بورژوا جمہوریت

وزیراعظم عمران خان نے کچھ ایسے اقدامات کیے ہیں جو عوام کو کافی متاثر کر رہے ہیں۔


Zaheer Akhter Bedari September 02, 2018
[email protected]

ہمارے سیاسی اور جمہوری نظام پر ہماری اشرافیہ اپنے قبضے کو مستحکم رکھنے کے لیے ملک کے مختلف علاقوں پر مختلف حوالوں سے قبضہ جمائے ہوئے ہے۔ پنجاب ہو یا ملک کے دیگر صوبے، ہماری حکمران اشرافیہ نے اندازہ کرلیا کہ قوم پرستی یا صوبہ پرستی ہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے عوام کو اپنے قبضے میں رکھا جا سکتا ہے، اس حربے کو پنجاب میں بڑی کامیابی سے استعمال کیا گیا۔

ماضی کو رہنے دیں، حال کا یہ حال ہے کہ دس سال سے سیاست کاروں نے صوبائیت کے حوالے سے قبضہ جمایا ہوا ہے، دس برس کے اقتدار کے بعد پنجاب کو شریف خاندان کی حکومت سے آزاد کرا لیا گیا ہے، صوبے کی روایتی سیاست میں پڑنے والے اس شگاف نے مسلم لیگ (ن) کو اس قدر بدحواس کر دیا ہے کہ وہ اس نئی صورتحال کا اب تک کوئی علاج نہ ڈھونڈ سکی۔ بات صرف پنجاب پر حکومت کی نہیں ہے بلکہ 2018ء کے انتخابات میں مرکز اور دو صوبوں میں بھی تحریک انصاف حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔

ستمبر میں صدارتی انتخابات ہو رہے ہیں (ن) لیگ کی پوری کوشش ہے کہ اس کا نامزد شخص صدر منتخب ہو جائے۔ اگر (ن) لیگ کا نامزد ممبر ملک کا صدر منتخب ہو جائے تو حکمران جماعت کے لیے خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔

ماضی میں سویلین صدر دو بار حکومت کو کرپشن کے الزام میں برطرف کر چکے ہیں۔ شاید ہمارا یہ کالم شایع ہونے تک صدر کے انتخابات کا فیصلہ ہو جائے گا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ماضی میں ایک دوسرے کے غیر اعلانیہ اتحادی رہے ہیں اور (ن) لیگ کی خاموش حمایت ہی کی وجہ سے پیپلز پارٹی اپنی 5 سالہ آئینی مدت پوری کرنے میں کامیاب رہی ہے لیکن سیاسی مفادات کا یہ کرشمہ ہے کہ (ن) لیگ پیپلز پارٹی کے نامزد صدارتی امیدوار کی حمایت کرنے کے لیے تیار نہیں۔

شہباز شریف نے اپوزیشن کا متفقہ امیدوار لانے کے لیے مری میں اپوزیشن کی جو بیٹھک بلائی تھی وہ ناکام ہو گئی، اس کی وجہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اپنے صدارتی امیدوار کو برسر اقتدار لا کر ان کی خدمات سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے اور (ن) لیگ کا پلان یہ ہے کہ اپنے صدارتی امیدوار کو کامیاب بنا کر اس کا ایسا سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے کہ اس بحران سے نکل جائے جس کی وہ شکار ہے۔

ہفتے کے دن مری میں بلائی جانے والی اتحادیوں کی کانفرنس کے بعد یہ اعلان کیا گیا کہ کانفرنس کسی فیصلے پر نہیں پہنچ سکی البتہ پی پی پی کے ایک کارکن نے اپنے کارکنوں کو مایوسی سے بچانے کے لیے یہ خوشخبری سنائی کہ ایک دن بعد یعنی اتوار کو صدارتی امیدوار کے نام کا اعلان کیا جائے گا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ دونوں جماعتوں کے اختلافات اب اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف متحد نہیں ہو پا رہے ہیں۔ نواز شریف اور بیٹی، داماد کی گرفتاری اور لمبی سزاؤں کی وجہ (ن) لیگ جن مشکلات کا شکار ہو گئی ہے اس پر حکومت سے محروم ہو جانا اور شہباز شریف کو نیب کی طلبی نے ایک انتہائی مشکل صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے کچھ ایسے اقدامات کیے ہیں جو عوام کو کافی متاثر کر رہے ہیں۔ وزیراعظم نے وزیراعظم ہاؤس میں رہنے سے معذرت کرکے اپنے ایک ماتحت کے تین کمروں کے مکان میں قیام کا اعلان کیا ہے جس کی اتباع پنجاب اور خیبرپختونخوا کے وزرائے اعلیٰ کر رہے ہیں۔ ماضی میں وزیراعظم ایک خصوصی ہوائی جہاز استعمال کرتے تھے۔

