صدارتی انتخاب میں کس امیدوار کو کتنے ووٹ پڑ سکتے ہیں
صدارتی انتخاب کیلئے عارف علوی، اعتزازاحسن اور مولانافضل الرحمان میں مقابلہ ہے
صدارتی انتخاب کے لئے گہما گہمی عروج پرپہنچ گئی ہے جب کہ تینوں امیدوار عارف علوی، اعتزازاحسن اور مولانافضل الرحمان حمایتیں حاصل کرنے میں مصروف ہیں اوراب تک کے اعدادوشمار کے مطابق کون سا امیدوارالیکٹورل کالج کے کتنے ووٹ حاصل کرسکتا ہے؟ جانیے اس خبر میں۔
صدر مملکت کے انتخاب کے لیے الیکٹورل کالج سینٹ، قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں پر مشتمل ہے، سینٹ، قومی اسمبلی اور بلوچستان اسمبلی کے ہر رکن کا ایک ووٹ شمار ہو گا جب کہ پنجاب، سندھ اور خیبر پختون خوا اسمبلیوں کے 65، 65 ووٹ شمار ہوں گے۔
صدر کا الیکٹورل کالج مجموعی طور پر 706 ووٹوں پر مشتمل ہوتا ہے لیکن مختلف اسمبلیوں میں نشتیں پوری نہ ہونے کی وجہ سے اس مرتبہ یہ تعداد 684 ہے۔ تینوں امیدواروں میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والا امیدوار صدر مملکت منتخب ہو جائے گا۔
پارلیمنٹ کے ایوان بالا یعنی سینٹ میں (ن) لیگ اور اس کے اتحادیوں کے 48، تحریک انصاف اور اتحادیوں کے 25، پیپلزپارٹی کے 20 اور 11 آزاد ارکان ہیں۔
قومی اسمبلی میں تحریک انصاف اور اتحادیوں کے 176، (ن) لیگ اور اتحادیوں کے 96، پیپلزپارٹی کے 54، 4 آزاد اور 12 نشستیں خالی ہیں۔
اس طرح پارلیمنٹ میں ڈاکٹر عارف علوی کو 201، مولانا فضل الرحمان کو 144 اور اعتزاز احسن کو 74 ووٹ پڑ سکتے ہیں جب کہ 15 آزاد ارکان بھی حق رائے دہی استعمال کریں گے۔
پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف الائنس کے پاس 186 نشستیں یعنی 33 الیکٹورل ووٹ، (ن) لیگ کے 162 ارکان یعنی 29 الیکٹورل ووٹ، پیپلزپارٹی کے 7 ارکان ملا کر ایک الیکٹورل ووٹ بنے گا۔
سندھ اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے 97 ارکان کی بدولت 48 الیکٹورل ووٹ جب کہ تحریک انصاف الائنس کے 66 ارکان کے 26 الیکٹورل ووٹ بنیں گے۔ (ن) لیگ کا سندھ اسمبلی میں ایک بھی الیکٹورل ووٹ نہیں۔
خیبر پختونخوا اسمبلی میں تحریک انصاف اور اتحادیوں کے 79 ارکان ملکر 42، اپوزیشن اتحاد کے پاس 27 ارکان کے 14 اور پیپلزپارٹی کے پاس 5 ارکان کے 3 الیکٹورل ووٹ ہیں۔
بلوچستان اسمبلی میں حکومتی اتحاد کے 46 اور اپوزیشن کے پاس 20 ووٹ ہیں۔ 5 نشستوں پر ابھی فیصلہ ہونا باقی ہے۔
کل ووٹوں پر نظر ڈالیں تو تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کے پارلیمنٹ میں 201، پنجاب میں 33، سندھ میں 26، خیبر پختون خوا میں 42 اور بلوچستان اسمبلی میں 46 ووٹ ہیں جو مجموعی طور پر 342 ووٹ بنتے ہیں۔
(ن) لیگ اور اس کے اتحادیوں کے پارلیمنٹ میں 144، پنجاب اسمبلی میں 29، سندھ اسمبلی میں ایک بھی نہیں، خیبر پختون خوا اسمبلی میں 14 اور بلوچستان اسمبلی میں 20 الیکٹورل ووٹ ہیں، اس کے مجموعی الیکٹورل ووٹ 207 بنتے ہیں۔
پیپلزپارٹی کے پارلیمنٹ میں 74، پنجاب اسمبلی میں ایک، سندھ اسمبلی میں 48 اور خیبر پختون خوا اسمبلی میں تین الیکٹورل ووٹ مل کر 116 بنیں گے۔
پارلیمنٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں آزاد ارکان کے 19 الیکٹورل ووٹ ہیں۔ آزاد امیدواروں کے ووٹ تقسیم ہونے کے بعد ڈاکٹر عارف علوی کو 350، مولانا فضل الرحمان کو 218 اور اعتزاز احسن کو 116 الیکٹورل ووٹ پڑ سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ صدر مملکت ممنون حسین ملک کے بارہویں صدر ہیں، انہوں نے 9 ستمبر 2013 کو حلف لیا تھا جس کے تحت صدر کی آئینی مدت 8 ستمبر 2018 کو پوری ہوگی۔
صدر مملکت کے انتخاب کے لیے الیکٹورل کالج سینٹ، قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں پر مشتمل ہے، سینٹ، قومی اسمبلی اور بلوچستان اسمبلی کے ہر رکن کا ایک ووٹ شمار ہو گا جب کہ پنجاب، سندھ اور خیبر پختون خوا اسمبلیوں کے 65، 65 ووٹ شمار ہوں گے۔
صدر کا الیکٹورل کالج مجموعی طور پر 706 ووٹوں پر مشتمل ہوتا ہے لیکن مختلف اسمبلیوں میں نشتیں پوری نہ ہونے کی وجہ سے اس مرتبہ یہ تعداد 684 ہے۔ تینوں امیدواروں میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والا امیدوار صدر مملکت منتخب ہو جائے گا۔
پارلیمنٹ کے ایوان بالا یعنی سینٹ میں (ن) لیگ اور اس کے اتحادیوں کے 48، تحریک انصاف اور اتحادیوں کے 25، پیپلزپارٹی کے 20 اور 11 آزاد ارکان ہیں۔
قومی اسمبلی میں تحریک انصاف اور اتحادیوں کے 176، (ن) لیگ اور اتحادیوں کے 96، پیپلزپارٹی کے 54، 4 آزاد اور 12 نشستیں خالی ہیں۔
اس طرح پارلیمنٹ میں ڈاکٹر عارف علوی کو 201، مولانا فضل الرحمان کو 144 اور اعتزاز احسن کو 74 ووٹ پڑ سکتے ہیں جب کہ 15 آزاد ارکان بھی حق رائے دہی استعمال کریں گے۔
پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف الائنس کے پاس 186 نشستیں یعنی 33 الیکٹورل ووٹ، (ن) لیگ کے 162 ارکان یعنی 29 الیکٹورل ووٹ، پیپلزپارٹی کے 7 ارکان ملا کر ایک الیکٹورل ووٹ بنے گا۔
سندھ اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے 97 ارکان کی بدولت 48 الیکٹورل ووٹ جب کہ تحریک انصاف الائنس کے 66 ارکان کے 26 الیکٹورل ووٹ بنیں گے۔ (ن) لیگ کا سندھ اسمبلی میں ایک بھی الیکٹورل ووٹ نہیں۔
خیبر پختونخوا اسمبلی میں تحریک انصاف اور اتحادیوں کے 79 ارکان ملکر 42، اپوزیشن اتحاد کے پاس 27 ارکان کے 14 اور پیپلزپارٹی کے پاس 5 ارکان کے 3 الیکٹورل ووٹ ہیں۔
بلوچستان اسمبلی میں حکومتی اتحاد کے 46 اور اپوزیشن کے پاس 20 ووٹ ہیں۔ 5 نشستوں پر ابھی فیصلہ ہونا باقی ہے۔
کل ووٹوں پر نظر ڈالیں تو تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کے پارلیمنٹ میں 201، پنجاب میں 33، سندھ میں 26، خیبر پختون خوا میں 42 اور بلوچستان اسمبلی میں 46 ووٹ ہیں جو مجموعی طور پر 342 ووٹ بنتے ہیں۔
(ن) لیگ اور اس کے اتحادیوں کے پارلیمنٹ میں 144، پنجاب اسمبلی میں 29، سندھ اسمبلی میں ایک بھی نہیں، خیبر پختون خوا اسمبلی میں 14 اور بلوچستان اسمبلی میں 20 الیکٹورل ووٹ ہیں، اس کے مجموعی الیکٹورل ووٹ 207 بنتے ہیں۔
پیپلزپارٹی کے پارلیمنٹ میں 74، پنجاب اسمبلی میں ایک، سندھ اسمبلی میں 48 اور خیبر پختون خوا اسمبلی میں تین الیکٹورل ووٹ مل کر 116 بنیں گے۔
پارلیمنٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں آزاد ارکان کے 19 الیکٹورل ووٹ ہیں۔ آزاد امیدواروں کے ووٹ تقسیم ہونے کے بعد ڈاکٹر عارف علوی کو 350، مولانا فضل الرحمان کو 218 اور اعتزاز احسن کو 116 الیکٹورل ووٹ پڑ سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ صدر مملکت ممنون حسین ملک کے بارہویں صدر ہیں، انہوں نے 9 ستمبر 2013 کو حلف لیا تھا جس کے تحت صدر کی آئینی مدت 8 ستمبر 2018 کو پوری ہوگی۔