جمہوریت کی خاطر
سدھا، گوتم اور ایسے دوسرے مقتدر ہندوستانی اپنے ملک، اپنے سماج کے لیے نادر روزگار ہیں۔
ISLAMABAD:
ہندوستان میں 15اگست 1947ء سے جمہوریت ہے،آئین ہے۔ ہر پانچ سال پر وہاں انتخابات ہوتے ہیں، دھاندلی کے الزامات لگتے ہیں۔ شور شرابہ ہوتا ہے، چند دنوں بعد ان الزامات کی دھول بیٹھ جاتی ہے اور منتخب حکومت کام کرتی رہتی ہے۔ وہاں کی جمہوری تاریخ کو سب سے بڑا دھچکا اس وقت لگا تھا جب 26جون 1975ء کو مسز اندرا گاندھی نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی تھی۔
یہ اقدام انھوں نے اپنے چہیتے بیٹے سنجے گاندھی کے مشورے اور دباؤ پر اٹھایا تھا لیکن وہاں کے خواص اور عوام نے اس غلط اور غیر آئینی اقدام کا حساب سنجے سے نہیں، اندرا گاندھی سے مانگا۔ وہاں بھی مسزگاندھی کے اس اقدام کی حمایت کرنے والوں کی کمی نہ تھی، یہ وہ لوگ تھے جو اقتدارکے حاشیوں پر بیٹھے ان چھیچھڑوں کا انتظارکرتے رہتے ہیں جنھیں وہ اپنے لیے نعمت غیر مترقبہ سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی ہمارے یہاں اور ہندوستان میں بھی کمی نہیں بلکہ بہتات ہے۔
اس وقت ہندوستانی دانشوروں، صحافیوں،ادیبوں اور قانون دانوں نے مسزگاندھی کے اس اقدام پر شدید احتجاج کیا۔ یہ لوگ تشدد کا نشانہ بنے۔ نامور صحافی، قانون دان، ادیب اور یونیورسٹی کے طلبہ جیلوں میں گئے اور جمہوریت کے لیے صعوبتیں برداشت کیں۔ ہندوستانی عدالت، جمہوریت اور جمہوریت کے لیے لڑنے والوں کی پشت پر تھی۔ جس کی بناء پر چند مہینوں بعد مسزگاندھی کو پسپائی اختیارکرنی پڑی اور آنے والے انتخابات میں ان کا اور ان کی کانگریس کا جو حشر ہوا،وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
1975ء کے بعد ہندوستان میں کبھی ایمرجنسی تو نہ لگی لیکن سیاسی اعتبار سے اس کی جمہوری ساکھ یقیناً متاثر ہوئی۔ روشن خیال اور اعتدال پسند سیاسی جماعتوں کے بجائے انتہا پسند اور تنگ نظر عناصرکا غلبہ ہوا۔ ہندوستان میں جمہوریت کو نقصان پہنچا اس کا اندازہ وہاں کے جمہوریت پسندوں کو بہ خوبی تھا اور ہے، اسی لیے وہ ہر نازک مرحلے پر خم ٹھونک کر سامنے آجاتے ہیں۔
اگست کے آخری ہفتے میں ایک بار پھر حکومت نے ملک کے پانچ نامور دانشوروں اور صحافیوں کوگرفتار کرنے کا حکم جاری کیا۔ یہ سلسلہ جنوری 2018ء سے شروع ہوچکا تھا اور اس کا سبب مہاراشٹر کے شہر پونے میں دلت آبادی پر ہونے والا پولیس تشدد تھا جس کے نتیجے میں دلت اور غیر دلت فسادات پھوٹ پڑے تھے۔
عدالت نے حکم دیا ہے کہ پولیس کی تحویل سے نکال کر یہ پانچوں افراد اپنے اپنے گھروں میں نظر بند کیے جائیں۔ ان پانچ دانشوروں کی گرفتاری پر فیصلہ 6ستمبر کو سپریم کورٹ کرے گی۔ اس عدالتی حکم کا سبب یہ ہے کہ مشہور اور معتبر تاریخ دان پروفیسر رومیلا تھاپر اور ان کے چار ساتھیوں نے ہنگامی طور پر سپریم کورٹ میں ایک اپیل دائر کی جس میں کہا گیا ہے کہ سرکار سے اختلاف رائے کسی بھی جمہوریت میں سیفٹی والو کی حیثیت رکھتی ہے اور اگر اس سیفٹی والو کوکام نہ کرنے دیا جائے تو پریشرککر کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے۔