عمران خان نے نہ صرف اس خصوصی ہوائی جہاز کو استعمال کرنے سے انکار کیا ہے بلکہ عام ہوائی جہاز میں اس خصوصی لگژری حصے میں بھی سفر کرنے سے معذرت کر لی ہے۔ اسی قسم کے اعلانات حکومت کے وزرا اور وزرائے اعلیٰ کر رہے ہیں جس کا ایک اپیلنگ اور مثبت تاثر عوام میں پیدا ہو رہا ہے، عوام میں مقبولیت اپوزیشن کی مایوسی میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ فاٹا کے تین ارکان سینیٹ نے تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا ہے اپوزیشن کے زخموں میں یہ ایک اور بڑا زخم ہے۔

اسے اتفاق کہیں یا حسن اتفاق کہ عمران خان نے ابھی وزیر اعظم کا حلف اٹھایا تھا، نہ وزارت عظمیٰ کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی کہ دنیا کے مختلف ملکوں کے سربراہوں نے عمران خان کو کامیابی کی مبارک باد دینے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا ہے، بھارت جو عشروں سے مذاکرات ہی سے انکار کرتا رہا وہ عمران خان کو نہ صرف وزیراعظم بننے پر مبارکباد بلکہ کئی سربراہوں نے پاکستان آکر عمران خان سے ملاقات کر کے مبارکباد دی، بلکہ پاکستان کی بھرپور حمایت اور امداد کا اعلان کیا ہے۔

اسی طرح ترکی اور ایران سمیت کئی ملکوں نے عمران خان کو وزیراعظم منتخب ہونے پر مبارکباد بھی دی ہے اور اپنے ملکوں کا دورہ کرنے کی دعوت بھی دی ہے ان کامیابیوں نے اپوزیشن کو بہت مایوسی میں مبتلا کر دیا ہے۔ عمران خان کی پراثر شخصیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔

ہم نے کالم کا آغاز صوبوں پر اشرافیائی حکمرانوں کے قبضوں کے مضمرات سے کیا تھا 2018ء کے الیکشن کے نتائج کے پس منظر میں پنجاب سے شریف خاندان کا دس سالہ اقتدار ختم کر دیا ہے اور شہباز شریف جو پنجاب پر بادشاہوں کی طرح حکومت کر رہے تھے اب پنجاب چھن جانے سے ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے ہیں۔

سندھ پر پیپلزپارٹی کے قبضے کی وجہ سندھ کے عوام پر ابھی گرفت باقی ہے بلکہ اگر اس گرفت کو پنجاب کی طرح نہ توڑا گیا تو سندھ کے عوام میں جن میں پنجابی، پختون، اردو اسپیکنگ وغیرہ شامل ہے بے چینی میں اضافہ ہوگا اور پاکستان ایک گہری بے چینی کا شکار ہو جائے گا اس بدقسمتی کو کیا کہیں کہ اس مضبوط حکمرانی کے باوجود سندھ کے مسائل جوں کے توں باقی ہیں بلکہ ان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بلاشبہ یہ بورژوا جمہوریت 71 سال سے عوام کے مسائل کم کرنے کے بجائے ان میں مسلسل اضافے کا باعث بنی ہوئی ہے اور یہ سلسلہ اس وقت تک باقی رہے گا جب تک اشرافیائی حکمران اس صوبے پر قبضہ کیے ہوئے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں