیلیے نیشنل وینچر فنڈ (National Venture Fund)بنانا چاہیے جس کی مانیٹرنگ بھی پروفیشنلز کے پاس ہو، پروفیشنلز کی کمیٹیاں نوجوانوں کے پروجیکٹس کا جائزہ لیں اور اسی بنیاد پر ان کیلیے راستہ نکالیں۔ نوجوان کسی بھی ملک کا انتہائی اہم طبقہ ہیں، مائیکروسافٹ، گوگل، فیس بک یہ سب نوجوانوں کے ہی پروجیکٹس ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہو کہ فنڈریزنگ کی جائے، صرف قرضے دینے سے بات نہیں بنے گی۔
ہمیں ایسی پالیسیاں بنانا ہونگی جن کے تحت ہم اپنے وسائل کو صحیح طرح استعمال کرسکیں۔ ہر ترقی پذیر ملک کو وہی مسائل درپیش ہیں جن کا سامنا پاکستان کو ہے۔ میں آپ کو یونان اور آئرلینڈ کی مثال دیتا ہوں، دونوں ملکوں کو 2009 میں سنگین اقتصادی بحران کا سامنا تھا ۔ 2010 میں آئی ایم ایف نے یونان کو 100 بلین ڈالر کا پیکیج دیا جبکہ اگلے سال اسے 150 بلین ڈالر کردیا۔ اسی طرح آئر لینڈ جو ایک چھوٹا ساملک ہے، اسے 50 بلین ڈالر کا پیکیج دیا گیا۔ میری رائے میں ہماری مشکلات کی وجہ یہ ہے کہ مسئلے کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی جبکہ حل بہت آسان ہیں مگر مشکل یہ آجاتی ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔ہمارے پاس اتنے قومی اثاثے ہیں، اگر چند ایک کو بھی بیچ دیا جائے توملکی معیشت کی صورتحال بہتر ہوسکتی ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ صرف 2 اداروں پی پی ایل اور اوجی ڈی سی ایل کے 10 فیصد اثاثے بھی بیچ دیے جائیں تو معاشی حالت میں بہتری لائی جاسکتی ہے، ہم نے اس حوالے سے حکومت کو تجاویز بھی دی ہیں۔
ہماری رائے میں توانائی کا بحران اس لیے ہے کیونکہ پیداوار کے مقابلے میں استعمال بہت زیادہ ہے۔ سب سے سنگین بات کسی کے نوٹس میں نہیں ہے اور وہ یہ کہ گذشتہ 15 سال سے ہمارے پاور ڈسٹری بیوشن سسٹم میں ایک ڈالر کی بھی سرمایہ کاری نہیں کی گئی۔ اہم بات یہ ہے کہ اگر پورے ملک کو جتنی بجلی درکار ہے، وہ پیدا بھی کرلی جائے تب بھی سسٹم ٹرپ کرجائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈسٹری بیوشن سسٹم کی مینٹیننس(maintenance)بالکل نہیں کی گئی۔ پاکستان واحد ملک ہے جہاں بجٹ سازی کے معاملات کو انتہائی خفیہ رکھا جاتا ہے جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ بجٹ کے حوالے سے ہر بات تمام اسٹیک ہولڈرز کو بھی بتائی جائے اوران سے رائے لی جائے۔ بجٹ بناتے وقت کاروباری طبقے کے نمائندوں کو بھی اعتماد میں لینا چاہیے۔ یہ ساری مشق راتوں رات مسائل کو حل نہیں کردے گی لیکن اگر مسلسل اس پالیسی کو اپنا گیا تو چند سال میں معیشت کی صورتحال بہت بہتر ہوسکتی ہے۔
مانیٹری پالیسی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے افراط زر(inflation) کی شرح سے منسلک ہونا چاہیے۔ دنیا بھر میں inflation کے مقابلے میں discount rate کم ہوتا ہے۔ بزنس کمیونٹی کوآگے بڑھانا ہے تو ڈسکائونٹ ریٹ کو7 فیصد پر لانا ہوگا کیونکہ اس کے بغیر اقتصادی ترقی نہیں ہوسکتی۔ ملکی معیشت کو مثبت خطوط پر استوار کرنے کیلیے حکومت کو جارحانہ اور جراتمندانہ اقدامات کرنا ہوں گے۔ نئی حکومت کے پاس اچھا موقع ہے کہ وہ معیشت کے حوالے سے موثر پالیسیاں بنائے۔ قرض لینا اس وقت صحیح ہوتا ہے جب اس رقم کو عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر استعمال کیا جائے لیکن اگر قرض لینے کا مقصد نئے ملبوسات خریدنا یا گاڑی خریدنا ہو تو وہ غلط ہے۔ ایک اہم بات آپ کو بتائوں کہ ہمارا ایم قومی ادارہ نیشنل سیونگز دارہ قومی بچت) ہے، ان کی back پرکوئیassets نہیں ہیں۔ اگر آج عوام اپنا ڈپازٹ وہاں سے نکلوالیں تو کیا سنگین صورتحال ہوگی اس ا کوئی اندازہ بھی نہیں لگاسکتا۔
عبدالواحد
موثر اقدامات کیے جائیں تو فروٹ اینڈ ویجیٹیبل انڈسٹری بہت آگے جاسکتی ہے، اس کیلیے ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کرپشن ختم کیے بغیر ملک کی معیشت کو ترقی کی راہوں پر نہیں لایا جاسکتا۔ دنیا بہت آگے چلی گئی ہے، ہر کوئی عالمی معیار کی چیزیں چاہتا ہے۔ سبزیوں اور پھلوں کا بھی یہ معاملہ ہے، یہ perishable items ہیں۔ نبی کریم حضرت محمد نے 14 سو سال قبل کہا تھا کہ ''صفائی نصف ایمان ہے'' لیکن ہم نے اس بات پر توجہ نہیں دی، ہاں اگر آپ یورپی ملکوں میں جائیں تو وہاں آپ کو احساس ہوگا کہ ہمارے نبیؐ کے قول پر انھوں نے پورا عمل کیا ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ ہم لوگ منہ سے کھاتے ہیں اور ذائقے پر جاتے ہیں جبکہ دنیا آنکھ سے کھاتی ہے اور ظاہری شکل و صورت پر توجہ دیتی ہے۔ہم بار بار حکومت سے کہہ چکے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ جو بھی امپورٹر یا ایکسپورٹر ہو ، اسے ایک موثر نظام کے تحت لانا ہوگا۔ دنیا نے تو بہت ترقی کرلی ہے لیکن ہم ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ ہم پیچھے ہی گئے ہیں۔
ہم جلد پیداوار لینے کیلیے فصلوں پر کیمیکلز استعمال کرتے ہیں جن سے پھلوں کے معیار پر منفی اثرات پڑرہے ہیں۔ اگر موثر اقدامات کیے جائیں تو فروٹ اینڈ ویجیٹیبل انڈسٹری تمام سیکٹروں سے آگے جاسکتی ہے لیکن اس کیلیے ٹھوس منصوبہ بندی اوردلیرانہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ جہاں تک منی بجٹ کی بات ہے تو ہم لوگوں کو اس کی فکر نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ہم لوگوں کو تو آگے چل کر انتخابی اخراجات بھی اپنی جیبوں سے ادا کرنا ہوں گے۔ایک اوراہم بات یہ کہ ایکسپورٹ بڑھانے کیلیے پیداوار اچھی کرنی ہوگی، اس سیکٹر میں پیسہ تو بہت آیا ، لوگوں نے ہم سے مشورے بھی بہت لیے مگر پیسہ کہیں دوسری جگہ چلاگیا۔ قانون سازی بڑی بات نہیں ، قوانین پر عملدرآمد سب سے اہم چیز ہے۔ اس کے علاوہ میں سمجھتا ہوں کہ معاشی ماہرین کو چاہیے کہ وہ قومی معیشت کی بہتری کیلیے حکومت کو تجاویز دیںاور مختلف ایشوز پر آواز اٹھائیں۔
ہارون اگر
(صدر کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری)
ہارون اگر کا کہنا تھا کہ نئی حکومت سے تاجربرادری کوبہت اچھی توقعات وابستہ ہیں، امید ہے کہ نوازحکومت کا بجٹ بزنس فرینڈلی ہوگا کیونکہ نوازشریف کا تعلق بھی تجارت پیشہ خاندان سے ہے اور وہ اس بات سے بھی بخوبی واقف ہیں تجارت وصنعتی شعبہ بدترین توانائی بحران اور امن وامان کی سنگین صورتحال کے باوجود سرگرم عمل رہا ہے حالانکہ گزشتہ ایک سال کے دوران کراچی میں 100 دن توہڑتالیں رہی ہیں۔سابق حکومت کے اختتامی ایام کے دوران یکطرفہ بنیادوں پر جاری ہونے والے ایس آراوز اور نگراں حکومت کی جانب سے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے منی بجٹ کی اطلاعات نے تاجربرادری کے اعتماد کو بری طرح مجروح کیا، کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری تمام حکومتوں کو یہی تجویز دیتا ہے کہ سالانہ بنیادوں پر مرتب کیے جانے والے وفاقی وصوبائی بجٹس کے حوالے سے شعبہ جاتی بنیادوں پر تاجرنمائندوں سے آراء لیں تاکہ ان کی تجاویز کو بجٹ کا حصہ بنایا جاسکے اور حکومت کے اس عمل کے ذریعے تاجر برادری میں اعتماد کی فضا قائم ہوسکے۔
اگر معیشت بیٹھ گئی تو صورتحال بہت سنگین ہوجائے گی۔ پاکستان میں فی الوقت سیلزٹیکس کی شرح16 فیصد ہے جبکہ دنیا بھر میں سیلزٹیکس کی زیادہ سے زیادہ شرح9 فیصد ہے، حکومت کو سیلزٹیکس کے ذریعے ریونیو وصولیاں بڑھانی ہیں تو اسے شرح سنگل ڈیجٹ پر لانا ہوگا اور کراچی چیمبر نے اپنی تجاویز میں سیلزٹیکس کی شرح9 فیصد کرنے کی سفارش کی ہے۔ نئی وفاقی حکومت کو مالی سال2013-14 کے وفاقی بجٹ میں اس حقیقت کو مدنظر رکھنا پڑے گا کہ جو طبقہ باقاعدگی کے ساتھ ٹیکسوں کی ادائیگیاں کرتا ہے اس پر مزید بوجھ نہ ڈالا جائے، اس کے علاوہ ضروری ہے کہ بڑے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔نئے بجٹ میں شعبہ زراعت کی ترقی کے لیے موثر اقدامات بروئے کارلانے کی ضرورت ہے کیونکہ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان میں سالانہ 3 تا4 ارب ڈالر مالیت کی مختلف دالیں، مصالحہ جات درآمد کی جارہی ہیں نئے بجٹ میں اگر زرعی شعبے میں ویلیوایڈیشن پر توجہ دی جائے اور پالیسی ساز زمینی حقائق کے مطابق شعبہ زراعت کی ترقی کے لیے اقدامات اٹھائیں تو ہم اپنے درآمدی بل میں4 ارب ڈالر کی بچت کرسکتے ہیں، کراچی چیمبر کو یہ اطلاع موصول ہوئی ہے کہ مجوزہ منی بجٹ نہیں آرہاہے اور اس حقیقت سے تمام شعبے بخوبی آگاہ ہیں کہ منی بجٹ جیسے اقدامات سے کرپشن کوفروغ ملتا ہے۔
نوازشریف حکومت کے قیام سے قبل تاجربرادری کو اعتماد اس لیے ہے کہ نوازشریف کے سابقہ ادوار میں وفاقی بجٹ مرتب کرنے سے قبل بزنس کمیونٹی سے تجاویز لی جاتی تھیں لیکن جمہوری میعاد پوری کرنے والی سابقہ حکومت کے دوران یہ المیہ رہا کہ اس دور میں حکومت اور تاجربرادری کے درمیان اعتماد کا فقدان رہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ انفرادی سطح پر کسی کو چھوٹ یا رعایت دینے سے کرپشن بڑھتی ہے اور مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ جیسا کہ سب اس بات سے آگاہ ہیں کہ بجٹ کا مقصد محصولات کی وصولیاں ہیں لیکن ایف بی آر کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی توجہ صرف ریونیو وصولی تک محدود کرنے کے بجائے اپنی دیگر ذمہ داریوں کو بھی پورا کرے۔
انڈرانوائسنگ، مس ڈیکلریشنز اور اسمگلنگ پر قابو پانے کی ٹھوس حکمت عملی وضح کرے کیونکہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی آڑ میں سیاہ چائے، پلاسٹک دانہ، ٹائرز ودیگر ایسی مصنوعات جن افغانستان میں کھپت ہی نہیں ہے کی وسیع پیمانے پر اسمگلنگ ہورہی ہے جس پر ٹھوس انداز میں قابو پانے کی ضرورت ہے اور ایسے قابل ٹیکس آمدنی کے حامل شعبوں وافراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی ضرورت ہے، پاکستان میں سینکڑوں آئٹموں کی اسمگلنگ کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کے دیگر شہروں کی طرح کراچی کے بولٹن مارکیٹ، چھانٹی لین میں سرعام اسمگلڈ آئٹمز فروخت ہورہے ہیں جبکہ حکومت اور انسداد اسمگلنگ کے ذمہ دار ادارے بے بس لگ رہے ہیں محسوس ہوتا ہے کہ انسداداسمگلنگ کی ملک میں سرے سے ہی کوئی پالیسی موجود ہی نہیں ہے۔ہم ہر حکومت سے یہی کہتے ہیں کہ وہ معاشی طور پر جو بھی فیصلے کریں، تاجربرادری کو ضرور اعتماد میں لیں۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ٹیکس جتنا کم ہوگا اتنی ہی وصولی کی شرح بڑھے گی۔
مہتاب چاولہ
(چیئرمین ٹاولز مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرزایسوسی ایشن )
مہتاب چاولہ نے کہا کہ نئی حکومت اگرصنعتی شعبے کی ترقی پر اپنی توجہ مرکوز کرے تو اقتصادی صورت حال میں بہتری ممکن ہے، اس سلسلے میں نئی حکومت کو چین کو رول ماڈل بنانا ہوگا اور اس کے ساتھ ہی عالمی سطح پر پاکستان کے امیج کو بہتر بنانا ہوگا۔اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ ہر کسی کو اپنے حقوق تو یاد ہیں لیکن فرائض سب بھول چکے ہیں۔توانائی کے سنگین بحران امن وامان کی خراب صورتحال جیسے عوامل کے باعث بے شمار صنعتیں مالیاتی بحران کی زدمیں آچکی ہیں۔ نوازشریف کی نئی حکومت کو اس جانب ترجیحی بنیادوں پرتوجہ دینا ہوگی۔ پاکستان میں عام انتخابات کا عمل مکمل ہوچکا ہے اورتمام سیاسی جماعتوں نے اپنی پالیسیوں اور منشور پیش کرنے کے بجائے اپنے مخالفین پر تنقید اور الزام تراشی کے ذریعے ووٹ حاصل کیے، اب دھرنوں اور دھاندلی کے شورشرابے کے سلسلے کوختم ہوجانا چاہیے اور ملک کو آگے بڑھانے کیلیے سب کو اپنے اپنے حصے کا کام شروع کردینا چاہیے۔
پاکستان کی مجموعی برآمدات میں شعبہ ٹیکسٹائل کا حصہ60 فیصد ہے اور یہ شعبہ 40 فیصد آبادی کو روزگار فراہم کررہا ہے۔ پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات اب بھی اپنے حریفوں چین اور بھارت سے بلحاظ قیمت سستی ہیں لیکن بیرونی خریدار بروقت ڈلیوری نہ ہونے کے خطرات کے باعث پاکستانی برآمدکنندگان کو آرڈرز دینے سے گھبراتے ہیں ۔ نئی حکومت کو معیشت کو جنگی بنیادوں پر بہتری کی جانب گامزن کرنے کے لیے عام تعطیلات کے ایام کو گھٹانا ہوگا جبکہ برآمدی نوعیت کی تمام صنعتوں کے لیے گیس کنیکشنز پر پابندی ختم کرنا ہوگی تاکہ ملک میں صنعتکاری کو فروغ مل سکے۔صنعتی زونز کی بنیادی ضروریات یوٹیلٹیز ترجیحی بنیادوں پر بلارکاوٹ فراہم کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ سال2009 میں متعارف کرائی جانے والی ٹیکسٹائل پالیسی ایک بہترین پالیسی تھی لیکن اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کا فقدان رہا ہے وگرنہ آج پاکستان کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ دوگنا ہوجاتا۔
ایکسپریس کے زیراہتمام قومی معیشت، بجٹ اور اس میں کیے جانے والے متوقع اقدامات، تاجربرداری کی تجاویز، بزنس کمیونٹی کی امن و امان کی صورتحال پر رائے کے حوالے سے ''پری بجٹ فورم '' کا انعقاد کیا گیا جس میں نگراں صوبائی وزیر انفارمیشن میاں زاہد حسین،عقیل کریم ڈھیڈی، اسٹاک ممبر، صدر سمٹ بینک حسین لوائی، چیئرمین پاکستان ٹاولز ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن مہتاب چاولہ، صدر کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) ہارون اگر اورآل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے پیٹرن انچیف عبدالواحد نے اظہار خیا ل کیا جو قارئین کیلیے پیش خدمت ہے۔
میاں زاہد حسین
( نگراں صوبائی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی)
میں نگراں حکومت کا حصہ ہوں لیکن میری رائے میں نگراں حکومت کی جانب سے منی بجٹ لانے کا فیصلہ درست نہیں، عوام بھی اس بات کو پسند نہیں کررہے۔ ٹیکس لگانا اور دیگر بڑے فیصلے نگراں حکومت کا مینڈیٹ نہیں، اب تو ویسے بھی آئندہ ماہ کے وسط تک نیا وفاقی بجٹ آجائے گا۔ نئی حکومت کو ان فیصلوں کا موقع دینا چاہیے ورنہ اس وقت کیے گئے فیصلوں کی وجہ سے آئندہ حکومت کو بھی مشکلات کا سامنا ہوگا اور نیا پنڈورہ بکس بھی کھل جائے گا۔ ملکی معیشت کو بہت سے مسائل کا سامنا ضرور ہے جن میں ٹیکس وصولی بہت بڑا مسئلہ ہے، ہمارے ملک میں لوگ ٹیکس دینا چاہتے ہیں لیکن موثر سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے ٹیکس نیٹ میں اضافہ نہیں ہوپارہا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ٹیکس نظام کی ری اسٹرکچرنگ کی جائے، اس کیلیے سب سے پہلے ہمیں ٹیکس ریٹ کم کرنا ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ ہر سال بجٹ سازی کے موقع پر تاجر برادری حکومت وقت کو تجاویز دیتی ہے لیکن ہماری تجاویز میں سے چند ایک ہی مانی جاتی ہیں، ہماری رائے میں ملک بھر میں ٹیکس وصولی یکساں ہونی چاہیے۔ بزنس کمیونٹی میں ٹیکس ریفارمزکے حوالے سے کوئی اختلافات نہیں کیونکہ تاجر برادری سمجھتی ہے کہ ملک ٹیکس کے بغیر نہیں چل سکتا۔ انھوں نے کہا کہ 200 ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے اور اتنی ہی لائن لاسز کی صورت میں ضائع ہوجاتی ہے، اس صورتحال پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ملک بھر میں 16,16 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے، صورت حال پر قابو پانے کیلیے 20 ارب روپے درکار ہیں ۔ اس کے علاوہ اگر سیلز ٹیکس لگایا گیا تو اس کے بھی منفی اثرات ہوں گے، عوام کو ویسے ہی بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ میاں زاہد کا کہنا تھا کہ توانائی کا بحران ایک بہت اہم اور بڑا مسئلہ ہے، اس کے لیے قلیل مدتی (short term) اقدامات نہ کیے جائیں تو بہتر ہوگا۔
آئی ایم ایف والے باربار پوچھتے ہیں کہ اگر پیسے لیں گے تو واپس کیسے دیں گے؟، معاشی بحران کی وجہ ٹیکس کی وصولی میں موجود سقم بھی ہیں۔ ٹیکس نظام کی ری اسٹرکچرنگ ضروری ہے تاکہ ادارے نقصان میں نہ جائیں۔ ٹیکس پر ٹیکس لگانے سے اس وقت تک فائدہ نہیں ہوگا جب تک آپ ٹیکس کے نظام کو صحیح نہیں کریں گے۔ بزنس کمیونٹی چاہتی ہے کہ ٹیکس ریٹ کم ہو، سیلز ٹیکس بھی کم کیا جائے اور سب اداروں سے وصولی کی جائے۔ گیس کے مسائل بھی ہیں، اس وقت بحران میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ہم اس وقت جتنی گیس پیدا کررہے ہیں، اس سے زیادہ کی جاسکتی یہ لیکن ایسا نہیں ہورہا۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ 2 ہزار ارب روپے ٹیکس نیٹ میں ہیں لیکن سسٹم نہ ہونے کی وجہ سے وہ ٹیکس نیٹ میں مکمل طور پر نہیں آرہے۔ ہمارے اداروں میں بہتری کی استعداد ہے تاہم گورننس نہ ہونے کی وجہ سے مسائل بڑھ رہے ہیں، اگر نظام اپ گریڈ ہوجائے تو 2 ہزار ارب روپے سسٹم میں پوری طرح آسکتے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ملک بھر میں ٹیکس وصولی یکساں ہونی چاہیے، حکومت اور بیوروکریسی چاہتی ہے کہ مکمل ڈاکیومینٹیشن ہو، ہمیں اس سے بھی اختلاف نہیں لیکن شرح خواندگی میں کمی کی وجہ سے ہر کوئی اپنے کاروبار کی صحیح طرح ڈاکیومینٹیشن نہیں کرسکتا۔ ہماری معیشت کے کئی درجات ہیں جیسے کارپوریٹ لیول، پھر میڈیم، اسمال اور مائیکرو، اگر ان سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکیں تو صورتحال میں بہتری نہیں آئے گی۔ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ملک میں ٹیکس ہے اور لوگ ٹیکس دینا بھی چاہتے ہیں تاہم ٹیکس لینے والا سسٹم اتنا موثر نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر نظام کو بہتر کیا جائے۔مجموعی قومی پیداوار(جی ڈی پی) پر ٹیکس کی شرح ہمارے پاکستان میں 9 یا ساڑھے 9 ہے جو شاید دنیا بھر میں سب سے کم ہے۔ امن و امان ، تعلیم اور صحت کے شعبوں کے مسائل بڑھ رہے ہیں، ہمیں بجلی اور گیس کی قلت کی وجہ سے جس بحران کا سامنا ہے، اس کا بڑا سبب بھی یہی ہے کہ انفرااسٹرکچر ٹھیک نہیں۔
اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کی جیبوں سے ٹیکس نکل رہا ہے مگر حکومت تک نہیں پہنچ پارہا، اس مسئلے کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ میاں نوازشریف نے یہ نہیں کہا کہ ہم پیسے لٹانے شروع کردیں گے، میرا خیال ہے کہ وہاں بھی کوئی طریقہ کار اپنا جائے گا۔ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ نوجوانوں کو خودکفیل اور باروزگار کیے بغیر ملک کی ترقی ممکن نہیں، مختلف ووکیشنل پروگراموں کے ذریعے نوجوانوں میں آگاہی پیدا کی جائے۔ ہارے انفارمیشن ڈپارٹمنٹ سندھ نے ایک پروگرام ترتیب دیا ہے کہ مختلف ورکشاپس، سیمینارز اور پروگراموںکے تحت نوجوانوںکو تربیت دی جائے کہ وہ موبائل فون کی Apps (ایپلی کیشنز) بنائیں کیونکہ یہ تمام سافٹ ویئر نوجوان ہی بنارہے ہیں۔ جب ہمارے نوجوان بھی یہ ایپلی کیشنز بناکر نیٹ پر ڈالیں گے اور لوگ انھیں خریدیں گے تو ہر نوجوان ڈالرکماسکتا ہے۔ ہمیں ووکیشنل ٹریننگ کے مراکز بنانا ہونگے، یہ ایک بہت زبردست آئیڈیا ہے جس کیلیے ہمیں جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔ ہم نے اس سلسلے میں انٹیل (intel) ، گوگل (google) اور دیگر اداروں کے کنٹری چیفس سے بھی بات کی ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہمارے نوجوان سافٹ ویئرز بنالیتے ہیں لیکن انھیں یہ علم نہیں کہ ان پروگراموںکو کہاں بیچنا ہے۔
عقیل کریم ڈھیڈی
(اسٹاک ممبر)
منی بجٹ لانے کی کچھ نہ کچھ وجوہات ہیں جنھیں نظر اندا ز نہیں کیا جاسکتا۔ شارٹ فال کا سامنا ہے، بجٹ خسارہ ڈبل ہوچکا ہے، اگر یہی کیفیت رہی تو معیشت پر شدید منفی اثرات مرتب ہونگے۔ ہمیں معیشت کو کھڑا کرنے کیلیے فوری طور پر 200 سے 300 ارب روپے لانا ہیں، اگر ایسا ہوجاتا ہے تو خسارہ کم ہوجائے گا۔ نئی حکومت چند دنوں میں آجائے گی اور اسے بھی آتے ہی ایک چھوٹا بجٹ دینا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ ملک میں گیس اور بجلی کا بحران بہت زیادہ ہے، ہماری تجویز ہے کہ گیس کسی کو نہ دو سب کی بجلی بنادو مگر ریٹ سب کیلیے یکساں کرنا ضروری ہے۔ ہماری معیشت اتنی بری نہیں ہے جتنا شور مچایا جارہا ہے، توانائی کا بحران بھی زیادہ سنگین نہیں بس چند موثر اقدامات اٹھالیے جائیں تو صورتحال بہتر ہوجائے گی۔
پارلیمنٹ کو یہ سخت فیصلہ کرنا ہوگا کہ جو بل نہیں دے گا اسے بجلی اور گیس نہیں ملے گی، ہم سمجھتے ہیں کہ چوروں کو تحفظ دینے سے روزگار نہیں بڑھتا، چوروں کو تحفظ دینا بند کردیا جائے تو معاشی مسائل منٹوں میں حل ہوجائیں گے۔ معاشی صورت حال کی خرابی کا شور زیادہ مچایا جاتا ہے،اصل میں حالات ایسے نہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہر سال گیس کی پیداوار بڑھ رہی ہے، مزید گیس کے ذخائر بھی دریافت ہورہے ہیں تو صورتحال بہتری کی جانب جارہی ہے بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارا سسٹم ٹھیک انداز میں کام کرے۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ فرنس آئل سے 4ہزارمیگاواٹ سے زائد بجلی نہیں بن سکتی، آپ دوسرے ذرائع سے پیدا کی جانے والی بجلی کے نرخوں کا موازنہ فرنس آئل سے کریں تو بہت زیادہ فرق نظر نہیں آئے گا، ہمیں فرنس آئل سے بجلی بنانا ہوگی۔ 100روپے کے ڈالر کے بعد اب مزید de valuation نہیں ہونی چاہیے۔
ملک کے چند سیکٹر ایسے ہیں جہاں ٹیکس لگائے بغیر صرف چند موثر فیصلے کرکے ملکی معیشت میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ ہر شعبے میں ریٹس بڑھ رہے ہیں، سیمنٹ، فرٹیلائزر اوردیگر شعبوں کو جس ریٹ میں گیس دی جارہی ہے، وہ زیادتی ہے۔اس صورتحال میں ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ایسی پالیسیوں یا فیصلوں سے کس کے مفادات کا تحفظ کیا جارہا ہے۔ایک دو اچھے اقدامات سے صورتحال بہتر ہوجائے گی، بجٹ خسارہ بھی 3 فیصد سے زیادہ نہیں ہوگا۔ جن کے مفادات ہیں، ان سے ہی اگر بجٹ بنانے کا کہا جائے گا تو مسئلہ حل نہیںہوسکے گا۔ معاملات کو بہتر کرنے سے بہت سے طریقے ہیں، آئی پی پیز کو جرمانہ بھی کیا جاسکتا ہے، اس وقت تو یہ ہورہا ہے کہ آئی پی پیز ڈیفالٹ بھی کرتے ہیں لیکن بجلی نہیں دیتے۔ ہر سال مقامی سطح پر گیس کی پیداوار بڑھ رہی ہے، نئے ذخائر بھی دریافت ہورہے ہیں۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ اس وقت بجٹ خسارے کے باوجود معاشی صورتحال بہت بہتر ہے۔ ایکسپورٹ اور امپورٹ کے اعدادوشمار بہت بہتر ہیں، اب ہمیں ٹیکس ریونیو میں اضافے کی کوششیں کرنا چاہئیں۔
حسین لوائی
(صدر سمٹ بینک)
میں نے دنیا کے مختلف براعظموں میں کام کیا ہے اور میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ جتنے وسائل ہمارے ملک میں ہیں اور کہیں نہیں ہیں۔اگر اتنے زیادہ وسائل کے باوجود ہم مسائل کی جانب بڑھ رہے ہیں تو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ بہت ضروری ہے کہ ملک کو معاشی مسائل سے نکالنے کیلیے فوری طور پر اقتصادی پلان بنایا جائے جس میں تمام سیاسی جماعتوں، تاجر برادری، فوج، پروفیشنلز اور دیگر تمام طبقات کی تجاویز شامل ہوں، پھر اس روڈ میپ کے تحت چلاجائے اور اس سے نہ ہٹاجائے تو صورتحال بہت بہتر ہوسکتی ہے۔ اس کے ساتھ سسٹم کو کمپیوٹرائزڈ بھی کرنا ہوگا لیکن اس میں سب سے بڑی رکاوٹ بیوروکریسی ہوگی کیونکہ وہ ایسا نہیں چاہتی۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ قرضے اگر عوامی فلاح کے منسوبوں کیلیے لیے جائیں تو ان میں کوئی برائی نہیں تاہم قرض لیکر نئے کپڑے یا نئی گاڑی خریدنا غلط ہے۔ بزنس کمیونٹی کو عالمی مقابلے کیلیے تیار کرنا ہے تو ڈسکائونٹ ریٹ کو 7 فیصد پر لانا ہوگا۔
آئندہ حکومت کے پاس اچھا موقع ہے کہ وہ معاشی ترقی کیلیے ٹھوس اور جراتمندانہ فیصلے کرے۔ بینکنگ سیکٹر کا مستقبل بہت روشن ہ اور یہ شعبہ تیزی سے ترقی کررہا ہے، دنیا بھر میں سنگین اقتصادی بحرانوں کی وجہ سے بڑے بڑے بینک دیوالیہ ہوگئے لیکن ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہوا، بینکنگ سیکتر مزید ترقی کررہا ہے اور اس کا کریڈٹ مرکزی بینک کو بھی جاتا ہے۔ میں نے ن لیگ کا یہ اعلان نہیں سنا کہ نوجوانوں کو 50 ہزار سے 5 لاکھ تک کے قرضے دیے جائیں گے۔ میری تجویز تو یہ ہے کہ نوجوانوں کیلیے نیشنل وینچر فنڈ (National Venture Fund)بنانا چاہیے جس کی مانیٹرنگ بھی پروفیشنلز کے پاس ہو، پروفیشنلز کی کمیٹیاں نوجوانوں کے پروجیکٹس کا جائزہ لیں اور اسی بنیاد پر ان کیلیے راستہ نکالیں۔ نوجوان کسی بھی ملک کا انتہائی اہم طبقہ ہیں، مائیکروسافٹ، گوگل، فیس بک یہ سب نوجوانوں کے ہی پروجیکٹس ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہو کہ فنڈریزنگ کی جائے، صرف قرضے دینے سے بات نہیں بنے گی۔
ہمیں ایسی پالیسیاں بنانا ہونگی جن کے تحت ہم اپنے وسائل کو صحیح طرح استعمال کرسکیں۔ ہر ترقی پذیر ملک کو وہی مسائل درپیش ہیں جن کا سامنا پاکستان کو ہے۔ میں آپ کو یونان اور آئرلینڈ کی مثال دیتا ہوں، دونوں ملکوں کو 2009 میں سنگین اقتصادی بحران کا سامنا تھا ۔ 2010 میں آئی ایم ایف نے یونان کو 100 بلین ڈالر کا پیکیج دیا جبکہ اگلے سال اسے 150 بلین ڈالر کردیا۔ اسی طرح آئر لینڈ جو ایک چھوٹا ساملک ہے، اسے 50 بلین ڈالر کا پیکیج دیا گیا۔ میری رائے میں ہماری مشکلات کی وجہ یہ ہے کہ مسئلے کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی جبکہ حل بہت آسان ہیں مگر مشکل یہ آجاتی ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔ہمارے پاس اتنے قومی اثاثے ہیں، اگر چند ایک کو بھی بیچ دیا جائے توملکی معیشت کی صورتحال بہتر ہوسکتی ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ صرف 2 اداروں پی پی ایل اور اوجی ڈی سی ایل کے 10 فیصد اثاثے بھی بیچ دیے جائیں تو معاشی حالت میں بہتری لائی جاسکتی ہے، ہم نے اس حوالے سے حکومت کو تجاویز بھی دی ہیں۔
ہماری رائے میں توانائی کا بحران اس لیے ہے کیونکہ پیداوار کے مقابلے میں استعمال بہت زیادہ ہے۔ سب سے سنگین بات کسی کے نوٹس میں نہیں ہے اور وہ یہ کہ گذشتہ 15 سال سے ہمارے پاور ڈسٹری بیوشن سسٹم میں ایک ڈالر کی بھی سرمایہ کاری نہیں کی گئی۔ اہم بات یہ ہے کہ اگر پورے ملک کو جتنی بجلی درکار ہے، وہ پیدا بھی کرلی جائے تب بھی سسٹم ٹرپ کرجائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈسٹری بیوشن سسٹم کی مینٹیننس(maintenance)بالکل نہیں کی گئی۔ پاکستان واحد ملک ہے جہاں بجٹ سازی کے معاملات کو انتہائی خفیہ رکھا جاتا ہے جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ بجٹ کے حوالے سے ہر بات تمام اسٹیک ہولڈرز کو بھی بتائی جائے اوران سے رائے لی جائے۔ بجٹ بناتے وقت کاروباری طبقے کے نمائندوں کو بھی اعتماد میں لینا چاہیے۔ یہ ساری مشق راتوں رات مسائل کو حل نہیں کردے گی لیکن اگر مسلسل اس پالیسی کو اپنا گیا تو چند سال میں معیشت کی صورتحال بہت بہتر ہوسکتی ہے۔
مانیٹری پالیسی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے افراط زر(inflation) کی شرح سے منسلک ہونا چاہیے۔ دنیا بھر میں inflation کے مقابلے میں discount rate کم ہوتا ہے۔ بزنس کمیونٹی کوآگے بڑھانا ہے تو ڈسکائونٹ ریٹ کو7 فیصد پر لانا ہوگا کیونکہ اس کے بغیر اقتصادی ترقی نہیں ہوسکتی۔ ملکی معیشت کو مثبت خطوط پر استوار کرنے کیلیے حکومت کو جارحانہ اور جراتمندانہ اقدامات کرنا ہوں گے۔ نئی حکومت کے پاس اچھا موقع ہے کہ وہ معیشت کے حوالے سے موثر پالیسیاں بنائے۔ قرض لینا اس وقت صحیح ہوتا ہے جب اس رقم کو عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر استعمال کیا جائے لیکن اگر قرض لینے کا مقصد نئے ملبوسات خریدنا یا گاڑی خریدنا ہو تو وہ غلط ہے۔ ایک اہم بات آپ کو بتائوں کہ ہمارا ایم قومی ادارہ نیشنل سیونگز دارہ قومی بچت) ہے، ان کی back پرکوئیassets نہیں ہیں۔ اگر آج عوام اپنا ڈپازٹ وہاں سے نکلوالیں تو کیا سنگین صورتحال ہوگی اس ا کوئی اندازہ بھی نہیں لگاسکتا۔
عبدالواحد
موثر اقدامات کیے جائیں تو فروٹ اینڈ ویجیٹیبل انڈسٹری بہت آگے جاسکتی ہے، اس کیلیے ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ کرپشن ختم کیے بغیر ملک کی معیشت کو ترقی کی راہوں پر نہیں لایا جاسکتا۔ دنیا بہت آگے چلی گئی ہے، ہر کوئی عالمی معیار کی چیزیں چاہتا ہے۔ سبزیوں اور پھلوں کا بھی یہ معاملہ ہے، یہ perishable items ہیں۔ نبی کریم حضرت محمد نے 14 سو سال قبل کہا تھا کہ ''صفائی نصف ایمان ہے'' لیکن ہم نے اس بات پر توجہ نہیں دی، ہاں اگر آپ یورپی ملکوں میں جائیں تو وہاں آپ کو احساس ہوگا کہ ہمارے نبیؐ کے قول پر انھوں نے پورا عمل کیا ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ ہم لوگ منہ سے کھاتے ہیں اور ذائقے پر جاتے ہیں جبکہ دنیا آنکھ سے کھاتی ہے اور ظاہری شکل و صورت پر توجہ دیتی ہے۔ہم بار بار حکومت سے کہہ چکے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ جو بھی امپورٹر یا ایکسپورٹر ہو ، اسے ایک موثر نظام کے تحت لانا ہوگا۔ دنیا نے تو بہت ترقی کرلی ہے لیکن ہم ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ ہم پیچھے ہی گئے ہیں۔
ہم جلد پیداوار لینے کیلیے فصلوں پر کیمیکلز استعمال کرتے ہیں جن سے پھلوں کے معیار پر منفی اثرات پڑرہے ہیں۔ اگر موثر اقدامات کیے جائیں تو فروٹ اینڈ ویجیٹیبل انڈسٹری تمام سیکٹروں سے آگے جاسکتی ہے لیکن اس کیلیے ٹھوس منصوبہ بندی اوردلیرانہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ جہاں تک منی بجٹ کی بات ہے تو ہم لوگوں کو اس کی فکر نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ہم لوگوں کو تو آگے چل کر انتخابی اخراجات بھی اپنی جیبوں سے ادا کرنا ہوں گے۔ایک اوراہم بات یہ کہ ایکسپورٹ بڑھانے کیلیے پیداوار اچھی کرنی ہوگی، اس سیکٹر میں پیسہ تو بہت آیا ، لوگوں نے ہم سے مشورے بھی بہت لیے مگر پیسہ کہیں دوسری جگہ چلاگیا۔ قانون سازی بڑی بات نہیں ، قوانین پر عملدرآمد سب سے اہم چیز ہے۔ اس کے علاوہ میں سمجھتا ہوں کہ معاشی ماہرین کو چاہیے کہ وہ قومی معیشت کی بہتری کیلیے حکومت کو تجاویز دیںاور مختلف ایشوز پر آواز اٹھائیں۔
ہارون اگر
(صدر کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری)
ہارون اگر کا کہنا تھا کہ نئی حکومت سے تاجربرادری کوبہت اچھی توقعات وابستہ ہیں، امید ہے کہ نوازحکومت کا بجٹ بزنس فرینڈلی ہوگا کیونکہ نوازشریف کا تعلق بھی تجارت پیشہ خاندان سے ہے اور وہ اس بات سے بھی بخوبی واقف ہیں تجارت وصنعتی شعبہ بدترین توانائی بحران اور امن وامان کی سنگین صورتحال کے باوجود سرگرم عمل رہا ہے حالانکہ گزشتہ ایک سال کے دوران کراچی میں 100 دن توہڑتالیں رہی ہیں۔سابق حکومت کے اختتامی ایام کے دوران یکطرفہ بنیادوں پر جاری ہونے والے ایس آراوز اور نگراں حکومت کی جانب سے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے منی بجٹ کی اطلاعات نے تاجربرادری کے اعتماد کو بری طرح مجروح کیا، کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری تمام حکومتوں کو یہی تجویز دیتا ہے کہ سالانہ بنیادوں پر مرتب کیے جانے والے وفاقی وصوبائی بجٹس کے حوالے سے شعبہ جاتی بنیادوں پر تاجرنمائندوں سے آراء لیں تاکہ ان کی تجاویز کو بجٹ کا حصہ بنایا جاسکے اور حکومت کے اس عمل کے ذریعے تاجر برادری میں اعتماد کی فضا قائم ہوسکے۔
اگر معیشت بیٹھ گئی تو صورتحال بہت سنگین ہوجائے گی۔ پاکستان میں فی الوقت سیلزٹیکس کی شرح16 فیصد ہے جبکہ دنیا بھر میں سیلزٹیکس کی زیادہ سے زیادہ شرح9 فیصد ہے، حکومت کو سیلزٹیکس کے ذریعے ریونیو وصولیاں بڑھانی ہیں تو اسے شرح سنگل ڈیجٹ پر لانا ہوگا اور کراچی چیمبر نے اپنی تجاویز میں سیلزٹیکس کی شرح9 فیصد کرنے کی سفارش کی ہے۔ نئی وفاقی حکومت کو مالی سال2013-14 کے وفاقی بجٹ میں اس حقیقت کو مدنظر رکھنا پڑے گا کہ جو طبقہ باقاعدگی کے ساتھ ٹیکسوں کی ادائیگیاں کرتا ہے اس پر مزید بوجھ نہ ڈالا جائے، اس کے علاوہ ضروری ہے کہ بڑے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔نئے بجٹ میں شعبہ زراعت کی ترقی کے لیے موثر اقدامات بروئے کارلانے کی ضرورت ہے کیونکہ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان میں سالانہ 3 تا4 ارب ڈالر مالیت کی مختلف دالیں، مصالحہ جات درآمد کی جارہی ہیں نئے بجٹ میں اگر زرعی شعبے میں ویلیوایڈیشن پر توجہ دی جائے اور پالیسی ساز زمینی حقائق کے مطابق شعبہ زراعت کی ترقی کے لیے اقدامات اٹھائیں تو ہم اپنے درآمدی بل میں4 ارب ڈالر کی بچت کرسکتے ہیں، کراچی چیمبر کو یہ اطلاع موصول ہوئی ہے کہ مجوزہ منی بجٹ نہیں آرہاہے اور اس حقیقت سے تمام شعبے بخوبی آگاہ ہیں کہ منی بجٹ جیسے اقدامات سے کرپشن کوفروغ ملتا ہے۔