پروفیسر رومیلا تھاپرکی یہ بر وقت مداخلت اور اس بارے میں سپریم کورٹ سے درخواست نے ہندوستان کے دانشور اور قانون دان طبقے کو ہلاکر رکھ دیا ہے ۔ یہ درخواست جو پروفیسر تھاپر اور دوسرے دانشوروں کی طرف سے پیش کی گئی،اس میں یہ کہا گیا ہے کہ جمہوری اقدار کے تحفظ کے لیے آواز بلند کرنا ہر شہری کا حق اور فرض ہے۔ حکومتی جماعت کی طرف سے پولیس تشدد کا بے رحمانہ استعمال آزاد خیالی اور جمہوری اصولوں کے قتل کے مترادف ہے۔
پروفیسر تھاپر اور ان کے چار ساتھیوں کی طرف سے دائرکی جانے والی اس اپیل کی ابھی سیاہی خشک بھی نہیں ہوئی تھی کہ دارالحکومت دہلی میں دانشوروں، قانون دانوں، طلبہ، صحافیوں اور حقوق انسانی کے لیے سرگرم افراد نے ایک بڑا احتجاجی جلوس نکالا اور حکومت کو یہ باور کرایا کہ معاملہ ان پانچ افراد کی گرفتاری یا ان پر لگائے جانے والے غداری اور شرپسندی کے الزامات کا نہیں۔ یہ دراصل ہندوستانی جمہوریت پر حملہ ہے اور اس کے خلاف لڑنا ہم سب کا اجتماعی فرض ہے۔ یہ لوگ ہندوستانی پارلیمنٹ کے باہر احتجاج کر رہے تھے۔
حکومت نے ان لوگوں پر ''ماؤ نواز'' ہونے کا الزام بھی لگایا ہے۔ احتجاج کرنے والوں کا کہنا تھا کہ نریندر مودی کی حکومت نے انسانی حقوق کے کارکنوں اور دانشوروں کے ساتھ یہ غیر جمہوری رویہ رکھ کر دراصل آزادی اور جمہوریت پر حملہ کیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ان پانچوں افراد نے دسمبر 2017ء میں دلت اجتماعات میں اشتعال انگیز تقریریں کیں جس کے نتیجے میں دلت اور دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے درمیان بلوے ہوئے۔ بعض اعلیٰ پولیس افسران کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ایسے شواہد ہیں جو ان پانچوں افراد کا تعلق کشمیر کے علیحدگی پسند عناصر سے جوڑتے ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ حکومت فوری طور پر ایسے پولیس افسران کوگرفتارکرے اور معتبر دانشوروں اور صحافیوں کی غیر قانونی گرفتاری کو ختم کرے۔ ادھر ارون دھتی رائے ہیں جن کا تازہ ناول کشمیر میں لڑنے والے مسلمان گروپوں کے حق میں آواز اٹھاتا ہے۔ انھوں نے اس موقعے پرکہا کہ یہ گرفتار افراد جو حقوق انسانی کے لیے آواز بلند کرتے ہیں۔ انھیں گرفتارکرکے اور ان کی آواز کا گلا گھونٹ کر مودی حکومت کروڑوں ہندوستانیوں کے حقوق غصب کررہی ہے اور متعدد حلقوں سے اختلاف رائے کا حق چھین رہی ہے۔
ارون دھتی ہندوستان میں حزب اختلاف کی ایک بہت مضبوط آواز ہیں۔ وہ دلتوں، ماؤ نواز گروہوں اور کشمیریوں کے لیے ہر قدم پر احتجا ج کرتی ہیں۔ ہندوستان کی حکمران اشرافیہ میں انھیں ایک ناپسندیدہ عنصر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ کروڑوں ہندوستانیوں کی آواز ہیں۔ ان کا صرف برصغیر میں ہی نہیں، دنیا کے تمام آزاد خیال اور انسان دوست حلقوں میں احترام کیا جاتا ہے۔
اس وقت ہندوستان میں جو کچھ ہورہا ہے اور اس سے پہلے جب بھی ہندوستانی جمہوریت اور آزاد فکر پر انتہا پسندوں اور دائیں بازو کے گروہوں کا نرغہ رہا ہے، ایسے نازک مرحلے میں نامی گرامی ہندوستانی دانشوروں، ادیبوں، قانون دانوں، طالب علموں اور حقوق انسانی کے سیاسی کار گزاروں نے حکومتی استبداد اور تشدد کا خیال کیے بغیر جمہوریت کی لڑائی جم کر لڑی ہے۔
یہ جو 5دانشورگزشتہ منگل کو گرفتار کیے گئے۔ ان میں قانون کی پروفیسر سدھا بھاردواج بھی ہیں۔ سدھا امریکا میں قانون پڑھاتی تھیں لیکن ہندوستان میں نچلے طبقات سے تعلق رکھنے والے قبائل کے کچلے ہوئے لوگوں اور بہ طور خاص ان کی عورتوں پر ہونے والے مظالم نے سدھا کو اس قدر بے قرار کیا کہ انھوں نے اپنا شاندارکیرئیر چھوڑا، ہندوستان آئیں، امریکی شہریت ترک کی اور اب جی جان سے ان قبائلی مردوں اور عورتوں کے حقوق کی خاطر لڑرہی ہیں۔ سدھا بھی ''غدار'' اور ''ملک دشمن'' ہیں چنانچہ وہ بھی گرفتار کی گئیں اور اب عدالتی حکم پر 6ستمبر تک کے لیے گھر میں نظر بند کی گئی ہیں۔
ان پانچوں میں گوتم نولکھا بھی ہیں جن کی داڑھی اور ٹوپی بہ ظاہر انھیں مسلمان کے روپ میں پیش کرتی ہے۔ وہ ایک شعلہ بیاں مقرر اور اتنے ہی اعلیٰ لکھاری ہیں۔ ان سے کئی ملاقاتیں ہندوستان میں اور اس سے باہر ہوئیں۔ خاص طور سے دی ہیگ میں ہونے والی کانفرنس میں ان کی تقریریں سنیں، ان سے باتیں رہیں۔کشمیریوں کے حق کے لیے وہ جس طرح لکھتے اور بولتے ہیں، یقیناً سننے اور پڑھنے کی چیز ہے ۔
وہ امن کانفرنس میں شرکت کے لیے دی ہیگ پہنچے تو شدید نزلے، زکام اور کھانسی میں گرفتار تھے۔ ان کے سامان میں ہمدرد کے جوشاندے کے کئی پیکٹ تھے۔ وہ جوشاندہ اورگرم سوپ پیتے جس کے بعد دھواں دھار تقریرکرتے۔ نزلے سے میرا بھی برا حال تھا، اس لیے ان کے لائے ہوئے جوشاندے پر میں نے بھی اپنا حق سمجھا۔ دی ہیگ کی یہ محفلیں یادگار تھیں۔ پاکستانی دوستوں کو گوتم کی باتیں سن کر یقین نہیں آتا تھا کہ وہ ہندوستانی مسلمان اورکشمیری نہیں ہیں۔
سدھا، گوتم اور ایسے دوسرے مقتدر ہندوستانی اپنے ملک، اپنے سماج کے لیے نادر روزگار ہیں۔ ہندوستان جیسے وسیع المشرب سماج میں فرقہ پرستی اور نفرت انگیزی کا جو زہر پھیلا۔ اس کا مقابلہ کلدیپ نیئر، سدھا بھاردواج اور گوتم نولکھا جیسے لوگ ہی کرتے ہیں۔
ہمارے یہاں لوگ سبط حسن، ڈاکٹر مبارک علی اور اشفاق سلیم مرزا کوکم کم جانتے ہیں۔ ایسے میں ان سے کیا شکایت کی جائے کہ وہ پروفیسر رومیلا تھاپر یا عرفان حبیب کوکیوں نہیں جانتے۔ ہمارے یہاں کم لوگ ہی ایسے ہوں گے جنھیں پروفیسر تھاپرکی کتاب ''سومناتھ'' پڑھنے کا اتفاق ہوا ہو ۔ ( جاری ہے )
ہندوستان میں 15اگست 1947ء سے جمہوریت ہے،آئین ہے۔ ہر پانچ سال پر وہاں انتخابات ہوتے ہیں، دھاندلی کے الزامات لگتے ہیں۔ شور شرابہ ہوتا ہے، چند دنوں بعد ان الزامات کی دھول بیٹھ جاتی ہے اور منتخب حکومت کام کرتی رہتی ہے۔ وہاں کی جمہوری تاریخ کو سب سے بڑا دھچکا اس وقت لگا تھا جب 26جون 1975ء کو مسز اندرا گاندھی نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی تھی۔
یہ اقدام انھوں نے اپنے چہیتے بیٹے سنجے گاندھی کے مشورے اور دباؤ پر اٹھایا تھا لیکن وہاں کے خواص اور عوام نے اس غلط اور غیر آئینی اقدام کا حساب سنجے سے نہیں، اندرا گاندھی سے مانگا۔ وہاں بھی مسزگاندھی کے اس اقدام کی حمایت کرنے والوں کی کمی نہ تھی، یہ وہ لوگ تھے جو اقتدارکے حاشیوں پر بیٹھے ان چھیچھڑوں کا انتظارکرتے رہتے ہیں جنھیں وہ اپنے لیے نعمت غیر مترقبہ سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی ہمارے یہاں اور ہندوستان میں بھی کمی نہیں بلکہ بہتات ہے۔
اس وقت ہندوستانی دانشوروں، صحافیوں،ادیبوں اور قانون دانوں نے مسزگاندھی کے اس اقدام پر شدید احتجاج کیا۔ یہ لوگ تشدد کا نشانہ بنے۔ نامور صحافی، قانون دان، ادیب اور یونیورسٹی کے طلبہ جیلوں میں گئے اور جمہوریت کے لیے صعوبتیں برداشت کیں۔ ہندوستانی عدالت، جمہوریت اور جمہوریت کے لیے لڑنے والوں کی پشت پر تھی۔ جس کی بناء پر چند مہینوں بعد مسزگاندھی کو پسپائی اختیارکرنی پڑی اور آنے والے انتخابات میں ان کا اور ان کی کانگریس کا جو حشر ہوا،وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
1975ء کے بعد ہندوستان میں کبھی ایمرجنسی تو نہ لگی لیکن سیاسی اعتبار سے اس کی جمہوری ساکھ یقیناً متاثر ہوئی۔ روشن خیال اور اعتدال پسند سیاسی جماعتوں کے بجائے انتہا پسند اور تنگ نظر عناصرکا غلبہ ہوا۔ ہندوستان میں جمہوریت کو نقصان پہنچا اس کا اندازہ وہاں کے جمہوریت پسندوں کو بہ خوبی تھا اور ہے، اسی لیے وہ ہر نازک مرحلے پر خم ٹھونک کر سامنے آجاتے ہیں۔
اگست کے آخری ہفتے میں ایک بار پھر حکومت نے ملک کے پانچ نامور دانشوروں اور صحافیوں کوگرفتار کرنے کا حکم جاری کیا۔ یہ سلسلہ جنوری 2018ء سے شروع ہوچکا تھا اور اس کا سبب مہاراشٹر کے شہر پونے میں دلت آبادی پر ہونے والا پولیس تشدد تھا جس کے نتیجے میں دلت اور غیر دلت فسادات پھوٹ پڑے تھے۔
عدالت نے حکم دیا ہے کہ پولیس کی تحویل سے نکال کر یہ پانچوں افراد اپنے اپنے گھروں میں نظر بند کیے جائیں۔ ان پانچ دانشوروں کی گرفتاری پر فیصلہ 6ستمبر کو سپریم کورٹ کرے گی۔ اس عدالتی حکم کا سبب یہ ہے کہ مشہور اور معتبر تاریخ دان پروفیسر رومیلا تھاپر اور ان کے چار ساتھیوں نے ہنگامی طور پر سپریم کورٹ میں ایک اپیل دائر کی جس میں کہا گیا ہے کہ سرکار سے اختلاف رائے کسی بھی جمہوریت میں سیفٹی والو کی حیثیت رکھتی ہے اور اگر اس سیفٹی والو کوکام نہ کرنے دیا جائے تو پریشرککر کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے۔
پروفیسر رومیلا تھاپرکی یہ بر وقت مداخلت اور اس بارے میں سپریم کورٹ سے درخواست نے ہندوستان کے دانشور اور قانون دان طبقے کو ہلاکر رکھ دیا ہے ۔ یہ درخواست جو پروفیسر تھاپر اور دوسرے دانشوروں کی طرف سے پیش کی گئی،اس میں یہ کہا گیا ہے کہ جمہوری اقدار کے تحفظ کے لیے آواز بلند کرنا ہر شہری کا حق اور فرض ہے۔ حکومتی جماعت کی طرف سے پولیس تشدد کا بے رحمانہ استعمال آزاد خیالی اور جمہوری اصولوں کے قتل کے مترادف ہے۔
پروفیسر تھاپر اور ان کے چار ساتھیوں کی طرف سے دائرکی جانے والی اس اپیل کی ابھی سیاہی خشک بھی نہیں ہوئی تھی کہ دارالحکومت دہلی میں دانشوروں، قانون دانوں، طلبہ، صحافیوں اور حقوق انسانی کے لیے سرگرم افراد نے ایک بڑا احتجاجی جلوس نکالا اور حکومت کو یہ باور کرایا کہ معاملہ ان پانچ افراد کی گرفتاری یا ان پر لگائے جانے والے غداری اور شرپسندی کے الزامات کا نہیں۔ یہ دراصل ہندوستانی جمہوریت پر حملہ ہے اور اس کے خلاف لڑنا ہم سب کا اجتماعی فرض ہے۔ یہ لوگ ہندوستانی پارلیمنٹ کے باہر احتجاج کر رہے تھے۔
حکومت نے ان لوگوں پر ''ماؤ نواز'' ہونے کا الزام بھی لگایا ہے۔ احتجاج کرنے والوں کا کہنا تھا کہ نریندر مودی کی حکومت نے انسانی حقوق کے کارکنوں اور دانشوروں کے ساتھ یہ غیر جمہوری رویہ رکھ کر دراصل آزادی اور جمہوریت پر حملہ کیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ان پانچوں افراد نے دسمبر 2017ء میں دلت اجتماعات میں اشتعال انگیز تقریریں کیں جس کے نتیجے میں دلت اور دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے درمیان بلوے ہوئے۔ بعض اعلیٰ پولیس افسران کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ایسے شواہد ہیں جو ان پانچوں افراد کا تعلق کشمیر کے علیحدگی پسند عناصر سے جوڑتے ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ حکومت فوری طور پر ایسے پولیس افسران کوگرفتارکرے اور معتبر دانشوروں اور صحافیوں کی غیر قانونی گرفتاری کو ختم کرے۔ ادھر ارون دھتی رائے ہیں جن کا تازہ ناول کشمیر میں لڑنے والے مسلمان گروپوں کے حق میں آواز اٹھاتا ہے۔ انھوں نے اس موقعے پرکہا کہ یہ گرفتار افراد جو حقوق انسانی کے لیے آواز بلند کرتے ہیں۔ انھیں گرفتارکرکے اور ان کی آواز کا گلا گھونٹ کر مودی حکومت کروڑوں ہندوستانیوں کے حقوق غصب کررہی ہے اور متعدد حلقوں سے اختلاف رائے کا حق چھین رہی ہے۔
ارون دھتی ہندوستان میں حزب اختلاف کی ایک بہت مضبوط آواز ہیں۔ وہ دلتوں، ماؤ نواز گروہوں اور کشمیریوں کے لیے ہر قدم پر احتجا ج کرتی ہیں۔ ہندوستان کی حکمران اشرافیہ میں انھیں ایک ناپسندیدہ عنصر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ کروڑوں ہندوستانیوں کی آواز ہیں۔ ان کا صرف برصغیر میں ہی نہیں، دنیا کے تمام آزاد خیال اور انسان دوست حلقوں میں احترام کیا جاتا ہے۔
اس وقت ہندوستان میں جو کچھ ہورہا ہے اور اس سے پہلے جب بھی ہندوستانی جمہوریت اور آزاد فکر پر انتہا پسندوں اور دائیں بازو کے گروہوں کا نرغہ رہا ہے، ایسے نازک مرحلے میں نامی گرامی ہندوستانی دانشوروں، ادیبوں، قانون دانوں، طالب علموں اور حقوق انسانی کے سیاسی کار گزاروں نے حکومتی استبداد اور تشدد کا خیال کیے بغیر جمہوریت کی لڑائی جم کر لڑی ہے۔
یہ جو 5دانشورگزشتہ منگل کو گرفتار کیے گئے۔ ان میں قانون کی پروفیسر سدھا بھاردواج بھی ہیں۔ سدھا امریکا میں قانون پڑھاتی تھیں لیکن ہندوستان میں نچلے طبقات سے تعلق رکھنے والے قبائل کے کچلے ہوئے لوگوں اور بہ طور خاص ان کی عورتوں پر ہونے والے مظالم نے سدھا کو اس قدر بے قرار کیا کہ انھوں نے اپنا شاندارکیرئیر چھوڑا، ہندوستان آئیں، امریکی شہریت ترک کی اور اب جی جان سے ان قبائلی مردوں اور عورتوں کے حقوق کی خاطر لڑرہی ہیں۔ سدھا بھی ''غدار'' اور ''ملک دشمن'' ہیں چنانچہ وہ بھی گرفتار کی گئیں اور اب عدالتی حکم پر 6ستمبر تک کے لیے گھر میں نظر بند کی گئی ہیں۔
ان پانچوں میں گوتم نولکھا بھی ہیں جن کی داڑھی اور ٹوپی بہ ظاہر انھیں مسلمان کے روپ میں پیش کرتی ہے۔ وہ ایک شعلہ بیاں مقرر اور اتنے ہی اعلیٰ لکھاری ہیں۔ ان سے کئی ملاقاتیں ہندوستان میں اور اس سے باہر ہوئیں۔ خاص طور سے دی ہیگ میں ہونے والی کانفرنس میں ان کی تقریریں سنیں، ان سے باتیں رہیں۔کشمیریوں کے حق کے لیے وہ جس طرح لکھتے اور بولتے ہیں، یقیناً سننے اور پڑھنے کی چیز ہے ۔
وہ امن کانفرنس میں شرکت کے لیے دی ہیگ پہنچے تو شدید نزلے، زکام اور کھانسی میں گرفتار تھے۔ ان کے سامان میں ہمدرد کے جوشاندے کے کئی پیکٹ تھے۔ وہ جوشاندہ اورگرم سوپ پیتے جس کے بعد دھواں دھار تقریرکرتے۔ نزلے سے میرا بھی برا حال تھا، اس لیے ان کے لائے ہوئے جوشاندے پر میں نے بھی اپنا حق سمجھا۔ دی ہیگ کی یہ محفلیں یادگار تھیں۔ پاکستانی دوستوں کو گوتم کی باتیں سن کر یقین نہیں آتا تھا کہ وہ ہندوستانی مسلمان اورکشمیری نہیں ہیں۔
سدھا، گوتم اور ایسے دوسرے مقتدر ہندوستانی اپنے ملک، اپنے سماج کے لیے نادر روزگار ہیں۔ ہندوستان جیسے وسیع المشرب سماج میں فرقہ پرستی اور نفرت انگیزی کا جو زہر پھیلا۔ اس کا مقابلہ کلدیپ نیئر، سدھا بھاردواج اور گوتم نولکھا جیسے لوگ ہی کرتے ہیں۔
ہمارے یہاں لوگ سبط حسن، ڈاکٹر مبارک علی اور اشفاق سلیم مرزا کوکم کم جانتے ہیں۔ ایسے میں ان سے کیا شکایت کی جائے کہ وہ پروفیسر رومیلا تھاپر یا عرفان حبیب کوکیوں نہیں جانتے۔ ہمارے یہاں کم لوگ ہی ایسے ہوں گے جنھیں پروفیسر تھاپرکی کتاب ''سومناتھ'' پڑھنے کا اتفاق ہوا ہو ۔ ( جاری ہے )