نوازشریف حکومت کے قیام سے قبل تاجربرادری کو اعتماد اس لیے ہے کہ نوازشریف کے سابقہ ادوار میں وفاقی بجٹ مرتب کرنے سے قبل بزنس کمیونٹی سے تجاویز لی جاتی تھیں لیکن جمہوری میعاد پوری کرنے والی سابقہ حکومت کے دوران یہ المیہ رہا کہ اس دور میں حکومت اور تاجربرادری کے درمیان اعتماد کا فقدان رہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ انفرادی سطح پر کسی کو چھوٹ یا رعایت دینے سے کرپشن بڑھتی ہے اور مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ جیسا کہ سب اس بات سے آگاہ ہیں کہ بجٹ کا مقصد محصولات کی وصولیاں ہیں لیکن ایف بی آر کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی توجہ صرف ریونیو وصولی تک محدود کرنے کے بجائے اپنی دیگر ذمہ داریوں کو بھی پورا کرے۔
انڈرانوائسنگ، مس ڈیکلریشنز اور اسمگلنگ پر قابو پانے کی ٹھوس حکمت عملی وضح کرے کیونکہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی آڑ میں سیاہ چائے، پلاسٹک دانہ، ٹائرز ودیگر ایسی مصنوعات جن افغانستان میں کھپت ہی نہیں ہے کی وسیع پیمانے پر اسمگلنگ ہورہی ہے جس پر ٹھوس انداز میں قابو پانے کی ضرورت ہے اور ایسے قابل ٹیکس آمدنی کے حامل شعبوں وافراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی ضرورت ہے، پاکستان میں سینکڑوں آئٹموں کی اسمگلنگ کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کے دیگر شہروں کی طرح کراچی کے بولٹن مارکیٹ، چھانٹی لین میں سرعام اسمگلڈ آئٹمز فروخت ہورہے ہیں جبکہ حکومت اور انسداد اسمگلنگ کے ذمہ دار ادارے بے بس لگ رہے ہیں محسوس ہوتا ہے کہ انسداداسمگلنگ کی ملک میں سرے سے ہی کوئی پالیسی موجود ہی نہیں ہے۔ہم ہر حکومت سے یہی کہتے ہیں کہ وہ معاشی طور پر جو بھی فیصلے کریں، تاجربرادری کو ضرور اعتماد میں لیں۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ٹیکس جتنا کم ہوگا اتنی ہی وصولی کی شرح بڑھے گی۔
مہتاب چاولہ
(چیئرمین ٹاولز مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرزایسوسی ایشن )
مہتاب چاولہ نے کہا کہ نئی حکومت اگرصنعتی شعبے کی ترقی پر اپنی توجہ مرکوز کرے تو اقتصادی صورت حال میں بہتری ممکن ہے، اس سلسلے میں نئی حکومت کو چین کو رول ماڈل بنانا ہوگا اور اس کے ساتھ ہی عالمی سطح پر پاکستان کے امیج کو بہتر بنانا ہوگا۔اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ ہر کسی کو اپنے حقوق تو یاد ہیں لیکن فرائض سب بھول چکے ہیں۔توانائی کے سنگین بحران امن وامان کی خراب صورتحال جیسے عوامل کے باعث بے شمار صنعتیں مالیاتی بحران کی زدمیں آچکی ہیں۔ نوازشریف کی نئی حکومت کو اس جانب ترجیحی بنیادوں پرتوجہ دینا ہوگی۔ پاکستان میں عام انتخابات کا عمل مکمل ہوچکا ہے اورتمام سیاسی جماعتوں نے اپنی پالیسیوں اور منشور پیش کرنے کے بجائے اپنے مخالفین پر تنقید اور الزام تراشی کے ذریعے ووٹ حاصل کیے، اب دھرنوں اور دھاندلی کے شورشرابے کے سلسلے کوختم ہوجانا چاہیے اور ملک کو آگے بڑھانے کیلیے سب کو اپنے اپنے حصے کا کام شروع کردینا چاہیے۔
پاکستان کی مجموعی برآمدات میں شعبہ ٹیکسٹائل کا حصہ60 فیصد ہے اور یہ شعبہ 40 فیصد آبادی کو روزگار فراہم کررہا ہے۔ پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات اب بھی اپنے حریفوں چین اور بھارت سے بلحاظ قیمت سستی ہیں لیکن بیرونی خریدار بروقت ڈلیوری نہ ہونے کے خطرات کے باعث پاکستانی برآمدکنندگان کو آرڈرز دینے سے گھبراتے ہیں ۔ نئی حکومت کو معیشت کو جنگی بنیادوں پر بہتری کی جانب گامزن کرنے کے لیے عام تعطیلات کے ایام کو گھٹانا ہوگا جبکہ برآمدی نوعیت کی تمام صنعتوں کے لیے گیس کنیکشنز پر پابندی ختم کرنا ہوگی تاکہ ملک میں صنعتکاری کو فروغ مل سکے۔صنعتی زونز کی بنیادی ضروریات یوٹیلٹیز ترجیحی بنیادوں پر بلارکاوٹ فراہم کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ سال2009 میں متعارف کرائی جانے والی ٹیکسٹائل پالیسی ایک بہترین پالیسی تھی لیکن اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کا فقدان رہا ہے وگرنہ آج پاکستان کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ دوگنا ہوجاتا۔